ترسیلی زبان اور اخلاقیات

لفظ’’ ترسیل‘‘ کا عربی مادہ ر،س،ل ہے جس کے معنی ہیں بھیجنا یا پہنچانا۔ اس مصدر کے کئی مشتقات اردو میں مستعمل ہیں مثلاً:رسالہ، مراسلہ ،مرسل،مرسل الیہ، مراسلت،رسول ،رسالت اور رسل ورسائل وغیرہ ۔ ترسیل کا انگریزی متبادل ”Communication” ہے جو کہ بنیادی طور پر لاطینی لفظ”Communis” سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ’’ اشتراک‘‘ ہو تے ہیں ۔ بہ قول ڈاکٹر محمد شاہد حسین:
’’جب ہم کسی جذبے ،خیال ،معلومات یا محسوسات کو دوسرے تک بھیجتے ہیں تو اسے مشترک کر تے ہیں گویا اس میں
دوسروں کو شریک کر تے ہیں لہٰذا خیالات اورتجربات ومحسوسات میں دوسروں کو شریک کر نے کا عمل ترسیل کہلاتا ہے ۔‘‘
ویربالا اگر وال اور وی ایس گپتا کی مشترک تصنیف’’”Hand book of journalism and mass communicationمیں ترسیل کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے :
’’ترسیل اطلاع بھیجنے یاحاصل کر نے کا عمل ہے ۔یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم انسانی رشتوں کو ہموار کر تے ہیں اور فروغ دیتے ہیں ۔‘‘
(Communication is the process of sending and recieving information. It is the vehicle through which we develop, maintain & improve human relationship)
مزید جامعیت کے ساتھ ترسیل کی تعریف متعین کر تے ہو ئے مذکورہ مصنّفین رقم طراز ہیں:
’’ ترسیل کو تصورات ،خیالات ، عقائد ، معلومات اور نظریات کے باہمی تبادلہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔‘‘
(Communication can be described as an act of transmission of ideas, thoughts, beliefs, knowledge & opinion etc….)
ڈینس میک کو ئیل (Denis Makquail) نے اپنی کتاب Mass Communication theory میں ترسیل کے پانچ اہم مقاصد قرار دیے ہیں :
(1) اطلاع رسانی (Information)
(2) باہمی ربط (Correlation)
(3) تسلسل (Continuity)
(۴) تفریح ) Entertainment (
(۵) تحر ک (Mobilization)
ترسیل کی ابتدا حرکات وسکنات سے ہوئی پھر تصویر وں اور علامتوں سے کام لیا جا نے لگا ۔پھر تقریباً ایک لاکھ سال قبل مسیح ترسیل کے لئے ایک غیر ترقی یافتہ زبان Embryonic وجود میں آئی ۔ آج ترسیل کے بے حد ترقی یافتہ ذرائع ظہور پذیر ہو چکے ہیں ۔ مثلاً اخبارات ورسائل ،ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ وغیرہ۔
مقالے کے عنوان میں شامل دوسرا بنیادی لفظ ’’اخلاقیات ‘‘ہے ۔ اخلاقیات کا مترادف ’’ علم الاخلاق ‘‘ہے۔اس کے لئے انگریزی میں
Enthics کی اصطلاح رائج ہے ۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینکاکے مطابق لفظ Ethics کاماخذ قدیم یو نانی لفظ ”Ethikos” ہے جس کے معنی ہیں :
”Theory of living” یعنی ’’نظرےۂ حیات ‘‘اور یہ دراصل فلسفہ کی پانچ اہم شاخوں میں سے ایک ہے جس کا تعلق صحیح کو غلط سے ممیز کر نے سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں Ethics کو ’’ فلسفۂ اخلاق ‘‘بھی کہا جا سکتا ہے ۔مزید انسائیکلو پیڈیاآف بر ٹینکا میں Ethics کی تعریف یو ں بیان کی گئی ہے:
”Ethics in plain words means studying and analyzing right from wrong, good from bad.”
