اردوصحافت کے فروغ میں غیرمسلم صحافیوں کاکردار

صحافت کی مختصرتاریخ:
محققین کے مطابق صحافت کی ابتدا چھوٹی مو ٹی کتا بو ں کے ذریعے ہو ئی ،جنہیں عرفِ عام میں کتابچہ یا پمفلیٹ کہا جا تاتھا اور اس شعبے سے جڑنے والے کو پمفلیٹئر (Pamphaleteer )یعنی پمفلیٹ باز کہا جا تا تھا ،شر وع میں ان ہی کتابچوں کے ذریعے عوام تک رسائی کا کام لیا گیا، پھر رفتہ رفتہ بڑی کتا بو ں سے بھی یہ کام لیا جا نے لگا ،پہلے کسی بھی مسئلے پر راے عامہ ہمو ار کر نے کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابیں فر وخت کی جاتیں اور پڑھے لکھے عوام وخواص ا ن کے ذیعے گر دو پیش سے متعلق تفصیلات معلو م کر تے ،اکثر وبیشتر ایسے رسالے اور کتابچے عیسائیوں کے متنازع امور کو بڑے زور وشور سے اُچھالتے ،پھر ایک زمانے کے بعد یہ رسائل اُن متنازع فیہ امور سے نکل کر عام سماجی ،علمی اور ثقافتی امور پر توجہ دینے لگے ۔
پہلے یہ رسالے عموما مذہبی امور میں یک طرفہ ہو اکر تے تھے ،مگر جب خبر وں کی اشاعت عام ہو نے لگی تو یہ ضروری ہو گیا کہ جو خبر چھاپی جائے ، پو ری دیانت داری کے ساتھ چھاپی جائے اور تعصب یا جانب داری سے پاک ہو اور جب کبھی کسی بحث طلب معاملے کی اشاعت ضرو ری ہو ،تو دیانت داری سے مسئلہ کے دو نو ں رخ پیش کیے جائیں اور اس طرح یہ اخباری رسائل غیر متعصب اور زیادہ افادیت کے حامل ہو گئے ۔پھر ایک عرصے کے بعد لندن کے نا شر وں نے 1622ء میں اپنی ایک انجمن ترتیب دی اور یہ اہتمام کیا کہ ایک دوسر ے میں خبر وں کا تبادلہ ہو اور اس طرح ہر پبلشر کو خبر یں زیادہ سے زیادہ دستیاب ہو نے لگیں اور وہ ہر ہفتے اخبار نکالنے میں کامیاب ہو گئے ،شر وع شر وع میں ان اخبارات میں غیر ملکی خبر وں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی ،مگر دھیر ے دھیر ے مقامی اور سیاسی خبر وں کو بھی جگہ ملنے لگی ، پہلے زبانی گفت وشنید سے مقامی خبر یں پر اگندہ ہو اکرتی تھیں ،جب مطبو عہ تفصیلات آنے لگیں ،تو عوام وخواص سبھی اہم معاملات میں دل چسپی لینے لگے، نیز ان معلوماتی وافادی رسالو ں کی سیلنگ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو ا اور اس طرح گو یا روزنامہ اخبار کی راہیں ہموار ہو گئیں ۔لندن کا پہلا روزنامہ اخبار ’’دی لندن ڈیلی کو رانٹ ‘‘کے نام سے 1702ء میں منظرِ عام پر آیا ،پھر اٹھارہو یں صدی میں ابلاغ وتر سیل کے وسائل میں غیر معمولی ترقی ہو ئی ،جس کی وجہ سے خبر وں کی اشاعت بھی روز بہ روز بڑھتی گئی ؛لیکن اس زمانے کے اربابِ اقتداراور حکمر اں طبقہ صحافت کی بڑھتی ہو ئی اس مقبو لیت سے نا خوش تھے ،ان کا خیال تھا کہ اس کے ذریعے ایسی خبریں بھی طشت ازبام ہو جاتی ہیں ،جنھیں ایو انِ اقتدار اور حکمرانوں کے محلات سے باہر نہیں نکلنا چاہیے ؛اس لیے انھو ں نے پہلے تو مدیرانِ اخبار کو رشوت دہی کے ذریعے رام کر نا چاہا ،مگر جب کا میاب نہ ہو ئے ،تو انھیں پابندِ سلاسل کر نے لگے ،کئی ممالک میں یہ قا نو ن رائج کر دیا گیا کہ بغیر لا ئسنس کوئی بھی اخبار شائع نہیں ہو سکتا ،اسی طرح اخبار ات پر بھاری ٹیکسز لگا ئے گئے ؛تاکہ اخبارکی گرانی میں اضافہ ہو جائے اور عام لوگ اسے نہ خرید سکیں ۔
