سوڈانی مسلم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی کے افکار کا مطالعہ (قسط 3)

ذکی الرحمن غازی فلاحی مدنی

آزاد خیال ردِ عمل

        ترابی کی نظریاتی جنگ دو طرفہ رہی ہے، ایک طرف انھوں نے روایت پسند دینی حلقوں سے پیکار لی ہوئی ہے، دوسری طرف وہ آزاد خیال مفکرین کے بھی معتوب بنے ہیں۔ 70 ء کی دہائی میں صرف ایک مختصر مدت کے لیے سوڈانی اخوانی تحریک نے ملک کے جمہوری ڈھانچے سے اتفاق کرکے اپنے آپ کو سیاسی حلقوں میں مقبول بنالیا تھا، لیکن اس مختصر عرصے سے ماقبل و ما بعد سوڈانی تحریکِ اخوان اور اس کی قیادت بیشتر اوقات ملکی سیاسی جماعتوں کا ہدف ِ تنقید و ملامت ہی بنی رہی ہے۔ صدر نمیری کی عوامی نا مقبولیت کے آخری زمانے میں تحریک ِ اخوان کا ان کی معاونت کرنے اور اسلامائزیشن کے ان کے متنازع فیہ منصوبے پر رضامندی کا رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے بھی اس مخالفت کو بڑھاوا ملا تھا۔ نمیری دور کے سابق وزیرِ خارجہ ’’منصور خالد‘‘ نے اس دور سے متعلق اپنی یادداشتوں میں جو بعد میں مستقل کتاب کی حیثیت سے شائع بھی ہو گئی ہیں (الفجرالکاذب: نمیری وتحریف الشریعۃ :الدکتور منصور خالد) اُ س عہد کا تاریخی تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیے میں انہوں نے ترابی اور ان کے ہم نواؤں کے نمیری اصلاحات کی تائید وتوثیق کی خاطر کھل کر سامنے آنے کے رویے پربڑاشدید اظہارِ خیال کیا ہے۔ وہ ان نمیری اصلاحات کو تہذیب ِ اسلامی کی صبحِ نو کے کہرے میں چھپی بربریت اور مذہبی انتہا پسندی کی دلدل کانام دیتے ہیں۔

         وزیرِموصوف ترابی کے اس فکری نقطے پر کامل اتفاق کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں روایتی اسلامی فکر کو بدلناہوگا اور قدیم اسلامی اقدار و روایات کو عہد ِ حاضر سے ہم آہنگ قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ ترابی سے ان کی وجہ نزاع یہ ہے کہ ترابی نے نہ صرف عملی زندگی میں اپنے نظریات کو استعمال نہیں کیا، بلکہ بسا اوقات اپنے سابقہ آزادروی پر مبنی افکار و خیالات سے یک گونہ معکوس راہِ عمل اختیار کرلی۔ مثلاً 1988ء میں -بقول ان کے- ترابی نے اسلامی آئین کو ملک میں نافذقوانین کا مجموعہ قرار دیاتھا حالانکہ اس فیصلہ کاعام افراد کی متفقہ آراء سے کوئی تال میل نہیں تھا۔ ترابی نے اپنی متعدد علمی تصنیفات میں مذہبی اجارہ داری اور جابرانہ طرز ِ حکومت کی سخت مذمت کرتے ہوئے عوام الناس کے انفرادی واجتماعی حقوق کی ادائیگی کی وکالت کی ہے۔

