ہندوستانی صحافت کی آبرو: رویش کمار

محمد شعیب القاسمیؔ

صحافت (پتر کاریتا) ایک مقدّس، معتبر و متبرک پیشہ ہے۔جو حق و صداقت کا امین و محافظ ہے بلکہ مجبوروں و مظلوموں کا معین و مددگار بھی ہے، حق پرستوں کا رفیق و دمساز بھی ہے ‘اور ظالمو ں ‘جابروں و بد معاشوں کا محاسب بھی ہے، ظلم و زیادتیوں اور نا انصافی و حق تلفیوں کے خلاف آواز حق بھی ہے۔

آج ہندوستان میں جابر و ظالم زمام اقتدار تھامے ہوئے ہیں ،ان کا طوطی بول رہا ہے اور حق پرستو ں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن چکی ہے،اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اپنے ضمیروں اور قلم کا سودا کر چکی ہے اور حق پرست اہل ِ قلم اپنی انگلیاں فگار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ،صحافت خصوصاً الیکٹرانک میڈیا حکمرانوں کی خوشنودی و قصیدہ خوانی میں مصروف ہے۔ایسے حالات میں قلم کا ایک سپاہی حق و باطل کے معرکہ میں آخری جنگ لڑتا ہوا سینہ سپر ہے جسے آج دنیا روش کمار کے نام سے جانتی ہے،

ہندوستانی صحافت نے کبھی اتنے بُرے دن نہیں دیکھے تھے جیسے آج دیکھ رہی ہے، ایسا وقت تو کبھی انگریزوں کی غلامی کے دور میں بھی نہیں آیا کہ صحافت حکمرانوں ‘ جابروں اور ظالموں کی ہمنوا رہی ہو۔ ایسا دور تو اندرا گاندھی کی لگائی ہوئی ایمرجنسی میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ صحافت اپنا فریضۂ منصبی چھوڑ کر حکمراں کے گن گا رہی ہو، جب حکمرانوں یا اہل ِ اقتدار کی چاپلوسی اہلِ صحافت کا شعار بن جائے تو وہ صحافت کے لئے بد ترین دور ہوتا ہے اور فی الحال ہندوستان اِ سی دور سے گذر رہا ہے ۔

حق بیانی ‘ اظہار حق ‘ کی بجائے حقائق سے پردہ پوشی آجکل الیکٹرانک میڈیا کا معمول بن چکا ہے،صرف ایک روش کمار اور ان کا NDTVہے جو حق و انصاف کا علمبردار بن کر باطل قوتوں کے سامنے پوری جرأت اور بے باکی سے کھڑا ہوا ہے،دادری میں اخلاق کے سفا کانہ قتل سے لیکر آج تک گئو کشی کے نام پر ہونے والے مظالم پر پوری طاقت کے ساتھ ظالموں کیخلاف آواز بلند کرتا رہا ہے، نوٹ بندی کے فیصلہ پر عوامی تکالیف کو صرف این ڈی ٹی وی نے پیش کیا جبکہ بقیہ سارے چینل وزیرِ اعظم کی قصیدہ خوانی میں مصروف تھے، جی ایس ٹی او ر دیگر سارے عوام مخالف فیصلوں اور احکامات و اقدامات پر عوام کی آواز بن کر صرف روش کمار ہی کی آواز بلند ہوتی نظر آتی رہی ہے۔آر ایس ایس اور انکی غنڈہ عناصر کے خلاف اٹھنے والی ایک اور آواز گئوری لنکیش کو گولی مارکر قتل کردیا گیا، ان کو ۵؍ ستمبر کو بنگلور میں گولی ماردی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ سچائی اور حق و صداقت کی آواز کو خاموش کردیا گیا، ستمبر ہی کی 16؍ تاریخ 1857 میں اردو کے ایک حق پرست صحافی اور”دہلی اردو اخبار”کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو انگریز سرکار نے بغاوت کے الزام میں گولی ماردی تھی،لیکن ظلم کے خلاف آواز نہ مولوی محمد باقر کو مارنے سے دبی تھی اور نہ گئوری لنکیش کو مارنے سے دبنے والی ہے اورنہ ہی روش کمار کو قتل کی دھمکیاں دینے سے حق و صداقت کی آواز کو دبایا جا سکے گا۔