اُنیسویں صدی میں کچھ خوش گوار انقلابات رو نما ہوئے ،سیاسی آزادی کے رجحانات تیزی سے بڑھنے لگے ،عوام میں انقلابی شعور بیدار ہونے لگا اور انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اخبارات پر لگائے گئے بھاری ٹیکس ختم کیے جائیں اور بالآخر حکومت کو مطالبۂ حمہو ر کے سامنے جھکنا پڑا ،پھر ریڈیو اور ٹیلیگراف کی ایجاد نے خبر وں کے ارسال وتر سیل میں کافی بر ق رفتار پیدا کر دی ،ریلوے لائنو ں میں اضافہ بھی ممد ومعاون ثابت ہو ا اور اس طرح اخبارات ،جو پہلے بڑے بڑے شہروں تک ہی پہنچ پاتے تھے ،گاؤں اور قصبات تک بھی ان کی رسائی ہو گئی ،کناڈا میں پائے جانے والے وسیع جنگلات سے کا غذبنانے والی لکڑیاں وافر مقدار میں حاصل کی جانے لگیں اور اخبارای کا غذ بنانے والی صنعت گاہو ں نے بھی مستعدی سے کام کیا ، نتیجتاً اخبارات کا فی مقدار میں بہ آسانی دستیاب ہو نے لگے ،پھر یو رپ اور امر یکہ میں اشتہارات کے فر وغ نے اخبارات کی آمدنیوں کو دو چند کر دیا،اخبارات کی کثرتِ اشاعت نے ان کی لاگت میں خاطر خواہ کمی پید اکر دی اور اس طرح اخبارات اتنے ارزاں ہو گئے کہ معمولی آدمی بھی بہ آسانی خرید کر پڑھ سکتا تھا ۔
بیسویں صدی میں اخبارات کی اشاعت اور ان کی خرید وفر وخت میں مزید تر قیاں ہو ئیں ؛چنانچہ لندن کے روزنامہ اخبارات چالیس پینتالیس لاکھ کی تعداد میں فر وخت ہوتے،جاپان کا روزنامہ ’’اساہی شمبن‘‘روزانہ ایک کر و ڑ سے زیادہ بکتا ،روس کے اخبار’’پراودا‘‘اور’’ ازوستیا‘‘کی اشاعت بھی کر وڑ سے اوپر تھی ،اسی طرح مغربی ومشرقی بعیدکے ممالک میں بھی اخباروں کی اشاعت وفر وخت میں حد درجہ اضافہ ہو ا اور اس میں فوٹو آفسیٹ کی ایجا داور اس کی نت نئی حصولیابیوں کا بھی خاصا دخل رہا ،ماضی کے مقابلے دورِ حاضر میں اشاعت کے ذرائع نے اورزیادہ اور حیر تناک ترقیاں حاصل کر لی ہیں ؛اس لیے ان ممالک میں جہاں اخبارات بہ کثرت شائع ہوتے اور بکتے ہیں ،وہیں ان میں تنوُّع ،دل فر یبی اور جاذبیت بھی غایت درجہ پائی جاتی ہے ،جو ہر آن ترقی کی را ہ پر گا مزن ہے۔ (رہبرِاخبارنویسی،سیداقبال قادری)
ہندوستان میں صحافت کا آغاز :
ہندوستان میں صحافت کے آثار یو ں تو مغلیہ دور ہی سے ملتے ہیں ،البتہ اُس وقت اس کا دائر ۂ کا ر محض کا رو باری تھا ،بر طانو ی عہد میں اس کی شکل عوامی ہوگئی اور اخبار حکام کی بجاے عوام کے لیے نکلنے لگے ،مغلوں کے زمانے میں ان کی شکل قلمی خبر ناموں کی تھی اور خطاط لکھا کر تے تھے ، مغلوں کے زمانۂ انحطاط میں جب کہ ان کی حکومت کا دمِ واپسیں تھا ،انگریزی اخباروں میں دربارِ معلی اور سکھ درباروں کی خبر یں چھپ جایا کر تی تھیں ؛لیکن اردو کی حد تک انیسویں صدی کے نصفِ اول تک کا دور قلمی خبر وں کاہی تھا ۔