        اپنے اس فکری عقیدے کی پاسداری میں ترابی نے عملاً ایسا کیا بھی۔ 1977ء میں ترابی نے سوڈانی قوانین پر نظر ثانی کے لیے نمیری کی قائم کردہ کمیٹی میں شرکت کرتے ہوئے قانونی اصلاحات کے نفاذ کے لیے محتاط رویہ اختیار کرنے کی تاکید کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت حالات میں فوری و یکسر قانونی تبدیلیاں اور ان کے کلی نفاذ وتطبیق کے نتیجے میں موجودہ معاشرتی نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے اوراس طرح پورا ملک انارکی وبدامنی اورانتشار وفوضویت کا شکار ہوسکتا ہے۔ لیکن ستمبر 1983ء میں جب صدر نمیری نے جملہ قانونی اصلاحات کے فوری نفاذ کا اعلان کردیا، تو ترابی نے اپنے تمام سابقہ بیانات ومواقف سے یکسر طوطا چشمی کرتے ہوئے صدر نمیری کی جابرانہ حکومت کا ساتھ دیا اور بتدریج اصلاح، امن اور انصاف جیسے ایشوزکو کاغذی مذاق قرار دیا۔

        خالد منصور مزید کہتے ہیں کہ مرد وزن اورمسلم و غیر مسلم کے مساوی حقوق کے بارے میں ترابی اور ان کے متبعین نے یا تو غلط طور پر اسلامی فقہ کو اپنا ماخذ بنایاہے، یا پھربعض خود تراشیدہ ونام نہاد شرعی قوانین میں ان کی حفاظت وضمانت پائے جانے کا دعویٰ کیاہے، حالانکہ خود ان کے بنائے ہوئے اورنافذکردہ مجموعۂ قوانین میں ایسی کئی دفعات پائی جاتی رہی ہیں، جو ان کے اس کھوکھلے دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ ترابی نے پہلے مرحلے ہی میں اس بات کاکامل ادراک کرلیا تھا کہ ستمبر 1983 ء میں جبراًنافذکردہ مجموعۂ قوانین کی بدولت، 1973ء میں تیارشدہ اورنفاذ شدہ دستور کی دفعہ 38 کی معنویت بری طرح مسخ ہو رہی ہے۔ سابقہ دستور کی اس دفعہ کے بموجب تمام اہلِ وطن کو مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ اتنا سب ہونے کے بعد ترابی اور ان کے متبعین سے امید کی جاتی تھی کہ عام شہری ووطنی حقوق کی اس پامالی پر وہ پوری شد ومدکے ساتھ نکیر کریں گے، لیکن جو ہوا وہ ان توقعات کے برعکس تھا۔ انھوں نے خود ساختہ و متوہمہ لاقانونیت وانارکی کے خطرے سے اجتناب کا بہانہ کرتے ہوئے 1984ء میں اسپیکر آف پارلیمنٹ کے منصب سے نمیری کی نام نہاد قانونی اصلاحات کے نفاذ کی باصرار استدعاوتائید کی۔

        خالد منصور کے نزدیک صدر نمیری کی نام نہاد قانونی اصلاحات اور دستوری ترمیمات کی تائید میں ترابی کے متبعین اسلام پسندوں نے انتہائی فکری واخلاقی دیوالیے پن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک طرف توانھوں نے اسلام کی آفاقی اقدار اور گزشتہ صدیوں کے روایتی و معاشرتی نظاموں میں ان اقدار کے تاریخی اظہار کے مابین فرق کا ڈھنڈھورا پیٹاتھا اور عام فقہائے دین کو اسلام کی تعبیر نوکا مزاحم ومخالف اور دقیانوسیت و روایت پرستی کا مجرم قرار دیا تھا، لیکن دوسری طرف انھوں نے 1983-85 میں نمیری قانونی اصلاحات کے مخمصے میں پھنس کر اپنے طرز ِ عمل سے خود اپنے دعوے کے ڈھول کی پول کھول دی۔ اس پورے پرآشوب عرصے میں اسلامی اقدار وروایات کو ان کے قطعی، تاریخی ولغوی سیاق سے کاٹ کر مسخ کرنے کی اُن کی شرمسار کوششوں کا حال آج سب کو معلوم ہوچکا ہے۔

