جانوروں کے حقوق

تحریر :  مولانا سیدسلیمان ندویؒ   …   ترتیب : عبدالعزیز

        اسلام دنیامیں لطف ومحبت کاجوعام پیغام لے کرآیاتھااس کاسلسلہ حیوانات تک وسیع ہے، اس نے حیوانات کے ساتھ متعددطریقوں سے سلوک کرنے کی ہدایت کی۔ اہل عرب وحشت اورقساوت کی وجہ سے حیوانات پرطرح طرح کے ظلم کرتے تھے، وہ جانوروں کواندھادھندمارکرگرادیتے تھے اورلوگوں سے کہتے تھے کہ تم ان کوکھاجاؤ، اوراس کوفیاضی سمجھتے تھے، دوآدمی شرط باندھ کرکھڑے ہوجاتے تھے، اورباری باری سے اپنااپناایک اونٹ ذبح کرتاچلاجاتاتھا، جو رک جاتاوہ ہارجاتا، یہ سب جانوردوست احباب کی دعوت میں نذرہوجاتے تھے، یہ بھی فیاضی سمجھی جاتی تھی، ان واقعات کاذکراشعارِعرب میں موجود ہے۔ ایک دستوریہ بھی تھاکہ جب کوئی مرجاتاتواس کی سواری کے جانورکواس کی قبرپرباندھتے تھے اوراس کودانہ، گھاس اورپانی نہیں دیتے تھے، اوروہ اسی حالت میں سوکھ کرمرجاتا، ایسے جانورکوبلیہ کہتے تھے۔ اسلام آیاتواس نے اس سنگ دلی کومٹادیا۔ عرب میں ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ جانورکوکسی چیزسے باندھ کراس پرنشانہ لگاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کوناجائزقرادیااورعام حکم دیاکہ کسی ذی روح چیزکواس طرح نشانہ نہ بنایا جائے۔ (ترمذی ابواب الصید باب ماجاہ کراہیۃ اکل المصبورۃ صفحہ 225، جلد 1 صفحہ272، مطبوعہ دیوبند)۔

         ایک بارایک لڑکااسی طرح ایک مرغی کوباندھ کرتیرکانشانہ بنارہاتھا، حضرت عبداللہ بن عمرصکاگزرہواتووہ لوگ بھاگ گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرصنے کہاکہ ایساکس نے کیا ہے، جولوگ ایساکرتے ہیں رسول اللہ ا نے ان کوملعون قراردیاہے، (بخاری کتاب الذبائح والصید باب مایکرہ من المثلۃ والمبصورۃ والمجثمۃ ، جلد 2، صفحہ829)۔ اس سے بھی زیادہ بے رحمانہ طریقہ یہ تھاکہ زندہ اونٹ کے کوہان اوردنبہ کے دم کی چکتی کاٹ کرکھاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آکریہ حالت دیکھی توفرمایاکہ اس طریقہ سے زندہ جانوروں کاجوگوشت کاٹ کرکھایاجاتاہے، وہ مردارہے۔ یہ ایک خاص صورت تھی لیکن عموماً زندہ جانوروں کے مثلہ کرنے یعنی ان کے کسی عضو کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی اور ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی۔

        بلا ضرورت کسی جانور کے قتل کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’کسی نے اگر کنجشک یا اس سے بھی کسی چھوٹے جانور کو اس کے حق کے بغیر ذبح کیا تو خدا اس کے متعلق اس سے باز پرس کرے گا‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ اس کو ذبح کرے اور کھائے، یہ نہیں کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا اور وہ درندہ بھی نہیں، ان کا مارنا جائز نہیں۔ سنن نسائی میں ہے کہ ’’جو شخص کنجشک کو بلا ضرورت مارے گا وہ قیامت کے دن خدا کے یہاں فریاد کرے گی کہ فلاں نے مجھ کو بلا ضرورت مارا ہے، اس سے اس کو کوئی فائدہ نہ تھا‘‘۔ جو جانور کوئی نقصان نہیں پہنچاتے یا ان سے انسانوں کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، ان کا مارنا بھی جائز نہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد کے مارنے کی ممانعت فرمائی ہے۔

        جو جانور ضرورتاً مارے یا ذبح کئے جاتے ہیں، ان کے مارنے یا ذبح کرنے میں بھی ہر طرح کی نرمی کرنے کا حکم دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کیا ہے، اس لئے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقہ سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو، تم میں ہر شخص اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔

        ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے کہاکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے یا یہ کہ مجھے اس پر رحم آتا ہے کہ بکری کو ذبح کروں، فرمایا کہ اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا تم پر رحم کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دانت سے کاٹ کر یا ناخن سے خراش دے کر جانوروں کے ذبح کرنے کی ممانعت فرمائی، کیونکہ اس سے جانوروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ کنکر، پتھر یا غلیل چلانے کی بھی ممانعت فرمائی اور فرمایا کہ اس سے نہ شکار ہوسکتا نہ دشمن شکست کھا سکتا، البتہ اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے اور آنکھ پھوٹ سکتی ہے۔ مطلب یہ کہ بلا ضرورت جانوروں اور پرندوں کو جسمانی صدمہ پہنچانا جائز نہیں۔ جانوروں کے ساتھ جو بے رحمیاں کی جاتی تھیں ان کا اصل سبب یہ تھا کہ اہل عرب کو یہ معلوم نہ تھا کہ جانوروں کو دکھ درد پہنچانا گناہ کا کام ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کی ایذا رسانی ایک شرعی جرم ہے، اسی طرح جانوروں کی ایذا رسانی بھی ایک مذہبی گناہ ہے۔

        چنانچہ ایک عورت کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر صرف اس لئے عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ دیا اور اس کو کھانا پانی کچھ نہ دیا، اور آخر وہ اسی طرح بندھی بندھی مرگئی، بلکہ لوگ چونکہ انسانوں کی بہ نسبت جانوروں کو زیادہ ستاتے ہیں، اس لئے وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ گنہگار ہیں، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ تم لوگ جانوروں کے ساتھ جو بدسلوکیاں کرتے ہوو اگر خدا ان کو معاف کردے تو سمجھو کہ اس نے تمہارے بہ کثرت گناہ معاف کردیئے۔

        ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کے ساتھ کسی سفر کے پڑاؤ میں تھے، آپؐ ضرورت سے کہیں تشریف لے گئے تھے، جب واپس آئے تو دیکھا کہ ایک صاحب نے اپنا چولھا ایسی جگہ جلایا ہے جہاں زمین یا درخت پر چیونٹیوں کا سوراخ تھا، یہ دیکھ کر آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ کس نے کیا ہے، ان صاحب نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میں نے کیا ہے، آپؐ نے فرمایا بجھاؤ، بجھاؤ۔ (غرض یہ تھی کہ ان چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو یا جل نہ جائیں )۔

        ایک حدیث میں ہے کہ ایک پیغمبر کسی درخت کے نیچے اترے تو ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انھوں نے پہلے اپنا سامان اس جگہ سے ہٹایا پھر تمام چیونٹیوں کو آگ سے جلا دیا۔ اس پر خدا نے ان کو وحی کے ذریعہ متنبہ کیا کہ صرف ایک ہی چیونٹی کو کیوں نہیں جلایا؛ یعنی قصاص کی مستحق صرف وہی ایک چیونٹی تھی جس نے کاٹا تھا، تمام چیونٹیوں کا قصور نہ تھا۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک سفر جہاد میں صحابہ کرامؓ ایک چڑیا کے دو بچے پکڑ لائے۔ چڑیا فرط محبت سے ان کے گرد منڈلانے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کیلئے گئے ہوئے تھے، واپس آکر یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے اس کو بے قرار کیا ہے، اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔ صحابہ کرامؓ نے چیونٹیوں کے ایک گھر کو بھی جلا دیا تھا۔ دریافت کرنے پر جب معلوم ہوا کہ یہ خود صحابہؓ  کا فعل تھا تو فرمایا کہ آگ کی سزا دینا صرف خدا ہی کیلئے سزاوار ہے۔

        اسی طرح اہل عرب کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس طرح انسانوں کے ساتھ سلوک کرنا ثواب کا کام ہے بعینہٖ اسی طرح جانوروں اور پرندوں کے ساتھ سلوک کرنا بھی موجب ثواب ہے، اسی عدم واقفیت کی بنا پر ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے خاص اپنے اونٹوں کیلئے پانی کے جو حوض بنائے ہیں، ان پر بھولے بھٹکے اونٹ بھی آجاتے ہیں، اگر میں ان کو پانی پلادوں تو کیا مجھ کو اس پر ثواب ملے گا؟ فرمایا کہ ہر پیاسے یا ہر ذی حیات کے ساتھ سلوک کرنے پر ثواب ملتا ہے۔

        ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص راستہ میں جارہا تھا کہ اس کو سخت پیاس لگ گئی، اتفاق سے اس کو ایک کنواں مل گیا اور اس نے کنویں میں اتر کر پانی پی لیا، کنویں سے نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے زبان نکال رہا ہے اور کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے اپنی پیاس کی شدت کو یاد کرکے اس پر ترس کھایا اور کنویں میں اتر کر پانی لایا اور اس کو پلایا۔ خدا کے نزدیک اس کا یہ عمل مقبول ہوا اور خدا نے اس کو بخش دیا۔ صحابہ کرامؓ نے اس واقعہ کو سناتو بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا جانوروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے؟ فرمایا کہ ہر ذی حیات کے ساتھ سلوک کرنا موجب ثواب ہے۔ صرف جان داروں ہی تک نہیں بلکہ نباتا ت تک کی خدمت اور پرورش کو بھی اجر کا موجب بتایا اور فرمایا کہ جو مسلمان درخت نصب کرتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس کو چڑیا یا انسان یا جانور کھاتا ہے تو یہ ایک صدقہ یعنی ثواب کا کام ہے۔

        اس اصول کے بتانے کے بعد عملی طور پر جانوروں کے ساتھ سلوک کرنے کے متعدد اصول بتائے یعنی:

        ٭  جو جانور جس کام کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی کام لینا چاہئے، چنانچہ فرمایا کہ ایک شخص ایک بیل پر سوار ہوکر جارہا تھا، بیل نے مڑکر کہا کہ میں اس کیلئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں، صرف کھیتی باڑی کیلئے پیدا کیا گیا ہوں، نیز فرمایا کہ اپنے جانوروں کی پیٹھ کو منبر نہ بناؤ، خدا نے ان کو تمہارا فرماں بردار صرف اس لئے بنایا ہے کہ وہ تم کو ایسے مقامات میں پہنچا دیں جہاں تم بڑی مشقت سے پہنچ سکتے تھے۔ تمہارے لئے خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے، اپنی ضرورتیں اسی پر پوری کرو۔ اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر اونٹ کی پشت پر بیٹھ کر خطبہ دیا ہے، اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت سواری کے جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھے رہنا مناسب نہیں کہ اس سے جانور کو غیر ضروری تکلیف ہوتی ہے، صرف سفر کی حالت میں اس پر سوار ہونا چاہئے۔

        ٭  جانوروں کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا چاہئے، چنانچہ فرمایا کہ جب تم لوگ سر سبزی اور شادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹوں کو زمین کی سر سبزی سے فائدہ پہنچاؤ اور جب قحط کے زمانہ میں سفر کرو تو اس کو تیزی کے ساتھ چلاؤ، تاکہ قحط کی وجہ سے اس کو گھاس یا چارے کی جو تکلیف راستہ میں ہوتی ہے اس سے وہ جلد نجات پائے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ دیکھا جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے پیٹھ سے لگ گیا تھا، فرمایا؛ ان بے زبان جانوروں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو، ان پر سوار ہو تو ان کو اچھی حالت میں رکھ کر سوار ہو، اور ان کو کھاؤ تو ان کو اچھی حالت میں رکھ کر کھاؤ۔

        ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں رفع حاجت کیلئے گئے، اس میں ایک اونٹ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر بلبلایا اور آب دیدہ ہوگیا۔ آپؐ اس کے پاس گئے، اور اس کی کنپٹی پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: یہ کس کا اونٹ ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے آکر کہا کہ ’’میرا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا: اس جانور کے بارہ میں جس کا خدا نے تم کو مالک بنایا ہے، خدا سے نہیں ڈرتے، اس نے مجھ سے شکایت کی کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس پر جبر کرتے ہو۔

        ٭  جانوروں کے منہ پر مارنے یا اس پر داغ دینے کی ممانعت فرمائی اور ایسا کرنے والے کو ملعون قرار دیا۔

        ٭  جانوروں کے باہم لڑانے سے بھی منع فرمایا کہ اس سے وہ بے فائدہ گھائل اور زخمی ہوکر تکلیف پاتے ہیں۔

         اسلام کے سینہ میں جو دل ہے وہ کتنا نرم ہے اور کس طرح رحم و کرم سے بھرا ہوا ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