اور ساری ٹینشن ختم ہو گئی!

عبدالکریم شاد

صباغ کی شادی کو دس سال گزر گئے تھے مگر اللہ نے اسے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ محلے میں طرح طرح کی باتیں ہوتی تھیں، کبھی اس کی بیوی پر طعنے کسے جاتے تو کبھی اس کی مردانگی پر سوال اٹھتے، کوئی کسی حکیم کا پتا دیتا تو کوئی کسی مزار پر جانے کا مشورہ دیتا مگر صباغ کو اپنی دعاؤں پر اعتماد تھا، اس نے ہر طرح کے میڈکل ٹیسٹ کروائے اور سارے رپورٹس نارمل پائے۔ اب تو اس نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تھا۔ دس سال یوں ہی گزر گئے۔ ایک دن اس کی بیوی نے اس کے کان میں کچھ کہا اور وہ بے ساختہ الحمداللہ کہ کر شور مچانے لگا، شور سن کر محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اسے مبارکباد دینے لگے۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے تصدیق کر کے باقی کسر بھی پوری کردی۔ صباغ تو پھولے نہیں سما رہا تھا، آخر ایک طویل آزمائش کے بعد اللہ نے اس کی دعا سن لی تھی۔ نو ماہ بعد اس کے گھر میں ایک پھول سے بچے کی کلکاری سنائی دی۔ اس آواز نے گھر کے سناٹے کو چیر کر رکھ دیا، اندھیرے میں روشنی آ گئی۔ صباغ بچے کو دیکھتا اور زرا مسکراہٹ کے ساتھ الحمداللہ کہتا۔ محلے میں مٹھائیاں بانٹی گئیں اور ساتویں دن خوب دھوم دھام سے عقیقہ کیا گیا۔

حمود اب آٹھ سال کا ہو گیا تھا۔ اکلوتی اولاد کے مزے تو الگ ہی ہوتے ہیں اور وہ تو بڑی منتوں کا نتیجہ تھا سو والدین اسے بہت نازوں سے پال پوس رہے تھے، اس کی ہر خواہش پوری ہو سکے اس لیے صباغ دیر تک فیکٹری میں رہتا اور اوور ٹائم کام کیا کرتا تھا۔ ہر والدین کی طرح انہوں نے بھی بیٹے کے لیے بڑے بڑے سپنے دیکھے تھے، اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں گے، اس کے لیے پیاری سی بہو لائیں گے، ایک خوبصورت گھر ہوگا جس میں نوکر چاکر اس کی جی حضوری کریں گے، جب وہ مہنگی کار سے اترے گا تو لوگ لائن میں کھڑے ہو کر اس کو سلام کریں گے، بیٹا ہمارا نام روشن کرے گا۔ ۔ ۔ نادان! حلب کے حادثے کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھا اور کیسے کیسے خواب بن رہے تھے۔

ان دنوں دہشت ناک خبریں سننے کو ملتی رہتی تھیں، پورا شہر ایک عجیب کیفیت میں جی رہا تھا۔ عورتوں کا دل کام پر گئے مردوں میں تو مردوں کا دل گھر کی عورتوں میں لگا رہتا تھا. نہ جانے کب کون سا دھماکہ حلب کا زخم ہرا کر دے۔ نہ جانے یہ خبریں سننے والے کب ایک خبر بن کر رہ جائیں، لوگ کفن باندھ کر گھر سے نکلتے تھے، عورتیں اور بچے سہمے سہمے سے رہتے تھے، مساجد میں دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا تھا، گھروں میں تسلی دینا اور خود سہم جانا مردوں کا روز کا ناٹک ہو گیا تھا، کبھی کبھی دل کرتا تھا کہ جو ہونا ہے وہ ہو کیوں نہیں جاتا، یوں تل تل مرنے سے تو بہتر ہے کہ شہید ہو جائیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پورے شہر کو کینسر کا مرض لگ گیا تھا۔ اس ماحول میں بھی صباغ جیسے زندہ دل لوگ ہر دن کو آخری دن سمجھ کر جی رہے تھے۔