محرم کا مہینہ جاری ہے، حق و صداقت کے امین و علمبردار حضرتِ حسین ؓ کو بھی اسی ماہ میں صرف اظہارِ حق کی بناء پر شہید کردیاگیا تھا، انھیں مارنے والے حکمران ملعون و مطعون ہوئے اور حسین ابنِ علی شہید ِ حق قرار پائے، ظالم حکمراں کے سامنے کلمۂ حق کا اظہار ایک انبیائی سنّت ہے، صحیفہ اُس کتاب یا پیغام کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی طرف سے بندوں کے لیئے نازل ہوتا ہے، اور انہی مقدس صحیفوں سے صحافت کا لفظ مشتق ہے، سچی صحافت کا ہر قلم کار انبیاء کے مشن کا جانشین ہے، جس طرح حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کے سامنے اظہار حق کیا، جس طرح حضرت ابراھیم ؑ نے نمرود کی خدائی کے دعوے کو چیلینج کیا، جس طرح حضرت محمد ﷺ نے سرداران مکہ کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیا اسی حق و صداقت کوپیش کرنے کا نام صحافت ہے۔ اور ضروری ہے کہ ہماری کچھ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بھی اس مشن کا فریضہ انجام دیں اور حق و صداقت کی اعلیٰ مثال بنیں، کیونکہ اس مشن کے حقیقی امین ہم ہیں ، اس مشن کی پاسداری کی ذمہ داری ہماری ہیکہ ہم پوری دیانتداری سے اس فریضہ کو انجام دیں کیونکہ صحافت کبھی بھی حکمرانوں ، جابروں اورمنافقوں کی لونڈی نہیں رہی۔لیکن آج کے صحافیوں کے طرز عمل سے صحافت کی جس طرح رسوائی ہو رہی ہے تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی، روش کمار صحافت کی اعلیٰ روایات اور اسکی بے باکی کے سچے امین اور علمبردار ہیں ۔ جس بے باکی سے وہ مظلوموں و بے کسوں کی آواز کو بلند کر رہے ہیں ، حکمرانوں کی بداعمالیوں کا پردہ فاش کر رہے ہیں ، صحافت کی اقدار کی پاسداری و پاسبانی کر رہے ہیں ۔ ان کی اس عظیم کارکردگی کو صحافت کی تاریخ میں سنہرے حرفوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

حکمراں طبقہ کے غنڈہ عناصر انھیں نہ صرف فون، واٹس اپ، فیس بک پر دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ مغلظات کی بھی بارش کر رہے ہیں ۔ ان کو اور ان کے نیوز چینل کو طرح طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ اسکے باوجود روش کمار اور پرنورائے سر ہتھیلی پر رکھ کر حق و صداقت کے اظہار میں پوری طرح ثابت قدمی سے بے خوف خطر مصروفِ کار ہیں۔ ان کی ان خدمات کو صحافت کا مورخ حرف بہ حرف، لمحہ بہ لمحہ حروفِ زر سے ریشم کے قرطاس پر رقم کر رہا ہے۔ حکومت کے زر خرید صحافیوں کے طرزِ عمل سے دل برداشتہ صحافت روش کمار کے بے باکانہ اظہار ِ حق پر فخر سے سینہ پھیلائے مطمئن ہے کہ کوئی تو اس کا ایسا فرزند ہے جو اسکی ناموس کی حفاظت میں مصروف ہے اور اسکی ناموس کی حفاظت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

   میری ملی قائدین سے درخواست ہے کہ وہ NDTV   کے20 فیصد حصص خریدنے یا شئیر میں حصہ داری کرنے پر غور کریں۔ پھر اسی ٹی وی شو کے ذریعے ہندوستان کے تمام مذاہب کے درمیان قومی یکجہتی کو فروغ دیں ۔ کیونکہ NDTV یکجہتی اور خود مختاری کے اعلیٰ ترین معیار کی مکمل پاسداری کرتی ہے۔حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے روش کمار اور انکا اینڈی ٹی وی، فرقہ پرست اور سماج دشمن عناصر کے نشانے پر ہے اور روز بہ روز اُس کے خلاف شاطرانہ چال چلائی جا رہی ہے۔ مخالفانہ آندھی این ڈی ٹی وی اور روش کمار کی آواز کو خاموش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔روش کمار ان تمام مخالفت اور مخالف آندھیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت میں گودی میڈیا کا رول ادا کرنے تیار نہیں ۔ ہم روش کمار کو انکی اس بے باکانہ خدمات اور ناموس ِ صحافت کی حفاظت پر سلام کرتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