افتخار راغب کے منتخب اشعار

افتخار راغب

ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر

ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ

غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو

سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی توٗ

سر اٹھا کر ظالموں سے بات کی

آج ہم اپنے برابر ہو گئے

کون مجھ سے مجھے چُرائے گا

مجھ کو جس شخص پر ہے شک تم ہو

دھیان اپنی جگہ نہیں راغبؔ

لکھ دیا کس کا نام اپنی جگہ

ساری دنیا کو ہرانے والی

ایک درویش سے ہاری دنیا

زعم تھا بے حساب چاہت ہے

اُس نے سمجھا دیا حساب مجھے

رفتہ رفتہ نہ جانے کب اے دوست

پڑ گئی مجھ کو تیری عادت سی

ہر ملاقات آخری سمجھو

سانس کی ڈور کا بھروسا کیا

کہاں تھا اتنا محبت کا نور آنکھوں میں

کسی نے دیکھ لیا ہے حضور آنکھوں میں

جمالیات کا جادو کہاں جنون کہاں

ترے بغیر کسی پل مجھے سکون کہاں

اے دل گر اس کے حُسن پہ کرنی ہے گفتگو

حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا

یاد دلاؤ مت ان کو وہ رات اور دن

چین انھیں اب آجاتا ہے میرے بِن

دِل کے دو حرفوں جیسے ہی ایک ہیں ہم

اِک متحرّک ہر لمحہ اور اِک ساکن

سرگوشیوں کا میں ہدف، حیرانیاں ہیں ہر طرف

ششدر ہے آئینہ عجب تم نے مجھے بدل دیا

میں اوروں کو سمجھاتا تھا، اے عشق مجھے معلوم نہ تھا

جب کچھ نہ سمجھ میں آئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی

ظالم نہیں ہے تنگ دل، پگھلے گا اُس کا سنگ دل

کیا کہہ رہے ہیں محترم، ایسا کبھی نہیں ہوا

"خدا حافظ” سے شب بجھ سی گئی تھی

سلامِ صبح سے آئی سحر خوش

 وقفے وقفے سے کھول کر کھڑکی

اچھا لگتا ہے جھانکنا تیرا

 کاسۂ  عشق میں وفا کی بھیک

اور کیا آرزو تھی سائل کی

 اُن کی ضد کا تھا سامنا راغب

دھجیاں اُڑ گئیں دلائل کی

اب مرے پاس کیا ہے کھونے کو

تجھ کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا

تمھارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو

 تمھارا کچھ نہیں بھی کم نہیں ہے

 میں نے مانا کہ میری بھول تھی وہ

ہاں مگر بھول کتنی پیاری تھی

ہماری مسکراہٹ پڑھ رہے ہو

تمھاری آنکھ دیکھو نم نہیں نا

میں زمانے سے واقف نہیں

ایسا لگتا ہے مصدر ہوں میں

 کیا وہ پتّہ نہیں رہا راغبؔ

جس نے چاہا تھا ٹوٹ کر مجھ کو

تیرا پیکر وجود میں آئے

جب بھی تجسیم ہو محبت کی

چھلنی چھلنی بدن اخوّت کا

روح مجروح آدمیّت کی

کپڑے وپڑے، میٹھا ویٹھا، ملنا ولنا رہنے دو

چاند دکھا کر روٹھ گئے وہ عید مناؤں یا اُن کو

مجھ پہ الزامِ عشق ہو اور میں

اپنے حق میں ترا بیاں ہو جاؤں

 اِس طرح دوں ہر امتحاں اے دل

ممتحن کا ہی امتحاں ہو جاؤں

 اب نمٹنے دیجیے دل سے مجھے

آپ نے کر دی نصیحت شکریہ

پھر اس کے بعد مری نیند اُڑ گئی راغبؔ

کسی نے سرمہ لگایا تھا میرے سپنے کا

انوکھی آنچ پہ تپتے ہیں قلب و چشم عجب

عجیب لطف ترا انتظار دیتا ہے

اور کر لوں میں نرم دل اپنا

سیکھ لو تم ستم گری کچھ اور

تیرے ہاتھوں میں ڈور ہے یا دل

ہو گیا ہوں پتنگ یا کچھ اور

اک دوسرے کے دل میں دھڑکتے رہیں سدا

تا عمر اعتماد کی سانسیں رہیں بحال

دیکھنا ہے کام آنکھوں کا مگر

دیکھنا کیا ہے مناسب دیکھنا

نہ چاہ کر بھی نکلتی ہے بد دعا راغبؔ

وہ شاہدین جو چپ ہیں وہ بے زباں ہو جائیں

وہ ندی بھی خشک اک دن ہو گئی

جس کی طغیانی پہ دل کو ناز تھا

چہچہاتا اک پرندہ تھا یہ دل

تیرے پنجرے میں جو بے آواز تھا

وہ ندی باندھتی ہے خود ہی بند

جس سے ہے میری پیاس وابستہ

خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا

آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو کوئی اور تھا

آنکھوں میں تیرتے ہیں ابھی تک کئی حروف

لکھا تھا اُس نے اشک سے بین السطور "صبر

آنکھوں میں تیرتے ہیں ابھی تک کئی حروف

لکھا تھا اُس نے اشک سے بین السطور "صبر

