تین تصویریں اور آئینہ

(۱) G-20 Summit کے دوران چین میں اوبامہ کے ساتھ کیا ہوا ایک بڑے ہندوستانی اخبار کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے ’’میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کو امریکی طیارے ائر فورس ون کے چینی شہر ہانگ زو میں اترنے کے فوراً بعد ہی چینی حکام اور وہائٹ ہاؤس عملے اور دیگر سفارت کاروں کے درمیان تکرار ہوئی۔اس کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر اوبامہ کے طیارے سے اترنے اور ریڈ کارپٹ تک پہونچنے کے لئے کوئی بھی سیڑھی نہیں تھی ۔دوسری تلخی اس وقت ہوئی جب ایک چینی اہلکار نے امریکی صدارتی مشیر سے اس بات پر بحث کی کہ صدر اوبامہ کے ساتھ آئے ہوئے صحافیوں کو کسی بھی مقام پر ان کے آس پاس رہنے سے منع کیا جائے ۔یہ اس روایت کی خلاف ورزی تھی جس کی پاسداری امریکی صدر کے کسی بھی غیر ملکی دورے پر کی جاتی ہے ۔جب امریکی صدارتی مشیر نے اصرار کیا کہ امریکہ اپنے ملک کے صدر کے لئے خود ضابطے طے کرے گا تو چینی اہلکار نے بلند آواز میں جواب دیا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہمارا ائر پورٹ ہے ۔یہ تنازعہ اس وقت اور بڑھ گیا جب ایک دوسرے چینی اہلکار نے صدر اوبامہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی رائس جو امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین افسران میں سے ایک ہیں چینی اہلکاروں کی جانب سے خوش آمدید کہنے کے اس انداز پر ناراضگی ظاہر کی سوسن رائس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’’انھوں نے وہ کیا جس کی ہمیں توقع نہ تھی ‘‘۔دوسری جانب اوبامہ نے چینی عہدیداروں اور امریکی اہلکاروں کی تکرار کے متعلق کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ‘‘ اس پورے ایپی سوڈ سے کم سے کم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اب چین کے لئے سپر پاور نہیں رہا ۔اور چین کی بات ہی کیوں ؟ اب تو ترکی بھی امریکہ کو جوتے کی نوک پر ماررہا ہے۔اور ایک ہم ہیں کہ ۔۔۔۔!
(۲) سال گذشتہ ۲۶ جنوری کو جناب اوبامہ یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی غرض سے بھارت آئے تھے۔اس کے علاوہ بھی امریکی صدور بھارت آئے تو ہمارا رویہ آقا اور غلاموں کا ہی سا تھا ۔ہم نے ان کی خدمت اور حفاظت کے لئے کیا کیا جتن کئے اس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہو۔۲۴ جنوری ۲۰۱۵ کا ایک آن لائن اخبار لکھتاہے۲۶ جنوری کو دہلی ایک sealed قلعہ بنا دیا جائے گا ۔تاج محل اور انڈیا گیٹ عوام کے لئے بند کر دیئے جائیں گے ۔راج پتھ کے آس پاس کا علاقہ نو فلائی زون ہوگا ۔پرانی روایات کے مطابق کوئی بھی جہاز اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ سے نہ اڑ سکے گا نہ لینڈ کر سکے گا ۔اوبامہ کی خوراک اور پانی تین تہوں والی چیکنگ سے گزرے گی (ہوا کے بارے میں کچھ نہیں۔۔م م)فضا سے نگرانی کے لئے AWACSطیارے لگائے جائیں گے اور وہ جناب اوبامہ کے آس پاس کے ماحول کی نگرانی رکھیں گے ۔اس سال کے یوم جمہوریہ کے موقع پر راج پتھ کے آس پاس کی ۷۱ ہائی رائز بلڈنگوں کو اس دن بند رکھا جائے گا ۔۴۰Sniffer Dogs اوبامہ کی سیکوریٹی کے لئے امریکہ سے لائے جائیں گے‘‘ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ ’’کتے‘‘ ( کہیں خلاف ادب تونہیں)امریکہ سے آئے اور ان کی اہمیت کے آگے بھارتی سیکوریٹی ایجنسیز کی اہمیت کچھ بھی نہیں تھی ۔۲۰۰۶ میں جارج بش کے دورے پر تو سب سے پہلے انھیں ہی باپو کی سمادھی کی وزٹ کرائی گئی تھی ۔اور ان کی کلیئرنس کے بعد ہی بش صاحب راج گھاٹ تک آئے تھے۔
اتنے تلوے چاٹنے کے باوجود امریکہ و اہل یہود کے فطری اتحادی جناب ایل کے ایڈوانی و جارج فرنانڈیس منسٹر ہونے کے باوجو د جب امریکہ گئے تو ایئر پورٹ پر ان کے کپڑے اتر والئے گئے تھے۔اور اتنے بڑے واقعات کو شیر مادر کی طرح پی لیا گیا تھا ۔ہمارے علم میں تو نہیں ہے کسی کے علم میں ہو تو بتائے کہ کیا چینی یا ترکی کے کسی وزیر کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ پیش آیا تھا۔یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کا کمال ہے کہ شاہ رخ خان جیسے لوگ بھی جو امریکہ کو بزنس دینے کی غرض سے جاتے ہیں ۔ہندوستان میں تو کرکٹ کے میدان میں جھگڑا کر لیتے ہیں مگر امریکی ایئر پورٹ پر کئی بار ننگے کئے جانے کے باوجودبے مزہ نہیں ہوتے ۔انا خود داری جب ملک کے رہنماؤں کے پاس نہیں تو پھر یہ تو ناچنے گانے والے لوگ ہیں۔
