ہم جنس پرستی کی وبا سے ملک اور معاشرے کو بچائیے!

ہلا ل احمد

اسلام مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتاہے، اسلام کابنیادی مقصدمخلوق کو معبود الٰہی سے جوڑنااور معاشرہ کو صالحیت بخشنا ہے۔ اسلام میں شادی اور نکاح کا مقصد صرف شہوت رانی، جنسی خواہشات کی تکمیل وتسکین نہیں، بلکہ وقوع فی الحرام سے حفاظت، نسل انسانی کافروغ، بقاء، تحفظ وتکثر، زوجین کے مابین مودت ومحبت اور تعاون وتناصر مشروعیت نکاح کے اہم ترین مقاصد ہیں۔ اس کے لیے جنس مخالف اوران کے ولی کی رضامندی کے ساتھ علی الاعلان نکاح کاحکم دیا تاکہ معاشرہ میں کسی قسم کی بدگمانی پیدا نہ ہو۔ اس کے برعکس جدیدمعاشرہ خدائی احکام سے بغاوت کرتے ہوئے جنس مخالف سے شادی کو معاش ومعیشت کے لیے مسئلہ مانتاہے، پچھلی کچھ دہائیوں سے ترقی بنام آبادی جنگ جاری ہے۔ مغربی دنیامیں اس پر قابوپانے کے لیے ’گے رلیشن‘ کورواج دیاجارہاہے۔ انیسویںصدی کے بعد سے ہم جنس پرستوں کی حمایت اور قانونی حقوق کے لیے عالمی پیمانے پر تحریک چلائی جارہی ہے۔ ہم جنس پرستوں کی عالمی تنظیم (آئی ایل جی اے) InterNational Lesbian Gay Bisexual Transand Inter-Sex  Association کا وجود1978   میںہوا جس کا مقصد دنیابھر کے ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرناہے، یہ تنظیم 110؍ ممالک بھی کام کررہی ہے۔ اس گندے فعل کوایسے خوبصورت دستر خوان میںسزا کرپیش کیا جارہاہے کہ مملکتیں بڑی جلدی سے ہضم کرگئی ہیں۔ ماہر نفسیات اسے نفسی سکون کا ذریعہ بھی بتاتے ہیں۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو ہم جنس پرستوں کے لیے سب سے زیادہ روادار ملک تصور کرنے کے ساتھ تل ادیب کو مشرق وسطیٰ کا گے دارلحکومت ہونے کا نام دیا گیا ہے، اور دنیا میں سب سے زیادہ گے دوستانہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ تل ابیب میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں سالانہ پرائڈ پریڈ ہوتی ہے۔

ہم جنس پسندی، ہم جنس پرستی یا ہم جنسیت (انگریزی میں اس کو : Homosexualityکہتے ہیں)جنس مخالف کے بجائے ایک ہی جنس یا صنف کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والی رومانوی کشش، جنسی کشش، ناجائز تعلقات یا جنسی رویہ ہوتا ہے۔ ہم جنس پرست لوگوں کے لیے سب سے عام اصطلاحات میں عورتوں کے لیے سحاق یامساحقہ( لیسبئین Lesbian) اور مردوں کے لیے سدومی فعل یاقوم لوط کاعمل(گے Gay) کہاجاتاہے، تاہم ہم جنسی عورتوں اور مردوں دونوں کا حوالہ دینے کے لیے عام طور پر گے (Gay) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ زمانہ قدیم میں عورتوں کی ہم جنس پرستی کے بارے میں بہت کم جانکاری ہے۔ سافو، لیسبوس کے جزیرے پر پیدا ہوئی تھی اور آخری یونانیوں نے اس کو نو نغمہ نگار شعرا کی مذہبی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس کے نام اور مقام پیدائش (Sapphic and Lesbian) سے ماخوذ صفات انیسویں صدی کے شروع میں عورتوں کی ہم جنس پرستی پہ لاگو ہو گئیں۔ سافو کی شاعری مختلف کردار اور دونوں اصناف کے پیار اور عشق کا مرکز تھی۔

