خواتین کے خلاف جرائم گھٹ کیوں نہیں رہے؟

رويش کمار

دہلی کے ساکیت کورٹ میں ایک خاتون وکیل کے ساتھ عصمت دری کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ملزم، وکیل ہی ہے اور واقعہ کورٹ کے احاطے میں ہوا ہے۔ وکیل گرفتار ہو چکا ہے اور اس کا چیمبر سیل کر دیا گیا ہے۔ میں اس کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کیونکہ کسی رپورٹ میں بھارت کو خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ جگہ بتایا گیا ہے۔ میں اس لیے بھی نہیں کر رہا کہ کچھ لوگ اپنی بھڑاس نکالنے آجائیں کہ ان سب کو چوراہے پر پھانسی دے دینی چاہیے۔ دراصل میں اسی لیے کہہ رہا ہوں، کیونکہ پھانسی پھانسی کرکے ہم نے حاصل کچھ بھی نہیں کیا۔ کئی ریاستوں نے پھانسی کی سزا طے کر دی، مگر ہمارے معاشرے میں عورتوں پر ظلم  خاتمہ نہیں ہوا۔ خاتمہ چھوڑییے، لگتا نہیں ہے کہ ایسے واقعات کم ہو رہے ہیں بکہ آئے دن ایسا واقعہ ضرور ہو جاتا ہے جو پچھلے واقعہ سے زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔

13 جولائی کی رات اسی جگہ (تصویر میں دیکھیے) پر ایک عورت کی عصمت دری کے بعد اسے آگ میں جھونک دیا گیا۔ یہاں جس عورت کی راکھ ہے وہ جب زندہ تھی تب اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ تھی۔ تبھی پانچ لوگ آئے اور اسے اغوا کرکے لے گئے۔ اس کے ساتھ ان پانچوں نے عصمت دری کی اور وہیں پر چھوڑ دیا۔ ان کے جانے کے بعد خاتون پولیس کو 100 نمبر پر کال کرتی رہی مگر کسی نے اٹھایا نہیں۔ شوہر کو فون ملایا مگر نہیں ملا۔ بھائی ستیش کو نمبر لگایا تو فون لگ گیا، تو ساری بات بتا دی۔ اس دوران مجرم پھر لوٹ کر آئے اور عورت کو وہاں سے اٹھا کر لے گئے۔ مندر کے پاس پجاری کی کوٹھری میں عورت کو جلتی آگ میں جھونک دیا۔ اس کی چیخ کسی نے نہیں سنی، وہ جل کر مر گئی۔ ستیش نے بتایا کہ جب وہ آدھی رات کے بعد پہنچا تو دیکھا کہ بہن جل رہی تھی اور وہاں ان کی ساس بیٹھی رو رہی تھی۔ اس وقت آگ جل رہی تھی، جسے ستیش نے ہی بجھایا۔

ستیش نے بتایا کہ پجاری کی کوٹھری خالی تھی۔ پجاری باہر چلا گیا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر درندے عورت کو وہاں لے گئے اور جلا دیا۔ مندر کے پجاری کی کوٹھری کا ذکر اس لیے نہیں کیا ہے کہ کوئی دوبارہ سوشل میڈیا پر مندسور جیسے واقعہ کے بہانے ہندو مسلم کرنا شروع کر دے۔ یہ واقعہ پجاری کی کوٹھری کے علاوہ بھی کہیں ہوا ہوتا تو بھی اتنا ہی وحشیانہ کہلاتا اور ہم سب کو شرمسار کرنے کے لیے کافی تھا۔ آپ تو اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں مگر اس جگہ پر جمع ان عورتوں کے بارے میں ایک لمحے کے لیے سوچیے، وہ کیسے اندر تک سہم گئی ہوں گی، ان کے پاس شاید ہمارے آپ کے جیسے الفاظ نہیں ہوں گے، مذمت کرنے کے، سہتے رہنے کے الفاظ کے علاوہ۔

ٹھیک ایسا واقعہ اسی سال مئی کے مہینے ہو چکا ہے۔ جھارکھنڈ کے چَترا میں 18 سال کی ایک لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے بعد جب خاندان والوں نے پنچایت سے شکایت کی تو پنچایت نے مجرموں کو پولیس کے حوالے نہیں کیا بلکہ ان پر جرمانہ عائد کر دیا۔ مجرموں نے پنچایت کا فرمان ماننے سے انکار کر دیا اور درندوں نے گھر میں گھس کر آگ لگا دی اور لڑکی جل کر مر گئی۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ دراصل بھارت کے مرد دنیا کی سب معصوم مخلوق ہیں۔ وہ کسی بھی چیز کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، کیونکہ قانون کے راج نے ان کا صحیح سے علاج کبھی نہیں کیا۔ سماج اور سیاست نے انہیں ہمیشہ ہی سر پر چڑھا کر رکھا ہے۔ مناسب طریقے سے علاج ہوا ہوتا تو دہلی کی ایر ہوسٹِس اَنیسيا کو چھت سے کود کر جان نہیں دینی پڑتی۔ جون کے مہینے میں ہی ان کے والد نے تھانے میں شکایت درج کرائی تھی کہ انیسيا کا شوہر جہیز کے لیے ہراساں کرتا ہے۔ انيسیا کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ آج کی لڑکیاں اپنے ملک اور معاشرے کے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی؟

