اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر! 

 عاصم طاہر اعظمی

مشرقی اقوام کو دیار مغرب سے ملنے والی غیر مہذب وناشائستہ روایات میں ایک بڑی روایت”اپریل فول“ کہلاتی ہے، ہر سال یکم اپریل کو مرد وزن آپس میں ایک دوسرے کو جھوٹ بک کر واہیات پھیلا کر بے وقوف بناتے ہیں ایک دوست دوسرے دوست کو مٹھائی کھلانے کے بہانے بدمزہ چیز کھلا کر احمق بناتا ہے کوئی اپنے دوست احباب اوررشتہ داروں کو اپنے ہی کسی عزیز کے مرنے کی جھوٹی خبر دے کر انہیں رنج وغم میں مبتلا کرجاتا ہے اور کوئی اسی طرح کی جٹ پٹی خبر پھیلاکر لوگوں کا تمسخر اڑاتا ہے-

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم دینِ حق اسلام کی روشن تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر مادر پدر آزاد اغیار کی بے ہودہ اور بد تہذیب عادات و اطوار کے گرویدہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ دینِ اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے، اس کے باوجود ہم یکم اپریل کے دن یہود و نصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباءکو بے وقوف بناتے اور ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ،اور پھر اپنے اس گناہ کو فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں،

دنیا بھر میں یکم اپریل کے روز بولے جانے والے جھوٹ کی وجہ سے بے شما ر لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اپریل فول کاشکار ہونے والے لوگ شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کئی معاشرے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے، اور گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ۔ کتنے ہی گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقل طور پر ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی گناہ و نقصانات کا چاہتے ہوئے بھی ازالہ و کفارہ ادا نہیں کر سکتے، جبکہ یہود و نصاریٰ کی تہذیب کی تقلید میں اندھے اکثر لوگ اپریل فول کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں

اس رسم کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی

اس بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مختلف مؤرخین کی الگ الگ وجوہات لکھی ہیں:

(1) بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترھویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کرتے تھے،

(2) اور دوسرے بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا، اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگیا،

(3) بریٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے کہ 21 مارچ  سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذاللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے کو میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا،اس کے علاوہ اس کی کئی وجوہات مختلف اہل علم حضرات نے لکھی ہے لیکن کون درست ہے کون غلط یہ بہتر کسی کو نہیں معلوم،

برِصغیر میں فول اپریل

کہاجاتا ہے کہ برِصغیر میں پہلی بار فول اپریل انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے منایا، جب وہ رنگون جیل میں تھے انگریزوں نے صبح کے وقت بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ یہ لو تمہارا ناشتہ آگیا ہے جب بہادر شاہ ظفر نے پلیٹ پر سے کپڑا ہٹایا تو پلیٹ میں ان کے بیٹے کا  کٹا ہوا سر تھا جس سے بہادر شاہ ظفر کو بہت صدمہ پہنچا، جس پر انگریزوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا، (بحوالہ اپریل فول از عبدالوارث ساجد ،ص/31)

نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے، شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے، سود خوری کریں گے اور اس کو نام کچھ اور دے دیں گے، غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بد ترین صورت ہوتی ہے کیوں کہ اس میں بھلائی کے لبادے میں برائی کی جاتی ہے، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روا رکھا جاتا ہے، آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم و بیش یہی حالت تھی، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غور و فکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم اس دور سے گذر رہے ہیں،

ٹھہریے، رکیے، سوچیے

کیا آپ بھی یکم اپریل کو غیر اسلامی تہوار اپریل فول مناتے ہیں تو یہ بات یاد رکھ لیں کہ یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔(١) جھوٹ بولنا۔(٢) دھوکہ دینا۔ (٣) دوسرے کو اذیت پہنچانا۔ (٤) ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا،جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے، یا پھرایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلم معاشروں میں اپنا کراسے فروغ دیا جائے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ماحول میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے،لیکن اب بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا،جولوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں،وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت،اصلیت، شرعی حیثیت اور اس کے نتائج پر غور کریں تو انشاء اللہ اس سے پرہیزکی اہمیت تک ضرور پہنچ کر رہیں گے۔ غرض اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔

حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمیــــن

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