بہت سے جدیدسائنسدانوںکاکہناہے کہ ہم جنس پرستی اختیاری نہیں ہے بلکہ جینیاتی اور پیدائش سے قبل ہارمونس کے زیراثر (جب بچہ مادر رحم میں ہوتا ہے) ہوتا ہے۔ بعض اوقات ماحول ومعاشرہ کی وجہ سے اس فعل بد کاعادی ہوجاتاہے اورمیرے نزدیک یہی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ بعض کے نزدیک یہ سدومی فعل ایک نفسیاتی اور جنسی مرض کی حیثیت رکھتاہے یا موروثی نفسیاتی عارضہ کی نظر سے دیکھاجاتاہے۔ خود کو ترقی یافتہ ملک شمارکرنے والے کئی ممالک نے قانون وضع کیااوراس سدومی فعل کوقانونی درجہ دے دیاہے۔ ہالینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین، جنوبی افریقہ، سویڈن، کنیڈامیں ’’گے میرج‘‘یعنی ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔ ہالینڈمیں سب سے پہلے 2001ء میں قانونی حیثیت ملی اور اسپین میں 2005ء میں۔ اسی طرح برطانیہ نے ’’سول پارٹنر شپ‘‘ قانون دسمبر2005ء میں پاس کیا۔

ہندوستان میں ہم جنسی تعلقات فی الحال قانوناً جرم ہے۔ دفعہ 377کو انگریزوں نے 1862ء میں نافذ کیاتھاجس کے تحت غیر فطری سیکس کو غیرقانونی ٹھہرایاگیاہے، اگر کوئی خاتون-مردد آپسی رضامندی سے بھی غیر فطری سیکس کرتے ہیں تو اس دفعہ کے تحت 10 سال کی سزا اور جرمانہ کا التزام ہے۔ تاہم مغربی دنیاسے متاثر سدومی افعال انجام دینے والوں کی ایک بھیڑملک عزیزکواس گندے دلدل میں لے جارہی ہے۔ عدالت عظمی نے ایل جی بی ٹی فرقہ کے پانچ افراد کی عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا ہے۔ عرضی گذاروں نے الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی فطر ی جنسی پسند کے معاملے میں پولیس کے خوف کے سائے میں جینے کے لئے مجبور ہیں۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سال 2013 میں دہلی ہائی کورٹ کے 2009 کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے دو بالغوں کے درمیان آپسی رضامندی سے بنائے گئے رلیشن کو جرم کے زمرہ میں ڈال دیا تھا۔

عرضی گزاروں کی درخواست پر چیف جسٹس دیپک مشراکی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے ہٹانے سے متعلق عرضیوں پر سماعت کررہی ہے۔ اس بنچ میںجسٹس آر ایف نریمن، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندوملہوترہ بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے اس سلسلے میں جواب مانگاتھا۔ عدالت میں مرکزی حکومت کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشارمہتہ نے 11؍جولائی 2018ء بروزبدھ سپریم کورٹ میںتین صفحات کا حلف نامہ داخل کرکے کہاکہ مرکزی حکومت کا دفعہ 377 کے آئینی جواز سے متعلق کوئی موقف نہیں ہے، انھوں نے گیندکوسپریم کورٹ کے پالے میں ڈالتے ہو کہاکہ اب یہ عدالت پرمنحصر ہے کہ ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے میں شمار کرتی ہے یا نہیں۔

قضاء شہوت کے تمام غیر فطری راستے کو اسلام سمیت تمام آسمانی کتابوں نے سختی سے بند کردیا ہے۔ ہم جنس پرستی کی تمام شکلیں تمام آسمانی مذاہب میں حرام وناجائز ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس مکروہ اور خسیس ترین عمل کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اورعلماء امت کا اس پر اجماع ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے::

’’وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُم بِھَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِینَ ٭إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَائِ  بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ٭وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوھُم مِّن قَرْیَتِکُمْ  إِنَّھُمْ أُنَاسٌ یَتَطَھَّرُونَ ٭ فَأَنجَیْنَاہُ وَأَھْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ ٭ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْھِم مَّطَرًا  فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِینَ٭ ‘‘ (سورۃ الاعراف:۸۰-۸۴)