کرناٹک کے بیدر میں گوگل میں کام کرنے والے انجینئر محمد اعظم احمد کی کار الٹی پڑی ہے۔ اس کے ارد گرد بھیڑ کھڑی ہے۔ بھیڑ پولیس کے ساتھ جھگڑا کر رہی ہے کہ الٹی پڑی گاڑی سے زخمیوں کو نہ نکالے کیونکہ اس میں بچہ چور ہیں۔ یہ چار لوگ مسلم اکثریتی علاقے میں کسی بچے کو چاکلیٹ بانٹ رہے تھے، تبھی مَنُور کمار نے مبینہ طور پر ان کی تصویر لے کر وہاٹس ایپ پر ڈال دی کہ یہ بچہ چور ہیں۔ بس وہاں بھیڑ پہنچ گئی۔ یہ چاروں اپنی اس لال گاڑی میں بھاگنے لگے جو یہاں الٹی پڑی ہے۔ ہمارے ساتھی نہال قدوائی کا کہنا ہے کہ پولیس کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کا انتظار ہے تبھی پتہ چلے گا کہ محمد اعظم کو بھیڑ نے مارا ہے یا بھاگتے ہوئے ان کی کار گر کر تباہ ہو گئی، جس کی وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔ اعظم کے دو ساتھی اب بھی ہسپتال میں ہیں اور ایک کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ بھیڑ انہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کر سکتی تھی مگر گھیر کر مار دینے کی سَنَک کہاں سے پیدا ہو رہی ہے، اس پر آپ کو جلد ہی گہرائی سے سوچیں، کیوں کہ یہ وہی سَنَک ہے جو ایک عورت کو عصمت دری کے بعد جلا دیتی ہے اور وہاٹس ایپ دیکھنے کے بعد کسی کو گھیر کر مار دیتی ہے۔

ہر طرف بھیڑ کام پر ہے۔ وہ کب کس افواہ کی بنیاد پر کسے گھیر لے گی اور مار دے گی پتہ نہیں۔ ہمارے ساتھی سری نواسن جین کی ‘Truth vs Hype’ میں اس بات کی پڑتال کی گئی ہے کہ ایسی افواہوں کے پیچھے صرف وہاٹس ایپ نہیں ہے، بلکہ مقامی سطح پر میڈیا بھی ایسی افواہوں کو خبر کے طور پر چھاپ دیتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اسے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ شروتی مینن کی دُھلے سے رپورٹ بتاتی ہے کہ راشد نام کے شخص نے اس طرح کی افواہ کے ویڈیو کیپسول بنا کر میڈیا لائیو چینل پر چلایا تھا جس میں ایسی اطلاع پولیس کو دینے کی بات کہی گئی تھی۔ جھارکھنڈ سے بھی یہی خبر ہے کہ ایسی خبریں مقامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔

یوپی کے ہاپوڑ میں قاسم کو جس بھیڑ نے گھیر کر مارا اس میں زیادہ تر بچے اور نوجوان ہی نظر آتے ہیں۔ ان تک افواہ پہنچی کہ انہوں نے گائے کو مار دیا ہے۔ بعد میں قاسم کو گھسيٹ كر لے جاتی پولیس کی یہ تصویر بھی سامنے آئی، جس کے لیے یوپی پولیس نے معافی مانگی تھی۔ پولیس نے اس معاملے میں 4 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ يدھشٹھر سنگھ سسودیا کو اہم ملزم بنایا گیا ہے۔ ویسے 18 دن بعد وہ ضمانت پر باہر بھی ہے اور اپنے گھر میں ہے۔ اتنی آسانی سے بیل ملنے کو لے کر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ پولیس نے اس معاملے میں فرقہ وارانہ جھگڑے کا ذکر نہیں کیا۔ پولیس نے موٹر سائیکل کو لے کر جھگڑا بتایا ہے۔ لیکن قاسم کے ساتھ سمیع الدین کے بھائی نے بتایا کہ اس کا قتل گومانس کے شبہ کی بنیاد پر ہی کیا گیا ہے۔ اس کے خاندان کو دھمکی دی گئی کہ جب تک شکایت پر دستخط نہیں کرے گا بھائی سے ملنے نہیں دیا جائے گا۔ جبکہ بیل کے حکم میں لکھا ہے کہ پولیس کیس میں اسے روڈ ریز یعنی سڑک حادثے کے وقت غصے کو وجہ بتایا گیا۔ مگر کیس ڈائری میں لکھا ہے کہ گؤ کشی کو لے کر معاملہ بھڑکا تھا۔