        ان کے اس منافقانہ طرز عمل کی کھلی دلیل 1983ء کا خود ساختہ قانونِ تعزیرات ہے جس میں سابق سیکولر دستور کی 450 دفعات میں سے صرف 10دفعات میں معمولی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ قانونِ تعزیرات میں کی گئی اسلامی اصلاحات کا خلاصہ بھی صرف یہ تھا کہ متعلقہ موجبِ حدودِ شرعیہ جرائم کو ذکر کیے بغیر حدودِ شریعت کو نافذالعمل کیا جائے، بالفاظ دیگرچند مخصوص مذہبی حدود کو تمام دنیوی جرائم پر عام کردیا گیا۔ اس وقت ترابی کے متبعین اسلام پسندوں نے ان دستوری اصلاحات پر خوب بغلیں بجائی تھیں اور اس تنفیذ کو فقہی اجارے داری کے خاتمے اور تہذیب ِ نو کی صبح درخشاں جیسے القاب سے موسوم کیاتھا۔ ان شرعی وتعزیری تحریفات وانحرافات کے دفاع میں ترابی بذات ِ خود صفِ اول میں نظر آئے تھے اورانہوں نے 1984ء میں قائم شدہ ایمرجنسی کورٹ کے روبہ رو شریعتِ اسلامیہ میں برپا کی گئی اس کتر وبیونت کو اسلامی کاز کی ضرورت قرار دیاتھا۔ ترابی نے ان اقدامات کو جرأت مندانہ گردانتے ہوئے مانا تھا کہ سوڈان کا یہ نفاذِ شریعت کا اقدام جدیددورکی اسلامی دنیا کے لیے سوڈان کی علمی وقانونی سوغات قرار دیاجاسکتاہے۔

        25ستمبر 1984ء میں منعقد ایک کانفرنس میں ترابی نے دورانِ خطاب کہا تھا کہ اسلام کا محمدی ماڈل بشمول لفظی و عملی ماخذ ایک آفاقی وابدی معیار ہے، لیکن ان معیاری اقدار کا اظہار مختلف حالات و کوائف میں مختلف شکلوں اور پیرایوں میں ہوتا آیا ہے اور عقلاً ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ مگرانھوں نے 1983-85 کے اپنے طرز ِ عمل سے اس قول کو جھٹلادیا۔ قانونی اصلاحات کے نام پر انھوں نے تمام شرعی اداروں اور احکامات کو ان کے تاریخی ولغوی سیاق سے کاٹ کر ان کی معنویت و اہمیت کو بے پناہ نقصان پہنچایاہے۔ لہٰذا اُن کی تراشیدہ واجب العمل قانونی اصلاحات وترمیمات بالآخرنام نہاد اسلام پسندی، مسخ شدہ جمہوریت اور جابرانہ طرز ِ حکومت کاایسا عجیب و غریب ملغوبہ بن گئیں، جس کااولین سائڈ افیکٹ یا نقصان یہ ہوا کہ روحِ جمہوریت سے خالی اور تکریمِ بنی نوعِ انسانی کے جذبے سے عاری بعض اعمال وتصرفات کی زبردستی دینِ فطرت میں پیوند کاری کردی گئی اور اس پیوند لگے عملی نمونے کو اسلامی رول ماڈل کی حیثیت سے روشناس کرایاجانے لگا۔

        ترابی نے ڈیموکریسی کے اسلامی متبادل کی حیثیت سے اولین مدنی معاشرے کے چند پہلوؤں اورسوڈان کی مہدوی تحریک کے نظامِ حکومت کو جزوی طور پر پیش کیا ہے۔ اس میں بھی انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اِن واقعات کے تاریخی سیاق کو حذف کرنے کی جسارت کی ہے۔ ترابی اور ان کے ہم نوامؤیدین غالباً علم سیاسیات کی اس بدیہی حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ماڈرن ڈیموکریسی (جدید جمہوریت)کا مجموعی ڈھانچہ مسؤلیت ِحاکم کے مفروضے پر قائم ہوتا ہے اور جس کا اظہار سیاسی طور پر پارلیامینٹ اور قانونی طور پر عدلیہ کی بالادستی سے ہوتاہے۔ جبکہ قدیم روایتی اسلامی حکومتیں اپنے تاریخی ادوار میں اس قسم کے احساسِ مسئولیت سے نابلد رہی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ قدیم مسلم نظامِ حکومت میں -جو عہدِ اموی سے عہدِ عثمانی تک مختلف شکلوں میں پایا جاتا رہا ہے- حکام کے ظلم و ستم اوراستحصال واستبداد کا عوامی ردِ عمل صرف اور صرف مسلّح بغاوتوں اور متشدد اقدامات ہی کی صورت اختیار کرسکتاتھا جوکہ اس نے کیا۔