(اخلاقیات کا مطلب سادہ لفظوں میں صحیح، غلط اور نیک وبد کا مطالعہ اور تجزیہ کر نا ہے ۔)
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
Ethics means moral principles that control or influence a person’s behaviour” ”
(اخلاقیات دراصل ایسے اخلاقی اصول کو کہتے ہیں جو کہ فرد کے عادات واطوار پر قابو رکھتے ہیں یا انہیں متاثر کرتے ہیں ۔)
The internet encyclopedea of philosophy نے جامعیت اور صراحت سے Ethics کی تعریف وضع کی ہے جس کے مطابق :
The field of ethics also called moral philosophy involves systematizing,defining and recommending concepts of right and worng behaviour”
(اخلاقیات کا میدان فلسفۂ اخلاق بھی کہلاتا ہے جس کے تحت صحیح اور غلط عادات و اطوار کے تصورات کی تشکیل وتعریف اور صراحت وغیرہ شامل ہیں۔)
اخلاق یا اخلاقی طرز عمل عموماً صالحیت، نیکی ،اچھائی اور پاک بازی (Morals) کے ہم معنی سمجھے جاتے ہیں ۔لفظ Morals بھی لا طینی لفظ ”Mores” سے نکلا ہے جس کا مفہوم ’’ مروجہ رویہ‘‘ ہو تا ہے ۔لفظ اخلاق عربی لفظ ’’خُلق ‘‘ کی جمع ہے ۔ یہ اتنا جامع لفظ ہے کہ اس سے Ethics اور Morality دونوں ہی مفاہیم ادا ہو جاتے ہیں ۔اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ اچھا عمل کرنا چاہیے اور برائی سے پرہیز کر نا چاہیے ۔لیکن اچھا کیا ہے اور برا کیا؟ اس سلسلے میں مفکر ین اور فلاسفہ میں اختلاف رہا ہے ۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اچھے برے میں امتیاز کا پیمانہ کیا ہو ؟ ماہر سماجیات ریمانڈ بوم ہارٹ (Raymond Baumhart)نے تجارت پیشہ افراد سے جب یہی سوال کیا کہ ’’ آپ کے نزدیک اخلاقیات کا مطلب کیا ہے؟‘‘ان کے جواب مختلف تھے ۔ ایک نے کہا کہ ’’اخلاقیات کا تعلق میرے محسوسات سے ہے اور صحیح وغلط کا فیصل انسان کا اپنا ضمیرہو تا ہے ‘‘دوسرے کا جواب تھا’’اخلاقیات کا تعلق میرے مذہبی عقائد سے ہے ‘‘۔تیسرے نے خیال ظاہر کیا ’’اخلاقی عمل وہ ہے جو عین قانون کے مطابق ہو اور جو کہ ہمارے سماجی رسوم ورواج اور معیارات سے مطابقت رکھتا ہو ۔‘‘
مذکورہ انٹرویو کی بنیادپراخلاقیات کے چار پیمانے متعین کئے جا سکتے ہیں:
(1)مذہب (2)فلسفہ (3)قانون اور تہذیب ومعاشرت (۴)انسانی ضمیر
فلسفیوں نے علم الاخلاق کو تین شاخوں میں تقسیم کیا ہے :
(1) Meta Ethics ٰ (2) Normative Ethics (3) Applied Ethics
(1) Meta ethics (ربانی اخلاقیات )کے تحت خدا ،آخرت اور آفاقی صداقتوں سے متعلق بحث کی جاتی ہے ۔
(2) Normative ethics (رسومیاتی اخلاقیات)کا تعلق انسان کے روز مرہ معمولات سے ہے ۔اور ا س میں اس بات کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ بہ حیثیت مجموعی معاشرے پر انفرادی اعمال وافعال کے کیا اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔
(3) Applied ethics (اطلاقی اخلاقیات ) کے تحت مخصوص متنازعہ فیہ ایشوز کے تجزیہ وتحلیل کے ذریعہ صحیح اور غلط کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ مثلاً:اسقا ط (Abortion) ،طفل کشی(Infanticide)،حیوانی حقوق (Animal rights) ،ماحولیاتی مسائل(Environmental concerns) ،سزائے مو ت(capital punishment)، نیو کلیائی جنگ(Nuclear War) اور انسانی کلو ننگ (Human cloning) وغیرہ ۔۔۔
ان سب کے باوجود چند ایسی مشترک اخلاقی اقدار ہیں جن پر مذہب ، فلسفہ ،قانون،معاشرہ اور انسانی ضمیر تمام نظامہائے فکر میں اتفاق رائے ہے کہ یہ قدریں بنیادی انسانی آفاقی قدریں ہیں۔مثلاً رواداری ، خیر خواہی ،صبر، تواضع ، عالمی اخوت ،اخلاقی سلوک ، سچائی، ایمان داری اور خدمتِ خلق وغیرہ …….