قوتِ برداشت میری کم نہ ہو

اور خدا رکھے سلامت آپ کو

مسکرا دیتا ہوں میں تکلیف میں

اور ہو جاتی ہے زحمت آپ کو

نگہ میں بس گئی اک فاختہ جس روز سے راغبؔ

کسی چڑیا کی جانب دیکھنے کو جی نہیں کرتا

چہکتے چہچہاتے پھر رہے ہو

کسی چڑیا سے کر لی دوستی کیا

کون صف میں کھڑا تھا دشمن کی

کس کو دیکھا تھا مہرباں میں نے

کیسے نکلے گی اُف کبھی راغبؔ

اُن کو دے دی ہے اب زباں میں نے

لہجے میں ایک سی دمک، ملتے ہیں سب سے بے دھڑک

راغبؔ ہی سے ہے کیوں جھجک شاید اُنھیں خبر نہیں

لگ رہا ہے کہ ایک مدت سے

ایک لمحے کے انتظار میں ہوں

کیا ہوا دیکھ کر حسابِ عشق

تم تو تھے ماہرِ حساب کبھی

آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا

دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا

 بڑھتی ہی جائے تیرے چراغوں کی روشنی

تیرے نصیب کا بھی ہو مجھ کو دھواں نصیب

خوش بو بنا لیا ہے بکھرتے وجود کو

لے جائے اب ہوا میں اڑا کر جہاں نصیب

جیسا تو نے رکھ چھوڑا ہے

ویسا ہی ہے حال برابر

 ضد کا موسم تھا مستقل راغبؔ

ہوتی کس طرح بد گمانی دور

 دردِ دل انسانیت کا درس تھا جن کا شعار

ایسا لگتا ہے کہ وہ مکتب مقفّل ہو گئے

چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے

خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں

 عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی

بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان

اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا

ترا غرور ترا افتخار یعنی میں

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر

ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے

گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اُتنا ہے خمیدہ

پھل دار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے

کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ

اس دور میں مفہومِ شرافت ہی الگ ہے

اے میری جھجک ساتھ مِرا چھوڑ دے ورنہ

ڈر ہے کہ کسی روز تجھے مار نہ ڈالوں

وہ خواب دے مجھ کو جو مِری نیند اُڑا دے

وہ عزم کہ ہر خواب کی تعبیر چُرا لوں

آب و ہوا کی آنکھوں میں کیوں اشک آگئے

شاید کوئی درخت ہرا کاٹنے لگا

دامن کا ہے جو حال وہی دوستی کا ہے

پیوند کیا لگائے کوئی چاک چاک میں

ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں

غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں

منزل کی جستجو میں ہے اِک سمت کارواں

مطلب پرست قافلہ سالار اِک طرف

شاخوں نے اتنا ڈال دیا بارِ اعتبار

جڑ سے اُکھڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

مٹّی کے اِس بدن پہ میں اِتراؤں کس طرح

لوٹا کے لوٹنا ہے امانت زمین کی

ممکن نہیں مصافحہ پر ہیں تو روبرو

اِک آئینے میں آگئی دنیا سمٹ کے آج

ساعت کو پہلے عمر سے تقسیم کر دیا

پھر تیرے انتظار کی ساعت شمار کی

سورج کے سامنے کہیں جلتا ہے کوئی دیپ

اُگتا ہے کوئی پیڑ تناور شجر کے پاس

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں

مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں

اشعار میں اب جدّت آئے گی نظر ان کو

اب ربط نہیں کوئی الفاظ و معانی میں

آج بھی اپنی انتہا پر ہے

دل کے اندر وہ ابتدائی آگ

فائدہ کچھ نہیں بتا کر بھی

رات کے حادثات سورج کو

میرے خامے کو وہ سیاہی دے

ذہن و دل کو جو خوش نگاہی دے

مجھ کو لگتا ہے غیر ممکن ہے

دوستوں کی نگاہ سے بچنا

مجھ کو چھُو کر ذرا بتاؤ مجھے

میں ہوں موجود یا نہیں موجود

اُس لفافے میں بند ہوں راغبؔ

جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود

دشمنوں سے بھی مجھ کو بَیر نہیں

تم تو اپنے ہو کوئی غیر نہیں

ساتھ رہنا بھی غیر ممکن ہے

رہ بھی سکتے تِرے بغیر نہیں

زندگی کا عظیم مقصد ہے

یہ کسی گلستاں کی سَیر نہیں

