انسان اور زمین کی حکومت (قسط 65)

رستم علی خان

خبر ہے کہ بعد وفات موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل مزید سات برس تک اس میدان تیہ میں قید رہے- جب چالیس برس بموجب معیاد اللہ کے اس تیہ میں پورے ہوئے- تو یوشع بن نون جو بھانجے تھے جناب موسی کے اور جنہیں حضرت موسی نے اپنے بھائی ہارون کی وفات کے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا- تب اس کی طرف اللہ نے حکم نازل کیا کہ قوم بنی اسرائیل کو اس میدان سے نکال کر اول ملک شام کیطرف جائیں اور وہاں کے جابروں سے ملک شام کو فتح کریں بعد اس کے قوم کو لیکر کے مصر چلے جائیں-

چنانچہ یوشع بن نون ارشاد الہی کے مطابق قوم کو اس میدان سے نکال کر ملک شام میں گئے- بہت سے مردوں کو تہ شمشیر کیا اور بہت سوں کو مشرف بہ اسلام کیا- پس اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور شام کو فتحیاب کرنے کے بعد آگے شہر ایلیاء کی طرف بڑھے وہاں بھی اکثر مردوں کو قتل کیا اور اکثر جو صاحب عقل تھے انہوں نے اسلام قبول کیا-

پس وہاں سے فتحیاب ہو کر آگے شہر بلقان میں آئے- یہ شہر بہت بڑا تھا اور ملک شام کے سب سے بڑے بادشاہ کا شہر تھا کہ نام جس کا بالق تھا- اس کی سپاہ اور رغبت بےحد تھی- چنانچہ جب اسے حضرت یوشع کے آنے کی خبر پنہچی تو خود مع لشکر جرار لیکر حضرت یوشع کیساتھ جنگ کرنے کو میدان میں اترا- ہر چند کہ اس کی سپاہ نے بہت شجاعت اور جرات کا مظاہرہ کیا لیکن کارگر نہ ہوئی- چونکہ اللہ کا وعدہ بنی اسرائیل کیساتھ تھا کہ انہیں فتحیاب کرے گا اور تمام ملک شام ان کے قبضہ میں داخل کرے گا- چنانچہ حضرت یوشع نے ان سب کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا اور قتل کرنے شروع کر دئیے-اور کافروں نے ہزیمت پائی تو شہر کے بہت بڑے عابد بلعم ابن باعور کے پاس گئے اور ان سے فریاد کی کہ آپ تو مقبول خدا ہیں پس ہمارے واسطے دعا کریں کہ ہم دشمنوں پر فتح پاویں-

تب اس نے کہا کہ یوشع پیغمبر خدا اور خدا کے رسول کے خلیفہ ہیں اسر حکم خدا اور مدد خدا سے ان کی سپاہ اور لشکر کافروں پر بھاری ہے سو ہم کو کیا طاقت ہے کہ ان کے واسطے خدا سے بددعا کرتے پھریں- اور تم سب کے لیے تو یہی بہتر ہے کہ موسی کے دین کو قبول کرو اور ایمان لاو توریت پر اور جو کچھ موسی نے شرعیت دی اس پر کیونکہ وہ تھے نبی مرسل- ان مردوں نے کہا کہ ہم ہرگز موسی پر اوس اس کے دین پر ایمان نہ لاویں گے- اور اگر تم ہمارے حق میں دعا اور یوشع کے حق میں بددعا نہ کرو گے تو ہم تمہیں دار پر کھینچیں گے- حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ بلعم بن باعور اس بات کو سنکر دل میں خوف تو لایا لیکن کافروں کے واسطہ دعا نہ کی-

پس اس کی جو عورت تھی بہت خوبصورت اور صاحب جمال عورت تھی اور وہ اپنی بیوی پر عاشق و فریفتہ تھا- چنانچہ اس بادشاہ نے اس عورت کو بہت سا روپیہ پیسا اور جواہرات وغیرہ دیکر راضی کیا کہ وہ اپنے شوہر سے اس کے حق میں دعا اور یوشع کے واسطے بددعا کرائے- چنانچہ وہ عورت تو راہزن ایمان اور گمراہ تھی پس اس نے مال و دولت کی لالچ میں اپنے شوہر سے کہا کہ تم ہمارے بادشاہ کے حق میں دعا کرو کہ وہ فتحیاب ہو ورنہ مجھے طلاق دے دو-

