ہندوستان میں ناجائز تعلقات کی کھلی چھوٹ 

مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی

ہندوستانی قوانین کے مطابق اب تک میاں بیوی کا کسی دوسرے شخص سے ناجائز تعلق جرم کے زمرے میں آتا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے 27 ستمبر 2018 کو 157 سالہ ہندوستانی قانون (دفعہ 497) کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ جس کے بعد شوہر کا دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلق اور بیوی کا دیگر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلق زنا نہیں کہلائے گا، یعنی اب بیوی جب چاہے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی بھی مرد سے جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے، اور اسی طرح شوہر جس وقت چاہے کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی عورت کسی شخص کی کمپنی میں کام کرتی ہے تو وہ عورت اپنے باس کے ساتھ جہاں چاہے گھوم سکتی ہے اور جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے، باس کی بیوی کو اپنے شوہر یا اپنے شوہر کی کمپنی میں کام کرنے والی عورت کے خلاف قانونی طور پر بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے فیملی ڈرائیور سے جنسی تعلقات رکھنا چاہتی ہے تو شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سے قبل 6 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے 158 سالہ ہندوستانی قانون (دفعہ 377) کو غیر آئینی قرار دے کر یہ فیصلہ دیا تھا کہ مردوں یا عورتوں کا آپس میں جنسی تعلقات قائم کرنا جرم نہیں ہے، یعنی دو مرد یا دو عورتیں آپس میں بھی شادی کرسکتی ہیں۔ اِن دونوں فیصلوں کے جو اسباب بیان کیے گئے ہیں، اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ قوانین ہندوستان کی اُن قدیم روایات پر مبنی ہیں جن کے تحت عورت مرد کے تابع تھی۔ اب آزادی کا دور ہے، عورت شادی کرنے کے بعد شوہر کی غلام نہیں بن جاتی، بلکہ وہ شادی کرنے کے باوجود کسی بھی مرد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا مکمل حق رکھتی ہے خواہ اُس کا شوہر اور اُس کے گھر والے اس کے لیے اجازت دیں یا نہ دیں، اسی طرح اس کے برعکس مرد بھی شادی کرنے کے باوجود کسی بھی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کے یہ دونوں فیصلے ہندوستانی ثقافت اور انسانیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے تمام مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے ان کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا جارہا ہے کیونکہ اس کے بعد جہاں بے حیائی اور عریانیت میں اضافہ ہوگا، وہیں روزانہ گھر گھر میں جھگڑے بھی ہوں گے اور طلاق کے واقعات کثرت سے واقع ہوں گے۔

چند دنوں بعد 2 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے اہم مسائل پر جلد بازی کے فیصلے عمومی طور پر ہندوستانی ثقافت اور انسانیت کے خلاف قرار دیے جارہے رہیں۔ چیف جسٹس صاحب سے اگر کوئی یہ درخواست کرے کہ 2 اکتوبر 2018 کو ریٹائرمنٹ سے قبل ایک اور تاریخی فیصلہ سنا جائیں، جس کے بعد نہ صرف ملکی پیمانہ پر بلکہ عالمی پیمانہ پر اُن کی شخصیت پر چرچا ہوگی، اور وہ یہ ہے کہ ہرماہ عورت کو حیض کا خون آنا، 9 مہینے کا حمل ٹھہرنا، حالت نزاع کی کیفیت، بچے کی پیدائش کے وقت عورت جن خطرناک مراحل سے گزرتی ہے، بچے کو دودھ پلانا اور نومولود بچے کے تمام کام صرف عورت ہی کیوں انجام دیتی ہے؟ بلکہ اِن کاموں میں بھی برابری ہونی چاہئے کہ پہلے ایک مرتبہ یہ سارے کام مرد انجام دے پھر دوسری مرتبہ عورت انجام دے! ظاہر ہے ان کا جواب یہی ہونا چاہئے کہ یہ تو قدرت کا نظام ہے، تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ یہ دونوں فیصلے بھی قدرت کے نظام کے خلاف ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور ملی وقومی تنظیموں کو ہندوستانی قوانین کے ماہرین سے مشورہ کے بعد ان فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے تاکہ ملک میں ہندوستان کی اکثر عوام کو سامنے رکھ قوانین بنائے جائیں، نہ کہ یورپ کے کلچر کو سامنے رکھ کر جہاں ماں باپ کی شناخت بھی ڈی ان اے کے ذریعہ کی جاتی ہے۔

