ہند میں اسلامی دور حکومت کا منصفانہ کردار

سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی

اسلام دنیا کا وہ مذہب ہے جس نے نہ صرف قلیل مدت میں پوری دنیا کو اپنے آغوش میں لے لیا بلکہ اسی مختصر مدت میں دنیا کے تین چوتھائی حصے پر اپنی حکومت بھی قائم کی۔ ڈیڑھ ہزار برس پر مشتمل اسلامی تاریخ نے امن و آشتی اور بین المذاہب رواداری کی ایسی مثالیں پیش کیں جن کی نذیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ یہ اسلامی حکومت ہی تھی کہ جس نے ہندوستان کی سر زمیں پر مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مندروں کے لیے زمینیں پیش کیں ، جس نے غیر مسلموں کو ان کی مذہبی روایات کو آزادانہ ادا کرنے کی اجازت دی، جس نے ان کے مذہبی تشخص و اقدار کو تحفظ بخشا اور اُسی شان و شوکت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے حقوق دیے جیسے کے مسلمانوں کو حاصل رہے، مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کے حقوق کی ادائیگی کا نہ صرف لحاظ برتا بلکہ اہتمام بھی کیا۔ تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک مسلمان کے غیر مسلم پر ناحق مطالبے پر انصاف کرتے ہوئے غیر مسلم کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔

 اسی ہندوستان کی سر زمین پر سیکڑوں برس مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ اُن کے دور حکومت امن و سلامتی اور مسلم و غیر مسلم کے درمیان رواداری و انصاف کا آئینہ تھے۔ ان ہی حکمرانوں میں سلطان قطب الدین ایبک بھی ایسے ہی ایک نیک اور انصاف پسند حاکم تھے۔ انھوں نے اپنے محل کے باہر زنجیرِ انصاف لٹکا رکھی تھی کہ اگر کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا اس پر ظلم کیا جاتا ہے تو مظلوم بلا جھجک اوربے خوف و خطر سلطان تک انصاف کی گہار لگاسکے۔ یہی وہ انصاف پسند مسلم فرمانروا تھا جس نے جرم کی پاداش میں اپنے ہی بیٹے کو قصور وار پائے جانے پر اسلامی احکامِ انصاف پر عمل کرتے ہوئے سر عام کوڑے لگائے اور سزا دے کر اسلامی انصاف کی مثال پیش کی۔

 اسی ہندوستان میں غیاث الدین بلبن نامی سلطان بھی گذرے جن کا دور حکومت امن و سکون اور خوشحالی میں اپنے آپ میں ایک مثال رکھتا ہے۔ اُس دور کے ہندوؤں نے خود اُن کے دور حکومت کی تعریف کی ہے جس پر آج بھی تاریخی شہادت موجود ہے۔ دہلی کے قریب پالم میں 1280 عیسوی کا سنسکرت میں لکھا ایک کتبہ دستیاب ہوا جس میں غیاث الدین بلبن کے دور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اُس دور کے ہندو مؤرخین کا اعتراف یوں ملتا ہے :

’’بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔ اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اور دراوڑ سے رامیشوری تک ہر جگہ بہار کی دل آویزی ہے۔ اس کی فوجوں نے ایسا امن و امان قایم کیا ہے جو ہر شخص کو حاصل ہے۔ سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری اتنی اچھی طرح کرتا ہے کہ خود وِشنُو ( ہندوؤں کا دیوتا) دنیا کی فکر سے آزاد ہوکر دودھ  کے سمندر میں جا کر سو رہے۔ ‘‘

 سلطان علاؤالدین خلجی جن کے متعلق شر پسند طاقتوں نے منصوبہ بند طریقے پر جھوٹ کے پلندے باندھے اور سماج کے اتحاد کو منتشر کرنے کے لیے نفرتوں کی دیوار کھڑی کرتے ہوئے من گھڑت تاریخ مرتب کروائی جب کہ ان کے انصاف کی گواہی آج بھی تاریخ کے سینے میں صحیفوں کی شکل میں موجود ہے۔ ان کے عدل و انصاف کی شہادت پیش کرتے ہوئے فارسی، اردو اور ہندی کے معروف شاعر و صوفی حضرت امیر خسرو ’’ خزائن الفتوح ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ اُس نے حضرت عمر کے دور جیسا عدل قایم کر رکھا ہے۔ ‘‘

  ایسا لگتا ہے کہ یہی عدل و انصاف ہے جو علاؤالدین خلجی کے مخالفین کو پسند نہ آیا یا شاید یہ کہ اس سے ان کی قلعی کھلی، ان کے راز کھلے اور انھیں اپنی قوم سے ہزیمت اٹھانی پڑی جو انھوں نے مخالف ہوا چلا کر ایک امن پسند اور انصاف پسند سلطان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

 سلطان محمد بن تغلق بھی تاریخ ہند کے ایسے ہی مسلم فرمانروا ہیں جنھیں اسلام مخالف طاقتوں نے ظالم بادشاہ کے طور پر پیش کیا ہے جب کہ ان کے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اُس دور کے مؤرخین کا بیان ہے کہ:

