انٹی ’آئی ایس‘ اسلام اور مسلمانوں کی سب سے خطرناک دشمن!

عبدالعزیز

آئی ایس یعنی ’اسلامک اسٹیٹ‘ حقیقت میں اسے ’انٹی آئی ایس‘ یا ’انٹی اسلامک اسٹیٹ‘ کہنا درست ہوگا کیونکہ جب سے اس تنظیم کا چرچا ہورہا ہے جس قدر اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی اور نقصان ہو رہا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں کے وہ دشمن جو اس تنظیم کے بانی مبانی ہیں جان بوجھ کر ایسے بدنام زمانہ اور انسانیت دشمن تنظیم کو اسلام سے جوڑ دیا ہے جیسے کوئی بدامنی، انتشار اور فساد کو امن سے جوڑ دے اور امن کے نام پر بٹہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اس تنظیم کے بارے میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ آئی ایس کا ہندستان میں کوئی اثر نہیں ہے مگر کانپور اور اجین کے قریب ٹرین میں دھماکے کے ملزمین کی گرفتاری سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ان کے ناپاک قدم ہندستان کی سر زمین پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ اگر چہ NIA کے ذرائع کے مطابق یہ کہا جارہا ہے کہ یہ Self-Radiclisedتھے۔ ان کا باہری طاقتوں سے کوئی ربط و تعلق نہیں تھا، صرف ان سے یہ متاثر ہوکر اس طرح کے خطرناک قدم اٹھائے یا اٹھانے والے تھے۔

اگرچہ کانپور، لکھنؤ، اجین اور دیگر شہریوں میں نوجوانوں کی گرفتاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو ملزمین پکڑے گئے ہیں۔ وہ پولس کی تھرڈ ڈگری سختیوں یا سزاؤں کی وجہ سے بھی اپنے بہت سے نوجوا نوں کا نام لے سکتے ہیں یا جن کو اپنا بنانے کی کوشش میں تھے وہ ان کی باتوں میں نہیں آئے مگر ان کی ڈائریوں میں ایسے لوگوں کے نام لکھے پائے گئے۔ ہندستان کی دہشت گرد مخالف فورس نے ایسے بے شمار نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے یا کر رہی ہے جو دس دس بیس بیس سال تک جیلوں میں سخت سزائیں جھیلنے کے بعد بے قصور پائے گئے۔ شک و شبہ میں جو گرفتاریاں کی جارہی ہیں ان سے NIA یا دہشت گرد مخالف فورس کو پرہیز کرنا چاہئے۔ بھوپال کی جیل کے آٹھ ملزمین کے ساتھ پولس نے جو رویہ رکھا اور آج تک پولس کے خلاف جو سوالات اٹھائے گئے ہیں پولس کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ ایسے پاگل نوجوان جو بھوپال جیسے فرضی اورجعلی مڈبھیڑ سے متاثر ہوتے ہوں گے اور ان پر جنون جیسی کیفیت غالب آتی ہو گی۔ جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے وہ کسی کے ناحق خون کرنے یا قتل کرنے کو ساری انسانیت کا خون اور قتل قرار دیتا ہے۔

’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’جس نے کسی انسان کا خون بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘ (المائدہ، آیت32)۔
مطلب یہ ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقاء و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے اور ہمدردیِ نوع کے جذبہ سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقاء کا انحصار ہے۔

قرآن مجید کی سورہ المائدہ اور دیگر آیتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ناحق خون کی مخالفت سب سے زیادہ اسلام کرتا ہے۔ آج اسی اسلام کا نام لے کر دشمنانِ اسلام اسلام اور مسلمانوں کے درپے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام اور داغ دار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی تمام تنظیمیں مشترکہ پلیٹ فارم مثلاً کل ہند مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ اسلام دشمن تنظیموں کی نہ صرف زبردست مذمت اور مخالفت کریں بلکہ جو لوگ ان کے پس پردہ ہیں ان کو بے نقاب کریں۔ یہ تنظیم (آئی ایس) اسرائیل اور امریکہ کے پروڈکٹ اور پروردہ ہے کیونکہ دونوں ملکوں سے اس تنظیم کو کوئی نقصان نہیں ہے، سوائے فائدہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے لوگ شیعہ و سنی، وہابی غیر وہابی میں انتشار اور دشمنی پیدا کرنے میں اپنی فلموں، لٹریچر اور نیوز چینلوں کے ذریعہ کامیاب ہیں۔ عرب ممالک میں اسلام دشمن مسلمانوں کے خون بہانے میں پیش پیش ہیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں انسان عرب ممالک کے آج بے پناہ اور بے گھر ہوگئے ۔ دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ملک شام کی آدھی سے زیادہ آبادی حالات جنگ و جدل کی وجہ سے اپنے ملک سے باہر ہوگئی ہے۔ عراق میں بھی پانچ لاکھ سے زیادہ افراد امریکہ کے حملے اور شیعہ و سنی کے مصنوعی جھگڑے کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔ یمن اور سعودی عرب کے درمیان بھی شیعہ سنی کے نام سے جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ وہاں بھی ہزاروں لوگ متاثرین اور مظلومین میں شامل ہیں اور ہزاروں جان بحق ہوئے۔ برادر کشی کی سازشوں کا ہر ملک میں مسلم دشمنوں نے بیج بو دیئے ہیں۔ جو لوگ ان کے اثرات قبول کر رہے ہیں وہ انتہائی نادان اور بیوقوف ہیں۔ ان کو اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ دشمن کون ہے اور دوست کون؟ اور اس سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہورہا ہے؟

ایسے نوجوان جو مسلمانوں جیسا نام رکھ کر گمراہ ہورہے ہیں، ملت کے اکابرین اور تنظیموں کو آگے آکر ان کی گمراہی یا بے راہ روی کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج اسلام اور مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ سارے مسلمانوں اور مسلمانوں کی ساری تنظیموں کو یہ چیلنج قبول کرنا چاہئے اور خاطر خواہ ان کا مقابلہ پر امن اور جمہوری طریقہ سے کرنا چاہئے۔ ہندو بھائیوں میں بھی زہر گھولنے کی جو سازش برسوں سے رچی جارہی ہے وہ بھی کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ جو لوگ ہندو بھائیوں میں صاف ذہن یا سیکولر ذہن کے ہیں ان کے ذہنوں کوبھی مسموم بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ابھی جو کچھ شمشان ، قبرستان، رمضان اور دیوالی کے حوالے سے وزیر اعظم ہند نے زہر گھولا ہے محض چند ووٹوں کیلئے مگر اس کے جو دور رس نتائج ہوں گے اس سے وہ واقف نہیں ہیں۔ بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کرنے والوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ بابری مسجد کے انہدام سے بھی نوجوانوں میں جنونی کیفیت یا پاگل پن پیدا ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں تمام خرابیوں کے باوجود جمہوریت کی جڑیں گہری ہیں۔ اس ملک کو جو لوگ آمریت اور فرقہ واریت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں انشاء اللہ اس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ایک نہ ایک دن انھیں منہ کی کھانی پڑے گی۔ اللہ کرے اتر پردیش الیکشن کے نتائج بہار جیسے ہوں تاکہ ان کو پھر سبق ملے کہ اتر پردیش والے بھی مودی اور ان کی پارٹی کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے متاثر نہیں ہیں اور نہ متاثر ہوں گے۔ اگر یہ سگنل ملک بھر میں جاتا ہے تو دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کیلئے یہ بہت بڑا سبق اور ان کی فرقہ پرستی اور دہشت گردی کیلئے سب سے بڑا جواب ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