ہر صبح کی طرح رقیہ کچن میں ناشتا تیار کر رہی تھی، اس نے صباغ کو آواز دے کر جگایا، صباغ آنکھیں میچتا ہوا اٹھا اور حمود کے پیروں کو اپنے پیٹ سے ہٹایا۔ حمود جاگ گیا مگر سونے کا بہانا کرنے لگا، اس کا آج اسکول جانے کا موڈ نہیں تھا۔ صباغ نے بڑے پیار سے اس کا سر سہلایا اور کہا ”بیٹا! اٹھ جاؤ، اسکول جانا ہے، امتحان آنے والا ہے، خوب محنت کرنی پڑے گی، اگر تم اچھے نمبروں سے پاس ہوئے تو ویڈیو گیم لا کر دوں گا۔

حمود گیم کی بات سن کر خوش ہو گیا اور اٹھ کر بولا” پکا وعدہ کیجئے۔

صباغ نے مسکرا کر اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا۔ بیٹا اسکول کے لیے اور باپ فیکٹری کے لیے تیار ہونے لگا۔

صباغ چپکے سے کچن میں آیا اور بیوی کو پیچھے سے پکڑ لیا، رقیہ اپنے میاں کی عادت جانتی تھی اس لیے حیران نہیں ہوئی اور شرما کر بولی چھوڑو نا، کوئی دیکھ لے گا۔ صباغ اس کو مزید دبوچتے ہوئے بولا” تو کیا ہوا مری جان! اپنی بیوی سے پیار کر رہا ہوں، کوئی گناہ تھوڑے کر رہا ہوں۔

"اچھا آج آپ زرا جلدی نہیں آ سکتے؟”

"کیوں”

"وہ، آج سیر کرنے کا من کر رہا ہے، بہت دن ہوئے، حمود بھی کل ضد کر رہا تھا، اور حمود کے لیے کوئی ٹانک لیتے آنا، پتا نہیں کیوں آج کل دبلا ہوتا چلا جا رہا ہے”

"ٹھیک ہے، کوشش کرونگا”

ناشتے کی ٹیبل پر رکھے اخبار پر نظر پڑی تو صباغ غم ناک ہو گیا، وہ کبھی رقیہ کے حسین چہرے کو دیکھتا جو پسینے سے تر ہو رہا تھا تو کبھی حمود کے معصوم چہرے کو دیکھتا جو اس میں جینے کی آس جگا رہی تھی۔ رقیہ ناشتا لے کر آئی، صباغ کا اداس چہرہ دیکھ کر بولی” کیا ہوا؟ کوئی بری خبر ہے کیا؟ پھر کوئی بمباری تو نہیں۔ ۔ ”
"ارے کچھ نہیں، ایک ہار کی فوٹو دیکھ رہا ہوں، سوچ رہا ہوں تمہارے لئے خرید لوں، ویسے بھی میں نے تم کو شادی کے بعد کون سا قیمتی زیور دیا ہے۔ "

"آپ ہیں نا، آپ ہی میرے سب سے قیمتی زیور ہیں”

دونوں مسکرا دئے۔

رقیہ نے باپ بیٹے کا ٹفن بنایا اور تھما دیا۔ دونوں دروازے پر پہنچے تو رقیہ نے روکا اور کہا” دیکھئے! زرا اپنا خیال رکھنا، آج کل اخبار میں بڑی دہشت ناک خبریں آ رہی ہیں”

"فکر نہ کرو مری جان، جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہو، وہ موت کو کیوں گلے لگانا چاہے گا”

ایک ہلکی مسکراہٹ اور ہچکچاہٹ کے ساتھ رقیہ نے دونوں کو وداع کیا اور گھر کے کام میں مشغول ہو گئی۔ اس کی مسکراہٹ امید پر مبنی تھی اور ہچکچاہٹ خوف پر اور ان دونوں کے درمیان قضا تھی جو ہونا ہی تھا۔

صباغ نے فیکٹری کا کام جلدی نپٹا لیا، حمود کے لیے میڈکل سے ایک ٹانک لی، رقیہ کے لیے ایک سستا ڈیزائن والا ہار خریدا، کچھ کھانے اور تفریح کے سامان لیے اور شادمان چہرے کے ساتھ گھر کی طرف بڑھا۔ اچانک اس نے ایک دھماکے کی آواز سنی اور سہم گیا، چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں غم ناک ہو گئیں، راستا تنگ ہو گیا، لوگ بس بھاگ دوڑ کر رہے تھے، چلا رہے تھے، اللہ اکبر، یا اللہ رحم کے نعرے لگا رہے تھے۔

