بچوں کی تعلیم اور ماحولیات

تحریر: محمد اسحاق … ترتیب: عبدالعزیز

                "The Earth is the home of Man” کرۂ ارض انسان کا گھر ہے، انسانی یا حیوانی زندگی کیلئے ہوا، پانی، غذا، تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا، سر چھپانے اور راحت کی زندگی بسر کرنے کیلئے مکان یا آسرا ضروری ہے، جس چیز کے بغیر حیاتِ زندگی ممکن نہ تھی، قدرت نے اپنی فیاضی سے اسے اتنا ہی عام اور ارزاں کر دیا ہے۔ ہوا، پانی، روشنی اور حرارت کے بغیر زندگی ممکن نہیں، لیکن قدرت کا فیضان اتنا عام ہے کہ آدمی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنی بیش قیمت قدرت کی فیاضیوں سے ہر آن استفادہ کر رہا ہے۔

                ہمارے ماحول میں کیا ہے۔ یہی ہمارے اطراف و اکناف کے قدرت و فطرت کے نظارے… زمین، آسمان، چاند، ستارے، جنگل، پہاڑ، ندی، نالے، چشمے، سمندر، بادل کی گرج ، بجلی کی چمک، پرند، درند، جنگل میں کوئل کی کوک، مور کی چنگھاڑ، شیر کی دہاڑ، ہرن کی چشم، ہری گھاس کا مخملی قالین، بھانت بھانت کے پھول، کنول، گلاب کی کلیاں، شہید کی مکھیاں وغیرہ وغیرہ۔ یہی کچھ تو ہے جو انسان کو زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔ انھیں دیکھنے سے زندگی میں تازگی اور رہنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:

آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ … ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

                زمین روحِ آدم کا استقبال کرتے ہوئے کہتی ہے:

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضادیکھ … مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

                ہر بڑا شاعر چاہے وہ کسی زبان کا ہو، اپنے فطری ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شاعر کا دل اسی فطرت کے میخانہ سے شرابِ طہور کے جام پیتا رہا۔ رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:

                ’’جب میں بچہ تھا تو صبح اٹھ کر باغ میں دوڑ کر جاتا۔ فطرت ایک خوبصورت لڑکی کے روپ میں میرے سامنے مسکراتی کھڑی ہوجاتی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرلیتی، مجھ سے پوچھتی کہ بتا اس میں کیا ہے اور میں جانتا تھا کہ اس میں کیا ہے‘‘۔

                اس میں سچ مچ زندگی یا حسن اور خوبصورتی ہے جو ہماری زندگی کے تاروں کو چھیڑتی ہے جس دل کی گہرائیوں کے نغمے نکلتے ہیں جو لافانی شاعری کا خزانہ ہیں۔ شاعر فطرت اور ورڈس ورتھ جنگل میں پھولوں کے رقص کو دیکھ کر مچل جاتا ہے اور جو لوگ اس حسن کو نہیں دیکھ سکتے اور جو دنیا کے دھندوں ہی میں گرفتار ہیں، ان کے متعلق حسرت سے کہتا ہے: "The World is too much with us”

                اسی لئے اقبال کہتے ہیں :     دل بینا بھی کر خدا سے طلب … آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں

                گولڈ اسمتھ انگلستان کے صنعتی انقلاب کے سیلاب میں اجڑتے گاؤں، شہروں اور کارخانوں کے اطراف ابھرتی ہوئی گندی بستیوں کو دکھ بھری نظر سے دیکھتا ہے۔ گاؤں دیہات کی سیدھی سادی، پاک و صاف زندگی سے دور،گندی بستیوں، اخلاقی پستیوں اور سرمایہ داروں کی حرص و آز پر کہتا ہے:

                "Where wealth accumulates men decay”  (جہاں کہیں دولت جمع ہوتی ہے آدمی پستیوں میں گرجاتا ہے)۔

                قرآن کریم میں قریب دو سو سے زائد آیتیں ایسی ہوں گی جو ہمیں قدرت و فطرت کی صناعیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں مولانا ابوالکلام آزادؒ حسن فطرت اور قدرتی ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

                ’’جس قدرت نے ہمیں زندگی دی، اسی نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت یعنی حسن و زیبائش کی بخشش سے مالا مال کر دیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا، دوسرے ہاتھ سے دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا‘‘ (ترجمان القرآن، تفسیر سورۂ فاتحہ، ص:109)۔

                ’’انسانی فطرت کی یہ عالمگیر کمزوری ہے کہ جب تک وہ ایک نعمت سے محروم نہیں ہوجاتا، اس کی قدر و قیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کرسکتا، تم گنگا کے کنارے بستے ہو، اسی لئے تمہارے نزدیک زندگی کی سب سے زیادہ بے قدر چیز پانی ہے‘‘۔  (صفحہ11)

                تم بسا اوقات زندگی کی مصنوعی آسائشات کو ترستے ہو اور خیال کرتے ہو کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت چاندی سونے کا ڈھیر اور جاہ و حشم کی نمائش ہے… نہیں! جس دنیا میں سورج ہر روز چمکتا ہو، دنیا میں صبح ہر روز مسکراتی ہو اور شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہیں، جس کی بہار بہار سبزہ گل سے لدی ہوتی اور جس کی فصلیں لہلہاتے کھیتوں سے گراں بار ہو، جس دنیا میں روشنی، چمک، رنگ ، اپنی بو قلمونی، خوشبو، اپنی عطر بیزی اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو،کیا اس دنیا کا کوئی باشندہ آسائش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہوسکتا ہے‘‘۔                       (صفحہ:111)