جہاں تک طباعت کا تعلق ہے ،تو اس کی ایجاد کا سہر ا چینیوں کے سر ہے؛ لیکن یورپ کے مادی واستعماری اور تہذیبی وصنعتی غلبہ کی بہ دولت طباعت وصحافت کی ہمہ گیری کا غلغلہ بلند ہو ا ،یو رپ ہی سے طباعت کی مشین اور صحافت کا سامان ہندوستان آیا ،بر طانوی حکومت نے بلوغ بخشا ،شروع میں انگریزی اخبار میرِ لشکر تھے اور انہی کی بہ دولت دوسری زبانو ں میں صحافت کے چراغ روشن ہوئے ،ہندوستان میں طباعت کا آغاز 1550ء میں پر تگالیو ں نے کیا ،ان کا پہلا چھاپہ خانہ گو امیں تھا ،پھر ستر ہویں صدی کے وسط میں ایک پارسی بھیم جی نے گجراتی رسم الخط ڈھالا اور سورت میں چھاپہ خانہ قائم کیا ،انگر یز وں نے اپنا پہلا مطبع 1674ء میں ممبئی میں قائم کیا ،پھر 1779ء میں کلکتے میں اپنا پر یس جاری کیا ،اسی سال ’’جیمز ہکّی ‘‘نے بھی کلکتے میں اپنا چھاپہ خانہ کھولا ،1782ء کے لگ بھگ ’’سر چارلس ولکنز ‘‘نے فارسی رسم الخط کا ٹائپ ڈھالا ،اس کا پہلا نمونہ 4؍ مارچ 1784ء کو سامنے آیا ،پھر عربی ٹائپ ایجاد ہو ا ،اردوٹائپ کا نمونہ 8؍ جولائی 1790ء میں دیا گیا ،1801ء میں کلکتے کے چار انگر یزی چھاپہ خانوں میں اردوو فارسی کی کتابیں چھپتی تھیں ،1803ء میں ’’ہندوستانی پر یس ‘‘کے نام سے کلکتے میں فارسی رسم الخط کی چھپائی کے لئے چھاپہ خانہ قائم ہو ا اور 1836ء میں لیتھو (litho)کی طباعت کا آغاز ہوا ۔
1600ء میں جب انگر یز وں کے منحوس قدم ہندوستان پر پڑے اور 1751ء میں انھو ں نے باضابطہ بنگال میں اپنی حکومت قائم کر لی،تو اس کے بعدانھو ں نے جہاں ہندوستان کے مال ومتاع کو لو ٹا کھسوٹا ،وہیں یہاں کے با شندوں پر ظلم وجور اور جبر وقہر کے پہاڑ بھی ڈھانے شر وع کر دیے ، نتیجتاً انہی کے ایک ملازم ’’ولیم بو لٹس ‘‘نے حکومت کی نا انصافیو ں اور ستم ایجادیوں کی نقاب کشائی کے لیے 1766ء میں اخبار نکالنا چاہا؛لیکن ار بابِ حکومت تا ڑ گئے اوراسے ہندستان سے نکل جانے کا حکم دے دیا ،ا ب اس کے دل میں حکومت کے خلاف سلگتی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ میں تبدیل ہو گئی ؛ چنانچہ اس نے یہاں سے انگلینڈ پہنچ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی وحشیانہ لو ٹ مار اور ظالمانہ استحصال کا پر د ہ چاک کر نے کے لیے پانچ سو صفحات کی ضخیم کتاب لکھی ،جس کانام ( Consideration Of Indian Affairs)تھا اور اس کے دو حصے تھے ،پہلا حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ ، اس کے شیوۂ جو روا ستبداد ،غاصبانہ تصرف اور قاہر انہ حکمتِ عملی کے بیا ن پر مشتمل تھا ،جب کہ دوسر ے حصے میں اُن معاہدات کی تفصیل تھی جو کمپنی نے 1771ء تک وقتاً فوقتاً ہندی حکمر انوں سے کیے تھے ،عتیق صدیقی نے اس کے بارے میں لکھا ہے:
’’یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی پہلی تاریخ ہے ،جو پلاسی کی لڑائی کے صر ف سترہ سال بعد عین اُس وقت لکھی گئی ،جس وقت بنگال میں انگر یز وں کی لوٹ کھسوٹ اپنے شباب پر تھی ،ایک طرف ہندوستان کی قومی دولت کے سوتے بند کیے جارہے تھے اور دوسری طرف ملک کی دولت ڈھل ڈھل کر انگلستان جارہی تھی ‘‘۔(ہندوستانی اخبار نو یسی (کمپنی کے عہد میں )ص58 مطبو عہ انجمن تر قی اردو ہند ،علی گڑھ 1957ء )