(۳) موجودہ عالمی سیاسی حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم روس چین ایرا ن وترکی کے ساتھ ملکر ایک محاذ بناتے کیونکہ امریکہ تو فی زمانہ ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے ۔مگر ہم تو ہمیشہ سے ہی گنگا الٹی بہاتے آئے ہیں۔روس افغان جنگ کے وقت بھی جب روس ڈوب رہا تھا مگر ہم آخر تک روس کے ساتھ کھڑے رہے ۔کہا جا سکتاتھا کہ ہم وفادار ہیں ابن الوقت نہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر ہم آج کیوں روس کو چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہوں ۔مگر امریکہ کا سورج تو ڈوب رہا ہے یہ اور بات ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔قوموں یا ملکوں کی پالیسیاں اپنے مفادات یا اصولوں کے مطابق بدلتی ہیں ہمارے یہاں نہ ملکی مفادات ہیں نہ اصول۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم دور دیکھنے کی بجائے پاکستان کی طرح نزدیک دیکھتے۔چین پاکستان سے زیادہ ہماری قدر کرتا۔اقتصادی راہداری منصوبے سے بڑا منصوبہ ہمارے یہاں ہوتا ۔مگر چین سے تو ہماری صدیوں نہیں ہزاروں برس پرانی دشمنی ہے ۔وطن کے بودھوں کو تو ہم ہندو مت کا ہی حصہ بتاتے ہیں مگر چینی بے وقوف نہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت برہمن غلبے والا ملک ہے اور بدھ ازم وجود میں آیا ہی برہمنیت کے ردعمل کے طور پر تھا ۔ چینی سمجھتے ہیں کہ دونوں کا ملن ممکن نہیں۔مگر زمینی حقائق صدیوں پرانی کشمکش پر مٹی ڈال سکتے تھے۔
آج روس چین ایران ترکی امریکہ کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور ہم اس وقت امریکہ کے پالے میں ہیں جب دنیا اس سے کنی کاٹ رہی ہے ۔فلپائنی صدر کا امریکی صدر کو گالی دینا کیا ظاہر کر رہا ہے ؟کیا علامہ اقبالؒ کو پھر سے پیدا ہو کر کہنا پڑے گا ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو ‘‘مانا کہ ہمارے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں ۔اقصائے چین ہمارا ہونا چاہئے تھا جبکہ اس پر چین کا قبضہ ہے ۔اسی طرح ارونا چل پردیش ہمارے پاس ہے مگر چین اس پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔اسی طرح سکم کے تعلق سے بھی وہ ناراضگی کا اظہار کرتا ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی قریب کے واحد ہندو ملک نیپال کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو دیا ہے ۔اب وہ چین کی گود میں جا بیٹھا ہے ۔کل تک جو پیار اسے ہم سے تھا وہ آج اسے چین دے رہا ہے۔اور کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی نہ کہیں سے اس کی بھر پائی کی کوئی کوشش نظر آتی ہے ۔ہمارے دماغ میں تو یہ خناس بھرگیا ہے کہ ہم ایشیائی سپر پاور ہیں مگر چین اس خناس سے خالی ہے اور اسی لئے ہم پاکستان سے خوش گوار تعلقات نہیں رکھ سکتے ورنہ پاکستان وہ ثالث ثابت ہو سکتا تھا جوچین سے ہمارے مسائل بحسن و خوبی حل کروا سکتا ۔پاکستان کے حکمراں روز اول سے امریکی غلام رہے ہیں مگر انھوں نے کسی قیمت پر چینی دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بڑھانے میں بھی تو پاکستان کا رول رہا ہے۔ہم چین سے دشمنی بھی رکھتے ہیں اور اس کی ترقی کی طرف حسرت بھری نگاہ بھی ڈالتے ہیں اور اس کی یہ ترقی اس کے باوجود ہوئی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا ۔
اب ان تین تصویروں کو ہم آئینہ بنا کر دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔کیا چمچہ گیری سے کوئی ملک کیا فرد سماج میں اہمیت حاصل کر سکتا ہے ؟یا پھر دنیا کو گولی ماریں صہیونیت کے مکمل حاشیہ بردار بن جائیں مگر یہ ذہن میں رہے کہ اب یورپ خود دھیرے دھیرے اسرائیل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔
07697376137 
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