ہفتے میں ایک روز سلطان دربار عام منعقد کرکے مظلوموں کی فریاد رسی کرتے۔ سلطان نے اپنے دربار میں چار مفتی مقرر کر رکھے تھے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں احکام سناتے اور سلطان اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ حتیٰ کے سلطان نے ان مفتیوں کو متنبہ کر رکھا تھا کہ اگر کوئی بے قصور ان کے فیصلوں کے سبب تہہ تیغ کو پہنچا تو اس کا خون ناحق ان ہی کی گردن پر ہوگا۔

 ہندوستان کے مشہور مسلم فرمانروا ’’ شیر شاہ سوری‘‘ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ شیر شاہ سور ی مساوات اور ہندو مسلم رواداری کا پیکر تھے۔ ان کی رعایا پروری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انھوں نے یہ اعلان کر رکھاتھا:

’’ اگر کسی نے بھی میری رعایا کے کسی فرد پر بھی ظلم کیا تو میں اس پر بجلی بن کر گروں گا اور اس کو مٹا کر ہی دم لوں گا۔ ‘‘

  ہندوؤں پر ان کے توجہ اور کر م فرمائیوں کا ثبوت ان کے اس اعلان سے ملتا ہے :

’’غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہیں ۔ ان عبادت گاہوں کی جو مسلم حاکم حفاظت نہیں کرے گا اسے معزول کر دیا جائے گا۔ ‘‘

 مغلیہ سلطنت کو کون نہیں جانتا ؟ ہندوستان کے طول و عرض میں طویل مدت تک شان و شوکت کے ساتھ حکومت کرنے والی یہ انتہائی طاقتور اسلامی طرز کی حکومت رہی ہے۔ مغل اگرچہ باہر سے آئے تھے لیکن شاہان مغلیہ نے ہندوستان کو اپنا وطن بنالیا۔ اس ملک میں انھوں نے اس طرح محبت کی جیسے ایک بادشاہ اپنے مادر وطن سے محبت کرتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس ملک میں انھوں نے اسی طرح حکومت بھی کی جیسے ایک بادشاہ اپنے مادر وطن میں حکومت کرتا ہے۔ سلطنت مغلیہ کے نامور بادشاہوں نے اپنے اپنے ادوار میں انصاف پسند و مساوات پر مبنی رعایا پرور اورروادارنہ طرز کی مثالی حکومت کی۔

 مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر اپنے کتاب ’’ تزک بابری ‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

فوج ’’ بھیرہ ‘‘ سے گذر رہی تھی تو سپاہیوں نے ’’بھیرہ‘‘ والوں کو ستایا۔ فوراً اُن سپاہیوں کو گرفتار کر کے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹوا کر تشہیر کرائی۔

 مغل بادشاہ ’’ جہانگیر ‘‘ کا معاملہ تو اس سلسلے میں مزید سخت تھا۔ وہ روزانہ دو گھنٹے عوام کی شکایتیں سنتے یہاں تک کی دوران سفر بھی اس معمول کا اہتما م کرتے اور روزانہ تین تین گھنٹے مظلوموں کی فریاد سنتے اور ظالموں کو بلا امتیاز و تفریق سزا دیتے۔ وہ ’’ تزک جہانگیری ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’مخلوق خدا کی نگہبای کے لیے میں رات کو بھی جاگتا ہوں اور سب کے لیے اپنے آپ کو تکلیف دیتا ہوں ۔ ‘‘

 مغل بادشاہوں کی تعمیرات میں ’ ’ دیوان عام ‘‘ کی تعمیر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دربار میں عوام و خواص کو بلا تردد و  بلا تامل اپنی شکایات بادشاہ کے روبرو پیش کرنے اور اور انصاف مانگنے کی اجازت تھی۔ یہاں بادشاہ نہ صرف عوام کی شکایات سنتے بلکہ خود فریقین سے جرح کرتے اور فیصلہ صادر کرتے تھے۔ فیصلوں میں انصاف کا اس قدر اہتمام برتا جاتا کہ اگر مجرم حکومت کا بڑے سے بڑا عہدیدار یا شاہی خاندان کا فرد ہوتا تو اسے بھی سزا دینے سے تامل نہ کیا جاتا۔

 مغل بادشاہوں میں شہنشاہ اکبر اعظم، جہانگیر اور تاجدار مغلیہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے بادشاہوں نے انصاف و اسلامی رواداری کے وہ ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں جن پر آج بھی تاریخی شہادتیں موجودد ہیں ۔

   شہنشاہ جہانگیر ایک امن پسند، منصف المزاج اور رعایا پرور بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے دربار میں بڑے اور اونچے عہدوں پر کئی ہندوؤں کو مامور کیا۔ یہی مغل بادشاہ جہانگیر ہے جس نے متھرا میں ’’ گوبند دیوی ‘‘ مندر کی تعمیرکے لیے زمین دی۔

