بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

آبیناز جان علی

انسان کے پاس زبان ہی وہ آلہ ہے جس کی مدد سے وہ اپنے افکار دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔  زبان انسان کی تربیت اور تہذیب کی دلیل فراہم کرتی ہے۔  اپنی باتوں سے وہ دوسروں کا دل جیت کر ان میں نئی جان پھونک سکتا ہے یا ان کو ذلیل و خوار کرسکتا ہے۔  اقوال کی طاقت سے سب سے پہلے ہم خود مستفیض ہوتے ہیں۔  قدرت کا کچھ ایسا نظام ہے کہ ہماری کہی ہوئی بات کا براہِ راست اثر پہلے ہمارے ہی ذہن پرپڑتا ہے۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

اقبال

یہ لفظ بھی عجیب شے ہے۔  انسان کے اندر بحرِ بیکراں ہے اور اس کو دوسرں تک پہنچانے کے لئے صرف الفاظ ہیں۔  ایک حرف کودوسرے حرف سے جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں اور ایک لفظ سے دوسرے لفظ کو ملا کر جملے بنتے ہیں۔ انہیں محدود ذرائع کے سہارے تعلقات بڑھانے  ہیں۔  اپنے خیالات و افکار سے عالم کو منور کرنا ہے اور دنیا میں انقلاب بھی لانا ہے۔  اس اثنا میں انسان اپنی بات کہے بھی تو کیسے؟

بات کرنے سے پہلے یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ ہم اس کفتگو سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  اس گفتگو کے اخیر میں کون سی معلومات کا انکشاف کرنا چاہتے ہیں جو پہلے معلوم نہیں تھی۔  اس طرح اپنے اغراض و مقاصد کا خیال رکھتے ہوئے سیر حاصل گفتگو ہوسکتی ہے اور  دوسروں کی صحبت کا پورا فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔  اگر بات چیت کا رخ دوسری جانب جارہی ہو تو واپس اسے اپنے مصرف تک لایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہم یہ طے کرسکیں گے کہ بات چیت کس وقت ختم کرنی ہے اور ہم غیر ضرور باتوں سے بھی پرہیز کرپائیں گے۔

بات کرنے سے پہلے گہری سانس لینا ضروری ہے۔  اس سے تنائو دور ہوتا ہے ۔ اکثرلوگ اپنی بات کہنے سے ہچکچاتے ہیں یا ان کو ایک خوف گھیر لیتا ہے کہ آیا ان کی بات کا یقین کیا جائے گایا نہیں۔ کبھی کبھی جذبات و محسوسات کی ژولیدگی کے باعث ہم موزوں و مناسب الفاظ کا سہارا لینے سے قاصر رہتے ہیں۔  سانس لینے سے روح کو تسکین و طمانیت ملتی ہے اور ذہن موجودہ صورتِ حال کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔  اس طرح ہم اپنی بات پر پورا دھیان دے پاتے ہیں۔  نیز گہری سانس لینے سے آواز میںمضبوطی آتی ہے اور آواز بہترہوجاتی ہے۔خوف ہمیں اپنی بات کہنے سے روکتی ہے۔  جب بات کہنے کا وقت آتا ہے ہمیں بس بلاتردد اپنی بات کہنی ہے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

فیضؔ

اپنی بات کہتے وقت  نرم لہجہ اختیار کرنا ضروری ہے۔  اس سے سامنے والے کو یوں محسوس نہیں ہوگا کہ اس پر حملہ کیا جارہا ہے اور وہ ہماری بات بہتر سمجھ پائے گا۔  رسولِ پرنو ر  ﷺکے بارے میں خداسورۃ آل عمران آیت ۱۵۹ میں فرماتا ہے کہ تم لوگوں سے نرمی اختیار کرتے ہو۔  اگر تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تم سے دور رہتے۔  بات کرنے میں نرمی ایک اہم عنصر ہے لیکن اپنی بات سیدھے سیدھے کہنا بھی ضروری ہے۔  کامیاب ہونے کے لئے ہمت کی ضرورت ہے اور ہمت ہی ہمیں اپنی بات کہنے میں حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے

شکیل اعظمی

اس کے علاوہ اپنی آواز سے دوسروں میں یہ بات بٹھائی جاسکتی ہے کہ ہمیں کون سی چیز پسند ہے اور کون سی بات یا عمل ہمارے لئے ناقابلِ قبول نہیںہے۔  دوسروں سے مئودبانہ طریقے سے بات کرنا ضروری ہے اور اپنی پسند اور ناپسند کا احترام بھی لازمی ہے۔  جب لوگ بے عزتی پر اتر آتے ہیں تو اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ضروری ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کفتگو سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتے ہیں جب تک سامنے والا ہمیں عزت نہ دے۔