اس واقعے کے بارہ سال بعد کمپنی کے پر نٹر ’’جیمز آگسٹس ہکّی ‘‘نے 29 جنو ری 1780ء کو ’’ہکّیز بنگال گزٹ ‘‘یا کلکتہ ایڈو رٹائزر ‘‘نکالا،اس کا یہ اخبار ہفت روز ہ تھا ،جس کا سائز 122358 تھا ،اس کے سرِ ورق پر جلی حروف میں یہ عبارت لکھی ہو تی تھی :
’’یہ ہفتہ وار سیاسی اور تجارتی اخبار ہے ،جس کے صفحات ہر پارٹی کے لیے کھلے ہیں ؛لیکن اخبار کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ‘‘۔(صحافت ،پاکستان و ہند میں،ص24،ڈاکٹر عبدالسلام خورشید )
ہکی کا قلم جراح کا نشتر اور قصاب کا چھراتھا،اس نے کمپنی کے اربابِ بست و کشادکواپنے نقد و نظرکی آماجگاہ بنالیا،چرچ کی پہلی مشنری کو لتاڑااور ہندوستانیوں پر حکومت کے ظلم و تشدد کی کھلے عام مخالفت کی،کمپنی نے اس کی اس طرح کی شدید نکتہ چینیوں سے نمٹنے کے لیے پہلے تو ڈاک سے اس اخبار کی ترسیل بند کروادی؛لیکن جب وہ باز نہیں آیا ،تو اسے چار ماہ قید اور پانچ سو روپے جر مانہ کی سزا ہو ئی ،مگر وہ اب بھی دبا نہیں؛ بلکہ اپنی قلمی رزم آرائیوں کو اور تیز کردیا ،بالآخر کمپنی نے اسے بھی ملک بدر کر دیااور بہ قول عتیق صدیقی :
’’اس طرح مارچ 1782ء کو ہند وستان کا یہ پہلا با غی اخبار اپنی جلاوطنی کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ‘‘۔(ہندوستانی اخبار نو یسی ،عتیق صدیقی،ص :69 ،انجمن ترقی اردو ،علی گڑھ 1957ء)
جس سال ہکی نے ’’بنگال گزٹ ‘‘نکالا تھا ،اسی سال بی میزنک (B.messinik)اورپیٹرریڈ(Peterreed)نامی دو تا جر وں نے (جو ہکی کے حر یف بھی تھے )کلکتے ہی سے ’’انڈیا گزٹ ‘‘نامی ہفت روزہ اخبار جاری کیا ،یہ اخبار مجموعی طور پر حکومت کی ترجمانی کر تا اور ہکی کی مخالفت کر تا تھا ؛چنانچہ یہ بہت جلد کا میابی کی طرف بڑھتا چلا گیا اور اپنے اجرا کے چوتھے سا ل ہی یہ اخبار ہفت روزہ سے سہ روزہ ،پھر روزنامہ ہو گیا ،اس میں ہندوستان کے علاوہ یو رپ کی خبر یں بھی چھپتی تھیں ،’’بنگال گزٹ‘‘کے اختتام تک یہ اخبار اپنے اسلوب اور طرزِ بیان کی وجہ سے حریف کا مدِ مقابل ہی رہا ؛لیکن بعد میں اس نے اپنے اندازِ بیان میں تبدیل پید اکر لی ،دو نو ں اخبار وں میں نمایاں فر ق یہ تھاکہ ہکی کا اخبار کمپنی مخالف تھا اور اِس اخبار کو کمپنی موافق پالیسی کی وجہ سے باضابطہ اس کی سر پر ستی حاصل تھی اور ا س کا محصول ڈاک بھی معاف کر دیا گیا تھا ۔(اردو صحافت کی تاریخ ، ص :12 ،نادر علی خاں ،ایجو کیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ 1987ء)
4؍مارچ 1784 ء کو حکومت کے زیر سر پرستی ’’کلکتہ گزٹ ‘‘جاری ہو ا ،اس کا ایڈیٹر ’’فر انس گلیڈون ‘‘تھا جس نے فارسی کی بے شمار کتابو ں کا انگریزی تر جمہ کیا تھا اور ایک فارسی ۔انگریزی لغت بھی لکھی تھی ،یہ اخبار ہفتہ وارتھا ،جو ہر جمعرات کو شائع ہو اکر تا تھا ،اس میں خبر وں کے علاوہ مراسلے اور نظمیں بھی شائع ہو تی تھیں ،کمپنی کے حکام کی ہندوستان کے راجا ،مہا راجا کے ساتھ ہوئی دعوتو ں کی خبر یں ،سپر یم کو رٹ کی کا رروائیاں اور فیصلے ،نیزولایتی اخبا روں کے اقتباسات بھی چھاپے جا تے تھے ،ہندوستا ن کے در بار وں ،شہر وں کے حالات کے ساتھ ساتھ عربی ،فارسی اور بنگلہ زبان میں بھی اشتہارات شائع ہو تے تھے ،یو رپین