ترکی میں مغربی فکر کے غلبہ کی تاریخ (1/2)

(مصادر اسلامی کی جدید تعبیروتدوین کی کوشش کا جائزہ)

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

یہودیت اور عیسائیت کی مذہبی بے مائیگی

            مغربی فکر و فلسفہ کا مطالعہ کرنے والا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں عیسائیت اور یہودیت کس قدر تضادات کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت نے خاص طورپر گذشتہ پانچ صدیوں میں بے شمار فکری تبدیلیوں کا سامنا کیا ہے اوران کا بہت زیادہ اثر بھی قبول کیا ہے۔ روایت پسند یا قدامت پسند عیسائی طبقہ اپنی سطح پر داخلی شکوک اور دیگر مادی مسائل میں گھرتا چلا گیا، جب کہ جدت پسند عیسائی طبقہ اس حد تک آزاد ہوگیا کہ اُس نے مذہب کی ضرورت ہی سے انکار کردیا، چنانچہ اس وقت دونوں مذاہب کے سارے طبقات اور اُن کے افراد گم گشتہ منزل ہیں۔ ان کے سامنے جدید زمانے کے سماجی مسائل کے حل کے لیے دو متضاد طریقے ہیں۔

1۔          موجودہ سماجی اداروں کی تشکیل نو اور سماجی اصلاح کا طریقہ اختیا رکیا جائے، تاکہ لوگ مذہبی رسوم اور پابندیوں کے بغیر آزادی سے اپنے امور کی تکمیل کریں۔

2۔          قدیم مذہبی تعلیمات بحیثیت قانون نافذ کی جائیں اور افراد کو اس ناپاک دنیا سے وحی کی روشنی میں نجات اور فلاح دلائی جائے۔

            مؤخرالذکر طریقہ قدامت پسند (Orthodox)عیسائیوں کا ہے، جن کے پاس مذہبی تعلیمات تو ضرور ہیں، لیکن بے شمار تحریفات سے پُر۔ اس لیے مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی منصوبہ بندی اُن کے پاس موجود نہیں ہے، جب کہ اول الذکر طریقے کے حامی جدت پسند(Modernist) ہیں، جن کا موقف یہ ہے کہ سماجی، معاشی اور معاشرتی اداروں کی تشکیل کے لیے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس کی جدید تعبیر ناگزیر ہے۔ مذہب کے بارے میں ان کا یہ رویہ زندگی کے ہر شعبہ میں دکھائی دیتا ہے، مثلاً ایڈون اے برٹ عائلی زندگی کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے جدید یت پسندوں کا یہ موقف بیان کرتا ہے:

            ’’عصمت کے روایتی معیار کے مطابق ان مسائل کا کوئی آسان حل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اساسیین اور کیتھولک الہٰیین کے ساتھ اس امر میں متفق ہیں کہ عائلی تعلقات اس طرح استوار ہونے چاہئیں کہ اس رشتے میں منسلک ہونے والوں کا روحانی ارتقاء ممکن ہو۔ اس تعلق کا مقصد محض انفرادی خوشی یا راحت حاصل کرنانہیں ہونا چاہئیے، لیکن اس مقصد کے لیے ان کے خیال کے مطابق بائبل کے پیش کردہ اصول یا روایتی طریقے کارآمد نہیں۔ حالات کی تبدیلیوں کے باعث شادی شدہ زندگی کے مواقع اور ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، ’عورتوں کی آزادی‘ اور ضبط تولید کے قابلِ اعتماد طریقوں، کی دریافت نے پرانے تصورات کو بالکل ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ 1؎

      نتیجہ یہ ہواکہ عیسائیت کے یہ دونوں بڑے فرقے مذہب سے دور ہوگئے۔ کیتھولک اس وجہ سے کہ ان کے پاس واضح تعلیمات نہ تھیں، گو دینی تمسّک کے جذبات ضرور موجود تھے، ساتھ ہی اصول اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی جمود کا شکار ہوبیٹھے اور زمانے کی ترقیات کو دیکھتے ہوئے اپنے مذہب کی بے بسی کا مشاہدہ کرنے لگے، جبکہ پروٹسٹنٹ یاجدید یت پسند طبقہ جو نئی تعبیرات اور عقلی تاویلات کے باعث پہلے ہی مذہب سے بے زار یا اسے ناکافی قرار دے چکا تھا، نئی روایات میں مزید الجھتا چلاگیا اور بالآخر اپنا دامن مذہب سے کلّی طور پر منقطع کربیٹھا۔ مذہب سے دوری کے بعد مغرب مادی وسائل کے حصول اور اُن کی ترقی میں مشغول ہوگیااور رفتہ رفتہ پوری دنیا میں مادی طاقت اور غلبے کا نشان بن گیا۔