امت مسلمہ کے تمام ہی مکاتب فکر قرآ ن وحدیث کی روشنی میں اِن دونوں فیصلوں سے بالکلیہ اختلاف رکھتے ہیں، یعنی ایمان وعمل کے اعتبار سے ادنی درجہ کا مسلمان بھی اِن اعمال کوحرام سمجھنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے ہی خلاف سمجھتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مختلف اسباب کی وجہ سے یہ دونوں گناہ بعض مسلمانوں میں بھی موجود ہیں۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں زنا کی حرمت اور اس کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ کم از کم ہم اپنے معاشرہ کو زنا جیسے گناہ سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔

نکاح کے بغیر کسی مرد وعورت کا مباشرت (Intercourse) کرنا زنا کہلاتاہے خواہ وہ طرفین کی اجازت سے ہی کیوں نہ ہو۔ اصل میں زنا نکاح کے بغیر مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونے کا نام ہے لیکن میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی مردو عورت کا ایک دوسرے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا یا ایک دوسرے سے جنسی شہوت کی بات چیت کرنا یا ایک دوسرے کا تنہائی میں ملنا یا ایک دوسرے کو چھونا یا بوسہ لینا بھی حرام ہے۔ ان افعال کو بھی سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے زنا کی ایک قسم قرار دیا ہے، اگرچہ ان افعال کی وہ سخت سزا نہیں ہے جو اصل زنا کی ہے۔ قتل، ظلم، جھوٹ، دھوکہ دھڑی اور چوری کی طرح زنا بھی ایک ایسا جرم عظیم ہے کہ تمام مذہب میں نہ صرف سختی کے ساتھ اس بڑے گناہ سے منع کیا گیا ہے، بلکہ زنا کرنے والے مرد وعورت کے لیے سخت سے سخت سزا بھی متعین کی گئی ہے۔  نہ صرف اسلام بلکہ عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی اس جرم عظیم کے مرتکبین کی سزا رجم (سنگ باری) ہے۔ یہ ایسا بڑا گناہ ہے کہ دنیامیں اس سے زیادہ بڑی سزا کسی دوسرے جرم کی متعین نہیں کی گئی کیونکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک تمام انسانی معاشروں نے اس جرم عظیم پر نہ صرف لعنت بھیجی ہے بلکہ ایسے اعمال سے بچنے کی تعلیم بھی دی ہے جو زنا کی طرف لے جانے والے ہوں۔

انسانی فطرت بھی خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ورنہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ جانوروں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔ دنیا کی بقا بھی اسی میں ہے کہ زنا کو حرام قرار دیا جائے اور اس کے مرتکبین کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ تمام پرندوں، چرندوں، درندوں اور اللہ کی دیگر مخلوقات پر حکومت کرنے والے حضرت انسان محض جنسی شہوت کو پورا کرنے کے لیے یہ دنیاوی زندگی گزارنے لگے کہ جب چاہا اور جس سے چاہا لطف اندوز ہوگیا تو انسانی تمدن ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ مرد وعورت میں نکاح کے عمل کے بعد صحبت کے نتیجہ میں اللہ کے حکم سے اولاد پیدا ہوتی ہے، ماں باپ اسے اپنی اولاد اور مستقبل کا سہارا سمجھ کر ان کے لیے تمام دشواریوں اور پریشانیوں کو برداشت کرتے ہیں، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں، نیز دوسروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کا بچہ یا بچی ہے تو رشتہ داری بنتی ہے اور پڑوس بنتا ہے، جس سے ایک دوسرے کے حقوق معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک معاشرہ بنتا ہے۔ اگر انسانوں کو بھی جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا تو انسانی تمدن کا خاتمہ ہوکر یہ دنیا بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔

اسلام نے صرف زنا کو حرام نہیں قرار دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ زنا کے پاس بھی نہ بھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔ (سورۃ الاسراء 32) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زنا کو فاحشہ قرار دیا ہے۔ سورۃ الانعام آیت 151 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے حیائی (فواحش) کے کاموں کے پاس بھی نہ بھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الاعراف آیت 33 میں اللہ تعالیٰ فواحش یعنی بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے: کہہ دو کہ میرے رب نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الفرقان آیت 67 میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور وہ نہ زنا کرتے ہیں۔ جو شخص بھی یہ کام کرے گااُسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن اُس کا عذاب بڑھا کر دوگنا کردیا جائے گا۔ اور وہ ذلیل ہوکر اُس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ فاحشہ کی جمع فواحش اور فاحشات آتی ہے۔ حدیث کی سب سے معتمد کتاب (صحیح بخاری) میں وارد احادیث میں سے چند احادیث پیش ہیں تاکہ موجودہ زمانہ میں پھیلتے ہوئے اس گناہ سے خود کا بچنا اور دوسروں کو بچانا ممکن ہوسکے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی۔ شراب پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ (بخاری) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے تو مومن رہتے ہوئے وہ زنا نہیں کرتا۔ (بخاری) یعنی ایمان کی نعمت اُس وقت چھین لی جاتی ہے یا ایمان کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی شخص زنا نہ کرے یا وہ شخص کامل مؤمن نہیں جو زنا کرے۔

زنا اور فحاشی کے اسباب:

نامحرم کو بلاوجہ دیکھنا:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آنکھوں کی زنا بد نظری ہے، اور کانوں کا زنا غلط بات سننا ہے، اور زبان کا زنا غلط بات بولنا ہے، اور ہاتھ کا زنا غلط چیز کو پکڑنا ہے، اور پیر کا زنا برے ارادے سے چلنا ہے، اور دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور پھر شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ بخاری

غیر محرم کے ساتھ باتیں کرنا:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا کہ اگر انہیں کسی وقت غیر محرم مرد سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ ہونے دیں، اور نہ ہی الفاظ کو بنا سنوار کر باتیں کریں۔ ارشاد باری ہے: اور نہ ہی چبا کر باتیں کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ تمنا کرنے لگے۔ اور تم معقول بات کرو۔ (سورۃ الاحزاب 4) عورت کی آواز اگرچہ ستر نہیں ہے، یعنی ضرورت کے مطابق عورت غیر محرم سے بات کرسکتی ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر عورت کی آواز میں کشش رکھی ہے۔ اسی لیے عورت کو فقہاء نے اذان دینے سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع کیا کہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے سامنے نرمی سے بات چیت کرے جس سے عورت کو مرد میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔ (النہایہ) اِن دنوں سوشل میڈیا کے زمانے میں غیر محرموں سے چیٹنگ کرنا، مختلف فوٹو شےئر کرنا اور آن لائن بات چیت کرنا کافی عام ہوگیا ہے، لیکن یہ بہت خطرناک بیماری ہے، اس سے اپنے بچوں اور بچیوں کو حتی الامکان محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ راستے ہیں جن کے ذریعہ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جن سے نہ صرف گھر اور خاندان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی دردناک عذاب ہوتا ہے۔

تاخیر سے شادی:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے نوجوانوں! جو تم میں سے جسمانی اور مالی استطاعت رکھتا ہے وہ فوراً شادی کرلے کیونکہ شادی کرنے سے نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ (بخاری) اِن دنوں کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے شادی میں عموماً تاخیر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان بچوں اور بچیوں کی شادی میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

اجنبی مرد وعورت کا اختلاط:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اجنبی مرد وعورت ایک جگہ تنہائی میں جمع ہوتے ہیں تو ان میں تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے، جو اُن کوگناہ پر آمادہ کرتا ہے۔ (مسند احمد) اِن دنوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مشترک تعلیم کی وجہ سے اجنبی مرد وعورت کا اختلاط بہت عام ہوگیا ہے۔ نیز خواتین کا ملازمت کرنے کا مزاج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ خواتین یقیناًشرعی پابندیوں کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کرسکتی ہیں، اسی طرح ملازمت اور کاروبار بھی کرسکتی ہیں۔ لیکن تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رائج موجودہ تعلیمی نظام اور دفاتر میں کام کرنے والی بے شمار خواتین جنسی استحصال کی شکار ہوتی ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلائیں یا خواتین کا ملازمت کرناحرام ہے، لیکن زمینی حقائق کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اس لیے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لیے حتی الامکان محفوظ اداروں کو اختیار کریں کیونکہ بہر حال اس دنیا کو الوداع کہہ کر ایک دن اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