آج پھر ہوگئی بڑی تاخیر

آج پھر لگ رہا ہے خیر نہیں

مسکراہٹ کو دیکھ کر میری

دل کسی کا اُداس ہے کہ نہیں

سچ کبھی ہوگا تمھارا خواب کیا

مان جائے گا دلِ بے تاب کیا

کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں

نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا

لے گئے شاخیں بھی پھل کے ساتھ لوگ

پھر سے ہوگا یہ شجر شاداب کیا

جتنی بھی راغبؔ ستم کی لُو چلے

صبر کا پودا نہ مُرجھائے کبھی

دوستوں کے وار کا کرنا شمار

مشغلہ اب اور کیا ہو دل پسند

کب ہوا گریہ سے راغبؔ غم غلط

مسکرانے سے پڑا مشکل میں فرق

چاہتوں کا سلسلہ ہے مستقل

سبز موسم کرب کا ہے مستقل

کیا بتاؤں دل میں کس کی یاد کا

ایک کانٹا چبھ رہا ہے مستقل

آگئی ہے فصلِ آزادی مگر

خوف کا پودا ہرا ہے مستقل

دشمنی کے سب دریچے بند ہیں

دوستی کا در کھلا ہے مستقل

چیخ جب نکلی کسی کم زور کی

ہو گیا قانون بہرا کس قدر

آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے

آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دِل جانے کے بعد

خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے

گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد

ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل پر اُس نے ایک بار

کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں

کھِل کھِلا کر ہنس رہے ہیں ہم پہ یہ گملے کے پھول

کس سے پوچھیں کیا بتائیں گھر ہمارا ہے کہاں

خوب شعلوں کو ہوا دی اُس نے

آگ پانی میں لگا دی اُس نے

ڈائری لے کے مِری چپکے سے

اپنی تصویر بنا دی اُس نے

میں نے اِک بات کہی تھی راغبؔ

بے سبب بات بڑھا دی اُس نے

میں بھی غیروں پہ عنایت کر کے

تیری ہی طرح ستاؤں تجھ کو

چاہیے معنی و مفہوم کی نیرنگی بھی

صرف کافی نہیں الفاظ کا چسپاں ہونا

جسم کو اپنے سمجھتے ہیں حسیں تاج محل

اور وہ بارشِ تیزاب سے نا واقف ہیں

چوٹ لگتی ہے تو اب درد کہاں ہوتا ہے

رنج ہوتا ہے کہ احباب سے نا واقف ہیں

بیان کرنے کی طاقت نہیں ہنر بھی نہیں

نہیں طویل یہ قصّہ تو مختصر بھی نہیں

ہمارے ہاتھوں وہ ہم کو تباہ کرتے ہیں

یہ اور بات کہ اس کی ہمیں خبر بھی نہیں

ذرا سی بات ہو جب باعثِ حسد راغبؔ

سناؤں کس کو میں باتیں لہک لہک اُس کی

روٹھنا مت کہ منانا نہیں آتا مجھ کو

پیار آتا ہے جتانا نہیں آتا مجھ کو

قضا کا وقت ہو یا سامنے قیامت ہو

لگا سکیں تو لگا دیجیے شجر پھر بھی

شجر سے مت کبھی کہنا

حکایت ٹوٹے پتّوں کی

محبت کی ہوا جب دل میں پہلی بار چلتی ہے

نہ پوچھو کس قدر ہر سانس نا ہموار چلتی ہے

تمھارا مشورہ لگتا ہے جیسے حکم صادر ہے

تمھاری التجائیں دھمکیاں معلوم ہوتی ہیں

مِرے دل کو بچپن میں لُو لگ گئی

سو گھر کر گیا دل میں ڈر دھوپ کا

تخیّل میں ہے ایک سورج مُکھی

عیاں ہے غزل پر اثر دھوپ کا

انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو

اُلجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو

کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوشبو

ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو

بے سود ہر اِک قول ہر اِک شعر ہے راغبؔ

گر اس کے موافق تِرا کردار نہیں تو

چھوڑا نہ مجھے دل نے مِری جان کہیں کا

دل ہے کہ نہیں مانتا نادان کہیں کا

اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار

جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا

جی چاہے کہ دنیا کی ہر اِک فکر بھلا کر

کچھ شعر سناؤں میں تجھے پاس بٹھا کر

یہ کیا کہ سدا اپنے ہی مطلب کی دعائیں

اوروں کے بھی حق میں کبھی اے دوست دعا کر

غیبت سے نہ بھر جائے کہیں نامۂ اعمال

جو کچھ تمھیں کہنا ہے کہو سامنے آ کر

ویسے تو وہ ’ ہوں ، ہاں ‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے

کہنے پہ جب آجائیں تو کیا کچھ نہیں کہتے!

