سوشل میڈیا اور غافل مسلمان

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں  اسی طرح ان سہولیات کے بھی ہیں ۔ سوشل میڈیا  نے جہاں  عام انسانوں  کو با اختیار بنا کر معلومات کا حق اس کے ہاتھوں  میں  تھما دیا ہے وہیں  کم ظرف لوگوں  کیلئے یہ دوسروں  کو نقصان پہنچانے کا بھی آلہ بن گیا ہے۔ پچھلے ہفتے ہی بی جے پی سے جڑی رہنے والی سادھوی کھوسلہ نے اس پر الزام عائد کیا کہ بی جے پی سوشل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا کام کرتی ہے۔ انہوں  نے عامر خان کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی نے عامر خان کے خلاف ان کے عدم برداشت والے ماحول پر دیئے گئے بیان کے ردعمل میں  مہم چلائی۔ سادھوی کے مطابق ان کا ضمیر انہیں  ملامت کرنے لگا اور انہوں  نے بی جے پی سوشل میڈیا ونگ سے خود کو علیحدہ کرلیا۔ ایسی سیکڑوں  مثالیں  مل جائیں  گی جب نفرت پھیلا کر کسی شخص یا گروہ کے خلاف دیگر افراد کو اکسا یا گیا جس کے نتائج انتہائی بھیانک بر آمد ہوئے۔ زیادہ وقت نہیں  گزرا جب مظفر نگر، فساد کی آگ میں  صرف سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں  اور اشتعال انگیز ویڈیو کے سبب جلا۔ جبکہ اسی تنظیم کے افراد یا ان کی ذیلی تنظیموں  کے لوگ کسی کو اتنی بھی سہولت نہیں  دینا چاہتے کہ وہ ان کی کسی بات پر بہتر ڈھنگ سے تنقید ہی کرسکے۔ بال ٹھاکرے کی موت کے بعد ممبئی کا مہاراشٹر بند کے سلسلے میں  پال گھر کی دو لڑکیوں  کا واقعہ تو ابھی تک ذہن میں  محفوظ ہی ہے۔ ان دو لڑکیوں  میں  ایک مسلمان اور دوسری اس کی سہیلی تھی۔  اپنے فیس بک اکائونٹ پر شاہین نام کی لڑکی نے بند کی مخالفت کی تھی۔ شاہین کی پوسٹ کو اس ایک سہیلی نے لائیک کیا ان دونوں  لڑکیوں کوآناًفاناً گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد ایسی کئی گرفتاریاں  ہو چکی ہیں۔ چدمبرم کے بیٹے کے خلاف تنقید کرنے پر ایک پینتالیس سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا۔اسیم تریویدی کو ہندوستان کے موجودہ حالت پر کارٹون بنانے پر ملک کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ سوشل میڈیا کا عام استعمال بند ہو۔ نیز اس پر بھی قدغن لگا کر بیباکانہ اپنی رائے کا اظہار کرنے کا یہ راستہ بھی مسدود کردیاجائے تاکہ کوئی باشعور شخص اس کو استعمال کرکے معاشرے کو موجودہ خرابی کی جانب توجہ دلانے میں  کامیاب نہ ہو پائے جو کسی بھی عظیم انقلاب کا سبب نہ بن سکتا ہے۔ یہ با ت واضح ہو جانی چاہئے کہ سوشل میڈیا کا استعمال گروہی حیثیت سے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں  خوب کرتی ہیں ۔ انہوں  نے تنخواہ دار ہزاروں  کارکنان اس کام کے لئے مقرر کر رکھے ہیں ۔ جب سوشل میڈیا یا انٹر نیٹ کا دور نہیں  تھا تب آر ایس ایس کا پتر لیکھک سنگھ ہوا کرتا تھا جو اب بھی برقرار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس کی فعالیت پہلے سے کم ہے۔ کیوں  کہ اب اطلاعاتی انقلاب نے پرنٹ میڈیا کی حیثیت کو ثانوی بنا دیا ہے۔ مسلمانوں  اور ان کی تنظیموں  کی جانب سے کوئی خاص پیش رفت نہیں  ہے۔ہم صر ف ہائے توبہ اللہ سے دعا کرکے کسی کی ہلاکت اور بربادی کی دعا مانگنے کیلئے ہی رہ گئے ہیں ۔