پولیس کہتی ہے کہ اس کے پاس سمیع الدین کا بیان ہے مگر اس نے کوئی بیان ہی نہیں دیا ہے۔ ‘Truth vs Hype’ کی مریم نے یہ سب پتہ لگایا ہے۔ قاسم کے خاندان والوں نے کہا کہ قاسم بکری کا بزنس کرتا تھا, گائے کا نہیں۔ مریم نے اہم ملزم سے بات کی تو وہ صاف صاف کہہ رہا ہے کہ گؤ مانس کو لے کر ہی جھگڑا ہوا تھا۔

کبھی بھی کہیں بھی بھیڑ بن جا رہی ہے۔ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس بھیڑ کے پیٹرن کو سمجھنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ وزیر اعظم آج مغربی بنگال کے مدناپور میں پروگرام کر رہے تھے، ان کے منچ کے بغل والا شامیانہ گر گیا۔ وزیر اعظم وہاں سکون سے کھڑے رہنے کی اپیل کرتے رہے اور خود بھی کھڑے رہے۔ چالیس لوگوں کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ وزیر اعظم کے لیے آئی ایمبولینسوں کو بھی اس کام میں لگا دیا گیا۔ قائدے سے وزیر اعظم کے پروگرام میں ایسے واقعہ کو تحفظ میں چوک سمجھا جانا چاہیے۔

اب جو آپ دیکھ رہے ہیں، اسے آخری بار کے لیے بالکل نہیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تصاویر مغربی بنگال سے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس میں لوگ پہنچ نہیں پائے تو غصہ پولیس والوں پر نکال دیا۔ كھڑگ پور کے قریب بی جے پی کے حامیوں نے پولیس اہلکار کی پٹائی کر دی۔ ایک اور سپاہی کو بھیڑ نے دوڑا لیا۔ ایک جگہ پر سپاہی کو چپلوں سے مارا گیا۔ ایک ایڈیشنل ایس پی زخمی ہوئے ہیں۔ ہمارا ملک واقعی بدل رہا ہے۔ بھیڑ اپنا کام کر رہی ہے۔

آج کل آپ ایسی خبریں کافی دیکھتے ہوں گے کہ دلت دولہا کو گھوڑی پر چڑھنے نہیں دیا گیا۔ “سنگھ’ ٹائیٹل لگا لیا تو اس کی پٹائی کر دی گئی۔ دَلِت دولہا نے اپنی بارات نکالنے کے لیے پولیس سیکورٹی کا مطالبہ کیا۔ یہ خبریں بتا رہی ہیں کہ ان نوجوانوں نے اپنے لیے جگہ نہیں مانگی ہوتی تو آپ آج بھی الجھن میں رہتے کہ نسل پرستی کا زہر مٹ گیا ہے۔ اگر گاؤں میں خود کو دبنگ کہلانے میں فخر محسوس کرنے والی ذات یا قومیں دلتوں کو بارات تک نکالنے نہیں دے رہی ہیں تو سوچیے ذات پات مٹا نے کی یہ جدوجہد ابھی اور کتنی طویل ہے۔ کیا ذات کا حق اور گھمنڈ اتنا بڑا ہے کہ آئینی حق حاصل کرنے کے لیے اس کے سامنے انتظار کرنا پڑے گا، اس سے لڑنا پڑے گا۔

پولیس کی بارات کے پیچھے جس سنجے جاٹو کی بارات آرہی ہے وہ اس طرح سے نہیں نکلتی اگر اس نے ضلع انتظامیہ، وزیر اعلی کو خط لکھنے سے لے کر ہائی کورٹ جانے کا جھمیلا نہیں مول لیا ہوتا۔ گاؤں کے ٹھاکر دلت کے گھوڑے پر بیٹھنے کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک دلت گھوڑے پر نہیں بیٹھا تو اب بھی نہیں بیٹھے گا۔  کیا سنجے کو بگدھی پر بیٹھنے سے روکنے والی برادری خود کو قانون اور آئین سے بالاتر سمجھتی ہے۔ چھ ماہ لگ گئے سنجے کو اس چھوٹی سی آزادی کو حاصل کرنے میں۔ بعد میں انتظامیہ کو گاؤں کے چپے چپے پر پولیس کو تعینات کرنا پڑا اور بارات نکلی۔ جو لوگ بارات کی مخالفت کر رہے تھے ان کے پیچھے خفیہ ایجنسی تک لگائی گئی۔ گاؤں کے جو لوگ خود کو دبنگ سمجھتے ہیں ان کے پاس یہ طاقت کہاں سے آتی ہے کہ دوسرے کی شادی بیاہ میں دخل دینے چلے جاتے ہیں۔

ان خبروں سے گزرتے ہوئے آپ کو جو بھارت دکھا، کیا اس کا حل ہندو مسلم ڈبیٹ میں ہے؟ کبھی آپ کو خود سے اور دوسروں سے پوچھیں گے کہ یہ بحث کب تک چلے گی اور کیوں ہر دوسرے دن چینلوں پر چلتی ہے؟ یہ نہیں پوچھ سکتے تو یہی پوچھ لیجیے کہ یہ بھیڑ اگر آپ کے گھر آجائے گی تو آپ کیا کریں گے؟

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