ستائی جائیں گی حوّا کی بیٹیاں کب تک؟

زمانہ کہاں سے کہاں پہنچا مگر صنف نازک کے مسائل آج بھی وہیں کے وہیں نظر آتے ہیں۔دنیا میں نوع انسانی نے نہ جانے تہذیبی ارتقا کے کتنے دور دیکھے ہیں،اور زندگی کے بہت سے شعبوں میں حضرت انسان نے اپنی فطری صلاحتیوں کا بھر پور استعمال کرکے کارخانہ قدرت میں اپنی افادیت کو اجاگر کیا  مگر انسانی برادری کے نصف حصے کے تئیں فکر انسانی کی الم ناک نا رسائی آج بھی ایک زخم تازہ کی مانند رس رہی ہے۔گزشتہ سال جرمنی  میں جس موقعہ سے خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کا جو واقعہ  پیش آیا تھا بدقسمتی سے امسال ویسا ہی ایک واقعہ  ملک  کے مشہور شہر بینگلور میں سال نو کی استقبالیہ تقریب کے دوران دیکھنے کو ملا ۔اس معاملے کو مختلف فکر وخیال کے لوگ اپنے اپنے نظریات کے لحاظ سے دیکھتے ہیں ۔ایک ریاستی وزیر کا متنازعہ بیان بھی اس سلسلہ میں موضوع بحث ہے ۔بینگلور شہر کے مرکزی علاقے میں پیش آئے جنسی ہراسانی کے اس واقعہ پر جب وزیر موصوف نے اسے مغربی کلچر کا اثر قرار دیا تو حقوق نسواں کے علم بردار وں نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا ۔ان کے اس بیان پر نیشنل کمیشن فار وومین کی سربراہ للیتا کمارا منگلم کا کہنا تھا  کہ انھیں ملک کی خواتین سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔عورت کی آزادی اور تحفظ کے سلسلے میں جو غیرمعتدل نظریات اس وقت دنیا میں عام ہیں سر دست ہمیں ان پر کوئی تبصرہ کرنا مقصود نہیں ہے ۔جنسی ہراسانی کے خلاف جو قوانین بھارت میں موجود ہیں ان کو بھی جانے دیجئے ،سوال یہ ہے کہ عورت کی آزادی کے نام پر جو تحریک چلی تھی وہ خود آج کس موڑ پہ کھڑی ہے ۔دنیا بھر کے وہ مفکرین ، اہل دانش اور مصنفین جنھوں نے آزادی نسواں کو خواتین کی ترقی کا واحد حل تسلیم کیا تھا اور آج بھی اپنے اسی دعوے پر مصر ہیں ان کے پاس اس حساس مسئلے کا حل کیا ہے؟یہ حوا کی بیٹیاں آخر کب تک ہوس کی سفاک آغوش میں جاتی رہیں گی ، جب ملک کے ملک جدید نظریہ تعلیم ،نظریہ اخلاق ،نظریہ حکومت پر عملاً گامزن ہیں تو پھر عورتوں کے ساتھ تشدد کے واقعات روز افزوں کیو ں ہیں ؟جو لوگ پردہ ،حجاب بلکہ مذہب خصوصاً اسلام  کو صنفی تفریق کا طعنہ دیتے رہے ہیں کیا وہ ان نتائج پر کوئی تشفی بخش جواب دینے کی زحمت گوارا کریں گے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایک مثالی  معاشرہ کبھی بھی صرف مردوں کے حقوق کی ضمانت پر تشکیل  نہیں پا سکتا ۔کوئی سماج اگر مہذب کہلائے گا تو یقیناً اس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی ترقی کا بھی کلیدی کردار ہوگا۔ یہ مسئلہ انتہائی پےچیدہ ہے  اوربرخلاف دوسرے مسائل کے انسانی دنیا کو اس معمے کو سلجھانے میں بہت حد تک ناکامی ہوئی ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ بالکل ہی لا ینحل ہو ۔اس سلسلہ میں اگر تاریخی اسباق پر نظر ڈالی جائے تو کافی حد تک بات بن بھی سکتی ہے ۔مگر کاش انسانی دنیا احساس برتری کے اس ذہنی حصار سے آزاد ہو سکے جہاں ہر قدیم کو فرسودہ  کہہ کر رد کردیا جاتا ہے اور ہر جدید کو ایک تازہ دریافت اور حصولیابی کہہ کر پوری دنیا پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہم خواہ اس ذہنیت کو کتنا ہی روشن تصور کریں مگر اس کے بھلے برے نتائج کا تنہا ہدف ہم ہی ہوں گے ان نتائج کو  بھگتنے کے لئے کسی دوسرے سیارے سے کوئی دوسری مخلوق نازل نہیں  ہوگی ۔مزے کی بات یہ بھی ہے کہ آزادی اظہار کے اس دور میں بھی کچھ لوگ  ایسے معاملات پر اختلاف رائےتک کو   برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔مگر اس خود فریبی کا حاصل بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ ہم بتدریج اسی قعر مذلت کی جانب پیش قدمی کرتے رہیں جس میں ہم سے پہلے بہت سی تہذیبیں دفن ہو چکی ہیں ۔یہ بات کسی خاص وضاحت کی محتاج نہیں کہ انسانی سماج میں عورت کے حوالے  سے ایک جذباتی روش ہمیشہ سے پائی جاتی ہے۔ مساوات مرد وزن کے رائج الوقت تصورات کے باوجود  آج بھی عورت اور مرد میں برابری کا کوئی ارادہ یا امکان کہیں نہیں پایا جاتا ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔دنیا میں سب سے زیادہ اس مہم کا پرچار کرنے والی مغربی دنیا میں بھی یہ نظریہ خواب اور تعبیر کی درمیانی چکی میں شب وروز پس رہا ہے ۔اور بہت سارے واقعات کو جانے دی جئیے صرف امریکی انتخابات پر ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھ لیں تو معمول ہوگا کہ تہذیب وتمدن کے اس آستانۂ ناز  میں عورت کس طرح مجبور نیاز ثابت ہو چکی ہے۔جب امریکہ کا یہ حال زار ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ باقی دنیا کا کیا حال ہوگا اور آئندہ اس میں کامیابی کے کیا کچھ امکانات باقی  رہ گئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا ؟ آزادی نسواں کی تحریک کے مخلص خدام جو عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے لئے قدامت اور مشرقیت جیسے اسباب کو ذمہ دار گردانتے تھے ان کی جدت پسندی نے کیا عورت کو عزت کے مقام مطلوب پر فائز کردیا ہے ؟ اگر ہاں تو کس قیمت پر ؟ اگر نہیں تو پھر اس تاریخی غلطی کی تلافی کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟عجیب بات ہے کہ جب بھی اس قسم کے حساس مسائل زیر بحث آتے ہیں تو عام طور پر ان بحثوں کوجذباتی رخ دے دیا جاتا ہے جو عموماً بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں یاپھر بلاوجہ ایک تلخی کی فضاقائم ہوجاتی ہے۔محض  جذبات کی رو میں بہنے والے خس وخاشاک کسی طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ یہ مسئلہ یقیناً ایک حساس اور اہم مسئلہ ہے اور اس قدر کا مستحق ہے کہ اہل دانش کی عنان توجہ اس  کی جانب ملتفت ہو ۔ہمارے سوچنے سمجھنے والے حضرات  کو اسے پوری سنجیدگی سے لینا چاہئے اور پورے خلوص ودیانت کے ساتھ ان اسباب کا تجزیہ کرکے کسی مفید نتیجے تک رسائی کی کوشش کرنی چاہئے ۔جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہ صرف کسی ایک شہر یا قوم کے لئے باعث تشویش نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے لائق توجہ ہے ۔کچھ احباب اسے صرف مغرب اور مشرق کے خانوں میں بانٹ کر حل کرنا چاہتے ہیں جو ایک ناکافی عمل ہے ۔عورت کا تقدس صرف مشرقیت  کے حصار میں محفوظ نہیں رہ سکتا اس کے لئے اور بھی کچھ چیزیں درکار ہیں ۔ سب سے پہلے ان اسباب وعوامل کا تجزیہ کیا جانا چاہئے جو  دانستہ ایک  فلسفہ کی حیثیت سے ہمارے معاشرے میں جگہ پاچکے ہیں یا جن کو ہم نے نادانستہ محض فیشن کے عنوان سے اپنا لیا ہے ۔ درست اور معقول فکر وخیال اور پاکیزہ اخلاقی تصورات کی اساس پر تشکیل پانے والے انسانی معاشرہ کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ  جرم سے نفرت کرنے کے معاملے میں کسی تذبذب کا شکار نہ ہو بلکہ کھلم کھلا اس کی تردید کرے مگر مجرم سے نفرت اسے محض ارتکاب جرم کی بنا پر ہو ۔مگر عجیب بات ہے کہ ہم جرم سے تو شاید اتنی شدید  نفرت نہیں کرتے جتنی مجرم سے کرتے ہیں ۔ مجرم سے ارتکاب جرم کی پوری قیمت وصول کرنے کی تمنا بجا طور پر ہمارے دلوں میں ہے مگر انسداد جرائم کے لئے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں خواہ وہ اخلاقی تعلیم و تربیت اور فہمائش کی شکل میں ہوں یا تعذیر کی صورت میں کیا ان کے تئیں کسی ذمہ داری کا واجبی احساس ہمارے اندر پایا جاتا ہے ؟ یہ سوال ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں جواب طلب نظر آتا ہے ۔اس بارے میں بھی غور کیا جانا چاہئے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں ایسی کیا کوتاہیاں رہ گئیں ہیں جو آج بھی ایک آدمی کے انسان بننے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔خصوصاً تعلیم اور فنون لطیفہ کے باب میں ہماری جو پالیسی ہے اس کا جائزہ ہماری ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے ۔یہ چند بنیادی اور انتہائی ضروری نکات ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔رہے دیگر شعبے تو ان پر اظہار خیال ایک مختصر مضمون میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