کیا بھول گئے سارے اماوس کے پرستار

کرتا ہے ہر اِک رات کا پیچھا کوئی سورج

ہے نور کی ظلمات سے یہ جنگ پرانی

لڑتا ہے اندھیروں سے ہمیشہ کوئی سورج

اِس درجہ اُجالوں سے ہے رغبت مجھے راغبؔ

ہوتا نہ میں انسان تو ہوتا کوئی سورج

بس چہرہ دکھا گیا ہے کوئی

اور ہونے لگا بحال چہرہ

پچھتانے سے مت گریز کرنا

ہو جائے اگر گناہ کوئی

پیروں سے مرے بندھے بگولے

اور ملتی نہیں ہے راہ کوئی

میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں

ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی

اِک صورت اُتارنا غزل میں

لفظوں کا پسینا چھوٹ جانا

کس درجہ سُرور بخش تھا وہ

اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا

اُڑ جائیں گے سب کے سب پرندے

گر یوں ہی رہے شجر سے خائف

گفتگو جب نہ ہو سکی کھل کر

بدلیاں چھائیں بدگمانی کی

جن کو بھرنے تھے کان بھرتے رہے

ہم وفا کی اُڑان بھرتے رہے

بن تِرے ہے کٹھن گزارا بھی

ہے کہاں اور کوئی چارا بھی

کیا کیا جائے تم ہی بتلاؤ

دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی

اپنے لب کو نہ دیجیے زحمت

ہے بہت آپ کا اشارا بھی

خواہشیں ہیں حصار کی صورت

تک رہا ہوں قرار کی صورت

جانے کیا رہ گیا ہے سینے میں

چبھتا رہتا ہے خار کی صورت

کس کا گھر ہے قیام کس کا ہے

دل کی چوکھٹ پہ نام کس کا ہے

کس کی آواز اتنی پیاری تھی

 یاد اب تک سلام کس کا ہے

کس نے ویراں کیا ہے دل راغبؔ

کیا بتاؤں یہ کام کس کا ہے

آتے جاتے رہو تو اچھّا ہے

پیار بڑھتا ہے آنے جانے سے

مسئلہ ایک بھی نہ حل ہوگا

مسئلوں سے نظر چرانے سے

بالیقیں دوستوں کے سینے میں

دل نہیں ہے کباب سا کچھ ہے

زندگی ہی بدل گئی راغبؔ

عشق بھی انقلاب سا کچھ ہے

سارے اشعار کس کے اچھّے ہیں

سارے قطرے گہر نہیں ہوتے

لَے ملاؤ نہ اُن کی لَے کے ساتھ

سُر بدلتے ہیں جو سَمے کے ساتھ

پوچھتا ہوں کہ عشق ہے مجھ سے

بولتے ہیں ’نہیں‘ بھی ’ہے‘ کے ساتھ

اِک ذرا سی ہوَس کی چنگاری

عمر بھر بدحواس رکھتی ہے

میرے دل کو بھی تیرے جی کو بھی

چین اِک پل نہیں کسی کو بھی

جی رہا ہوں تِرے بغیر بھی میں

اور ترستا ہوں زندگی کو بھی

خون آلود کر کے چھوڑیں گے

لوگ اکّیسویں صدی کو بھی

مہربانی کا نام دیتے ہو

تم تو اپنی ستم گری کو بھی

مصلحت میں شمار کرتے ہیں

لوگ اب اپنی بزدلی کو بھی

یاد کی چل پڑی ہے سرد ہَوا

پھر اُبھارے گی کوئی درد ہَوا

آج اُس کا ہی بول بالا ہے

جس نے راغبؔ غلط بیانی کی

بہکی بہکی سی میری باتوں پر

کوئی ہوتا جو ٹوکتا مجھ کو

میں نے کھائی ہیں ٹھوکریں ہر گام

زندگی کا ہے تجربہ مجھ کو

رفتہ رفتہ تمھاری چاہت کا

کیسے اترا خمار مت پوچھو

نقش رہتا ہے عمر بھر اس کا

کیا ہے بچپن کا پیار مت پوچھو

بولنا چاہتا ہوں کچھ راغبؔ

اور مجھ سے بیان کچھ ہو جائے

تیرے چہرے پہ کوئی داغ نہیں

کیسے کہہ دوں کہ ماہتاب ہے تو

مجھ کو شاعر بنا کے جانِ غزل

اپنے مقصد میں کامیاب ہے تو

جب بھی وہ بام مجھ کو یاد آیا

کچھ اُدھر کام مجھ کو یاد آیا