موجودہ اطلاعاتی تکنیکی انقلاب نے افراد کو با اختیار بنایا ہے۔ عام انسانوں  کو بااختیار بنانے کا سہرا یقینا سماجی رابطے کی سائٹوں  کو جاتا ہے۔ یہ سماجی رابطے کی سائٹیں  فیس بک، ٹوئٹر،واٹس ایپ اور انسٹا گرام وغیرہ ہیں ۔ ہم آئے دن کسی نہ کسی معاملے میں  میڈیا کے تعصب کا رونا روتے ہیں ۔ یہ رونا حقیقی بھی ہے کہ میڈیا مسلمانوں  یا پسماندہ اقوام کے تئیں  تعصب برتتا ہے۔ تعصب کے سلسلے میں  صرف یہ کہنا کہ صرف مسلمان ہی اس کا نشانہ ہیں ، ٹھیک نہیں  ہے۔ چونکہ میڈیا صرف کچھ خاص فرقہ کے ہاتھوں  میں  ہی نہیں  بلکہ وہ سرمایہ داروں  کے ہاتھوں  میں  بھی ہے اس لئے وہ صرف اپنے مفاد کی خبریں  نشر کرتے یا جھوٹی خبروں  پر مبنی افواہ پھیلاتے ہیں ۔ ایسے دور میں  سماجی رابطے کی سائٹ ایسی ہی ہے جیسے صحارا کے ریگستان میں  کوئی نخلستان ہو۔ آپ کی باتیں  جو مین اسٹریم میڈیا میں  جگہ نہیں  پاسکتی تھیں  اسے بڑی آسانی سے فیس بک،ٹوئٹر یا انسٹا گرام کے ذریعے دنیا کے کروڑوں  لوگوں  تک پہنچاسکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پچھلے سال میڈیا میں  گفتگو کا سبب بننے والی مغربی اتر پردیش کے کچھ علاقوں  میں  ہندوشدت پسندوں  کی تنظیموں  کی جانب سے اسلحہ کی ٹریننگ کیمپ کی خبر ہے۔ یہ خبراور اس کی ویڈیو کم از کم دو ماہ سے گردش کر رہے تھے۔دو ماہ بعد کہیں  جاکر مین اسٹریم میڈیا کی آنکھیں  کھلیں  اور انہوں  نے اس جانب توجہ دلا کر حکومت و انتظامیہ کو جھنجھوڑ نے کا کام کیا۔لیکن ایسا نہیں  ہے کہ یہاں  بھی پوری طرح آزاد ی ہے۔یہاں  بھی کئی بہانوں  سے آپ کو پریشان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر آپ کی پوسٹ پر مسلسل شکایت ہوئی تو یہاں  بھی آپ کی پوسٹ سینسر ہوسکتی ہے۔ اس میں  ایسے مواد جو مذکورہ سائٹوں  کے ذمہ داروں  کو پسند نہیں  انہیں  بلاک کیا جاتا ہے۔ لیکن جب تک وہ اس کی جانچ کرکے بلاک کریں  گے تب تک آ پ کی بات لاکھوں  افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی رابطے کی سائٹس بڑی سرعت سے کام کرتی ہے اور کسی پوسٹ کے آتے ہی اس کو پسند اور منسلک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔  سینسر کرنے اور اسے بلاک کرنے کا اثر ابھی واٹس ایپ پر نہیں  ہے یا اگر ہوا بھی تو فیس بک ٹوئٹر یا انسٹا گرام کے مقابلے بڑی سست روی سے ہو گا۔ اتنی دیر میں  تو آ پ کی باتیں  بے شمار افراد تک پہنچ جائیں  گی۔یہ یقینا اکسیویں  صدی کا حیرت انگیز انقلاب ہے۔ جس نے عام انسانوں  کو اطلاعات کی نشر و اشاعت میں  با اختیار بنایا ہے۔

