علامہ ڈرامہ

مبصر: محمد یحییٰ

(ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ سنٹرل یونیورسٹی ساگر)

مصنفہ:صالحہ صدیقی

صفحات: 111 

قیمت: 150روپئے 

کتاب ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

علامہ اقبال پر یوں تو بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہیں اور لکھنے کا سلسلہ بدستور جاری و ساری بھی ہیں، اردو اقبال واحدایسے شاعر ہیں جن پر اس قدر لکھا گیا ہیں، لیکن صالحہ صدیقی نے علامہ اقبال پر جو لکھاہہ کسی نے آج تک لکھنا تو دور سوچا بھی نہیں ہوگا، جی ہاں ! انھوں علامہ اقبال کی زندگی پر ڈرامہ لکھا جو ان سے پہلے کسی نے نہیں لکھا یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا اس بات کا اعتراف اردو کے ماہرین قلم نے بھی کیا ہیں بقول پیغام آفاقی صاحب:

 ’’علامہ اقبال کی زندگی پر مبنی میری نظر میں یہ پہلا ڈرامہ ہے، جسے صالحہ صدیقی نے بڑی خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی کو مرکز بنایا گیا ہے جس پر عموما کم ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ ‘‘(بحوالہ: ڈرامہ علامہ، ص103)

زیر تبصرہ کتاب ’’ڈرامہ علامہ ‘‘علامہ اقبال کی زندگی کے ارد گرد بنا صالحہ صدیقی کا لکھا ہوا بے حد خوبصورت ڈرامہ ہے، یہ ڈراما سات مناظرپر مشتمل ہیں۔ اس ڈرامے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے مختصر وقفے کے بعد ہی دوسرے ایڈیشن کی ضرورت محسوس کی گئی جس کا ذکر مصنفہ نے اپنے پیش لفظ میں بھی کیا ہے۔ پیش نظر ڈرامے کا دیباچہ عالمی شہرت یافتہ معروف افسانہ نگار مرزا حامد بیگ (لاہور، پاکستان)نے لکھا ہے، تو اس ڈرامے میں تقریظ ڈاکٹر طاہرحمیدتنولی (لاہور،پاکستان)نے۔ اس کتاب میں علامہ اقبال کی سوانح عمری بھی شامل ہے جس سے نئے پڑھنے والوں کو علامہ اقبال کو سمجھنے، جاننے اور ان کی شاعری سے واقفیت کا بھی موقع فراہم ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں مشاہر نقد و ادب کے نظریات بھی شامل ہیں۔

اس ڈرامے کے مطالعہ سے مصنفہ کی محنت اور تحقیقی کاوش کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ شاعر مشرق کی شاعری، فکر،فن، فلسفہ پر یوں تو بے شمار لکھا گیا ہیں اور ہر روز ایک نئے نکات پر خامہ فرسائی بھی کی جاتی ہے لیکن ان کی ازدواجی زندگی، ان کی ذاتی زند گی، ان کی شخصیت، ان کے درد و کرب پر ڈراما لکھنا واقعی قابل تعریف ہے۔ بقول پیغام آفاقی:

’’اس ڈرامے میں علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی کو مرکز بنایا گیا  ہے جس پر عموما کم ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ ڈرامے کے مطالعے سے اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ صالحہ صدیقی ڈرامے کے فنی لوازمات، حسن اور اس کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتی ہے۔ علامہ اقبال کی زندگی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کی جرأت واقعی قابل تعریف ہے۔ میں صالحہ صدیقی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کہ یہ ڈرامہ از جلد اسٹیج پر بھی پیش کیا جائے گا۔ ‘‘ (ص 103)

اسی طرح اس ڈرامے کے سلسلے میں حقانی القاسمی (ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ ) نے اس ڈرامے کے متعلق لکھا ہے کہ :

’’صالحہ صدیقی نے ڈرامہ کے فنی لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر ڈرامہ لکھا ہے جس پر اس سے پہلے کوئی ڈرامہ تخلیق یا تشکیل نہیں دیا گیا۔ ایک نئی جہت کی جستجو، صالحہ کی ذکاوت طبع کی دلیل ہے۔ ‘‘ (اسی ڈرامے سے )

اس ڈرامے کی ابتدأ علامہ اقبال کی پہلی شادی کی کشمکش و تصادم سے ہوتی ہے۔ پھر ان کی دوسری اور تیسری شادی کی کشمکش کو بھی اس ڈرامے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہیں۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کی زندگی کے اہم واقعات کو بھی پیش کیا گیا ہیں اس ڈرامے کی خاص بات مجھے جو اس ڈرامے سے جوڑے رکھی وہ یہ کہ اس میں پیش کردہ مناظر،زبان، عہد و ماحول، رہن سہن، کھا نا پینا، اٹھنا بیٹھنا،تہذیب و ثقافت،سبھی کچھ اسی زمانے کے مطابق درشایاجانا  ہیں جس سے ہمیں اس عہد کی چلتی پھرتی تصویریں نظر آنے لگتی ہیں ڈرامے کے مطالعے کے وقت پیش کردہ واقعات بھی ایسے ہیں کہ ہم خود کوبھی اسی زمانے میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بقول ڈاکٹراحمد صغیر :