تب بلعم  باعورا نے ایک تو اپنی بیوی کی خاطر دوسرا اس بادشاہ کے سولی دینے کے خوف سے انہیں ایک عمل ناشائستہ کرنے کو کہا- اور بددعا نہ کی کہ اللہ کا ڈر اور خوف بھی اس کے دل میں تھا- اور اس نے ایک فعل ناشائستہ بتایا کہ تم اچھی اچھی اور خوبصورت لڑکیاں جو کمسن ہوں اور حسن و جمال میں اپنا ثانی نہ رکھتیں ہوں- اور ہر ہر ادا مرد کو لبھانے والی جنہیں ازبر ہو- ایسی چند عورتیں لا کر انہیں یوشع کے لشکر میں بھیج دو- پس جب اس کے سپاہی انہیں دیکھیں گے تو ان کے حسن و جمال اور اداوں پر فریفتہ ہو کر ان کے وصل کی تمنا کریں گے اور زنا کی طرف راغب ہو کر مرتکب گناہ کبیرہ کے ہونگے- تب اللہ کی مدد ان پر سے اٹھا لی جائے گی- تب یقینا تم ان پر حاوی رہو گے اور فتحیاب ہو گے-

چنانچہ اس بادشاہ بالق فاسق گمراہ نے ویسی ہی چند فاجرہ عورتیں منگوائیں اور انہیں یوشع کے لشکر میں بھیج دیا- انہوں نے ہر چند کوشش کی ان کی سپاہ کو اداوں سے لبھانے پھسلانے کی لیکن خدا کے فضل سے وہ تمام نیک مرد تھے اور اس فعل بد سے اللہ نے انہیں بچائے رکھا- تب پھر بلعم کی بیوی نے اسے آ کر کہا کہ اگر تم بادشاہ کے دشمنوں کے حق میں بددعا نہیں کر سکتے تو بہتر ہے مجھے طلاق دےدو- تب بلعم اٹھ کر اپنے حجرے کی طرف بڑھا اور چاہا کہ یوشع کے حق میں بددعا کرے۔

تب بلعم نے چاہا کہ حجرے میں جا کر بددعا کرے- تب دو شیر حجرے میں سے نکلے اور بلعم پر حملہ کر دیا- تب اپنی بیوی کے پاس واپس آ کر کہا کہ مجھے شرم آتی ہے بددعا کرتے ہوئے اور یہ کہ ایک پیغمبر کا اس شہر میں ہونا اچھا عمل ہے- تب اس کی بیوی نے کہا کہ حیلے نہ کرو اور جب تک تم یوشع پر بددعا نہ کرو گے میں تم سے ہرگز کلام نہ کروں گی- تب اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ خدا سے ڈر میں کیوں ایک نبی اللہ پر بددعا کروں اور یہ کہ میں خدا کو کیا جواب دوں گا- تب بیوی نے کہا تم صرف مکر کر رہے ہو پس اگر تم نہیں کرنا چاہتے بددعا تو مجھے طلاق دے دو-

تب بلعم ناچار ہو کر گھر سے نکلا اور ایک گدھے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف چلا کہ جہاں اس نے اپنا دوسرا چلہ پورا کیا تھا- جب کچھ دور گیا تو گدھے نے راہ میں چلنے سے انکار کر دیا- ہر چند کہ بلعم نے اسے بہتیرا مارا لیکن گدھے نے بھی ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا- تفسیر میں لکھا ہے کہ خدا کے حکم سے گدھے نے بلعم سے یہ بات کی کہ، اے بلعم یہاں سے پھرو اور واپس گھر کی طرف چلو- اور ایک نبی اللہ اور اس کے لشکر پر کافروں کے لیے بددعا مت کرو اور اس سے باز آو- ورنہ گنہگار ہو گے اور آگ میں جاو گے اور سخت  عذاب جھیلو گے جو ہمیشہ کے لیے ہو گا-