            مادیت کا میلان ہمیشہ آزاد خیالی اور بے راہ روی کا طرف ہوتاہے، جب کہ مذہب کے پیش نظر روح اور جسم کے پاکیزہ تعلق کا نشوو نما اور ترقی ہوتی ہے۔ یہیں سے مغربیت (مادیت) کی اسلامیت (روحانیت) سے کش مکش شروع ہوتی ہے۔ چونکہ اسلامی روایات و افکار اپنے مضبوط مصادر واساسیات کی بدولت مغربی اثرات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے پوری مغربی مشنری اسلام کی اساسیات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوشاں ہے۔

مغرب کاترک مخالف فکری محاذاور اس کی مختلف جہات

      مغرب کا اسلام مخالف رویہ جنگ وجدال اور مسلسل جارحیت کو اپنانے کے باوجو د امت کے اسلامی تشخص اور اس کے انداز فکر کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد مغربی مفکرین نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف فکری محاذ کھولا۔ اس ضمن میں انھوں نے مشرقی علوم کے ذخیرہ کو جس حد تک ممکن ہوا اپنے قبضہ میں لیا، پھر مشرقی زبانوں پر دست رس حاصل کرکے اسلامی افکار کو داغ دار بنا کر پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

            مستشرقین اسلامی ممالک میں مسلم اقوام کے مزاج اور رویوں سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے پے بہ پے آنا شروع ہوئے اور اپنی پالیسی سازی میں اُن معلوم حقائق کو مدنظر رکھاجو وہاں کے گہرے مطالعے اور غور وخوض کے بعد اُن کو میسر آئے۔ استعماریت کے راستے اسی طرح کھلے۔ ترکی اپنی سطوت و شوکت کے باعث ہمیشہ اہل مغرب کوکھٹکتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی تہذیب و تمد ن اوراسلامی دنیا کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ترکی کو آلۂ کار بنانا سب سے زیادہ موزوں تھا۔ ترکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو خدا کے دین کی حیثیت سے اختیار کرلینے کے بعد ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے اسلامی اخلاق وآداب ان کے ضمیراور خمیر میں رچ بس چکے تھے، حتی کہ انہوں نے اپنے مخصوص قدیم رسم الخط کو بھی تبدیل کرکے عربی رسم الخط اپنالیااور پاسبان کعبہ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ ڈاکٹر اکمل ایوبی اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں :

            ’’جب خود ان کی (ترکوں ) حکومتیں ایشیا اور یورپ میں قائم ہوئیں تو یہ قوم اسلامی شوکت و طاقت کی علم بردار بن گئی، اور ان علاقوں میں اسلامی تمدن کے بیج ہی نہیں بوئے، بلکہ ان علاقوں کو پوری طرح اسلامی رنگ میں رنگ دیا، جہاں مسلمان ہزار کوششوں کے باوجود اپنے قدم نہیں جما پائے تھے۔ اس وقت ترک نام ہی ہیبت پیدا کردینے کے لیے کافی تھا اور انہیں شکست دینا یا ان کی قوت کو تباہ کرنا ایک ناممکن امر سمجھا جاتاتھا۔ اسی ہیبت کی وجہ سے فتح قسطنطنیہ کے تقریباً دوسوسال کے بعد بھی ایک فرانسیی مصنف (Guillet) نے 1681ء میں اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ’’ہر عیسائی کو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چائیے کہ خدا پھر کوئی سلطان محمد ثانی پید ا نہ کرے‘‘۔ 2؎

            فتح قسطنطنیہ (1453 ء ) کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عیسائیت نے مسلمانوں سے جارحانہ مزاحمت کارویہ ترک کردیا اور جنگ سے زیادہ فکری اور تخریبی سرگرمیوں کی طرف اپنا رخ موڑ لیا۔ 3؎

تاریخِ ترکی رقم کرنے میں اختیار کردہ استشراقی طرزِ تحقیق

            مستشرقین نے ترکی کی اس اہمیت کے باعث اس کی تاریخ اور روایات کو مسخ کرکے اور محرّف صورت میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی۔ مقصد یہ تھا کہ ترک قوم اپنے مذہبی تشخص کو پس ِ پشت رکھ کر نسلی تفاخرکو اپنی شان و شوکت کا سبب قرار دے۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث کی جدید تعبیر و تشریح اور ان مصادر کے نقائص بیان کرنے کاسلسلہ شروع کیا گیا۔ بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں سے اکثر غیرمعیاری اور غیر منطقی طرز استدلا ل سے بھر پور تھیں۔ مستشرقین، تاریخ نگاروں اور نقّادوں کی ایک کم زوری یہ ہے کہ وہ جس ماحول اور زمانہ کے وہ خود پیداوار ہوتے ہیں اور جس میں وہ اظہار خیال کرتے ہیں اسی کو معیار مان کراسلامی مصادر کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اسلام اور زمانۂ حال کے درمیان اختلافات اور تضادات کی فہرست تیار کرنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ اسی کو مسلم ممالک کے نام نہاد اسکالر دلیل اور حجت مانتے اور آگے پڑھاتے ہیں۔

            گذشتہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ترکی کے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظام کو متاثر کرنے میں تین عناصر کا کردار اہم رہا ہے:

1۔          مغربی اسکالرز کی رقم کردہ تاریخ ترکی۔

2۔          اسلامی مصادر سے مسلمانوں کا رابطہ منقطع کرنے کی مغربی کوششیں۔

3۔          مغرب کے پروردہ علماء اور حکم رانوں کے ذریعے مغربی تہذیب کا مسلم ممالک

            میں تسلط۔

            ڈاکٹراکمل ایوبی نے اپنے مقالہ میں مغربی مؤرخین کی طرف سے ترکی کی تاریخ کو حقیقت کے بالکل برعکس پیش کرنے کے مختلف شواہد پیش کیے ہیں۔ ایک جگہ رقم طرازہیں :

            ’’ مستشرقین نے اسلامی اتحاد کو ضرب لگانے کی غرض سے ترکوں کو اس اصل قومیت کا احساس دلایا جس کا دارو مدار نسل اور مادری زبان پر ہے۔ اس کی تکمیل کی غرض سے ایک فرانسیسی مستشرق Joseph De Guigiyes نے آٹھویں صدی کے وسط میں ایک ذہنی خاکہ بنایا اور عملی شکل دینے کے لیے ترکوں کی قدیم تاریخ لکھی اور ان کے ان کا رناموں کو شان دار الفاظ میں پیش کیا، جو ترکوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے سرانجام دیے تھے… اس نے قدیم غیر اسلامی ترکی تہذیب کے احیاء کی دعوت اس لیے دی، تاکہ ترکوں کے اسلامی معاشرہ میں انتشار پیدا ہو اور ان کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ صرف مسلمان نہیں، بلکہ ترک بھی ہیں، یا یوں کہئے کہ وہ ترک پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے جوسف وان ہمر، ویمبری، راڈلوف اور جاہون نے اپنی تصانیف کے ذریعہ کوشش کی۔ ہوورتھ، سر جیمس ولیم ریڈ ہاؤس اورالیاس جون و لکنس گب کی تصانیف بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ۔ ۔ مستشرقین نے یہ کوشش کی کہ ترک اپنی قدیم تاریخ اور اسلام سے پہلے کی داستان سن کر خوش ہوں۔ ۔ ۔ تاکہ رفتہ رفتہ مذہبی احساس اور اسلامی اخوت کے بدلے ان میں نسلی تاثرات فروغ پا جائیں ــ‘‘۔ ـ4؎

            ترکی کی تاریخ رقم کرنے میں اہل مغرب نے جس بد دیانتی اور غیر منصفانہ اسلوب کا مظاہرہ کیا ہے اس کا انتہائی جامع تذکرہ ڈاکٹر موصوف نے اپنے مقالہ ـ ’مستشرقین اور تاریخ ترکی‘ میں کیا ہے۔ ان کے بقول ’’یورپی ممالک کو ترکوں سے سخت عداوت تھی، چنانچہ مغربی اہل قلم نے ترکوں کی تاریخ لکھتے وقت تعصّب سے کام لیا ہے اور ترکوں کے مذہب یعنی اسلام پر طعنہ زنی اور دیوانہ وار اعتراضات کیے ہیں، مثلاً ایورسلی نے اپنی کتاب The Turkish Empire میں عثمانی سلطان بایزید یلدرم (1389ء – 1402ء) کے حالاتِ زندگی (ص 48) لکھتے وقت ایک ترکی کہاوت یا مقولہ کو قرآن کی آیت قرار دے کر اسلام دشمن ہونے کا ثبوت پیش کیا، اسی طرح ایورسلی ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ مغربی ایشیا کے عیسائی ترکوں سے ڈر کر اسلام لائے تھے، اور ان کے اور ترکوں کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوگئے اور دونوں کے میل سے ایک نئی نسل تیار ہونے لگی جودوسری ریاستوں کے باشندوں سے بہت کچھ مختلف تھی اور اپنے کو ’عثمانی‘ کہتی تھی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہروہ شخص، جوعثمانی سلطنت کاباشندہ تھا، عثمانی کہلاتا تھا، اس میں نسل، مذہب اور زبان کی تفریق نہیں تھی۔ اسی طرح سر جارج لارپنٹ نے اپنی کتاب Turkey میں اسلام سے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ علم کی روشنی پھیلانے کا مخالف تھا، اور عثمانی ترکوں کی نسبت یہ کہا ہے کہ یہ قوم منظم جہالت کی دل دادہ تھی۔ 5؎