اور اینگلو انڈین حضرات کی دل چسپی کا خیال رکھتے ہوئے خبر یں چھاپی جاتی تھیں ،اس اخبار کی فائلوں کے مطالعے سے اس دور کی علمی ،سیاسی اور سماجی حالات کا بہ خوبی اندازہ ہوتاہے ،بعض شماروں میں ابو طالب کلیمؔ کی غز لو ں اور بہارستان جامیؔ کی حکایات انگریزی تر جمے کے ساتھ شائع ہوئی ہیں ،اس اخبار کا ایک مستقل کالم بہ عنوان ’’خلاصۂ اخبار دربار معلی بہ دارالخلافت شاہ جہاں آباد‘‘تھا ،دوسر ے کالم میں اس کا انگریزی ترجمہ ہو تا تھا ،مسٹر گلیڈون کو اداریہ لکھنے کے لیے سر کاری طور پر بھی مواد فر اہم کیا جاتا تھا ،الغرض یہ ایک ایسا مکمل اخبار تھا ،جس کے مطالعے سے اس دور کی جیتی جاگتی اور چلتی پھر تی تصویریں نظرآتی ہیں ۔(ایضًا،ص :12۔13 )
فر وری 1785ء میں ’’ٹامس جو نسن ‘‘نے ایک ہفت روزہ اخبار ’’بنگال جنرل ‘‘شر وع کیا ،چھ سال تک یہ اخبار اسی کی ادارت میں چلتا رہا ،پھر 1791ء میں ’’ولیم ڈوا ن ‘‘نے ’’ڈنکن ‘‘اور ’’کاسان ‘‘نامی دوو کیلوں کی شر اکت میں اس اخبار کو خرید لیا ،’’ہکی ‘‘کے بعد ’’ولیم ڈوا ن ‘‘دوسرا شخص تھا ، جس نے ایڈیٹر کی حیثیت سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کی ظالمانہ سر گر میوں کو واشگاف کر نا شر وع کیا ،حکومت ایک دفعہ پھر حواس باختہ ہوگئی اور اسے لگام کسنے کے جتن کر نے لگی ،آخر کار اخبار کی اشاعت کے آغاز کے چند مہینو ں بعد ہی اسے ’’لارڈ کار نو الس ‘‘(جو اس وقت مر ہٹو ں کے خلاف بر سر پیکار تھا )کی موت کی غلط خبر شائع کر نے پر حکومت نے جلاوطنی کی سزا دے دی ؛لیکن ایک فر انسیسی ایجنٹ (M.fumeron )کی سفارش پر معذرت کے بعد وہ اخبار کی ملکیت وادارت سے دستبر دار ہو کریہاں قیام کامجازقرارپایا،مگر اس کے بعد بھی اس نے اپنی صحافتی سر گر میاں جاری رکھتے ہوئے 1791ء میں ایک نیا اخبار ’’انڈین ورلڈ ‘‘جاری کیا اور اس نے پھر اپنی حکومت مخالف پالیسیوں کا بے باکانہ اظہار شروع کر دیا ، نتیجتاً اس کی جرأتِ رندانہ کے باعث اسے 1794ء میں گر فتار کر کے انگلینڈ جانے والے جہاز میں بٹھاکر ہندوستان بدرکردیاگیااور اس کی بیس ہزار کی جائداد بھی ضبط کر لی گئی ،بعد میں وہ انگلینڈ سے امر یکہ پہنچا اور صحافت میں کار ہاے نمایاں انجام دیے۔(ایضا ،ص:14)
1799ء میں ’’چارلس کے بر وس ‘‘(Charlesk.bruce)کی ادارت میں ایک ہفت روزہ اخبار ’’ایشیا ٹک مرر ‘‘کے نام سے جاری ہوا ، چارلس نے اپنے ایک مضمون میں کمپنی کی فوجی اور دیسی رجواڑوں کی عسکر ی طاقت کا تقابلی تجزیہ کر تے ہوئے دونو ں فو جو ں کے اعداد وشمار پیش کیے ۔(ہندوستانی اخبار نویسی ،ص :88، عتیق صدیقی ،انجمن ترقی اردو ،علی گڑھ 1957ء )اس مضمون کے مشمولا ت کا جائزہ لیتے ہوئے نادر علی خاں نے لکھا ہے کہ :
’’اس میں ٹیپو سلطان کے خلاف جنگ کی بعض تفصیلات درج تھیں ‘‘۔(اردو صحافت کی تاریخ ،ص 15 ،نادر علی خاں ،ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1987ء )
اس وقت لارڈآف و یلزلی دکن میں ٹیپو سلطان کے ساتھ آخری جنگ لڑرہاتھا ،اس مضمون سے لارڈو یلز لی کو غیر معمولی ذہنی چرکہ لگا اور اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو لکھا کہ :
