ہندو راشٹر میں دلتوں کی حالت…!

نہال صغیر، بلاد آدم۔، ضلع ویشالی، بہار

پچھلے ہفتہ شیو سینا نے مطالبہ پیش کیا کہ ملک کو اب ہندو راشٹر قرار دے دیا جائے۔ مجھے تعجب ہوا یہ معلوم کرکے شیو سینا اس ملک کو اب تک سیکولر تسلیم کرتی آئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک آزادی کے وقت سے ہی ہندو راشٹر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دستور میں اسے ایک سیکولر جمہوری فلاحی ریاست کہا گیا ہے۔ لکھے ہوئے دستور اور عملی اقدام دونوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ اگر کسی کو میری باتوں سے اتفاق نہ ہو تو میں ذیل میں چند نکات پیش کررہا ہوں جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ ملک انگریزوں سے آزادی کے بعد سے ہندو راشٹر ہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندو راشٹر سے مسلمانوں کو زیادہ نقصان ہونا ہے یا خود ہندوئوں کے دیگر پسماندہ طبقات کو۔ اگر تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ہندو راشٹر والوں کا اصل نشانہ مسلمان نہیں ہے ان کا اصل ہدف دلت ہے۔ اس کے آثار اور قرائن بھی نظر آنے لگے ہیں۔ اونا سانحہ ان حادثات و سانحات میں سے ایک ہے۔ جس نے دلتوں کو متحدکردیا اور جارح بننے پر مجبور کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک آزادی کے بعد سے ہی ہندو راشٹر ہے۔ اس کے کیا ثبوت ہیں۔ سب سے اہم ثبوت تو یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری کام کی شروعات عام طریقہ سے ہوتی ہے یا ان طریقوں سے جو ہندوئوں کے یہاں رائج ہے۔ ہر کام کی شروعات ناریل پھوڑ کر ہی کی جاتی ہے۔ کیا یہ ہندوئوں کا طریقہ نہیں ہے۔ ہر سرکاری دفتر یہاں تک کہ پولس اسٹیشن میں بھی مندر اور مورتیاں موجود ہیں، یہ سب کیا سیکولر ہندوستان کی نشانی ہیں۔ آخر ہم کیوں اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھتے ہیں کہ ملک سیکولرزم سے فاشزم کی جانب جارہا ہے۔ یا یہ کہ بی جے پی کے دور میں ملک فاشزم کے گھیرے میں آگیا ہے۔ آخر یہ سوال کتنی بار دہرایا جائے کہ بابری مسجد کی شہادت تک کی ساری کارروائی کس کے دور میں انجام پذیر ہوئی ؟کیا یہ سیکولر کانگریس کے دور میں انجام نہیں دئیے گئے ؟اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف فسادات اور پھر بم دھماکوں میں فرضی گرفتاری کس کے دور کی دین ہے ؟کیا اس کے لئے بھی بی جے پی ذمہ دار ہے۔ لیکن یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ آج ہم اس اہم نکتہ پر گفتگو کریں گے کہ ہندو راشٹر سے نقصان کس کا ہے مسلمانوں یا دلت کا ؟

بی جے پی کی موجودہ حکومت کے دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اچانک مسلمانوں اور دلتوں پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ صحیح ہو۔ لیکن اگر ذہن تھوڑا آگے لے جائیں تو آپ کو یہ حملے ہمیشہ نظر آئیں گے۔ گجرات مدھیہ پردیش اور راجستھان میں سب سے زیادہ دلتوں پر حملے ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ انتہا یہ کہ اس دور میں جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہے اور اطلاعاتی انقلاب نے لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔ نیز آج اطلاعات کا حال یہ ہے پلک جھپکتے ہی ایک خبر پوری دنیا میں شور بپا کردیتی ہے۔ ایسے دور میں دلتوں کی برات میں دولہا اگر گھوڑی چڑھ کر اونچی ذات کے ہندو کے سامنے سے گزر گیا تو اس کی خیر نہیں۔ ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔ ایک صدی قبل جس درد سے امبیڈکر گزرے تھے اسی درد سے آج بھی دلت گزر رہا ہے۔ آج بھی گجرات کے کئی اسکولوں میں دلتوں کے لئے پانی کے لئے الگ جگہ متعین ہے اور ان کے کھانے کی جگہ بھی دوسرے لڑکوں سے الگ ہے۔ ایک ایسا بھی اسکول دیکھنے میں آیا جہاں دلتوں کے بچوں کو اونچی ذات کے ہندوئوں کے بچوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ ایسا کھلے عام ہو رہا ہے۔ ایک بات اور یاد آرہی ہمارے ایک صدر جمہوریہ دلت ہوئے ہیں ان کے بارے میں ایک خبر آئی تھی کہ ان کا پیون جو کہ برہمن تھا وہ انہیں پانی کا گلاس ایسے دیتا تھا جیسے پھینک رہا ہو۔ یہ چند مثالیں اس لئے دی جارہی ہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکے کہ برہمن وادیوں اور ہندو راشٹر کے مجاہدوں کااصل نشانہ کون ہے ؟ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب’’ کرکرے کا قاتل کون؟‘‘میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ برہمنوں اور مسلمانوں کا ٹکرائو 1925 سے پہلے نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اقتدار میں برہمن ہمیشہ شامل رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ جس کی حکومت رہی ہے اس سے مفاہمت والی پوزیشن میں رہے ہیں۔ برہمن مسلمانوں سے اس وقت ٹکرائو میں آئے جب انہیں یہ لگا کہ اب مسلمان کبھی اقتدار میں واپس نہیں آئیں گے۔ انگریزوں کی آمد سے کچھ ایسے قوانین بنے جس میں پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن کا قانون۔ اس سے برہمنوں کی وہ پوزیشن خطرے میں پڑ گئی جس کووہ ہندوستانی سماج کو ورن ویوستھا یا منو سمرتی کے ذریعہ تقسیم کرکے اپنی برتری قائم کئے ہوئے تھے۔ لیکن انگریزوں نے سبھی کے لئے تعلیم اور سرکاری ملازمت میں ریزرویشن کی پالیسی کو نافذ کرکے ان کی برتری کو ختم کرنے کی جانب قدم بڑھا دیا تھا۔ انگریزوں کو بھی اس وقت سرکاری نوکریوں میں کارندوں کی ضرورت تھی یہ ضرورت تین فیصد برہمنوں سے پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے ایسی پالیسی کا نفاذ کیا۔ انگریزوں کی اس پالیسی کی ایک مجبوری یہ بھی تھی کہ اس وقت دلتوں کی بیداری کے لئے کچھ ایسی شخصیات میدان عمل میں آچکی تھیں جنہوں نے انہیں تعلیم کے میدان میں لانے اور اونچی ذات کے ہندوئوں کی ہزاروں سال پر محیط  غلامی سے نجات کے لئے پوری کوشش کی جن میں پھولے، شاہو، پیریاراور آخر میں ڈاکٹر امبیڈکرجنہوں نے ملک کے پسماندہ اور محروم طبقات کے لئے انگریزوں سے آزادی کی بجائے معاشی اور سماجی آزادی کی بات کی۔ اب ایسی صورت میں اگر انگریز ریزرویشن پالیسی نافذ نہیں کرتے تو ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے نالاں ہو جاتا اور ایس صورت میں انگریز یہاں زیادہ دنوں تک نہیں ٹک سکتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ وہ برہمنوں نے انگریزوں کے ذریعہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لئے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن نے برہمنوں کو معاشی اور سماجی طور پر نقصان پہنچایا۔ اس لئے ان کے دشمن دلت اور پسماندہ طبقات ہیں۔ مسلمانوں کو تو صرف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