        انسانی حقوق کے مسئلے پر- بشمول ترابی- تمام اسلام پسندوں کا موقف بڑی حدتک مضخکہ خیز ثابت ہواہے۔ نظریاتی لحاظ سے وہ اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ اسلام نے مغرب سے صدیوں پہلے بنیادی انسانی حقوق اور حریتِ رائے کو قانونی مرتبہ بخشا تھا، لیکن موضوعی انداز میں یہ لوگ اپنے اس دعوے کو مدلل نہیں کرپاتے ہیں۔ 1967ء کے پارلیمانی اجلاس کے دوران اس سوال کا جواب کہ آیا کوئی غیر مسلم اسلامی ریاست کا سربراہ ہوسکتاہے، ترابی نے نفی میں دیا تھا جو ان کے سابق و لاحق فکری موقف کے سراسر خلاف ہے۔ ترابی کے متبعین اسلام پسندوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ تہذیب ِجدید کی تمام نوازشوں اور ترقیوں کوبیرونی دخیل اور الحادی قرار دیتے نہیں تھکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ حضرات اپنی عملی وواقعی زندگی میں بغیرکسی احساسِ کرب وخلشِ ضمیر کے، تہذیب ِجدید کی تمام تجلیوں سے مستنیر اور تمام منافع سے مستفیض ہوتے رہنابھی چاہتے ہیں۔

         ماسبق تفصیلات کا خلاصہ صرف اتناہے کہ ترابی کے فکری نظریات اور عملی مواقف فی الحقیقت اسلامی نشأتِ ثانیہ میں روشن خیالی، جدت نوازی اور واقعیت پسندی کے ’ترابیانہ‘ دعووں سے متناقض ومتصادم ہیں۔ اپنی میتھڈلوجی(منہجی طریقِ کار) میں روایتی اسلامی فکر کو نا قابل اعتنا بتاتے ہوئے، ترابی معاصر طبقۂ علمائے دین کو عظمت ِ رفتہ کے خیالی محلوں کا باشندہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عصرِ حاضر میں اسلامی احیائے نو اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب کہ تہذیب ِ جدید کے مثبت عناصر کو اس میں بحسن وخوبی سمو لیا جائے۔ یعنی رومن کیتھولک چرچ کی واٹیکان مجلس اول و دوم کے طرز پر اسلامی فکر و فلسفہ کی بھی تشکیلِ جدید کی کوششیں کی جانی ناگزیر ہیں۔

         یہ تخریبی نظریہ اپنے آپ میں درست ہے یا نہیں، ہمیں نہیں معلوم، البتہ اتنا یقینی ہے کہ ترابی کے متبعین اپنی فکری و اخلاقی خامیوں کی وجہ سے اسلامی فکر وفلسفے کی تشکیلِ جدید جیسے کام کی اہلیت ہرگز نہیں رکھتے ہیں۔ صدر نمیری کے دور ِ اقتدار میں تحریف شدہ شرعی قوانین کے نفاذکی تائیدوتوثیق اور اس نظام بربریت وتاناشاہی سے ان کی مصالحت و معاونت کا رویہ اس کا بین ثبوت ہے۔ بعد کے زمانے میں اپنے سابقہ مواقف سے عملاً گریزکرتے ہوئے بھی انھوں نے کبھی اپنے اس موقف کو غلط شمار نہیں کیاہے، بلکہ ہمیشہ اپنے ناقدین ومعترضین کے جواب میں تاریخی تحریف اور فکری جبر کا سہارا تلاشنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں :الفجر الکاذب، خالد منصور:ص21-169)

تبصرے بند ہیں۔