’’آپ اس اخبار (ایشیا ٹک مر ر)کے ایڈیٹر اور اس قسم کے اخباروں کے ایڈیٹروں کو اگر روک نہیں سکتے ،تو ان اخباروں کا خاتمہ کر کے ان کے ایڈیٹر وں کو یو رپ روانہ کر دیجیے ‘‘۔(ہندوستانی اخبار نو یسی ،ص:88،عتیق صدیقی ،انجمن ترقی اردو علی گڑھ 1957ء )
ان کے علاوہ ’’مارننگ پو سٹ ‘‘’’ٹیلی گراف ‘‘اور ینٹل اسٹار ‘‘نامی تین اخبار بھی کلکتہ ہی سے جاری ہوئے اور یہ تینو ں بھی ہفت رورزہ ہی تھے ،پہلے اخبار کا ایڈیٹر مسٹر بش ،دوسر ے کا ہالٹ میکلس اور تیسر ے کا ایڈیٹر ومالک رچرڈ فلیمنگ تھا ۔
اخبارا ت کی اشاعت کا یہ سلسلہ کلکتہ ہی تک محدود نہ تھا ،بلکہ دیگر شہروں سے بھی اخبارات نکلنے شر وع ہوگئے تھے ؛چنانچہ 12؍ اکتو بر 1785ء کو مدراس سے ’’مدراس کو ریر ‘‘جاری ہوا ،اس کا ایڈیٹر اور مالک رچرڈ جانسٹن (Richarrsjohnston)تھا ،یہ کل چار صفحات پر مشتمل ہو تا تھا ، اس میں ولایتی خبر وں کا خلاصہ ،ہندوستانی خبر یں ،مر اسلے ،نظمیں ،ادبی مضامین اور اشتہارات شائع ہو تے تھے ،یہ نیم سر کاری اخبار تھا اور اس پر کمپنی کی مہر لگی ہوتی تھی ،کچھ دنوں بعداس اخبار کی پالیسی میں حکومت مخالفت کی بو محسوس کی گئی اور رچرڈ کے بجائے ہیوگ بو آئیڈ (Hugboyd)اس کا ایڈیٹر بنادیا گیا ؛لیکن مؤ خر الذکر بھی حکومت کی وفاداری میں کامل نہ اترا اور اسے بھی اس اخبار سے علیحدہ ہو نا پڑا ۔1793ء میں ہیو گ نے ’’مدراس ہر کارو ‘’نکالا جو ایک سال کی قلیل مدت کے اپنے مالک کے ساتھ ہی متوفی ہو گیا ۔
جنوری 1795ء میں آرولیمس (R.williams)کی ادارت میں ہفت روزہ مدراس گزٹ جاری ہو ا ؛لیکن حکومت اس کی شدید نکتہ چینی کی تاب نہ لاسکی اور اس پر قد غن لگانے کے لیے اسی سال سے سنسر کا آغاز کیا اور ڈاک کی مر اعات بھی سلب کر لی ،اس کے چند ماہ بعد ہی ہم فیر یز (Humphreys)نے ’’انڈیا ہیرالڈ ‘‘کے نام سے ایک اخبار حکومت کی اجازت وحمایت کے بغیر جاری کیا اور اس نے بھی حکومت کی کج رویوں کو طشت از بام کرنے اور کمپنی کے ظالمانہ اقدامات سے لوگوں کو روشناس کرانے میں اپنے قلم کو وقف کردیا؛بلکہ اس نے اپنے قلم کی اَنی سے پرنس آف ویلزلی کی تمام تر عزت وشہرت کو مجروح کرڈالا ، بالآخر کمپنی نے اسے بھی جلا وطنی کا پروانہ تھمادیا ،نادر علی خان نے لکھا ہے :
’’انہیں کچھ سپاہیوں کے ساتھ انگلستان جانے والے جہاز میں بٹھا یا گیا ؛ لیکن وہ جہاز سے نہ معلوم کہا ں غائب ہوگئے، نہ انگلستان پہنچے اور نہ ہندوستان ‘‘ ۔( اردو صحافت کی تاریخ ، نادر علی خان، ص:15-16 ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1987 ؁ء)
کلکتہ اور مدراس کے بعد ممبئی پر یسڈنسی سے بھی اخبارات جاری ہوئے ، یہاں سے اخبارات کا اجرا نسبتاً تاخیر سے تو ضرور ہوا ؛لیکن بعد میں ممبئی اخباروں کا ایک اہم مرکز ثابت ہوا، ممبئی سے نکلنے والا پہلا اخبار ممبئی گزٹ‘‘ ہے ، جسے ڈبلیوایس کو پر (W.S.Cooper) نے 25؍ جون 1790 ء میں جاری کیا، اس میں ممبئی کی تجارتی اور تفریحی خبروں کے علاوہ ڈچ اور پرتگالی نو آبادیات کی خبریں بھی درج ہوتی تھیں، باوجودیکہ یہ اخبار کمپنی کے چشم وابرو کا رہین تھا، ایک دفعہ محکمۂ پولیس پر نکتہ چینی کرنے کے جرم میں سنسر کا شکار ہوکر بند ہوگیا ۔(ایضاً،ص:16)