ترجمہ:لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کیاتم ایسی برائی کرتے ہوجوتم سے پہلے دنیاوالوںمیں سے کسی نے بھی نہیں کیا، تم اپنی شہوت عورتوں کے بجائے مردوں سے پوری کرتے ہوبلکہ تم لوگ اللہ کے حدود سے تجاوز کرنے والے ہو، اور ان کی قوم کے لوگ کہنے لگے اے بستی والوں تم لوگ انہیں اپنی بستی سے نکال دو، اس لیے کہ یہ لوگ بہت پاک بنتے ہیں۔ پھر ہم نے اسے اوراس کے گھر والوں کونجات دی سوائے اس کی بیوی کے جوہلاک ہونے والوں کے ساتھ رہ گئی۔ اور ہم نے ان پرپتھروں کی بارش نازل کردی، توآپ دیکھ لیجئے کہ مجرموں کا انجام کیساہوتاہے۔ ایک جگہ فرمایا:

’’فَلَمَّا جَائَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّن سِجِّیلٍ مَّنضُودٍ ٭ مُّسَوَّمَۃً عِندَ رَبِّکَ  وَمَا ھِيَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِید‘‘(سورۃ ہود:۸۱-۸۲)

ترجمہ: جب ہمارا عذاب آگیاتو ہم نے ان کی بستی الٹ پلٹ دی اورایک دوسرے سے جڑے ہوئے کنکریلے پتھروں کی بارش کردی، جواللہ کی طرف سے نشان زد تھے اوریہ بستی مکہ کے ظالموں سے دورنہیںہے۔

قرآن میں اور بھی کئی مقامات پر اس فعل کے مرتکبین کے بارے میں دردناک عذاب کاتذکرہ کیا گیاہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

’’من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ‘‘(ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مستدرک علی الصحیحین)

’جب تم کسی کو قوم لوط کاعمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل ومفعول دونوںکو قتل کردو‘۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے:قوم لوط کا فعل ایک شنیع جرم اورکبیرہ گناہ اورحرام کردہ فحش کام ہے، جیسا کہ خنزیر کا گوشت، خون، شراب، زنا، اورسب معاصی وگناہ حرام ہیں، جس نے بھی اسے حلال جانا یا پھر اوپربیان کی گئی اشیاء میں سے کوئی بھی چیز حلال جانی توکافر اورمشرک ہے اس کا خون اورمال حلال ہے۔ دیکھیں محلی ابن حزم (12 / 389)۔ اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:اہل علم کا لواطت کی حرمت پر اجماع ہے، اوراللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی اوریہ فعل کرنے والے کوعیب دار کہا ہے۔ اورابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے استاد وشیخ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی وغیرہ سے صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے کہ جوبھی قوم لوط کا عمل کرے اسے قتل کردیا جاؤ، لیکن انہوں اسے قتل کرنے کے طریقے میں اختلاف کیا ہے۔ دیکھیں زاد المعاد لابن قیم (5 / 40)۔