لیکن جدید اطلاعاتی انقلاب کی اس چکا چوند میں مسلمہ انسانی اخلاقیات کے نقوش دھند لا نے لگے ہیں ۔آج کا عہد جس کو Post modern era (مابعد جدید عہد )،Super modern era (جدیدترین عہد)،Explosion of Knowledge era (انفشارِِ معلومات کا عہد)اور آج کی دنیا جس کو Digital world (نمبروں کی دنیا)،Global village اور Super market of ideas (نظریات کا سپر بازار ) وغیرہ کا نام دیا گیا ہے، اس دور کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے مسلمہ اخلاقی قدروں کو بھی چیلنج کر دیا ہے حتی کہ اب ایک نیا فلسفۂ اخلاقیات مرتب ہو چکا ہے اور اس پو رے عمل میں جدید ذرائع ابلاغ نے سب سے زیادہ فعال کر دار ادا کیا ہے، جس کے تحت لفظوں کے معانی بدلتے جارہے ہیں ۔ترسیل کے لیے جو زبان استعما ل کی جارہی ہے اس کے ذریعے ہر قبیح اور غیر اخلاقی عمل کو پر کشش اور صالح الفاظ کا جامہ پہنایا جارہا ہے اور یوں الفاظ کی حرمت پامال کی جارہی ہے مثلاً: اب زنا کے لئے زائد از ا ز دواجی جنسی تعلق (Extra Marital relation) کی اصطلاح رائج کی جارہی ہے ۔ اسی طرح طوائف کو ’’جنسی کا رکن ‘‘(sex worker) کا خطاب دیا گیا ہے ۔ اصطلاحات کا ایک حسین دامِ فریب تیار کیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ استحصالی اور جبر ی نظامِ اقتدار کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہیں، مثلاً اسٹرٹیجی، ٹکٹس ،ہیروز اور ٹارگٹس جیسے الفاظ کثیر قومی کمپنیوں کی قوت واقتدار اور کنٹرول کے جذبے کو مہمیز کر نے کا باعث بنتے جارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اخلاق، ہمدردی اور تعاون کا جذبہ سر دہو تا جارہا ہے ۔ اسی طرح سے Globalisation (عالم کا ری )، لبر لائزیشن ، New world order (نیا عالمی نظام )اور United nations organaisation (انجمن اقوام متحدہ) اور اس قبیل کے تمام آفاقی تصور پیدا کرنے والے الفاظ جو کہ عالمی اخوت ،مساوات، انصاف اور بلاتفریق ملک وقوم انسانی فلاح وبہبود کا استعارہ بنتے جارہے ہیں دراصل یہ سبھی ترسیلی زبان کا مکر ہے جس کے پر دے میں امریکی اقتدار اورتہذیب ومعاشرت کی جڑیں پو ری دنیا میں مستحکم کر نے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور اس کا مقصد تیسری دنیا پر سیاسی ،تہذیبی اور معاشی غلبہ و تسلط قائم کرنا ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے کی صحیح تصویر کشی کے لئے ترسیلی زبان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ موجودہ نظام کو نو آبادیاتی استحصالی نظام (Neo-Colonism)، مغرب کاری (Western isation)، نئی سامراجیت(Neo-emperialism)اور Americanisation سے تعبیر کر ے ۔ جیسا کہ کچھ اخبارات ورسائل میں یہ شعوری کو شش نظر آتی ہے۔ ترسیلی زبان کا المیہ یہ ہے کہ جدید ترین ذرائع ابلاغ جس کواطلاعات کے سمندر سے تشبیہ دینا بیجا نہ ہو گا ، اس سمندر میں نا مکمل سچائیاں تیر رہی ہیں،چناں چہ اطلاعات کے اس بحرِ بے کراں میں انفارمیشن کے ساتھ غلط اطلاع دینے تو (Misinformation)، اطلاع نہ دینے (Uninformation) ،اطلاعات کی غلط توجیہ کر کے غلط فہمی پیدا کر نے (Disinformation) اور اطلاعات کی یقینی صورت کو مسخ کر کے اس کے توازن کو اپنے حق میں بنا کر پیش کر نے (Misinterpretation) یا ’’افراط وتفریط پر مبنی معلومات ‘‘ پیش کر نے کا غیر اخلاقی رجحان فروغ پذیرہو رہا ہے ۔
حالاں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ذرائع ابلاغ کے لئے باقاعدہ ’’ضابطۂ اخلاق ‘‘متعین کیا گیا ہے جن میں ہندوستان کی سطح پر پریس کونسل آف انڈیا اور آل انڈیا نیوز پیپر ایڈ یٹرس کا نفرنس اور عالمی پیمانے پر UNESCOکی جانب سے پیش کردہ ضابطۂ اخلاق قابلِ ذکر ہیں۔
پر یس کو نسل آف انڈیا کے اخلاقی ضوابط یو ں ہیں :
(1) صحافت کا اساسی مقصد ،خبروں، رایوں ، تبصروں اور عوامی مفاد کی معلومات کو صاف ستھرے، صحیح اور تعصب سے پاک اور باوقار انداز میں لوگوں تک پہنچا کر ان کی خد مت کر ناہے۔
(2) اشاعت سے پہلے اچھی طرح تحقیق ، انٹر ویواور گفتگو کو ریکارڈ کر نے کا اہتمام اور غلط اطلاع کی تصحیح ضروری ہے ۔تشدد ،قتل ،زنا ، رہزنی ، لوٹ مار،ڈکیتی اور دہشت گردانہ سر گر میوں کے واقعات کو ستائشی اور مثبت اسلوب میں پیش نہ کیا جائے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ فرقہ وارانہ فسادات یا تنازعہ وغیرہ کی رپو رٹنگ میں احتیاط ضروری ہے ، جانب دارانہ اور ترغیبی انداز اختیار نہ کیا جائے ، سرخی سنسنی خیز نہ ہو اور اس خبر کے مواد سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہو، عمومی خبروں میں ذات ، مذہب اور کمیونٹی کی شناخت ظاہر نہ کی جائے ۔
(3) رپورٹ میں صاف ستھرا انداز ، حقائق کا معروضی بیان ، معیاری زبان ، باوقار اسلوب اور مبالغے سے پاک الفاظ کا استعمال کیا جائے اورزبان میں سطحیت اور ننگا پن نہ ہو ۔
(۴) کسی فرد یا جماعت کی شبیہ بگاڑنے والی خبروں کی اشاعت میں محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔
(۵) کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کر نایا ان کے ذاتی معاملات کو طشت از بام کر نا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ اس سے مفاد عامہ وابستہ ہو ۔
(6) کسی بھی جرم کی خبرپیش کر تے ہوئے زنا، عورت کا غوا، بچوں کا جنسی استحصال، کسی عورت کے مشکوک کر دار پر سوالات قائم کر نے کے لئے تصویر اور نام شائع نہ کیا جائے۔ مجرم کے اہل خانہ کے نام ظاہر نہ کئے جائیں کیوں کہ وہ تو معصوم ہیں۔ اسی طرح ناجائز اولاد یا جبر یہ شادی شدہ جو ڑے کی بھی شناخت نہ بتائی جائے ۔