عتیق صدیقی کی تحقیق کے مطابق ممبئی سے جاری ہونے والا پہلا اخبار’’ ممبئی ہیرا لڈ‘‘ ہے، جس کے اجرا کی تاریخ انھوں نے 1789ء لکھی ہے او ریہی صحیح بھی معلوم ہوتا ہے ؛کیوں کہ ولیم کیری کے مطابق بھی ’’ممبئی گزٹ‘‘ کاسن اشاعت 1790 ء ہی ہے نیز 29؍ جون 1790ء کے کلکتہ گز ٹ ‘‘ میں شائع ہونے والے ’’ممبئی گزٹ‘‘ کے اشتہار سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے ، البتہ عام شہرت یہ ہے کہ ’’ممبئی ہیرا لڈ‘‘ اور ’’ممبئی کو ریر‘‘ دونوں1790ء میں جاری ہوئے او ریہ ممبئی سے بالترتیب جاری ہونے والا دوسرا اور تیسرا اخبار تھے، ان دونوں اخباروں کے مدیر لیوک آشبر نر(Lukeashburner) اور مالک ڈگلس نکلسن (DouglesNicholson) تھے ، ان دونوں اخبارات میں انگریزی کے علاوہ اردو گجراتی ، مرہٹی اور کنٹری زبانوں کے اشتہارات بھی شائع ہوتے تھے، 1791ء میں ایک اور اخبار ’’بمبئی آبزرور‘‘بھی جاری ہوا تھا۔(اردو صحافت کی تاریخ، نادرعلی خاں ، ص:16، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ 1987ء)
1798ء تک کی ہندوستانی صحافت پر مجموعی تبصرہ
1777ء سے لے کر 1798ء تک ملک کے طول وعرض میں کئی اخبارات جاری ہوئے ، مگر عام طور پر ان کی حکومت مخالف پالیسی نے انہیں عہد طفولیت سے بھی نہ نکلنے دیا اور وہ حکومت کی سنسر شپ کا شکار ہوتے گئے ، اس عرصے میں جو بھی اخبار جاری ہوئے، وہ ہندوستان میں صحافت کا سرِآغاز ضرور تھے؛ لیکن عموماً ان کے ایڈیٹرانکمپنی بہادر کے بر طرف کردہ ملازمین ہوتے ، جو ذاتی خلش ورقابت کے زیرِ اثر حکومت کے عیوب اور بدعنوانیوں کو اُچھالتے اور نتیجتاً اس کی گرفت کا شکار ہوجاتے او ران کے بر خلاف جو اخبار حکومت سے وفاداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ، وہ مالی منفعت اٹھاتے اور حکومت کے الطاف وعنایات سے متمتع ہوتے ، اس زمانے میں کوئی صحافتی قانون بھی نہ تھا؛ اس لیے حکومت کو جوں ہی پتہ چلتا کہ فلا ں شخص اخبار نکالنا چاہتا ہے اور حکومت سے پر خاش رکھتا ہے ،اسے فوراً دھرلیتی ، کوئی اخبار اس کے مزاجِ خسروانہ کو ہدفِ تنقید بناتا ،تو اولاً ڈاک کی سہولتوں سے محروم کرتی، ثانیاً سنسر شپ عائد کرتی ، اگر ایڈیٹر تب بھی باز نہ آتا، تو اسے جلاوطن او راس کے اخبار کو بند کردیتی۔
اردو صحافت – آغاز وارتقااورغیرمسلم صحافیوں کاکردار
اسے اتفاق ہی کہاجائے یازبان و تہذیب کے حددرجہ اشتراک کا اثرکہ اردوصحافت کی باقاعدہ شروعات کا سہراایک ہندوایڈیٹروپبلشرکے سر جاتا ہے، یوں تومحققین میں اختلاف ہے کہ اردو کا پہلا اخبار کون ساہے،مگرعام طورپر ’’جامِ جہاں نما‘‘ کلکتہ (27؍مارچ 1822ء) کو فارسی کا پہلا اخبار قرار دیا جاتا ہے، اس نے اپنی اشاعت کے اگلے سال اردو ضمیمہ جاری کیا او روہ پانچ سا ل تک جاری رہا ۔اس اخبارکے ایڈیٹرمنشی سداسکھ لعل مرزاپوری اورمالکہری ہردت تھے،یہ ایک ہفتہ وار اخبار تھا،چھ صفحات پر مشتمل ہوتا،ہرصفحے پر دوکالم اورہرکالم میں 22؍سطریں ہوتی تھیں اوریہ اخبار فارسی ٹائپ میں چھپتاتھا۔