بچ کے رہنا تھا وحشتِ دل سے

ہو کے بدنام مجھ کو یاد آیا

کیا بتاؤں سبب اُداسی کا

ہے کرم ایک بے وفا سی کا

ان کی چالوں کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے

یعنی ہم لوگوں کو بھی چالاک ہونا چاہیے

دیکھ کر مکر و دغا ، جور و جفا ، ظلم و ستم

دیدۂ احساس کو نمناک ہونا چاہیے

ہاتھ ہی کٹ جائے یا دھونا پڑے جاں ہی سے ہاتھ

شاعر و فنکار کو بے باک ہونا چاہیے

چاہ کر بھی شمع پروانے سے کہہ پاتی نہیں

مت بڑھانا فاصلہ ورنہ کشش گھٹ جائے گی

دھوپ میں تپتے ہوئے لوگوں کو تکنے کے سوا

کیا کرے گا پیڑ اک اک شاخ جب کٹ جائے گی

ہو چراغِ علم روشن ٹھیک سے

لوگ واقف ہوں نئی تکنیک سے

بے سبب راغبؔ تڑپ اُٹھتا ہے دل

دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے

ہو گئے کافور سارے درد و غم

تیرا چہرہ ہے کہ چھومنتر کوئی

پیٹھ پیچھے کیسے کیسے تبصرے

نام تک لیتا نہیں منھ پر کوئی

ہر گھڑی ہاتھوں پر اپنے میرا نام

کاٹتا رہتا تھا لِکھ لِکھ کر کوئی

حق نوائی کیوں لگے مشکل مجھے

حوصلہ دیتا ہے میرا دل مجھے

اک کھلونا اور مل جاتا اُنھیں

مل گیا ہوتا جو اور اک دل مجھے

چشمِ بینا بن گئی دشمن مری

کھا رہی ہے فکرِ مستقبل مجھے

جب سے خیمہ زن ہوئے پردیس میں

گھر پہ بھی مہمان ہو کر رہ گئے

مسکرا کر بات کرنا غیر سے

اور مِرے دل کو جلانا یاد ہے

مجھ کو رکھتی ہے پریشان مِری خوش فہمی

جان لے لے گی مِری جان مِری خوش فہمی

کیا کروں میں کہ کسی آن پسِ آئینہ

جانے دیتی ہی نہیں دھیان مِری خوش فہمی

دیکھ لینے دو ہمیں خواب میں گھر کی صورت

زندگی ہم نے گزاری ہے سفر کی صورت

کوئی تفریق نہ مطلب نہ عداوت نہ حسد

فیض پہنچاتے رہو سب کو شجر کی صورت

روح کو ایک جواں حوصلہ قیدی کی طرح

جسم کو ایک حوالات سمجھتا ہوں میں

تجھ سے ملنے کی تڑپ مار نہ ڈالے مجھ کو

کیسے قابو میں ہیں جذبات سمجھتا ہوں میں

دل سے جب آہ نکل جائے گی

جاں بھی ہمراہ نکل جائے گی

دل میں کچھ بھی تو نہ رہ جائے گا

جب تِری چاہ نکل جائے گی

فن اگر لائقِ تحسین ہوا

خود بخود واہ نکل جائے گی

پھر سبھی جوڑ کے سر بیٹھے ہیں

پھر کوئی راہ نکل جائے گی

تم سے ملنے کی بھی کوئی صورت

انشاء اللہ نکل جائے گی

تمھارے لوٹ آنے کی ہمیشہ آس رہتی ہے

مِرے سیراب ہونٹوں پر سلگتی پیاس رہتی ہے

نہیں محتاج شعر و شاعری تعلیم کی لیکن

لہک اُٹھتے ہیں وہ پودے جنھیں کچھ کھاد ملتی ہے

جہاں بھی دیکھتا ہوں کھود کر دل کی زمیں راغبؔ

کہیں آہیں نکلتی ہیں کہیں فریاد ملتی ہے

نہ جانے کیا ہے اُس ظالم کے جی میں

کمی آتی نہیں کچھ کج رَوی میں

میں سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں

میں پھر اسکول جانا چاہتا ہوں

کہیں تو روشنی ہو جائے مجھ سے

دِیا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

کسی مظلوم کے مجروح دل کی

دعا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

بڑی مشکل ہَوا کے سامنے ہے

چراغِ دل ہَوا کے سامنے ہے