تب بلعم گدھے کی یہ بات سن کر ڈرا اور اپنے ارادے سے باز آیا اور گدھے کو لیکر گھر کی طرف پھرا- ابھی تھوڑا ہی راستہ طے ہوا تھا کہ شیطان اسے ایک بزرگ نیک کی صورت اس کی راہ میں آیا اور بولا، اے بلعم تو کیوں نیک راہ سے پھرتا ہے- بلعم نے کہا یہ گدھا مجھے منع کرتا ہے کہ اس برے کام سے باز آو- اور یہ کہ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ اچھا فعل نہیں ہے- تب شیطان مردود نے اس سے کہا کہ اے بلعم گدھے بھی بلا کسی سے بات کیا کرتے ہیں- اور یہ کہ یقینا وہ شیطان ہو گا کہ جس نے تمہیں اس نیک راہ سے بہکایا ہو گا- بہتر تو یہ ہے کہ تم بالق کہ حق میں دعا کرو کہ اسے فتح حاصل ہو یوشع اور اس کے لشکریوں پر- پھر جب وہ سب دور ہو جائیں گے تو تم بوجہ مرد نیک ہونے کے اس قوم پر سرداری کرنا- پھر جب تمہاری دعا سے یہ فتحیاب ہونگے تب تم انہیں خدا کے احکامات کی طرف بلانا تو یہ تمہاری ضرور سنیں گے اور پیروی کریں گے تمہاری- اور یہ کہ تم خدا کی طرف سے پیغمبر ہو گے ان پر اور تمہاری بی بی جو نیک عورت ہے وہ بھی تمہیں واپس مل جائے گی-

تب بلعم بن باعور کو یہ باتیں بڑی پسند آئیں اور وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گیا اور گدھے کو وہیں چھوڑ عزم مستحکم کیساتھ پہاڑ کی طرف بڑھا کہ جہاں اس نے عبادت کے لیے جگہ محصوص کر رکھی تھی- چنانچہ ننگے پاوں پیدل ہی اس جگہ پنہچا اور اپنا گدھا وہیں چھوڑ گیا کہ جہاں سے گدھا آگے نہ بڑھتا تھا- چنانچہ بلعم بن باعور اللہ سے دعا مناجات کیں جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو اس دن شکست ہوئی-

تب یوشع بن نون متحیر ہو کر اپنے گھوڑے سے اترے اور اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر فریاد کی کہ الہی یہ کیا ماجرہ ہے تیرا وعدہ تھا کہ تو ہمیں کافروں پر فتح نصیب فرمائے گا- لیکن آج بنی اسرائیل نے کفار کے مقابلے ہزیمت اٹھائی- تب حق تعالی کی طرف سے ارشاد ہوا اے یوشع اس بستی میں ہمارا ایک بندہ اسم اعظم کا جاننے والا ہے- اور یہ کہ وہ ہمارا بڑا نیک و پرہیزگار اور مقبول بندہ ہے- پس اس نے ہم سے بالق اور اس کی سپاہ کی فتح کی دعا مانگی جسے ہم نے قبول کیا۔

تب حضرت یوشع نے اللہ سے دعا مانگی کہ الہی تو اس شخص کا تقوی اور اس کی کرامت و بزرگی کہ جس سے اس کی دعا کافروں کے حق میں مقبول ہوئی اس سے چھین لے اور بنی اسرائیل کو کفار پر غالب فرما- چنانچہ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور بلعم سے اس کا تقوی اور اس کی کرامت اور بزرگی و مقام مرتبہ وغیرہ سب چھین لیا گیا اور اس سے دعا اور مناجات کرنے کا انداز بھی چھن گیا-