ایسے وقت میں  جب میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں  کی شبیہ مسخ کرنے کی مہم چل رہی ہے سماجی رابطے کی یہ سائٹیں  ہمارے لئے انعام سے کم نہیں  ہیں ۔ لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم کو صرف رونا ہی آتا ہے۔ جو مواقع قدرتی طور پر ہمیں  حاصل ہیں  اس کا استعمال بھی ہم مثبت طور پر نہیں  کر پارہے ہیں ۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ آر ایس ایس یا دیگر تنظیمیں  اپنے مفاد کے لئے با ضابطہ اس کا استعمال کررہی ہیں ۔  لیکن ہماری تنظیمیں  اس سلسلے میں  ان کے مقابلے ایک فیصد بھی استعمال نہیں  کر رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند نے اس کے شعبے ضرور بنا رکھے ہیں  لیکن جس بجٹ کی ضرورت ہے اور جتنے افراد اس کے لئے چاہئے وہ اسے بھی میسر نہیں ۔ جماعت اسلامی ہند کے پاس شاید نہ تو بجٹ ہے اور نا ہی افرادی قوت اس کے پاس ہے۔ ویسے قوم میں  جو لوگ موجود ہیں  یا جو اس کام کے لئے دستیاب ہیں  ان سے بھی ہماری تنظیمیں  فائدہ نہیں  اٹھا پارہی ہیں ۔ ہمارا اور ہماری تنظیموں  کا رویہ ایسا ہو گیا ہے کہ وہ کسی تنظیم کے ساتھ زیادہ دن مل کر کام نہیں  کرسکتے۔ تنظیم ان کے ساتھ کسی غلام کی طرح سلوک کرتی ہے جس سے بددل ہو کر ایسے افراد نکل جاتے ہیں  یا تنظیمی نخوت کی وجہ سے وہ نکال دیئے جاتے ہیں  یہ لوگ قوم کے لئے تنظیم کے ساتھ مل کر زیادہ سود مند ہو سکتے تھے یا وہ سود مند ہیں ۔ تنظیموں  کو چاہئے کہ وہ کارپوریٹ اسٹائل اپنانے کے بجائے نبی ﷺ کے اخلاق حسنہ کی روشنی میں  اپنے کارکنوں  کے ساتھ سلوک کریں  تاکہ وہ بددل ہونے کے بجائے اپنی قابلیت کو قوم کی فلاح و بہبود اور دین کی تبلیغ و ترویج میں  لگائیں۔ جمعیتہ العلماء ملک کی سب سے پرانی اور مضبوط تنظیم ہے۔  اس کے پاس افرادی قوت بھی وافر مقدار میں  ہے۔ وہ چاہیں  تو سوشل میڈیا کا ونگ بنا کر اس میں  اپنے افراد کی تربیت کروا کر آر ایس ایس سے زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ کام کرنے سے ہوگا صرف بد دعا ئیں  کرنے اور بیٹھ کر ابابیل کا انتظار کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔مسلمانوں  کی دیگر تنظیمیں  تو بس آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کے ہی منتظر ہیں  کہ ان کی لڑائی فرشتے ہی لڑیں  گے وہ کچھ نہیں  کریں  گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں  کا باشعور طبقہ اور ان کی تنظیمیں  اس جانب ضرورت کے حساب سے متوجہ ہوں ۔  جس تیزی کے ساتھ دشمن ہماری یا اسلام کی شبیہ کو دھندلانے میں  مصروف ہے اس سے بھی زیادہ تیزی سے ہمیں  متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں  معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم لمبی تان کر سو رہے ہیں  اور دشمن ہمارے گرد واہموں  کا مضبوط احاطہ تیار کرتا جارہا ہے۔ جسے مخالف قوتیں  ہی نہیں  ہم بھی حقیقی سمجھنے لگے ہیں۔ یہاں  تھوڑی سی راحت کی بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوانوں  کا طبقہ جو ملت کی پریشانیوں  سے واقف ہے، جس کی حمیت اور غیرت مری نہیں  ہے، وہ کسی تنظیم کی مدد کے انتظار میں  ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اپنی بساط بھر سوشل میڈیا پر ان دشمنوں  سے نبرد آزما نظر آتا ہے۔ ہماری تنظیموں  کو ایسے نوجوانوں  کی مدد کرنی بھی چاہئے اور ان سے اس جانب قدم بڑھانے کے لئے مدد لینی بھی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