دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ’اقبال کی فکری جہات‘ کا انعقاد

سماجی، تعلیمی اور فلاحی تنظیم فیتھ فاؤنڈیشن اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون اور اردو اکادمی دہلی کے اشتراک سے دو روزہ قومی سیمینار بعنوان ’اقبال کی فکری جہات‘ کا انعقاد اقبال اکیڈمی جنگ پورہ میں منعقد کیا گیا۔ سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے سابق آئی پی ایس اور محب اقبال ڈاکٹرسید ظفر محمود نے کہا کہ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے پیہم کوشش شرط ہے اور اﷲ نے انسان کی روح کو مختلف خصوصیات سے مزین کیا ہے۔ روح کی سطح جسم کی سطح سے بلند ہے اور انسانی سطح سے مزید بلندی پر لے جاسکتا ہے اور روح اس کی نگہداشت کرتی ہے۔ مزید انھوں نے کہا کہ روح میں پاکیزگی ہونا ضروری ہے۔ اگر پاکیزگی نہ ہو تو ناپید ہے۔

اقبال کے فن اور فکر کے امتزاج نے ایک نیا جہان معنی پیدا کیاہے: پروفیسر توقیر احمد خاں

اقبال کی فکری جہات پر اظہار کرتے ہوئے کہا اقبال کے تصور موج، جہدوعمل، تصور زن کے علاوہ خودی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مہمان ذی وقارڈاکٹر نریندر سنگھ رانا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندوستان کی پہلی زبان ہے، مجھے اس زبان پر فخرہے مگر ہم اسے وہ موقع نہ سکے جس کی وہ حق دار ہے تاکہ اس کا مزید فروغ ہوسکے۔ امرسنگھ امر نے کہا کہ اردو مشترکہ تہذیب کی دین ہے اس زبان کے ذریعہ محبت کا پیغام عام کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے اقبال کی خودی کا تصور بے حد پسند ہے۔ انسان اپنی خودی کو پہچان لے تو وہ اعلیٰ مقام اور مقاصد کو پاسکتا ہے۔ سماجی کارکن جناب ونودشرما نے کہا کہ مجھے اقبال کا ترانۂ ہندی بہت پسند ہے۔ سابق صدر شعبۂ اردوپروفیسر توقیر احمد خاں نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہ اقبال کی اہمیت و افادیت ان کے افکار کی بنیاد پر ہے۔ اقبال کے فن او ر فکر کے امتزاج نے نیا جہان معنی پیدا کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کائنات عالم کا کوئی ایسا موضوع نہیں جو اقبال کی گرفت سے باہر ہو۔ اقبال کے افکار آفاقی ہیں اور اسے کسی ایک خطے میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کسی نے بھی ایسا تصور پیش نہیں کیا جو اقبال نے کیا ہے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شاذیہ عمیر نے نہایت عمدگی سے ادا کی۔

 سیمینار کے دوسرے اجلاس کی صدارت فارسی کے مشہور استاد پروفیسر سید اختر حسین کاظمی نے اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاذیہ عمر نے ادا کیے۔ اس اجلاس میں اقبال کے مختلف افکار ونظریات کے حوالے سے ڈاکٹر شاذیہ عمیر(دہلی یونیورسٹی)، ڈاکٹر شمیم احمد (سینٹ اسٹفن کالج)، جناب ذاکر حسین (نیشنل آرکائیو، دہلی)، جناب اشتیاق احمد قاسمی(مانو، حیدرآباد)، ڈاکٹر سعود عالم(دہلی)اور عظمت النسا(جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے نہایت وقیع مقالے پیش کیے گئے۔

  دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر کوثر مظہری اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے کی۔ پروفیسر کوثرمظہری نے صدارتی خطبے میں کہا کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے عمیق مشاہدے کا ہونا ضروری ہے۔ مشاہدے کے بعد مطالعے کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر طارق سعید(علی گڑھ)، ڈاکٹر علاء الدین خاں (دہلی)، ڈاکٹر سرفراز جاوید(دہلی)، ڈاکٹر افسانہ حیات اور ڈاکٹر محمد انصر(دہلی) نے مقالے پیش کیے۔

تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر طارق سعید نے کی اور اس اجلاس میں پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر ندیم احمد(دہلی)، ڈاکٹر علی عمران عثمانی، ڈاکٹر ریاض عامر(علی گڑھ)، ڈاکٹر محمد شاہد خان(الہٰ آباد)، جناب محمد یٰسین قریشی(گجرات یونیورسٹی، احمدآباد) اور جناب محمد شفیق عالم(جے این یو) نے مقالے پیش کیے۔ پروفیسر طارق سعید نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے نئی نسل کو مشورہ دیا کہ اپنے مطالعہ کو وسیع کریں تاکہ اقبال کو حقیقی معنوں میں سمجھا جاسکے۔ دو روزہ قومی سیمینار کے چوتھے اور آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر عبدالحق اور پروفیسر غضنفر علی نے ادا کی۔ پروفیسر عبدالحق صدارتی خطبے میں کہا کہ مقالہ نگاروں نے نادر اور حیرت انگیز پہلو پر مقالے رقم کیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر سید اختر حسین کاظمی، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر شکیل اختر(دہلی) نے اپنے مقالے پیش کیے اور آخر میں سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر محمد مرتضیٰ نے تمام صدور، مقالہ نگار اور سامعین کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا۔

اس سمینار میں فیتھ فاؤنڈیشن کی سکریٹری محترمہ پروین صاحبہ کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذہ، ریسرچ اسکالر اور اقبال کے پرستار نے شرکت کی۔ خصوصاًپروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر علاء الدین خان، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، ڈاکٹر عفیفہ بیگم، ڈاکٹر حمیرہ، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر محمدانظار، ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی، ڈاکٹر محمد اسجد، جناب عبدالباری صدیقی، محمد حسان خاں اور محمد حماد خاں، محترمہ رخسار، محترمہ گلاب فاطمہ، جناب نریندر کمار متل، شمیم احمد، محمدساحل اور محمد سفیان صدیقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