پس یوشع نے اپنی قوم کو یہ بشارت دی کہ اللہ نے میری دعا کو قبول کیا اور عنقریب اب فتح ہماری ہے- اور دوبارہ سے اپنی سپاہ کو اکٹھا کیا اور پھر سے کفار پر حملہ کیا اور ان کی سپاہ کے حصار کو توڑ کر چاروں جانب سے دشمنوں کو حصار میں لیا اور چاروں طرف غازیوں کی تلوار چلی اور دشمنوں کو قتل کرنے لگے- اور وہ جمعہ کا دن تھا- پس جب لڑتے لڑتے شام قریب ہوئی تو یوشع کے دل میں خوف پیدا ہوا اور اندیشہ کرنے لگے کہ کل ہفتہ ہے اور توریت میں ہفتہ کے دن سوائے عبادت کے اور کوئی کام نہ کیا جاتا- اور لڑائی اور دنیاوی کام وغیرہ ہفتہ کے دن حرام قرار پاتے تھے- تب دل میں خیال کرنے لگے کہ اگر آج فتح نہ ہوئی تو کل قوم جابروں کی آ کے ایک ہی حملے میں سب لے لے گی اور ہمیں یہاں سے نکال باہر کرے گی- چنانچہ اس وقت یوشع نے اللہ سے دعا مانگی کہ الہی اس وقت تو اپنی قدرت سے آفتاب کو حرکت دے کر دو گھڑی دن کو اور وسعت عطا فرما- اور وقت کو ایمان والوں کی رخ موڑ دے- کہ حق اور باطل واضح ہو سکے اور تیرا وعدہ جو اہل ایمان کیساتھ فتح کا ہے اسے پورا فرما دے-

پس آپ کی دعا قبول ہوئی اور دو گھڑی دن بڑھا دیا اور آفتاب کو روک دیا گیا اور وقت کو ایمان والوں کی خاطر موڑ دیا گیا- اور انہیں دو گھڑی میں ہفتہ کی شام ہونے سے پہلے بنی اسرائیل فتحیاب ہو کر سجدہ شکر بجا لائے- اور وہ سب مردود زیر شمشیر ہوئے- اور توریت میں چونکہ مال غنیمت حلال نہیں تھا- سو جو کچھ ان کا پایا اسے آگ میں ڈال دیا- لیکن نہ جلا” چونکہ حکم ایسا تھا کہ جو کچھ پاتے اسے آگ میں ڈال دیتے اگر اس میں سے کچھ مال رہ جاتا یعنی گم ہو جاتا یا کوئی چوری وغیرہ کر لیتا تو آگ اس مال کو نہ جلاتی جب تک کہ گمشدہ مال اس میں شامل نہ کیا جاتا اور یہی علامت ہوتی اس کی مقبولیت اور نہ مقبولیت کی- پس جب جلایا تو نہ جلا پھر سب کے نام کا قرعہ ڈالا تو جو چور نکلا اس چوری شدہ مال لیکر باقی مال غنیمت میں ڈالا اور آگ لگائی تو تب جلا- واللہ اعلم الصواب

الغرض جب شہر میں داخل ہوئے تو بلعم بن باعور نے آ کر حضرت یوشع کو تعظیم و تکریم سے سلام کیا- تب حضرت نے فرمایا چونکہ تو نے کافروں کے حق میں ہو کر اہل ایمان کے لیے بددعا کی ہے اس لیے تیری بزرگی اور کرامت اور مقام و مرتبہ وغیرہ تجھ سے چھین لیا گیا ہے- یہ سن کر بلعم پرغم ہوا اور رونے دھونے لگا- تب حضرت نے فرمایا کہ چونکہ اللہ کسی کی عبادت و ریاضت کو ضائع نہیں کرتا اور نا ہی کسی کیساتھ ناانصافی والا معاملہ کرتا ہے- پس تجھے بشارت ہے کہ تیرے واسطے تین دعائیں یا حاجتیں اللہ نے رکھ چھوڑی ہیں کہ تو جو بھی تین حاجتیں اللہ سے مانگے گا ضرور پوری ہونگی- وہ چاہے تو اس جہان میں مانگ لے یا اس دن جب اللہ سب کو ان کے اعمال کا پورا پورا حساب دے گا- تب بلعم اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ اے بدبخت عورت یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے میں نہ کہتا تھا کہ پیغمبر پر بددعا کرنا اچھا نہیں ہے- پس اب یہ تین حاجتیں میں اللہ سے یوم حساب کو مانگوں گا کہ وہ مجھے ان کا اچھا بدلہ دے۔

تبصرے بند ہیں۔