ہَوا ہو کر رہے گا جسم راغبؔ

یہ مشتِ گِل ہَوا کے سامنے ہے

گستاخیاں بھی کرنی ہوں گر میری شان میں

یہ التجا ہے کیجیے اردو زبان میں

تلوار رہنے دیجیے راغبؔ میان میں

تاثیر پیدا کیجیے اپنی زبان میں

میں کیا کروں کہ ہے اردو مِری زباں راغبؔ

معاف کرنا جو لہجہ مِرا کرخت نہیں

تلاش کرتا ہوں میں افتخار راغبؔ کو

کئی برس سے میں اپنے ہی انتظار میں ہوں

ضرورتوں کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں پاؤں میں

تمھیں بتاؤ کس طرح میں لوٹ آؤں گاؤں میں

کوئی مجھ سے خفا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

وہ حد سے زیادہ گریزاں ہے مجھ سے

جسے چاہتا ہوں میں حد سے زیادہ

وہیں پر ہے جمہوریت کار آمد

جہاں نیک رہتے ہوں بد سے زیادہ

ترے دل پہ جادو جگانے کے لائق

کہاں کچھ ہے تجھ کو سنانے کے لائق

سمجھ میں خود اپنی بھی آتا نہیں کچھ

ہوا کیا ہے جو دل کو بھاتا نہیں کچھ

امید مت لگاؤ تدبیر سے زیادہ

ملتا نہیں کسی کو تقدیر سے زیادہ

تقدیر سے زیادہ تدبیر آزماؤ

تقدیر پر یقیں ہو تدبیر سے زیادہ

بے زبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

اِس کہانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے

سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

میہماں بن کے ستم گر نے ستم ڈھایا ہے

میزبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

کس نے بخشے ہیں اِن آنکھوں کو اُبلتے آنسو

حق بیانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن

عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا

دو گھڑی بیٹھ کے دو بات نہیں ہو سکتی

کیا کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی

دل کو ڈھارس تو میں دیتا ہوں مگر لگتا ہے

عمر بھر تجھ سے ملاقات نہیں ہو سکتی

بھاگنے کا ہو جسے شوق وہ سب سے پہلے

اپنے کردار کی تعمیر کے پیچھے بھاگے

بھاگتے رہ گئے پیچھے ہی تِرے اے دنیا

جو تِری زلفِ گرہ گیر کے پیچھے بھاگے

دور اندیش نگاہوں کی بصیرت کی قسم

کوئی دشمن نہیں اندیشۂ فردا کی طرح

وقت بدلا ہے مگر ذہن کہاں بدلا ہے

آج بھی ہو گئی تاخیر ہمیشہ کی طرح

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا پھر بولنا

دل میں اتنا خوف کیوں ہے تم اگر آزاد ہو

کچھ نہیں دِکھتا ہے لیکن دیکھتے ہیں رات دن

اپنی بوڑھی آنکھ سے نورِ نظر کا راستہ

راستے یوں تو ہزاروں ہیں مگر اے زندگی

ایک سیدھا راستہ خیرالبشرؐ کا راستہ

کیسے بے کل ہو نہ ہم پردیسیوں کی زندگی

تنہا تنہا جی رہے ہیں غیر فطری زندگی

گاہے گاہے زندگی سے زندگی ملتی رہی

رفتہ رفتہ کٹ گئی قسطوں میں ساری زندگی

اپنی مرضی کی اڑانیں بھر نہیں سکتے پرند

کٹ گئے ہوں جیسے ان کے بال و پر پردیس میں

اِک طرف باطل کا لشکر میں اکیلا اِک طرف

اور تماشائی بنی ہے ساری دنیا اِک طرف

دل ہی دل میں کوئی دل سے یاد کرتا ہے مجھے

دل سے دل تک دل دھڑکنے کی صدائیں آگئیں

میرے اُس کے درمیاں یوں ہی رہیں گی رنجشیں