(۷) جماعتی ،قومی ، گروہی اور مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے ۔
(۸) خواہ مخواہ کی پیشین گوئی ، بد اندیشی یا خوش اندیشی نہ کی جائے مثلاً: امکان ہے، یقین ہے وغیرہ الفاظ سے پر ہیز کیا جائے ۔
یو نیسکو کے منشور میں اظہار رائے اور اطلاع کی آزادی کو بنیادی حقوق انسانی قرار دیتے ہو ئے امن اور بین الاقوامی افہام وتفہیم کے لئے مذکو رہ بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے ۔ چناں چہ اسی بنا پر 1983 ء میں پیرس میں چوتھی Consultalive Meeting میں ’’بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق برائے ذرائع ابلاغ ‘‘کی تدوین عمل میں آئی جس کے کلیدی نکات یو ں ہیں :
(1) عوام کو صحیح ا طلاعات کا حق حاصل ہے۔
(2) معروضی حقیقت نگاری ضروری ہے ۔
(3) انسانی وقار اور ذاتی زندگی کا ا حترام ملحوظ رکھا جا ئے ۔
(۴) مفاد عامہ کا لحاظ رکھا جائے ۔
(۵) آفاقی اقدار اور رنگا رنگ ثقافتوں کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔
(6) منکرات اورفسادو جنگ کے تدارک کی کو شش کی جائے ۔
(۷) نئے عالمی اطلاعات اور تر سیلی نظام کو فروغ دیا جائے ۔
مذکورہ ترسیل اورذرائع ابلاغ کے لئے پیش کردہ تمام ضابطہ ہائے اخلاق میں جن عوامل کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے ،ان میں حق گوئی ، اعتدال ، حکمت ، مثبت نقطۂ نظر ، مطابقِ واقعہ رپور ٹنگ اور مسائل کے منصفانہ تجز یہ وغیر ہ قابلِ ذکرہیں ۔لیکن عملاً ترسیل کے تمام وسائل وذرائع سے ان خوب صورت اخلاقی اصولوں کا تصادم نظرآتا ہے اورترسیلی زبان میں مسلمہ اخلاقیات کی پامالی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا گیا ہے ۔ خواہ فلم ، اشتہارات اوراخبارات ورسائل ہو ں یا ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ ہو ۔ یہ ایک تسلیم شدہ اخلاقی اصول ہے کہ کسی مذہب ،قوم یا گروہ کی شبیہ مسخ کر کے پیش کرنا یا ان کے ہیروز کی کردار کشی ’’غیر اخلاقی عمل ‘‘ ہے لیکن یہ سب کچھ اس قدر عام ہے کہ شاید اس کی مثالیں بھی پیش کر نے کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً ایک انگریزی فلم ’’چارپر ‘‘میں فلم کے ہیرومہدی سو ڈانی کو قتل وخون کے دہشت ناک ماحول میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہو ئے پیش کیا گیا ہے ۔ میٹرو گولڈن کمپنی کی تیار کر دہ فلم ’’پر دار بلی ‘‘میں عربو ں کی کردار کشی کی گئی ہے ۔تمام لٹیرے کردار وں کے نام احمد ، محمد ، علی اور جعفروغیرہ ہیں ۔حتی کہ ان لٹیروں کی پناہ گاہ کومسجد کانام دیاگیاہے ۔ اسی طر ح دریائے نیل کے جواہر ، عہدوپیماں ، لو لیرو، صحرائے پو روگوائے اور غبارہ جہاز وغیرہ فلموں میں بہ حیثیت مجموعی عربوں کی شبیہ وحشی ، غیر مہذب ، بیہودہ ،فضول گو ، بیوقوف دولت مند اور عیاش کے بطورپیش کی گئی ہے۔ بالی ووڈکی صورتِ حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔ ابھی کچھ سال قبل ایک فلم ’’لگے رہو منابھائی ‘‘ میں غیراخلاقی اور غیر مہذب لفظ ’’گاندھی گیری ‘‘کا استعمال اور پھر دانشوروں کی جانب سے اس کی قبولیت وحمایت اس کی عمدہ مثال ہے۔اسی طرح اشتہارات کی زبان اور اس کے اسلوب کا اخلاقیات سے متصادم ہونا بھی غیر مشکوک امر ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ اب میڈیاایک نفع بخش تجارت ہو گئی ہے ۔ جس میں قاری ، سامع ،ناظر یا عامل’’ کنزیومر‘‘ ہے اور خبری ’’پروڈکٹ ‘‘کا درجہ رکھتی ہیں۔ دوسری طرف بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے ذارئع ابلاغ کا سہار ا لینا ناگزیر ہو جا تا ہے۔ اشتہارسازی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ’’ انسانی نفسیات ‘‘کو اپنی گرفت میں لے کر بشری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا یاجائے ۔ مثلاً : لذت پر ستی ، جنسی کشش، عشرت خیز زندگی کی خواہش، دولت کی حرص اور تفریح وغیرہ ۔
چناں چہ اشتہارات کی زبان کے تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات کو متاثر کر نے کے لئے مبالغہ ،غلط بیانی ،تحریف ، عریانیت ، فحاشی اور پھکڑ پن وغیرہ غیر اخلاقی عناصرِ لسانی کو اس کے امتیازی اسلوب کا در جہ حاصل ہو گیا ہے ۔ مثال کے طو رپر ’’کو کا کولا‘‘ کے اشتہار ہی کولے لیجئے ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ٹھنڈا مطلب کو کا کولا ‘‘ آخر اس دعوے کا کیا مطلب ہو ا۔ ٹھنڈا مطلب کو کا کو لا ہی کیوں ؟ شکنجی اور لسّی کیوں نہیں ؟ یہ تحکمانہ لب ولہجہ ، یہ اپنی چیز کو بیچنے کے لئے دوسروں کے جذبات سے کھلواڑ ، یہ بازار میں اپنی مصنوعات کے با لمقابل دوسروں کے لئے راہیں مسدود کر دینے کا سا انداز ……..ان سب چیزوں کا اخلاق واقدار سے دورکا بھی علاقہ نہیں ہے ۔ اسی طرح پیپسی کے اشتہارمیں کہا جاتا ہے ۔’’ یہ دل مانگے مور‘ ‘ چار الفاظ پر مشتمل اس فقرے میں یہ، دل اورمانگے تین الفاظ اردو ہندی میں مشترک ہیں جب کہ چوتھا لفظ ’’مور‘‘انگریزی کا ہے ۔اس کے علاوہ بیش تر اشتہاری فقرے ایسے پس منظر میں چسپاں ہو تے ہیں جہاں تہذیب وشائستگی دم توڑدیتی ہے ۔ مثلاً ایک دو شیزہ کو فریج کے اندر سے نکلتے ہوئے دکھایا جا تا ہے اور پس منظر سے آواز ابھر تی ہے ’’فریج جیسی ٹھنڈ میں گرمی لا ئیں ۔‘‘اسی طرح آج کے مکالموں میں خلاّص ، بنداس ، وغیرہ……بے تکے اور غیرفصیح الفاظ زبانِ زد عام ہو گئے ہیں ۔قواعد ،فقرے کی تر تیب ، تذکیرو تانیث ، واحد جمع، محاورے ، ضرب الامثال ، تلفظ اور املاہر اعتبار سے زبان کے حسن کو تاراج کیا جار ہا ہے ۔ ترسیلی زبان ادبی چاشنی سے عاری ہو تی جا رہی ہیں ۔وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ کوئی زبان محض چند الفاظ کا مجموعہ نہیں ہو تی ہے بلکہ زبان اپنے آپ میں ایک ’’کلچر ‘‘ کی امین ہوتی ہے ۔اس حوالے سے یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ زبان کومسخ کر نا تہذیب وثقافت سے چھیڑ چھاڑ کے مترادف ہے اور تہذیبی قدروں کی پامالی دراصل اخلاقیات کے منافی ہے ۔
فلم اور اشتہارات کی طرح اخبارات ورسائل بھی مسلمہ اخلاقی قدروں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔تر سیلی زبان کی اخلاقیات میں حق گوئی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اسی حق گو ئی کے نتیجے میں ہیکی کے ’’بنگال گزٹ‘‘، ولیم ڈوان کے ’’بنگال جر نل‘‘ ،مولانا محمد علی جو ہر کے ’’کامریڈ‘‘اورمولانا ابو الکلام آزاد کے ’’ الہلال والبلاغ‘‘ کو بند ہونا پڑا ۔ لیکن آج حق گو ئی کے اصول کو عمومی ذرائع ابلاغ نے بہت حد تک صدمہ پہنچایا ہے۔ بے لاگ تبصرے ، صاف ستھری زبان، غیر جانب دار انہ رویے اور جرأتِ اظہار کی کمی نمایاں نظر آتی ہے ۔رسائل کے ناموں سے بھی تعصب اور تنگ نظری جھلکتی ہے مثلاً افکار ملی ، ملی گزٹ، ملی ٹائمز، ملی اتحاد ، ندائے ملت اور مسلم انڈیا وغیرہ …….. آخر ان رسالوں کے نام افکارِ انسانی ، انسانی گزٹ اورندائے حقیقت وغیرہ کیوں نہیں رکھے جاتے ۔ یہ دراصل ایک خاص وکیلانہ ، منفی، مظلومانہ اور مدافعانہ ذہنیت کے تحت وجود میں آنے والی ترسیلی زبان کے فروغ واستحکا م کی غیر مبہم علامت ہے ۔ ایک طرف اخبارات ورسائل جذبات کو مشتعل کر کے اپنے کامرشیل مقاصد کے حصول میں سرگر داں ہیں تودوسری طرف اباحیت کی تر ویج واشاعت میں ہندوستان کے اندرکم از کم سو ، رسالے ایسے نکلتے ہیں جنہوں نے جنسی تقدس اور اخلاقی اقدار کوپو ری طر ح مجروح کیا ہے ۔ ایسے رسائل میں FANTACY,FAMINA, DEBONEAR اورPLAY BOYسر فہرت ہیں۔ اقدار شکنی کی تحریک میں ریڈیو اورٹیلی ویزن نے بھی کچھ کم رول ادا نہیں کیا ہے ۔ZOOM, VTV, MTV وغیرہ میں باضابطہ Musical channels کے تحت نت نئے Musical Album کے پرو گرام پیش ہو تے ہیں۔ ان میں ری مکس نغموں کوفروغ دیا جا رہا ہے ۔ بیش تر ادبی وتہذیبی اہمیت کے حامل فلمی نغموں کے الفاظ، کرداراور مناظر میں تحریف کرکے انہیں ازسر نو فلمایا جا تا ہے جوکہ عموماًفحش اور غیر اخلاقی ہو تے ہیں۔ Laughter challenge اور مختلف تفریحی پر وگراموں میں گروہی تعصبات پر مبنی ، فحش اور غیر مہذب لطیفے پیش کئے جاتے ہیں ۔ یہی صورت حال ایف ایم ریڈیو چینلوں کی بھی ہے ۔ ان ٹی وی اور ریڈیوچینلوں میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ زیادہ تر فقرہ بازی ، بھا نڈپن ، پھکڑ پن ، ٹھٹھہ، تضحیک، استہزا، چھچھور پن اور پھبتی وغیرہ سے تعبیر کئے جانے کے قابل ہے ۔ اس ضمن میں ایک مثال دل چسپی سے خالی نہ ہو گی کہ بی بی سی کی ٹی وی سریز بنانے والی کمپنی نے جب’’ انگلش سیکھئے ‘‘کے نام سے کیسٹ تیار کیا تو انہوں نے بھی اخلاقی قدروں کا پاس ولحاظ نہیں رکھا ۔ چناں چہ اس کیسٹ میں یہ دکھایا گیاہے کہ ایک طالب علم سے استاد سوال کر تا ہے کہ غبی اور بیوقوف کے مترادف کوئی لفظ بتاؤ۔ اس کے جواب میں ہندوستانی طالب علم کہتا ہے ’’غبی اور بے وقوف کا مطلب ہے مسلمان ۔‘‘اسی طرح سی این این جیسے مشہور عالمی ٹی وی چینل پر ایک صابن کا اشتہار اس طرح پیش کیا جاتاہے : ’’ یہ صابن ہر چیز صاف کر سکتا ہے حتی کہ گندے عربوں کو بھی ۔‘‘
آج میڈیا میں جہاد، اسلامی بم، اسلامی دہشت گردی ، فتویٰ اور ملاّ گیری وغیرہ الفاظ بطور منفی پر وپیگنڈہ کے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ ایک مذہبی اور شریف آدمی کی شبیہ میڈیا کی زبان میں سادہ لو ح ، بیوقوف ، نادان ، ناقص العقل ، جمود اور تاریک پسند،متعصب ، رجعت پسند ، پسماندہ ، روشن خیالی کا مخالف ، ترقی کا مخالف ،قدامت پسند ، غیر مہذب ، تہذیب وتمدن سے دور، وقت کے تقاضوں سے بے خبر، بنیاد پر ست اور کٹر پنتھی ملاّ وغیرہ کے بطور پیش کی جارہی ہے ۔
غیر اخلاقی زبان واسلوب کی نمایاں مثال میڈیا کا پرو پیگنڈہ بھی ہے ۔پرو پیگنڈہ دراصل میڈیا کا ایک موثر حربہ ہے جس کے کئی اسالیب ہیں ۔مثلاً لطیفے کا اسلوب ، تکرار کا اسلوب( جس کا اصول یہ ہے کہ جھوٹ کی تکرار سچ سمجھ لی جاتی ہے ) کذب بیانی اور افتراپر دازی کا اسلوب اور اشتعال انگیز نعروں کا اسلوب جیسے :’’ مسلمانوں کے دو استھان ، پاکستان یا قبرستان ‘‘یا ’’ بچہ بچہ رام کا بیر یانی کے کا م کا ‘‘ اور ’’تیل لگا ؤ ڈابر کا ،نام مٹاؤ بابر کا ‘‘ وغیرہ ۔
ذرائع ترسیل نے اخلاقیات کو جس طر ح سے متا ثر کیا ہے وہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ چنا ں چہ 1996 ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے
یو نیسکو کی عالمی سر وے رپورٹ میں امریکی فلموں اور ٹی وی پر و گراموں کو دنیا میں بڑھتے ہو ئے جنسی اور جسمانی تشدد اور غیرشائستہ زبان کے فروغ کے لئے ذمہ دارقرار دیا گیا ہے ۔
اس پوری بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تر سیلی زبان کو آفاقی انسانی قدروں کے استحکام میں معاون ہو نا چاہئے تاکہحق، حسن اور خیر کو فروغ مل سکے ، باطل ، قبح اور شرکی مذمت ہو اور باہمی منافرت اور تعصبات کا ازالہ ہوکیوں کہ آج دنیا کو نیو کلیائی اسلحوں سے کہیں زیادہ خطرہ الفاظ کی جنگ سے ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