شہنشاہ جلال الدین اکبر کو سلطنت مغلیہ کا سب سے مشہور اور طاقتور بادشاہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اکبر نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے یہاں کی چھوٹی بڑی غیر مسلم ریاستوں کے راجے رجواڑوں اور راجپوتوں سے دوستانہ تعلقات قایم کیے۔ نہ صرف یہ کہ بڑی تعداد میں غیر مسلم سپاہیوں کو اپنی فوج میں جگہ دی بلکہ اونچے اور اعلا عہدوں پر انھیں  مامور کیا اور اپنے دربار خاص میں بھی انھیں جگہ دی۔ اکبر اعظم نے بیربل اور تان سین جیسی غیر مسلم اور قابل و ہونہار شخصیات اپنے دربار میں جمع کیں ۔ اتنا ہی نہیں اکبر نے ان کے مذہبی سفر سے ٹیکس معاف کیا اور مندروں کی تعمیر کرائی۔

 اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کی تاریخ اور مغلیہ سلطنت کے ایسے بادشاہ گذرے ہیں جن پر اسلام دشمن، متعصب اور حاسد مؤرخین نے بے بنیاد اور بے جا الزامت عائد کر کے انھیں ایک ظالم بادشاہ بنا کر پیش کیا ہے۔ جب کہ ان کی فوج اور ان کے قلمرو کی ریاستیں جو گواہیاں پیش کرتی ہے ان سے ان پر لگے الزامات کی تردید خود تاریخ پیش کر دیتی ہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق اور کھیل ہے جو ہر دور میں مخالفین حکمرانوں کی جانب سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر اگر ظالم اور ہندو مخالف بادشاہ ہوتے تو ان کی فوج میں نہ ہندو فوجی ہوتے اور نہ ہی اعلا عہدوں پر مامور ہندو عہدیداران۔ خودایک ہندو مصنف ’’ اچاریہ پرفل چند رائے ‘‘نے اورنگ زیب عالمگیر کی فوج میں ہندو عہدیداران کی تقرری کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

’’شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کے اندر بڑی بڑی ذمہ داری کے عہدے ان کو ملے ہوئے تھے۔ ‘‘

 اورنگ زیب عالمگیر اگر ایک ظالم اور ہندو مخالف بادشاہ ہوتے تو ان کے پچاس سالہ دور حکومت میں ہندوستان بھر کی ان تمام ریاستوں میں جو ان کی قلمرو میں شامل تھیں ایک بھی مندر نہ ہوتا۔ان پر لگے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اوران کی رواداری اور رعایا پروری کے جذبات سے متاثر ہو کر ایک اور ہندو مورخ اپنی کتاب ’’ تاریخ ہند ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’کاشی پریاگ اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے اس نے جو جاگیریں وقف کی ہیں اور ہندو پیشواؤں کے ساتھ جو رعایتیں کی ہیں ، ان سے اس کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘

خوداورنگ زیب عالمگیرکے خطوط ان کے مہربان اور رعایا پرور، انصاف پسند اور روادارانہ حاکم کی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ انھوں نے بنارس کے حاکم ’’ ابو الحسن ‘‘ کے نام ایک فرمان جاری کرتے ہوئے جو لکھا ہے وہ ایک تاریخی شہادت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی رواداری و مساوات پر مبنی ان کے نظام حکومت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

ہماری پاک شریعت اور سچے مذہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے …. یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ سے کوئی شخص ہندوؤں اور برہمنوں کوکسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ اُن پر کسی قسم کا ظلم کرے۔

  مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر کم و بیش ایک ہزار ایک سو چھیالیس (1,146 )سال حکومت کی اور ہندوستان کو خوب ترقی دی۔ انھوں نے اپنی رعایا میں کبھی ہندو مسلم کا امتیاز نہ برتا، ہندوؤں پر کبھی ظلم نہیں کیا، ان پر ٹیکس کا کبھی جبری بوجھ نہ ڈالا، ان کی جان مال لوٹ کر ان پر زندگی تنگ نہ کی بلکہ انھیں وہی مراعات مہیا کیں جو مسلمانوں کو حاصل تھیں ، ان کی جان و مال کو کبھی نقصان نہ پہنچایابلکہ انھیں تحفظ مہیا کرنے کا خصوصی اہتما م کیا اور ملک میں آپسی بھائی چارہ و مساوات کے پروا ن چڑھایا۔ مسلمانوں کے روادارانہ، انصاف پسند نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے موجودہ ہندو مؤرخین لکھتے ہیں :

’’یوپی میں چھے سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصد ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اور جبری اشاعت اسلام نہیں ہوئی۔

مسلم حکمرانوں نے اپنے عہد میں رواداری و مساوات کی فضاء کو قایم ہی نہیں کیا بلکہ اس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی آبیاری بھی کی اور ایک خوشحال و کامیاب ہندوستان کی تعمیر کی۔

تبصرے بند ہیں۔