             واضح رہے کہ ترکوں کی تاریخ لکھنے میں استشراقی تعصّب اور تنگ نظری کا اعتراف اب چند یورپین اسکالرز بھی کرنے لگے ہیں، جن میں برنارڈلوئس سر فہرست ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں :

            ’’یورپی تاریخ کی زیادہ ترکتابیں ان ممالک میں عثمانی حکومت اور اس کے اثرات کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں۔ یہ کتابیں خالصتاً مغربی شواہد پر مبنی ہیں، جوزیادہ تر ناقص، گھڑی ہوئی اور غیر معتبر ہیں۔ ان کتابوں میں تاریخ یورپ کے ترکوں کے رول کی افسوس ناک حد تک گم راہ کن تعبیر ملتی ہے۔ ‘‘ 6؎

متا ثرینِ یورپ کا ملحدانہ افکار کی اشاعت میں کردار

            اہل مغرب کی ان کوششوں کے نتیجہ میں ترکی کے اندر ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو استشراقی تحریروں سے انتہائی متاثر ہوا۔ اس طبقہ نے ترکی کی داخلی صورت حال کو مغربی فکر کے زیر اثر لانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس کردار کے کئی مراحل اور شعبے تھے۔ سیاست اور شریعت سے لے کر سماج تک اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ اس طبقہ کے زعماء میں احمدجودت پاشا، مصطفی جلال پاشا، احمدمدحت، علی توفیق اور نجیب عاصم شامل ہوئے اور تمام مراحل میں ترک مخالف قوتوں کا ساتھ دیا۔ 1839ء سے 1876ء تک کازمانہ ترکوں میں مغربیت کے استحکام کا زمانہ ہے۔ اسی دوران چند نوجوان عثمانیوں نے ’تنظمیات‘ کی پالیسوں کو سطحی قرار دینے اورحکومت پر تنقید کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح اسلام، آئین اور قومیت کے مابین کشاکش نے جنم لیا۔ 7؎  انھوں نے ہی سب سے پہلے آزادی نسواں کا نعرہ بلند کیا۔ Arranged Marriages پر تنقید کی، نامک کمال نے شادی اور عائلی زندگی کے غیر مصنفانہ پہلوؤں، خصوصاً عورت کی سماج میں مجموعی حیثیت کو ناقدانہ انداز میں پیش کرنے کے لیے ایک اخبار ’عبرت‘ جاری کیا، تاکہ عورتوں سے متعلق جدید اصلاحات کے لیے راہ ہموار کی جائے، S.Mardin نے ضیاپاشا، علی صوآوی اور سناسی وغیرہ کے ناولوں اور کتابوں کا بھی انہی جدت پسند افکارکی اشاعت کے ضمن میں تذکرہ کیا ہے۔ 8؎

            آزاد خیالی اور جدیدیت پسند طبقوں کی یہ آراء زور پکڑ تی گئیں اور مغربی سامراج نے ترکی میں قدم جمائے، شریعت ِ اسلامیہ کی جامعیت، عمومیت اور ہمہ گیری میں ر خنہ اندازی کے لیے انھوں نے دین اور دنیاکی تفریق کا نظریہ پھیلایا، ترکوں کو ان کے سیاسی اور مذہبی معاملات میں علیحدگی کا تصور دیا، خصوصاً نوجوان نسل کو متاثر کرنے کے لیے پرسنل لا میں باریک تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اگرچہ اسلام کی زبردست مزاحمت کی وجہ سے اس وقت قانوناً اور عملاً تو ایسا نہ ہوا، تاہم ترکی میں علماء کرام کی ایک جماعت نے، جس میں غالباًعلامہ شامی ؒ بھی شامل تھے، جب 1286ء میں ’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘ کی اشاعت کی تواس میں بھی عائلی قوانین کاباب شامل نہیں کیا گیا اور اس کے متعد دمباحث بھی محدود کرکے شامل اشاعت ہوئے۔ 9؎

         حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلامی میں خلافت عثمانی کا خاتمہ ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ اس عظیم سلطنت کے زوال کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ وہاں مغرب اور مغربی تہذیب سے متاثر ایک طبقہ وجود میں آچکا تھا اور بدقسمتی سے کچھ ایسے حکم راں بر سراقتدار آگئے تھے، جنہوں نے نظریاتی اور تہذیبی لحاظ سے ترک قوم کو بہت حد تک مغرب کا مقلد بنانے میں اپنی کوششیں صرف کردیں۔ مصطفی کمال پاشا( اتاترک)اس صف میں انتہائی ا ہم نام ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