کوئی جب تک تیسرا ہے میرے اُس کے درمیاں

ختم ہو جائے لڑائی بیچ میں

اِس لیے پڑتا ہوں بھائی بیچ میں

بھائی بھائی کو جھگڑتا دیکھ کر

آگیا دشمن کا بھائی بیچ میں

چار دن کی زندگی ہے ہنس کے جی

عمر یوں ہی مت گنْوا رہ کر اُداس

صبح دم پل بھر کو آئی تیری یاد

اور مجھے دیکھا گیا دن بھر اُداس

ایک پہ میرا دل راغب ہے راغبؔ

اِک محور پر چکّر کاٹ رہا ہوں

تم کیا جانو وصل کی لذّت ہجر کا غم

تم نے کسی سے پیار کیا ہے سچ بولو

مٹّی کے ہیں مٹّی میں مل جائیں گے

رہ جائے گا چاندی سونا سمجھے نا

پردیسی کو چین کہاں حاصل راغبؔ

گھر جا کر آرام سے سونا سمجھے نا

فرقت کا اِک بار مزہ چکھ لو گے تو

آ جائے گا پھوٹ کے رونا سمجھے نا

پہلی چاہت کا ننھّا سا پودا بھی

جیون بھر شاداب دِکھائی دیتا ہے

دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے

جنّت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں

ﷲ دیتا ہے عزّت بھی ذلّت بھی

جھوٹی شان میں کیا رکھا ہے سچ بولو

جھوٹے کا انجام برا ہے سچ بولو

سچّائی کا سر اونچا ہے سچ بولو

وہاں جشن اُڑاتے گھر والے یہ کیا جانیں

یہاں سوکھی روٹی آئی ہے مِرے حصّے میں

کیا جاتا اگر تھوڑا سا پیار جتا جاتے

ہنس بول کے دل بہلا جاتے تو کیا جاتا

چھوڑ کے سب کچھ تم سے ملنے آ جانا دشوار نہیں

مستقبل کا خوف دلا کر میں نے خود کو روکا ہے

واپس جانے کے سب رستے میں نے خود مسدود کیے

کشتی اور پتوار جلا کر میں نے خود کو روکا ہے

جب بھی میں نے چاہا راغبؔ دشمن پر یلغار کروں

خود کو اپنے سامنے پا کر میں نے خود کو روکا ہے

کیا خوشامد شعار ہوتے ہیں

صرف مطلب کے یار ہوتے ہیں

قابلِ اعتبار ہی اکثر

قاتلِ اعتبار ہوتے ہیں

شعر ہوتے ہیں بے شمار مگر

سب کہاں شاہکار ہوتے ہیں

دیں سیاست سے پاک ہو جائے

اور سیاست میں دیں کی خوشبو ہو

لڑتے لڑتے غموں کے لشکر سے

سخت جاں ہو گیا ہوں اندر سے

لوگ مجرم تمھیں سمجھ لیں گے

رہ گئے آج تم اگر خاموش

وہ بھی میرے لیے تڑپتے ہوں

ایسا ممکن نہیں مگر، شاید

دل تو کر لے گا ضبطِ غم راغبؔ

ساتھ دے گی نہ چشمِ تر شاید

کس نتیجے پر آپ پہنچے ہیں

کٹ گئی عمر آزمانے میں

اپنی آب و ہوا کی فکر کرو

ہم پرندوں کے ہیں بسیرے سَو

یوں ہی جگمگ نہ ہوگا جگ راغبؔ

روشنی ایک ہے اندھیرے سَو

اک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں

کوئی چشمہ کبھی تو پھوٹے گا

اپنی ایڑی رگڑ رہا ہوں میں

جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں

سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں

اِک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں می

تم نے رسماً مجھے سلام کیا

لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے

میرے سینے میں جو دھڑکتا ہے

میرا دل ہے کہ آپ کا ہے جی

مضطرب آپ کے بِنا ہے جی

یہ محبّت بھی کیا بلا ہے جی

کام آتی نہیں کوئی تدبیر

کیا ہے قسمت میں اے خدا آخر

اُن سے بچھڑے تھے جس گھڑی راغبؔ

ہے ابھی تک وہیں گھڑی ٹھہری