’’ڈرامہ ’’علامہ ‘‘ میں اقبال کی ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز کو بیحد فنی چابکدستی سے ڈرامے کے سانچے میں صالحہ صدیقی نے ڈھالا ہے۔ ڈرامہ کی واقعات نگاری بے حد متوازن اور نپی تلی ہے۔ واقعہ نگاری میں زندگی کی عکاسی ہے سادگی اور بے تکلفی کے عنصر نے ڈرامے میں جان ڈال دی ہے مکالمے مختصر اور پر اثر ہیں۔ اس طرح یہ ڈرامہ یقینا علامہ اقبال کی شخصیت کے اچھوتے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ صالحہ صدیقی مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ڈرامہ ’’علامہ ‘‘ لکھ کر ڈرامے کے باب میں ایک نیا اضافہ کیا ہے۔ ‘‘( اسی ڈرامے سے، ص108)

علامہ اقبال اور ان کی پہلی شریک حیات کریم بی بی کے درمیان کریم بی بی کے زریعہ کہا گیا یہ مکالمہ جس سے مصنفہ کی منظر نگاری اور شوہر اور بیوی کے ٹوٹتے رشتے کی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہیں ملاحظہ فرمائیں :

’’یہ گھٹن بھری زندگی اب مجھ سے برداشت نہیں ہورہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے پریشان ہونا، دھوئیں سے بھرا ہوا باورچی خانہ، ساتھ میں اپنی ادبی زندگی میں کھوئے میرے میاں جنہیں نہ دن کا ہوش رہتا ہے اور نہ ہی رات کی خبر ــــ….جب دیکھو اپنی شاعری میں مگن رہتے ہیں، نظموں اور غزلوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(اسی ڈرامے سے )

اسی طرح کریم بی بی کے مائکے چلے جانے کے بعد تنہائی میں علامہ اقبال کا درد جسے مصنفہ نے بڑی خوبصورتی سے لفظوں کے سانچے میں ڈھالا ہیں ملاحظہ فرمائیں :

’’ مٹھی بھر ریت بٹوری تھی میں نے۔ ۔ ۔ سوچاتھا !میری مٹھی میں اجلے، چمکیلے، روشن جگنو قید ہیں۔ ۔ ۔ انگلیوں کے پوروسے جانے کب پھسل گئی وہ ریت۔ ۔ ۔ پتہ ہی نہ چلا۔ ۔ ۔ جب مٹھی کھولی تو کچھ بھی نہیں تھا۔ ۔ ۔ ‘‘(اسی ڈرامے سے )

اس طرح کے بے شمار مناظر اس ڈرامے میں پیش کے گئے ہیں۔ اس ڈرامے کے مطالعے کے بعداس کے تسلسل، روانگی، زبان، بیان، مناظر،کا قائل ہونا پڑتا ہیں میں صالحہ صدیقی کی اس کاوش کے لیے انھیں مبارکباد پیش کرتاہوں، اور امید کہ وہ آئندہ بھی ڈرامے کے اس سلسلے کو رواں رکھیں گی، آج ہمارے اردو ادب میں ڈراما لکھنے کا چلن کم ہوتا جا رہا ہیں، اردو میں کچھ عظیم ہستیوں پر ڈرامہ لکھا گیا ہیں لیکن اقبال پر صالحہ صدیقی نے ڈرامہ لکھ کر واقعی ایک اہم کارنامے کو انجام دیا ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر رضا حیدر، ڈائرکٹر، غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی لکھتے ہیں کہ :

’’صالحہ صدیقی نے علامہ اقبال کی کشمکش و تصادم سے نبرد آزما خانگی زندگی پر مبنی ڈرامہ ’’علامہ ‘‘ لکھا ہے۔ حالانکہ اس موضوع کو بہت کم ہی لوگوں نے اپنی تحریر و کا موضوع بنایا ہے، ان کی زندگی کے اس پہلو کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنا واقعی قابل تعریف ہے۔ یوں تو اردو شاعروں کی زندگی پر ڈراما پہلے بھی لکھا اور اسٹیج بھی کیا جاتا رہاہے جن میں اہم نام مرزا غالب کا ہے، جن پرہر سال غالب انسٹی ٹیوٹ کے پروڈکشن کے زیر اہتمام ڈراما ’’غالب کی واپسی ‘‘اور دیگر ڈرامے اسٹیج کیے جاتے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال کی زندگی پر مبنی میری نظر میں یہ پہلا ڈراما ہے جسے صالحہ صدیقی نے تحریر کیا ہے جس کے لیے یقینا وہ مبارکباد کی مستحق ہے، امید ہے ادبی حلقوں میں بھی ان کی اس کوشش کو سراہا جائے گا۔‘‘

صالحہ صدیقی اردو کی ایک فعال اسکالر ہے اب تک ان کی کئی تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’’اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں ‘‘(مرتبہ،۲۰۱۳ء)،’’ڈرامہ علامہ(علامہ اقبال کی زندگی پر لکھا گیا ڈرامہ،۲۰۱۵ء)،’’سورج ڈوب گیا کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ(۲۰۱۷ء)،’’ سورج ڈوب گیا(ہندی ترجمہ،۲۰۱۷ء)،’’ڈرامہ علامہ (ہندی ترجمہ،۲۰۱۷ء) اور’’نیاز نامہ(مرتبہ،۲۰۱۷ء) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  متعدد اردو ادب کے موقر رسائل و جرائد میں اُن کے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں مضامین، بچوں کی کہانیاں اور افسانے شائع ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔

 امید ہے ادبی حلقوں میں اس ڈرامے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور مطالعے کے ساتھ اسٹیج کا بھی جزو بنایا جائے گا۔ میں صالحہ صدیقی صاحبہ کو اس اہم کام کے لیے ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور ساتھ ہی یہ امید بھی کہ وہ اپنے ادبی سفر کو اسی جوش خروش سے نت نئے مسائل کے انکشاف کے ساتھ جاری و ساری رکھیں گی اور اپنی تخلیقی کاوشوں سے اپنے قاری کو مستفیض کرتی رہیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