لڑکی کی پیدایش میں عورت کا کردار

ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد کی ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو کسی مصلحت یا آزمائش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحب اولاد ہوگا یا نہیں، کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی، کسی کے ایک سے زائد بچے ہوں گے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورۃ الشوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقْ مَا یَشَآئُ، یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثاًوَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَo اَوْیُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَاناً وَّاِنَاثاً وَّیَجْعَلُ مَّنْ یَّشَآئُ عَقِیْماً، اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌo        (الشوریٰ9 4، 0 5 )

’’اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘

بعض سماجوں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدائش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کااظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانۂ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے تھے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کانقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

وَإِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالأُنثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ oیَتَوَارَی مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ، اَیُمْسِکُہُ عَلَی ہَوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِیْ التُّرَابِ۔                                                  (النحل:8 5 – 9 5)

’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبادے؟‘‘

لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے سماجوں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پر اس کی پیدائش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔ لڑکی پیداہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (Abortion)کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ دیگر سماجوں سے مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔ کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمہ دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہئے۔ اب دوسری عورت آئے گی تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ لڑکاپیدا ہونے میں نہ مرد کااختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیداہونے میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتاہے۔ اس سلسلے میں جدید میڈیکل ساینس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیداہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔

جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (Reproductive cells) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے Chromosomesکہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتی کہ انہی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کی تعیین ہوتی ہے۔ تولیدی خلیہ میں کرو موزوم کے 32جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (Sex) کی تعیین کے لیے مخصوص ہوتاہے۔ اسے Sex Chromosomeکہاجاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموزوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو Xکروموزوم اور دوسرے کو Yکروموزوم کہتے ہیں۔

عورت کے بیضہ(Ovum) میں سیکس کروموزوم کاجوجوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموزوم Xنوعیت کے ہوتے ہیں، اسی بنا پر انھیں Homogametic کہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفہ (Sperm) میں پایاجانے والا سیکس کروموزوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے (Xاور Y) کروموزوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Heterogametic کہا جاتا ہے۔

استقرار حمل (Fertilization) کے وقت عورت کے بیضہ سے ایک کروموزوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموزوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال واتحاد سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموزوم ہر حال میں Xہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفۂ مرد کا کروموزومXبھی ہوسکتا ہے اور Yبھی۔ اگر عورت کے Xکروموزوم سے مرد کا Xکروموزم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیداہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Yکروموزوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے Xکروموزوم سے مرد کا (Xاور Y میں سے) کون سا کروموزوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموزم جنین (Fetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آئندہ پیداہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ عورت سے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

نِسَآؤکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ:3 2 2 )’’تمہاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں۔ ‘‘

کھیتی کا کام یہ ہوتاہے کہ اس میں جو بیج ڈالاجائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنایاجوار ہی اُگے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اُگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اُگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیاجائے۔ مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔ علامہ زمخشریؒ (م 8 3 5 ھ) فرماتے ہیں :

’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفہ کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابہ قرار دیاگیا ہے۔ ‘‘ (الکشاف، مکتبہ العبیکان، الریاض، 8 9 9 1ء 1/4 3 4 )

امام فخر الدین رازیؒ (م 6 0 6 ھ) نے لکھا ہے:

’’اس آیت میں عورتوں کوکھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے۔ ‘‘ (التفسیر الکبیر، دارالفکر، بیروت، 1891ء 6/57)

یہی تشریح بعض دیگر مفسرین، مثلاً علامہ قرطبی (م 1 7 6 ھ) اور علامہ ابوحیان (م547ھ ) نے بھی کی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 6002ء 4/7، البحرالمحیط لابی حیان الا ندلسی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 3991ء 2/181)

علامہ راغب اصفہانی (م 205ھ) نے اس موقع پر ایک نکتہ کی بات کہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں : ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ آگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات:36-46 میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع  کالفظ نہیں، بلکہ حرث  کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ ‘‘ (تفسیر الراغب الاصفہانی، کلیۃ الآداب طنطا، 9991ء 1/854)

لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیاجاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے  تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دُنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسااوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں اور جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کوجنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَنَا وَھُوَ (وَضَمَّ اَصَابِعَہَ) (صحیح مسلم:1362)

’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا (یہ فرماتے ہوتے آپؐ نے اپنی دو انگلیاں ملائیں )‘‘

اور حضرت ابن عباسؓ   روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:

مَامِنْ رَجُلٍ تُدْرِکُ لَہٗ ابْنَتَانِ فَیُحْسِنُ اِلَیْھِمَا مَاصَحِبَتَاہُ اَوْ صَحِبَھُمَا اِلاَّ اَدْخَلَتَاہُ الْجَنَّۃَ۔ (سنن ابن ماجہ: 0763)

’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بنیں گی۔ ‘‘

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھہرانے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے صرف لڑکے دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے صرف لڑکیاں دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اولاد سے محروم رکھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