یوں ہی یاد آ گیا کوئی راغبؔ

اور آنکھیں گئیں برس یوں ہی

تم بہت سوچنے کے عادی ہو

تم گنْواتے رہو گے ہر موقع

جی چاہتا ہے جینا جذبات کے مطابق

حالات کر رہے ہیں حالات کے مطابق

روٹھ جائے گی نظر آنکھوں سے

مت بہا خونِ جگر آنکھوں سے

ایک اندھے کی نصیحت راغبؔ

پیار کرنا ہے تو کر آنکھوں سے

ایسے چوراہے پہ لائی ہے حیات

کشمکش میں ہوں کدھر جائوں میں

اُن کی چاہت ہے عذابوں کی طرح

جن کی قسمت کے ستارے ہیں جدا

گئے وہ دن کہ گھروں میں بڑے خلوص کے ساتھ

بس اِک چراغ سے جلتے تھے جب سبھی کے چراغ

ہمیں یہ دھُن ہے کہ منزل کو پا کے دم لیں گے

اُنھیں یہ ضد کہ وہ کانٹے بچھائیں راہوں میں

میں تیری آنکھ سے دیکھوں تِری زباں بولوں

مِرے وجود میں اِس طرح تو سما جائے

مٹیں گی دہر سے کیسے یہ ظلمتیں راغبؔ

کوئی چراغ جلائے کوئی بجھا جائے

اِدھر کی بات اُدھر کر رہا ہو جو راغبؔ

سنبھل کے کچھ بھی کسی ایسے آشنا سے کہو

کسی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبنے کے لیے

تڑپ رہا ہوں کہ ان پر حیا کا پہرا ہے

میں مانتا ہوں کہ تم سچ ہی بولتے ہو مگر

ہر ایک بات نظر سے نظر ملا کے کہو

یہ کیا کہ غیبتیں کرتے ہو ہر جگہ میری

تمھیں جو کہنا ہے دو ٹوک مجھ سے آ کے کہو

تمہید میں نہ وقت یوں برباد کیجیے

کیا مدّعا ہے آپ کا ارشاد کیجیے

دیکھی ہے اتنی راہ تِری ہر پڑاو پر

اے دوست لگ گئی مِری منزل بھی داو پر

ہے مسئلوں کے زخم کا پیکر ہر ایک شخص

مرہم رکھے گا کیا کوئی اوروں کے گھاو پر

اِک ایسا معجزہ ہو کہ آجائے لوٹ کے

وہ عمر جو سوار تھی کاغذ کی ناو پر

جب آپ کو خدا پہ مکمّل یقین ہے

حیرت زدہ ہوں آپ کے ذہنی تناو پر

کوئی شیشہ نہ پتھّر ہے مِرا دل

محبّت کا سمندر ہے مِرا دل

مکیں اِس کو ملا ہے تیرے جیسا

مقدّر کا سکندر ہے مِرا دل

میں اِک اعلان ہوں امن و اماں کا

مجھے چسپاں سرِ دیوار کرنا

یہاں گھُٹ گھُٹ کے مرنے سے ہے بہتر

وہیں چھوٹا سا کاروبار کرنا

میں ہر دم قید رہنا چاہتا تھا

تِری زنجیر ہی اچھّی نہیں تھی

کہاں رہتی ہے خاموشی سفر میں

مسافر چپ تو رستہ بولتا ہے

زباں کچھ اور کہتی ہے تمھاری

مگر کچھ اور چہرہ بولتا ہے

مِرا ظاہر ہے اِک سیراب صحرا

مِرا باطن کوئی پیاسا سمندر

سمندر کی بجھی کب پیاس راغبؔ

ہزاروں پی گیا دریا سمندر

وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری

وہی کچھ ہے عالم یہاں سے وہاں تک

تِری ہی بدولت اے مطلب پرستی

تعلّق بگڑتے چلے جا رہے ہیں

مقدّر سے لڑتے چلے آ رہے تھے

مقدّر سے لڑتے چلے جا رہے ہیں

نہیں مانتا دلِ تشنہ کام تو کیا کروں

تِری زلف کالی گھٹا نہیں مجھے علم ہے

سیرت میں، شباہت میں، تکلّم میں، ادا میں

اے جانِ تخیّل کوئی تجھ سا نہیں ملتا

چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی

ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے

وہ چہرہ تھا اِک کتاب راغبؔ

جس کے ہر ورق کو رٹ کے روئے

غبار دل سے نکال دیتے

تو سب تمھاری مثال دیتے

تبصرے بند ہیں۔