عورت: ذرا اس کو ڈھونڈ کے لا دو!

تبسسم فاطمہ

میں اسے دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش میں ہر بار ہار جاتی ہوں . سال میں ایک دن، 8 مارچ وہ ملتی بھی ہے تو ایسے ملتی ہے جیسے اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہو. آدم -حو ا کی تاریخ میں اب تک اس کی کامیابیاں گنوانے کے لئے ،مرد معاشرے کے پاس کچھ ایک گنتی کے ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے . وہ ہے کہاں ؟ اس پوری کائنات، میں ؟ عالمی یا بین الاقوامی سطح پر؟ کہیں ہے تو دکھا دیجئے ؟ وہ اتنی کم کیوں ہے کہ آسمان کی وسعتوں تک نظر لے جانے کے باوجود بھی دکھائی نہیں دیتی.

 یہ کسی ایک ملک کا سچ نہیں ہے. یہ صرف بھارت، پاکستان، نیپال یا بنگلہ دیش کا سچ نہیں ہے، یہ خوفناک سچ اس وقت پوری دنیا کا حصہ ہے. آپ اسے ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھئے. آپ اسے زیرو زیرو سیون جیمز بانڈ کی فلموں میں دیکھ لیجیے. وہ مردوں کے درمیان صرف خانہ پری کے لئے موجود ہے. جیسے وہ اپنی موجودگی کے لئے مردوں کے ساتھ ہونے کا سوانگ بھر رہی ہو. آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے، عورت اس صورت حال کے لئے خود ذمہ دار ہے؟ جہنم جیسی زندگی کا راستہ اس نے خود اختیار کیا ہے. اس سے زیادہ خوفناک کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی. دنیا کے تمام بڑے ممالک کی عورتیں بھی اپنے نام، خود داری ، شناخت اور تحفظ کے لئے آج بھی مردوں پر منحصر ہیں . جینے کی آزادی سے لے کر شادی، بچے پیدا کرنے تک دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ، عورت آپ کو کو ایک بندھوا مزدور کی طرح ملے گی. جس کے پاس اپنا کہنے کو ایک آسمان بھی نہیں . آزادی تو بہت دور کی چیز ہے.

 کیا ہم نے دنیا کے بننے کے ساتھ ہی یہ طے کر لیا کہ دنیا اسی طرح چلتی رہے گی؟

ملک میں 33÷ عورتوں کے ریزرویشن پر زور زبردستی مہر لگانے والا سماج آج بھی نہ اسے تاریخی رسم و رواج سے نجات دے سکا ہے، نہ اسے معاشرے سے سیاست تک کوئی مقام دینے کے قابل چھوڑا ہے. وہ ریت کے ذروں کی طرح بکھرتی  ہوئی ،کبھی کبھی اونچے مقام تک آنے کے لئے دھکا مکی  اور کوشش  تو کر لیتی ہے لیکن غور کریں تو یہاں بھی اس کی حیثیت ایک فیصد سے بھی کم ہے. 1905، کار چلانے والی پہلی بھارتی خاتون سوسن آر ڈی ٹاٹا تھی  .1917، اینی بیسنٹ انڈین نیشنل کانگریس کی پہلی صدر خواتین بنی – .1925، سروجنی نائیڈو ہندوستانی نڑاد کی پہلی خاتون تھیں جو انڈین نیشنل کانگریس کی صدر بنی  .1966، اندرا گاندھی بھارت کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں .1972، کرن بیدی بھارتی پولیس سروس (انڈین پولیس سروس) میں بھرتی ہونے والی پہلی خاتون تھیں .1989، جسٹس ایم فاطمہ بیگم  بھارت کے سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بنیں .2007، پرتیبھا پاٹل بھارت کی پہلی بھارتی خاتون صدر بنیں . ایسی کچھ ایک مثالیں اور بھی ہیں . لیکن ان مثالوں کو سوئی کے سوراخ کی طرح تلاش کرنا پڑتا ہے.

عالمی  تاریخ کے صفحات  بھی اس سے کچھ مختلف نہیں . وہ آج بھی ہر سیکنڈ دنیا میں کہیں اغوا ہو رہی ہے، کہیں عصمت دری کا شکار ہو  رہی ہے. کہیں اپنے ہی گھر میں اس کا استحصال ہو رہا ہے. لیو  ان ریلیشن جیسے نئے باب میں بھی وہ ایک متاثرہ محض ہے، جہاں وہ صرف آزادی کا ڈھونگ کر رہی ہے. دنیا کی سب سے زیادہ عدالتیں آج بھی اس کی کشش ، اس کے  جسم ، اس  کے رہن سہن اور نام نہاد  آزادی کو ہی موردالزام ٹھہراتے ہیں . خواب کی اونچی چھلانگ اور پروازوں کے درمیان اس کی ظاہری شکل کسی بلیک ہول کا حصہ لگتی ہے. رقص، موسیقی، ادب، فن کی سطح  پر  بھی اس کی موجودگی کسی اچھوت جیسی ہے جہاں ہزار میں کسی ایک عورت کو مرد زبردستی قبول کر پانے کی پوزیشن میں  ہوتا ہے. صدیوں سے وہ الزاموں  کا بوجھ اٹھاتی  ہوئی  خود سے بھی  لاتعلق ہو گئی ہے. وہ کسی بھی طرح کی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے اور یہ  صورت حال فی الحال بدلنے والی نہیں ہے.

 مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سال کے 365 دنوں میں ایک دن ہم اسے تلاش کرنے کی سعی رایگان  کیوں کرتے  ہیں ؟ دراصل اس بیکار مباش کچھ کیا کر  کے ذمہ دار بھی مرد ہیں . سال کے سارے دنوں پر قبضہ کرنے کے بعد ایک دن عورت کے نام کرنے والے دراصل یہی بتانا چاہتے ہیں کہ عورت  کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے. نام نہاد  موجودگی کے باوجود اس کی تمام کامیابیوں  پر ہنسنے اور رونے والے تو ہیں اس کو برابری  کا حق دینے والے نہیں . عورت نے، نہ  اپنے حق کی جنگ شروع کی ہے، نہ یہ ہمت اس کے پاس ہے. وہ صرف مرد کے حقوق  اور گفتگو  کا حصہ بھر ہے. .وہ دکھائی دے رہی ہے، یہ اسی طرح کا ایک جھوٹ ہے جیسے یہ کہنا کہ وہ اپنے سپنوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.

ہم اسے ہر بار خواب دیکھنے سے پہلے ہی مار دیتے ہیں

وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی صرف ایک ڈرامہ بھر ہے

جب تک زندگی باقی ہے، ڈرامہ چلتا رہے گا

لیکن کوئی اسے ڈھونڈ کے نہیں لے آئے گا

عورت کی  ناکامی ہی دراصل مرد کی کامیابی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