                ہمارے سَنت، صوفی، فقیر، درویش، رِشی نے فطرت کے گہوارہ ہی میں سکون پایا۔ جنگلوں، پہاڑوں، وادیوں اور ریگزاروں میں انھیں قدرت کی تجلیاں نظر آئیں، ان کی ذات سے روحانی سکون کے چشمے پھوٹے، جس سے انسانی آبادیاںسیراب ہوگئیں۔

                سائنس نے جہاں قدرت و فطرت کے نظام کائنات کو انسان کی آسائش کیلئے جس طرح کارآمد بنایا ہے وہ انسانی تاریخ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ وہیں پر انسان کو اس کرۂ ارض سے مٹا دینے کے امکانات بھی پیدا کرکے دل و دماغ پر خوف و دہشت کے بادل پھیلا رکھے ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ سائنس کی کھوج اور تشریح کی وجہ انسان کے دل سے وہ حیرت و استعجاب کا عنصر جاتا رہا جو فطرت کے ساتھ ہزاروں برس سے قائم تھا۔

                بچوں کی تعلیم کا بنیادی کام دو قسم کا ہے۔ ایک تو بچہ کی شخصیت ترقی کرے، اس کا باطنی یا نفسیاتی نظام جسم دل و دماغ میں توازن پیدا کرے، دوسرے ا کی شخصیت ترقی کرے، اس کے باطنی یا نفسیاتی نظام، جسم د ل و دماغ میں توازن پیدا کرے، دوسرے اس کی شخصیت کا توازن اپنے اطراف و اکناف کے ماحول، گھر، اسکول، سوسائٹی اور فطرت کے ساتھ برقرار ہے۔ جہاں یہ توازن بگڑ جائے گا وہاں کئی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو تعلیم باطنی و ظاہری توازن کو نہ صرف برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے بلکہ اس پر قابو پانے کا بھی نام ہے۔

                ماحولیات کا تعلق اسکول کے سب ہی مضامین، باطنی، بایولوجی، فزیکس، کیمسٹری، ریاضی، زبان و ادب لٹریچر وغیرہ سے ہے، ان مضامین میں سوشل اسٹڈیز سے شاید ماحولیات کا کچھ زیادہ ہی تعلق ہے۔ 1962ء میں سارے آندھرا پردیش کے ملٹی پرپز ہائی اسکولوں میں پڑھانے والے سوشل اسٹڈیز ٹیچرس کا ایک سیمینار مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے حیدر آباد میں منعقد ہوا۔ ان میں اکثر اساتذہ ایسے تھے، جنھوں نے ہندستان کے اہم پروجیکٹ دریا، پہاڑ اور سمندر دیکھے ہوئے نہ تھے۔ بھلا ایسے اساتذہ کیا سوشل اسٹڈیز پڑھا سکتے ہیں۔ میں نے ایک تجویز یہ رکھی تھی کہ تمام سوشل اسٹڈیز کے اساتذہ کو لازماً مختلف گروپس میں تعلیمی تفریح کے طور پر ملک کے تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کے مقامات کی سیر کروائی جائے یا انھیں اس قسم کے سفر کی سہولتیں دی جائیں۔ اساتذہ اگر گہری نظر رکھتے ہوں تو اسکولوں اور کالجوں میں دورانِ سبق یا لیکچر اپنے مضمون کو ماحولیات سے مربوط کرسکتے ہیں۔

                ماحول کی قدر و قیمت: فطری ماحول کے برقرار رکھنے کی اہمیت سے واقف کروانے کا زمانہ پرائمری اسکول سے سیکنڈری سطح تک کا ہے کیونکہ یہی بچے بڑے ہوکر اس کی حفاظت کر سکیں گے۔

                ماحولیات کی تعلیم اور ترقی دینے کے سبب پروگرام پرائمری اسکول سے شروع ہونے ضروری ہیں اور نصابی مضامین میں ماحولیات کی جگہ دینا ضروری ہے۔ اگر دور رس پروگرام کے نقطہ نظر سے جانچا جائے تو اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دوسری سب کوششیں اس بنیادی کام کے سامنے ثانوی یا دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

                ماحولیات کی تعلیم کلاس روم ہی میں نہیں بلکہ دیہات میں، شہروں کے باہر بہتر طور پر دی جاسکتی ہے۔ ہمارے اسکول اور کالجوں میں اسکاؤٹنگ گرل گائیڈس NSS, NCC جیسی طلبہ کی تنظیمیں طلبہ کو ماحول سے قریب لانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ تعلیمی تفریح Hiking کیمپ فائر ہیں۔ طلبہ کو غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے اور ماحول سے انھیں اُنس پیدا ہوجاتا ہے۔ گھر ہو کہ اسکول، طلبہ کو باغبانی اور پودے لگانے کی ترغیب دی جاتی ہے تو انھیں فطرت سے لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ تعلیم کا ایک مقصد طلبہ میں حسن و قبح (Sense of Appreciation) کی تمیز پیدا کرنا بھی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کے زمانہ سے یہ مقصد اساتذہ کے سامنے رہے۔

                مختصر یہ کہ آسمان و زمین میں (معرفت حق) کی کتنی ہی نشانیاں ہیں (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر) لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے۔      (سورۂ یوسف، 105:3)

سرسری تم جہان سے گزرے … ورنہ ہر جا، جہان دیگر تھا             (میر تقی میرؔ)

موبائل: 9831439068           [email protected]

تبصرے بند ہیں۔