ہم مسافر ہیں جہاں چاہیں ٹھہر جاتے ہیں 

جمیل اخترشفیق

 ہم مسا فر  ہیں جہاں  چاہیں ٹھہر جاتے ہیں

 ٹھوکریں ملتی ہیں ہرسمت، جدھر جاتے ہیں

میں تو دیوانہ طبیعت ہوں مجھےکیامعلوم

حادثے کتنے مر ے سر  سے  گزر  جاتے ہیں

جانے کس عہد میں بھیجا ہے خدانے مجھ کو

لوگ جینے  کے  تصور   سے  ہی مر جا تے ہیں

کیسی وحشت کا  تسلط  ہے  مرے  بچوں پر

رات کیاصبح کو بھی خواب میں ڈرجاتےہیں

لوگ  کہتے  ہیں  جنہیں  اپنے  زمانے  کا  ولی

وہ بھی میخانے سے ہوتے ہوئے گھر جاتے ہیں

کتنی نازک ہےشفیق ان کی طبیعت مت پوچھ

گرکے شیشے کی طرح پل میں بکھر  جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