آج کل ہم جنس پرستی ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے مغربی ملکوں میں باقاعدہ اس پر فلمیں بنائی جارہی ہیں، ہندوستان میں بھی اس کی تائید میں فلمی اداکاروں اور فلمی صنعتکاروں کے بیانات دبے لفظوں میں آرہے ہیں۔ اب اگر سپریم کورٹ کی طرف سے ایل جی بی ٹی فرقہ کے حق میں فیصلہ صادر ہوتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان میں یہ وباپھیل جائے۔ حکومت اوراس کے کارندوں سمیت ملک کے ہر شہری کو اس بات کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ چندایک کے کہنے پر پورے سماج ومعاشرے کو اس بری لت میں نہ ڈھکیلاجائے، ابھی تک یہ مذموم فعل سماج ومعاشرہ اور پولیس انتظامیہ سے پوشیدہ رہ کیے جارہے ہیں قانونی جوازفراہم ہونے کے بعدعلی الاعلان کیے جانے پر معاشرے میںبگاڑکاخدشہ ہے۔ اس کی قباحت وشناعت قبل از وقت سمجھنے کی ضرورت ہے، تمام ادیان ومذاہب اور افکار ونظریات کے لوگوں کواس سدومی فعل سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہندوستانی تہذیب وثقافت اورفطرت کے خلاف یہ عمل ہے۔ علماء ودعاۃ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلم معاشرہ سمیت غیرمسلموں میں اس وبائی اورذہنی مرض سے متعلق دلائل کی روشنی میں گفتگو کریں اور انہیں اس بات پر ابھاریں کہ وہ اس برائی کو سمجھیں، مثبت سوچ وفکر اور جمہوری طرز احتجاج کے ذریعہ حکومت تک اپنی بات پہنچائیں تاکہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سخت موقف اختیار کرے اور اپنے پرانے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے گے رلیشن کو ناجائز قرار دے اور سخت سے سخت انتباہ دیتے ہوئے جرم ہی کے زمرے میں شامل رکھے۔ ساتھ ہی بحیثیت مسلم قوم ہماری ذمہ داری کہ ہم مقننہ، عدلیہ اور حکومت کوباخبرکریںاورجہاں تک ممکن ہوسکے کوشش کریں کہ اس ملعون فعل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے۔ اللہ ہماراحامی وناصر ہو۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہم جنس پرستی ایک ایسا گناہ ہے جس کی بناپر ایک پوری امت پر ہلاکت کا عذاب نازل ہوا۔ کسی بھی قوم نے ان افعال کو احسن نہ گردانا۔ فطرت کے خلاف اور بے شمار بیماریوں کی بنیاد یہ افعال ہیں۔
    ہم جنسیت ایک قدیم جنسی رویہ اور جدید تصور ہے۔ اس تصور کے مطابق دو ہم جنس افراد اگر چاہیں تو باہمی رضا مند ی سے جنسی خواہش کی تسکین کریں، اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور اسے قانونی حیثیت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
    ہم جنسی میں” ایک ہی جنس کے دوافراد ، ایک دوسرے کی جنسی خواہش پوری کرتے ہیں۔ یہ فعل عورت اور مرد دونوں ہی کرتے ہیں ۔عموما یہ جیلوں ،ہاسٹلوں اور دیگر اقامتی اداروں میں زیادہ ہوتا ہے ۔
    مغربی ممالک میں ان کے کلب ہوتے ہیں ، ان کی بے حد فعال تنظیمیں ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شادیوں کو پوری طرح قانونی تحفظ مل چکا ہے۔

    یہاں یہ واضح رہے کہ اغلام بازی اور ہم جنسیت دو الگ الگ رویے ہیں۔ اغلام بازی میں بچوں کو بہکاکر مفعول نسوانی کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جب کہ ہم جنسیت ایک جنسی تصور ہے جس میں دو بالغ افراد باہمی رضامندی سے شعوری طور پر اس بد فعلی کو انجام دیتے ہیں ۔
    یہ اتنے گھناؤنے افعال ہیں کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قابل عذاب جرم قرار دیے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ تمام مذاہب ان افعال کی نفی کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ برائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور سوشل میڈیا اس کو پھیلانے اور لوگوں کو ترغیب دینے کو ذریعہ بنا۔
    یہ نہ صرف دین کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اگلی نسلوں کو دین سے دور کرنا بھی مقصود ہے۔
    ہمارے لیے بہت اہم بات وہ یہ کہ ہم والدین ؛ والدہ بیٹی کو اور والد بیٹے کو؛ مکمل اور کھول کھول کے ، ان کی عمر کے مطابق یہ باتیں بتائیں اور خصوصی طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں۔۔۔۔
    اللہ کرے ہماری دنیا اسلام اس سے بچ جائے۔۔آمین

تبصرے بند ہیں۔