صباغ کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا، کسی سے کچھ پوچھے بغیر وہ اپنے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا، لوگوں کے دھکوں اور دل کے گمان نے اسے ادھ مرا کر دیا تھا، اس کے پیر جیسے اس کے بس میں نہیں تھے، آنکھیں آس پاس کا منظر دیکھ کر نم ناک ہو رہی تھیں، دل ڈوبا جا رہا تھا، کوئی اپنی گود میں زخمی بچے کو لے کر بھاگ رہا تھا، کوئی ملبے تلے تڑپ رہا تھا، کوئی چیتھڑے سمیٹ رہا تھا، کوئی مدد کر رہا تھا تو کوئی گم سم کھڑا تھا، فضا میں چیخیں گونج رہی تھیں، کوئی کسی کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔ صباغ اپنے مضطرب دل کو تھامے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا، قدم ڈگمگا رہے تھے، سوچ رہا تھا کاش! یہ خواب ہو۔ بڑی مشکل سے گھر کے پاس پہنچا جو اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا، اس کی نظریں پاگلوں کی طرح چیزیں ہٹا ہٹا کر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں مگر اس کے ہاتھوں میں سوائے خاک کے کچھ سما نہیں رہا تھا۔ وہ کبھی چیختا تو کبھی خاموش ہو جاتا تھا، اس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے، زبان لڑکھڑا رہی تھی، آنے جانے والوں کو روک کر تنگ کرتا ” بھائی صاحب! آپ نے میرے بچے کو دیکھا، ارے حمود حمود، آپ کے لڑکے کے ساتھ کھیلتا تھا، بہت اچھا بیٹا تھا مرا، دبلا ہو گیا تھا، یہ دیکھو، اس کے لئے ٹانک لے کے آیا ہوں، پر وہ ہے کہاں؟ اسے تو سیر کرانے بھی لے جانا ہے۔ ۔

ارے ارے بھائی صاحب سنو نا، او، او بھائی صاحب، آپ سنیے نا زرا، میرا بیٹا شاید مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے، میں نے اس کو ویڈیو گیم لا کر نہیں دیا نا، آپ کو بتا کر گیا ہے کیا؟

سنیے سنیے، آپ نے میرے بیٹے کو دیکھا ہے کیا؟ کہاں چلا گیا؟ ابھی یہیں تو تھا، ارے یہیں تو تھا ابھی، کہاں گیا ہوگا؟ حمود! اے حمود! بیٹا!

رقیہ! کہاں ہو جان من! یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں، بہت قیمتی ہار لایا ہوں، زرا پہن کر تو دکھاؤ، جلدی تیار ہو جاؤ، سیر کرنے نہیں جانا ہے کیا؟ ارے کہاں چلی گئی ہو؟ اچھا! تو تم دونوں ماں بیٹے میرے ساتھ لکا چھپی کھیل رہے ہو، رکو ابھی بتاتا ہوں۔ ۔ ۔

چیخیں سناٹوں میں تبدیل ہو گئیں، فضا میں عجیب سی گھٹن تھی، صباغ نے ہوش سنبھالا، گلا خشک ہو گیا تھا، آنکھوں کے سامنے کھنڈرات اور لاشیں تھیں، ٹانک اور ہار کو دیکھ کر اس کی آنکھیں برس پڑیں، وہ جی بھر کے رویا اور روتے روتے انا للہ وانا الہ راجعون پڑھا۔

سبھی لوگ ایک طرف کو جا رہے تھے سو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ راستے میں ایک ایسا علاقہ ملا جو بمباری سے بچا ہوا تھا، وہاں سب نے ڈیرا جمایا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے رہے، رد عمل میں انہیں ڈھیر ساری دعائیں ملیں، کچھ فیسبکی آنسو بہے، ٹویٹر پہ ‘شام جل رہا ہے’ کا ٹرینڈ بھی چلا، واٹس ایپ ان کے ویڈیوز سے بھر گئے، لوگ غم ناک ہو کر ایک دوسرے کا رونا رونے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ کامیاب ہو گئے، سوچ رہے تھے کوئی نہ کوئی مدد تو آتی ہی ہوگی۔ ۔ اور مدد آ گئی، ایک دھماکے نے ان کی ساری ٹنینشن ختم کر دی۔ ۔ ہمیشہ کے لئیے۔

تبصرے بند ہیں۔