ملک میں موجودہ افراتفری کا ماحول گرچہ مسلمانوں کے خلاف نظر آتا ہے۔ لیکن اصل میں یہ برہمنوں کی اپنی کھوئی ہوئی شان شوکت کی واپسی کی تحریک ہے۔ یہ تحریک متشدد اس لئے ہے کہ برہمن اپنی ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ اصول جنگ میں سے ہے کہ جب متحارب گروپوں میں سے کوئی جنگ ہارنے لگتا ہے تو اس کے سپاہی یا تو میدان چھوڑ کر بھاگتے ہیں یا پھر ہر سپاہی اپنی جان بچانے کے لئے جنگ میں لڑنا شروع کرتا ہے۔ یہی پوزیشن فی الحال ہندو توا بریگیڈ کی ہے۔ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فی الحال انہوں نے اپنا نشانہ مسلمانوں کو بنا رکھا ہے۔ لیکن مسلمان نشانہ نہیں ہیں۔ اس بہانے سے جب وہ اپنی حیثیت اور اہمیت منوا لیں گے تب جا کر پھر وہ وہی ورن ویوستھا نافذ کریں گے۔ جس نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ہزاروں سال سے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ وہی پوزیش پھر وہ دلتوں کی کرنا چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گائے کے معاملہ پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے بناتے وہ اپنی اصلیت پر آگئے اور دلتوں کو بھی پیٹنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے وہ بے نقاب ہوگئے اور یہ تھپڑ الٹا ان کے منھ پر آپڑا۔

 ان معاملات میں مسلمانوں کو کرنے کا کام ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام کے درس مساوات کی ترویج اور اس پر مضبوطی کے ساتھ عمل۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کا سبب اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ انہوں نے اسلام کے درس مساوات پر عمل نہیں کیا انہوں نے بجائے اسلام کی تعلیم مساوات پر عمل کرکے پسماندہ طبقات کو گلے لگانے کے جیسا کہ قرن اول کے مسلمان تاجروں اور اس کے بعد بادشاہوں اور پھر اولیاء اللہ کی جماعت نے کیا تھا۔ برہمنوں کی سوچ کو اپنا کر وہی سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جس سے اسلام نے روکا تھا۔ غیر مسلم دلت اور پسماندہ طبقات کی بات تو دور ہمارے سید صاحبو، شیخ صاحبو، خان صاحبو اور نواب صاحبونے اپنے بھائی جو پیشے کے اعتبار سے نچلی ذات میں گنے جاتے تھے دلتوں کی طرح خود سے الگ کیا۔ اس کا انجام ہے کہ ہم آج پریشان ہیں۔ اس لئے جتنا جلد ہو سکے ہم کو دلتوں کی طرف محبت شفقت اور رواداری کا ہاتھ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھانا چاہئے۔ نیز اپنے جن بھائیوں کو ہم نے اشراف اور اجلاف کی تقسیم میں خود سے علیحدہ کررکھا ہے انہیں گلے لگائیں۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات بہت جلد بدل جائیں گے۔ اس سے ملک کو بھی فائدہ ہو گا۔ فساد اور تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور مساجد کے منبر و محراب سے وہ صدا بلند ہو رہی ہے جس سے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر مشتعل نہ ہوا جائے اور ہر معاملہ کی تہہ میں جاکر اس کی حقیقت اور اس کے پس پشت عوامل کو معلوم کیا جائے۔ کسی بھی معاملہ کے اوپر ی سطح کی معلومات کرکے اس پر اچھلنا کودنا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