کبھی کبھی بات کرتے وقت چیزیں صاف نہیں ہو پاتیں۔  اس اثنا میں سوال کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ بات صاف ہو سکے۔  سوالات کے ذریعے سامنے والے کو اپنی بات سمجھائی جاسکتی ہے اور پریشانی کا حل ڈھونڈھنے میں سوالات معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔  سوالات کرنے کے بعد سامنے والے کی بات کا غور سے سننا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا نقطئہ نظر بھی سمجھ میں آجائے۔ اس کے علاوہ بات چیت کے دوران خاموشی سے گھبرانا نہیں چاہئے۔  خاموشی میں جانکاریاں اور جذبات کا صحیح پتہ چلتا ہے۔  گھبراہٹ میں ہم ضرورت سے زیادہ بول جاتے ہیں۔ گفتگو کے درمیان خاموشی میں خودا عتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ کوئی راستہ نکل کر سامنے آسکے۔

بات کرتے ہوئے ہماری پوری موجودگی ہماری طاقت ہے۔  بات کرتے ہوئے دوسروں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔  ادھر ادھر کی چیزوں یا موبائل فون سے اپنا دھیان ہٹا کہ اپنی توجہ پوری طرح مکاملے پر لگائیں۔  وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا محسوس کر رہے ہیںمعنی رکھتے ہیں۔  جب دوسروں کا خیال رکھا جاتا ہے تو وہ ہماری ضروریات کا خیال بھی رکھیں گے۔  اس سے رشتے میں مثبت تندیلی رونما ہوتی ہے۔  دوسرے آپ کو زیادہ تعظیم کی نگاہ سے دیکھیں گے کیونکہ آپ نے ان کو پورا دھیان دے کر ان میں اس احساس کو بیدار کیا کہ وہ آپ کی نظر میں معنی رکھتے ہیں۔  اس طرح کامیابی اور خوشیاں آپ کے قدم چومیں گی۔ بات کرتے ہوئے سب کی سننا بھی چاہئے تاکہ ہمارا فیصلہ یک طرفہ نہ ہو۔

بعض اوقات عمر کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ بچوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے ان سے سہل الفاظ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ بات کو سمجھ پائیں۔  نیز ان کو سمجھانے کے لئے ایسی مثالوں کا سہارا لیا جائے جن سے وہ آشنا ہوں۔  چھوٹوں کی معصومیت کا  پاس رکھتے ہوئے ان کے سامنے بداخلاق کلمات یا نازک مسائل کے مابین خردمندی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔  والدین سے بھی التماس ہے کہ بچوں کے سامنے بحث و مباحثہ کرنے سے پرہیز کیا جائے تاکہ تلخ و ترش کلمات بچوں کے احساسِ تحفظ پر حملہ آور نہ ہوں۔  ان کو اپنی باتوں میں شامل کریں اور ان کی موجودگی کے وقت انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔  ایسا نہ کرنے سے بچوں میں احساسِ کمتری اور خوف بیٹھ جاتے ہیں۔  بچپن کا زمانہ ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے جس کے دوران کے لاشعور کی تکمیل ہوتی ہے۔  بچپن کے تجربات زندگی بھر ساتھ رہتے ہیں اورکسی نہ کسی شکل میں بڑوں کی روزمرہ واردات اور حادثات میںروبرو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وقت والدین کے لئے اہم ذمے داری کا ہوتا ہے۔

چھوٹوں کے علاوہ معمر لوگوں کے لئے تعظیم کے الفاظ استعمال کرنے سے اپنی بات بٹھائی جاسکتی ہے۔ بزرگوں کے پاس زندگی بھر کا خزانہ ہے اورعموماًوہ فراخ دلی سے اپنی تائید و نصرت سے مستفیض ہونے کا موقع بھی دیتے ہیں اور ان کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔  اس تجربے کا اعتراف ضروری ہے کیونکہ اسلاف کی کاوشوں سے یہ دنیا یہاں تک پہنچی ہے۔ ران سے سیکھ کر اور اپنی شخصیت کو ملا کر اس کارواں کو آگے لے جانا چھوٹوں کا فرض ہے۔

ایک مشہور کہانی کے مطابق ایک بار ایک پادری نے ایک بچے کو ایک چادر میں سفید رنگ کے پر کو یکجا کرنے کو کہا۔  پھر اسے چھت پر چڑھنے کی ہدایت دے کر اس چادر کو نیچے سڑک کی طرف چھوڑنے کو کہا۔ اس طرح کبوتر کے تمام پر چہار جانب یہاں وہاں منتشر ہوگئے۔ پادری نے پھر اس لڑکے کو تاکید کی کہ ان تمام پر کو پھر پکڑ کر اسی چادر میں سمیٹ لیا جائے۔  لاکھ کوششوں کے بعد بھی تمام پر ہاتھ نہیں آپائے۔ آخرکار احساسِ شکست خوردگی سے سرشار جب لڑکا پادری کے پاس واپس آیا تو پادری نے اسے سمجھایا ’ ہمارے اقوال انہیں پروں کی طرح ہیں۔  ہم جو بولتے ہیں ان پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ ایک بار الفاظ منہ سے نکل گئے ان کو واپس نہیں لائے جا سکتے۔

غرض کہ بات کرنا ایک ہنر ہے۔  جس نے اس فن پر مہارت حاصل کی وہ سرفراز ہوا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