محمدؐ عبدہٗ و رسولہٗ

تحریر: ماہر القادریؒ … ترتیب: عبدالعزیز

            آسمان و زمین میں کسی مخلوق کی اتنی توصیف و ستائش نہیں کی گئی جتنی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدح و ثنا کی گئی ہے۔ ’’محمد‘‘ مشتق ہی حمد سے ہے، جس کے معنی تعریف کے ہیں ! محمدؐ وہ عبدِ کامل اور انسانیت کا محسن اعظم ہے جس کی تعریف ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی! عبدالمطلب کو جب یہ خوشخبری ملی کہ ان کے پوتا پیدا ہوتا ہے تو ان کو القا کیا گیا کہ نومولود کا نام ’’محمد‘‘ رکھنا، عرب میں اس سے پہلے کسی بچہ کا نام محمد نہیں رکھا گیا۔ تمام مخلوقات میں جو اپنی ذات سے بے مثال و یکتا تھا اس کے نام میں بھی انفرادیت اور شانِ یکتائی پائی جانی چاہئے تھی۔

            اس نام کی تقدیس کا کیا پوچھنا۔ یہ نام اذان و تکبیر میں شامل ہے، دن رات میں پانچ وقت لاکھوں مسجدوں سے ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کی ایمان افروز اور دلنواز صدا بلند ہوتی ہے اور اس آواز سے فضا میں ایسی حرکت پیدا ہوجاتی ہے جس پر قلب و ضمیر جھومتے اور ذوق و وجدان وجد کرتے ہیں۔ اس نام میں جو نغمگی ملتی ہے اس کی کوئی حد و نہایت نہیں ! محمدؐ کے ’’یم‘‘ کی تشدید کا جو لہجہ ہے اس کے زیر و بم سچ مچ فردوس گوش ہیں پھر اس نام کی شیرینی کا یہ عالم کہ ’’محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہوئے دونوں ہونٹ ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور لبوں کا ایک دوسرے سے پیوست ہونا اور چپک جانا انتہائی حلاوت کی دلیل ہے!

نبیؐ کے نام کی لذت پہ ہو درود و سلام … زباں کو لطفِ شرابِ طہور ملتا ہے

            محمدؐ وہ نام ہے جو شیریں بھی ہے، مترنم بھی اور مقدس بھی ہے۔ یہ نام ہی خود بتا رہا ہے کہ میں اس عظیم ترین انسان کا نام ہو جس کی نعت و ستائش اور توصیف ارض و سما پر واجب قرار دی گئی ہے!

            حضورؐ دعائے خلیل بھی ہیں اور نوید مسیحا بھی ہیں ! انجیل میں جس نبیؐ آخر کے ظہور کی خوشخبری دی گئی ہے اس کا نام ’’فار قلیط‘‘ بتایا گیا ہے، ’’فار قلیط کے معنی ہیں ’’محمد اور احمد‘‘! یونانی میں یہ لفظ (فار قلیط) ’’پیریکلوتاس‘‘ بن گیا: علم النسہ (فلالوجی) اس کی گواہی دیتا ہے کہ آدمیوں اور شہروں کے ناموں میں اس قسم کے تغیر ہوتے رہتے ہیں، مثلاً لاہور کو قدیم نظموں میں ’’لہاور‘‘ اور ملتان کو ’’مولتان‘‘ باندھا گیا ہے! اسپین کے مشہور شہر Madrid کو عربی میں مجریط کہتے ہیں۔

            توریت کے باب استثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ آخری کلام درج ہے۔ ’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوا، دس ہزار مقدسوں کے ساتھ‘‘۔

            سیدنا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو دس ہزار جاں نثار صحابہؓ کرام حضورؐ کے جلو میں تھے۔ کوہِ ’’فاران‘‘مکہ کی پہاڑیوں کو کہتے ہیں۔

            جقوقؐ نبی نے بھی اس بشارت کو دہرایا: ’’خدا تیمان سے اور جو قدوس ہے کوہِ فاران سے آیا‘‘ اس کی شوکت سے زمین آسمان چھپ گئے اور اس حمد سے زمین معمور ہوگئی‘‘۔

            تاریخ بتاتی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ جس کی حمد کی گئی ہے اس کا نام محمدؐ ہے اور محمدؐ ہی کی حمد سے زمین معمور ہوگئی (صلی اللہ علیہ وسلم)۔

            انبیائے کرام کی پیش گوئیوں میں جو نام ملتا ہے وہ حمد (Praise) سے مشتق ہے اور یہ ذات گرامی احمد مجتبیٰ اور محمد مصطفی (روحی لہ الفدا) کی ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ کسی انسان پر اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں جتنی کتابیں سیدنا محمد عربی نبی آخر صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی ہیں اور ان کتابوں میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حضورؐ کے ذکر اور تعریف و ستائش نے شعر و ادب کو زندگی بخشی ہے۔

            حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے یہ دو شعر نام محمدؐ ہی کی عظمت و تقدیس کے ترجمان ہیں ؎

’وضم الا لہ اسم النبی الیٰ اسمہ … اذ قال فی الخمس المؤذن اشہد‘

(اللہ نے اپنے نام کے ساتھ ان کے نام کو جوڑ دیاہے… جبکہ پانچ وقت مؤذن اشہد کہتا ہے)

’وشق لہ من اسمہ لیجلہ … فذو العرش محمودٌ و ہذا محمد ‘

(اللہ نے ان کا نام ان کے اِجلال کیلئے اپنے نام سے مشتق کیا ہے جو صاحب عرشِ محمود ہے اور یہ محمد ہیں )

            جب سیدنا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین کو اسلام کی دعوت دی ہے اور ان کو خطوط بھیجے ہیں تو قیصر کو بھی نامہ مبارک ملا، قیصر نے حکم صادر کیا کہ عرب کا کوئی رہنے والا مل جائے تو اسے میرے دربار میں حاضر کرو، میں اس سے کچھ پوچھنا اور معلوم کرنا چاہتا ہوں، اتفاق کی بات کہ ان دنوں عرب کے تاجر غزہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ابو سفیان جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے ان تاجروں میں شامل تھے! قیصر نے ملازمین اور پیادے ابو سفیان کو اپنے ہمراہ لے کر دربار میں پہنچے، قیصر نے دربار کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ آراستہ کیا تھا، قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابو سفیان سے متعدد سوالات پوچھے، جن میں سے دو سوال یہ تھے:

            ابو سفیان… نہیں۔

            قیصر … وہ کبھی عہد و پیمان کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟

            ابو سفیان… ابھی تک تو ایسی کوئی بات اس نے نہیں کی لیکن اب جو نیا نیا صلح کا معاہدہ ہوا ہے، اس میں دیکھیں وہ اپنے عہد پر قائم رہتا ہے؟ قیصر کے دربار میں ابو سفیان کی زبان سے یہ درحقیقت محمدؐ عربی کی تعریف تھی جو بے ساختہ ابو سفیان کی زبان سے نکلی اور تمام درباری کہنے والے کا منہ تکنے لگے۔ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا، ایمان و اسلام کی دولت ابھی اسے نصیب نہیں ہوئی تھی، وہ قیصر کے سامنے جھوٹ بھی بول سکتا تھا مگر محمدؐ کے نام کی عظمت و تقدیس نے اس کو سچ بولنے پر مجبور کر دیا۔ ابو جہل جیسا شدید دشمن کہا کرتا تھا کہ

             ’’محمد! میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا مگر تم جو کلام سناتے ہو اس کو درست نہیں سمجھتا‘‘۔

            حق اور صداقت کی یہ خوبی ہے کہ دشمن بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اور اس گواہی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قریش حضورؐ کی دیانت و امانت کا تجربہ کرنے کے بعد آپ کو ’’الامین‘‘ کہتے تھے اور حضورؐ کے اعلانِ نبوت کرنے کے بعد قریش نے دشمنی، عداوت اور ایذا رسانی کی حد کر دی تھی اس وقت بھی وہ اپنی امانتیں محمدؐ عربی ’الامین‘ ہی کے پاس رکھتے تھے۔ ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کو ہدایت فرمائی تھی کہ تم قریش کی امانتیں واپس کرنے کے بعد مدینہ کا رخ کرنا۔

            12ہجری نبوی کا واقعہ ہے جب عقبہ ثانیہ میں مدینہ کے انصار حضورؐ سے بیعت کر رہے تھے، اس موقع پر سعدؒ بن زرارہ کھڑے ہوگئے اور اپنے ساتھیوں سے بولے: ’’یا ایہا الاخوان! تمھیں کچھ پتہ بھی ہے؟ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو۔ یہ تو عرب و عجم سے اعلانِ جنگ ہے‘‘۔

            یہ بھی محمدؐ کی شانِ اقدس میں منثور قصیدہ تھا۔ سعدؓ بن زرارہ نے انصار کو بتایا کہ یہ اس کی بیعت ہے جو دنیا کے عظیم ترین اور آخری انقلاب کا داعی اور نقیب ہے۔

            جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ پہنچے ہیں پورا مدینہ حضورؐ کے استقبال کیلئے امڈ آیا تھا اور انصار نے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیئے تھے، خیر مقدم کے اس موقع پر مخدرات یعنی پردہ نشین خاتونین مکانوں کی چھتوں پر یہ اشعار ترنم سے پڑھ رہی تھیں :

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا (ہم پر چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا ہے) … مِنْ ثَنِیَاتِ الْوِدَاع (کوہ وداع کی گھاٹیوں سے)

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا  (ہم پر شکر واجب ہے) … مَا دَعٰی لِلّٰہِ دَاعٖ  (جب تک اللہ سے دعا مانگنے والے دعا مانگیں )

            اور بنو نجار کی معصوم لڑکیاں دف بجاکر گا رہی تھیں :

            نحن جوار من بنی النجار  (ہم خانوادۂ نجار کی لڑکیاں ہیں ) … یا حب ذا محمداً من جارٖ  (محمدؐ کتنے اچھے ہمسائے ہیں )

            اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی پیش گوئی کو صحیح ثابت کر دکھایا اور ’’محمدؐ کی توصیف و ثنا سے زمین معمور ہوگئی!‘‘

            عبداللہ بن سلّام یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے اور یہودی ان کا بڑا احترام کرتے تھے، انھوں نے پہلی بار حضرت سیدنا محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھے:  ’’خدا کی قسم! جھوٹے کا یہ چہرہ نہیں ہوسکتا‘‘۔

            حضرت انسؓ نے حضورؐ کی سخاوت، سیر چشمی اور ایثار کی کتنی جامع تعریف کی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کوئی چیز اٹھاکر نہیں رکھتے تھے‘‘۔

            حضرت عدی بن حاتم نے عیسائی مذہب اختیار کر رکھا تھا، لوگوں کی زبان ان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو حالات پہنچے تو وہ اس تذبذب میں مبتلا ہوگئے کہ حضور بادشاہ ہیں یا پیغمبر ہیں، ایک بار ایسا ہوا کہ وہ اپنے قبیلہ کے وفد کے ترجمان کی حیثیت سے بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے، انھوں نے دیکھا کہ ایک مسکین صورت عورت وہاں آئی، اس کے آنے کا مقصد حضورؐ کی خدمت میں کچھ عرض و معروض کرنا تھا، حضورؐ نے گلی میں کھڑے ہوکر اس کی عرض داشت سنی اور اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک وہ عورت خود نہیں چلی گئی۔ عدی بن حاتم کا یہ منظر دیکھ کر وہ تذبذب اور شک دور ہوگیا۔ ان کا ضمیر پکار اٹھا کہ حضورؐ پیغمبر ہیں، بادشاہ نہیں ہیں۔

            قرآن مجید نے حضرت محمد بن عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کی ان لفظوں میں تعریف کی:

            اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم  (اے محمد! تم اخلاق کے بڑے درجہ پر ہو)

            اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک شخص کے دریافت کرنے پر جواب دیا:

             ان خلق رسول اللہ کان خلقہ القرآن (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق سراپا قرآن تھا)۔

            حضرت عائشہؓ نے اس طرح قرآن کی تصدیق بھی کر دی اور اپنے عملی تجربہ کا خلاصہ اور لب لباب بھی بیان کر دیا۔

            اب سے کوئی پچاس برس پہلے کی بات ہے، شہر مدراس میں سیرت النبیؐ کے ایک بڑے اجتماع میں ایک اونچے درجہ کے ہندو لیڈر اور دانشور نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ہماری پوری قوم برسہا برس سے مورتی کھنڈت کی کوشش کر رہی ہے مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ ہندو مورتیوں کی پوجا آج بھی کر رہے ہیں، اس کے بر خلاف عرب میں تنہا ایک شخص اٹھتا ہے اور بت پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اس کی آواز اتنی اثر انگیز اور انقلاب آفریں ثابت ہوتی ہے کہ ملک عرب کے ہر گوشہ سے بت پرستی کا وجود ہی سرے سے مٹ جاتا ہے۔ بت پرست، بت شکن بن جاتے ہیں۔ دنیا کے پردے پر جہاں مسجدیں پائی جاتی ہیں ان میں بت تو ایک طرف رہے کسی جاندار کی تصویر تک دکھائی نہیں دیتی… تو ایسے شخص کو میں نبی نہیں خدا کہوں گا۔

            مگر ہم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی حضورؐ کے معجزات، کارناموں اور فضائل و کمالات کو واقعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے: اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ہی کہتے ہیں ! حضورؐ کمالِ عبدیت کے اس مقام پر فائز ہیں جس سے بلند تر کوئی مقام نہیں اور جو انسانیت کی معراج ہے۔

تبصرے بند ہیں۔