پروین شاکر:مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے!

حیران آنکھوں،شبنمی رخساروں،کشادہ پیشانی اوراداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض25؍سال کی عمرمیں اردوشاعری کی دنیامیں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھاکہ معاصراہلِ ادب و شعرکی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔اردوادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے،مگرشاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعرنے،خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیاکومسحورکردیاہو،کم ازکم اردوادب میں نایاب نہیں توکم یاب ضرورہیں۔پروین شاکر(24؍نومبر1952ء۔26؍دسمبر1996ء)سے پہلے بھی اردومیں خاتون شاعرات تھیں اور خودان کے دورمیں بھی اداجعفری، کشورناہید،فہمیدہ ریاض وغیرہ اعلیٰ پایے کی خاتون شاعرات موجودتھیں،جن کی قدرخودپروین شاکربھی دل سے کرتی تھیں،مگراس کے باوجوداردوشاعری کوجولہجہ پروین نے دیا،وہ سب سے اچھوتا،انوکھااوردل چسپ تھا،انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں،انفرادی مشکلوں،معاشرتی جکڑبندیوں،حسن و عشق کی خاردارراہوں کی آبلہ پائیوں کاذکراپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا۔پروین شاکربلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں،انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ،ہارورڈیونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں،شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردوشاعری کومالامال کردیا۔پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کوآشکارکرنے کے لیے ’ضمیرِمتکلم‘کااستعمال کیا،جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے،ہوسکتاہے،وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوں،مگران کی شاعری کوپڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے؛شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلامجموعہ’’خوشبو‘‘1976ء میں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا۔پھریکے بعد دیگرے ’’صدبرگ‘‘ (1980ء) ’’خودکلامی‘‘ (1980ء) ’’انکار‘‘ (1990ء) ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت،پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا،ان کا پانچواں شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال’’کفِ آئینہ ‘‘کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میں زیورِطبع سے آراستہ ہوا،اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور’’کفِ آئینہ‘‘خودانہی کا تجویزکردہ نام ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ’’خوشبو‘‘پر’’آدم جی ایوارڈ‘‘سے سرفرازکیاگیا،جبکہ 1990ء میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’تمغۂ حسنِ کارکردگی ‘بھی انھیں تفویض کیاگیا،1982ء میں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں،تواردوکے پرچے میں ایک سوال خودان کی شاعری کے تعلق سے تھا،ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش،جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکرکومتعددناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5؍جنوری 1935ء۔13؍فروری 1967ء )سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوں کی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کر،شاعری کی تھیم اور جواں مرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے،پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی،انھوں نے فروغ کے لیے ایک نظم بھی لکھی تھی،جوان کے شعری مجموعہ ’’خودکلامی‘‘ میں شامل ہے:
مصاحبِ شاہ سے کہوکہ
فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں
کہ فصل پھرسے گناہ گاروں کی پک گئی ہے
حضورکی جنبشِ نظرکے
تمام جلادمنتظرہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں….
پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے،وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت ،دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوںیاکاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں،توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی،خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم،نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب ،تتلی،سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں،جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے،خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے،ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبوتھی
نویدہوکہ بدن سے پرانے خواب اترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں
مثالِ قطرۂ شبنم تراجواب اترے

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہواکے ساتھ سفرکا مقابلہ ٹھہرا

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھرتیرے تصورکے کسی لمحے میں
تیری تصویرپہ لب رکھ دیے آہستہ سے

چہرہ میراتھا،نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیزہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں،شامیں اس کی
دوررہ کر بھی سدارہتی ہیں
مجھ کوتھامے ہوئے بانہیں اس کی

کھلی آنکھوں میں سپناجاگتاہے
وہ سویاہے کہ کچھ کچھ جاگتاہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مراتن موربن کر ناچتاہے
میں اس کی دست رس میں ہوں مگروہ
مجھے میری رضاسے مانگتاہے

تجھ کو کھوکربھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ
پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے،مگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتازہیں،اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی،مگرملتجیانہ اورپرامید بھی ہے،وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:
اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں
اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے،توکچھ بھی نہ بتانے آئے

کوئی توہو،جومرے تن کوروشنی بھیجے
کسی کا پیارہوامیرے نام لائی ہو

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگاجومجھے اس کی طرح یاد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روزاِک موت نئے طرز کی ایجادکرے

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکافیصلہ بھی تھا
ہم نے توایک بات کی،اس نے کمال کردیا!

ہمیں خبرہے ہواکامزاج رکھتے ہو
مگریہ کیاکہ ذرادیرکورکے بھی نہیں!

توبدلتاہے توبے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اُلجھ جاتی ہیں
پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے،جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحۂ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری،وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے،خاص طورسے’’خوشبو‘‘کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے،ایک غزل:
سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سردکمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازووں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکاہوا
گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں،ٹھہرجائیں ذرا!
معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہارسمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعددمقامات پردیکھنے کوملتاہے:
میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے
کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون
میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون

وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت
گلی کا دورتلک جائزہ ضروری ہے

لہوجمنے سے پہلے خوں بہادے
یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے
کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت
ہمارے شہرمیں باطل بڑاہے
انھوں نے معاشرے کے دبے کچلے،مزدوروکامگارطبقے کے مختلف کرداروں پربھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے،جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیضیاب ہوتے ہیں،مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔’’انکار‘‘کی نثری نظموں کابیشترحصہ ایسے ہی کرداروں کومنسوب ہے۔
پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف’’نثری نظم‘‘کونئی بلندیوں اور مقبولیت کی نئی منزلوں تک پہنچایا،ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروں نے اس صنف کواختیار کیاتھا،مگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔
پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوں سے آشناکیا،انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نوترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعدادسیکڑوں میں ہوسکتی ہے۔
پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے شہردربھنگہ سے متصل ایک بستی ’’چندن پٹی‘‘تھا،1947ء میں ان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی،مگراس کے باوجودانھیں ہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوتہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں، انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں،ان کے یہاں دیوتا،مدُھر،سنگیت،سمے،سنسار،پریم،روپ،من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش،گمبھیر،راج کماری، بھور، سنگ،ساجن،گوری،مُکھ،نین،مُسکانا،سہاگن،سندرتا، جَگ، پرویَّا، پجاری، سادھو، منتر،بن باس لینا، ریکھا،وِیر،مہکار،سیندور،کجرا،ہِردے،چتا،داسی،درشن،امرِت،شریر،کومل سر،پوتر،چر ن ، بھوَن، بھیتر ، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا،بدھائی،جل،بِنتی،سینتنا،سانجھ سویرے،سمبندھ،سمان،راج رتھ،آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوں میں ہندووں کی مذہبی علامتوں مثلاً دیوالی،مندر،گنگا،کرشن،گھنشیام جیسے کرداروں کوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔
الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں،جن کی شاعری دلوں کے تارچھیڑتی اوراحساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزرگیا،مگرہنوزان کانام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاء اللہ)، خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا،سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:
مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

تبصرے بند ہیں۔