’’جام جہاں نما‘‘ کے تین ہفتے بعد ہندوؤں کے بہت بڑے مصلح ، برہمو سماج کے بانی او رعربی وفارسی کے فاضل اجل راجہ رام موہن رائے نے کلکتے ہی سے 20؍ اپریل 1822ء کو ’’مرآۃ الاخبار‘‘ جاری کیا، یہ اخبار ہفت روزہ تھا او رہر جمعہ کو شائع ہوتا تھا، راجہ رام موہن رائے اپنے علم وفضل کی بے کرانی کے باوجود انتہائی سادہ دل ، منکسر المزاج اور نرم طبیعت کے حامل تھے، مگر اپنے حق کے مطالبے میں انتہائی جری وبے باک بھی ،انھوں نے اخبار کے اجرا کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’اس اخبار کی ذمہ داری لینے سے میرامقصد صر ف یہ ہے کہ عوام کے سامنے ایسی چیزیں پیش کی جائیں ، جن سے ان کے تجربوں میں اضافہ ہو اور ان کی سماجی ترقی ہوسکے ، اربابِ حکومت کو بھی رعایا کا صحیح حال بتلایا جائے اور رعایا کو ان کے حکمرانوں کے قانون اور رسم ورواج سے آگاہ کیا جائے ؛ تاکہ حکمرانوں کو اپنی رعایا کی تکلیفیں دور کرنے کا موقع ملے اور رعایا کی داد رسی ہوسکے‘‘۔( تاریخِ صحافت اردو ، جلد اول ص:26، مطبوعہ جدید پرنٹنگ پریس گلی کبابیان، جامع مسجد دہلی 1953ء)
انھوں نے ہندوؤں کے مابین پائی جانے والی ستی کی رسم کی پرزور مخالفت کی اور سماج کی دیگر برائیوں کے خلاف لگاتار لکھا؛ بلکہ ستی کی ظالمانہ رسم پر حکومت سے پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا ، حکومت کو ان کی اس نوع کی تحریروں سے انتشار اور انار کی پھیلنے کا خطرہ محسوس ہوا؛ چنانچہ جان ایڈم نے صحافت کو محدود وپابند کرنے کی خاطر 1823ء میں پریس کے حوالے سے درجِ ذیل قوانین بنائے:
(1) بغیر لائسنس اخبار یا کتاب کی طباعت پر ایک ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ تک کی سزا دی جائے گی۔
(2) مجسٹریٹ کو اختیار ہوگا کہ بغیر لائسنس کے جو پریس قائم ہو،ضبط ہوسکتا ہے ۔
(4) مطبوعہ اخبار وکتاب کے پہلے او رآخری صفحے پر چھاپنے والے کا نام او رمقام کا اندراج ہوگا اور اس کی ایک کاپی قیمتاً حکام کو مہیا کرنا ہوگی۔(دہلی میں ادبی صحافت کی تاریخ ،مہمینہ خاتون ، ص:49، مطبوعہ: عاکف بکڈپودریا گنج نئی دہلی 2010ء)
ان قوانین کے نفاذ سے دنیاے صحافت میں ہنگامہ بر پا ہوگیا ؛ کیوں کہ اس طرح اخبارات کی آزادی کا گلا گھونٹا جارہا تھا، علم وتہذیب کے سوتے پر بندباندھا جارہا تھا اور عوام کو حکام کی لغزیدہ پائیوں سے باخبر کرنے کے وسائل پر شب خون مارا جارہا تھا ،راجہ رام موہن رائے نے ان سنگدلانہ قوانین کے خلاف سپر یم کورٹ میں اپیل دائر کی، مگر اسے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ :
’’دنیا میں کوئی مقام ایسا نہیں ہے ، جہاں اتنی سیاسی آزادی دی گئی ہو ، جتنی کلکتہ میں دی گئی ہے ؛ اس لیے قانون میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (اردو صحافت کی تاریخ ، نادرعلی خان، ص:26)
مگر اس کے باوجود انھوں نے خاموشی اختیار نہ کی ؛ بلکہ حب الوطنی او راصلاحِ معاشرہ کے جذبۂ بے پایاں کے زیرِاثر اُنھوں نے سپریم کورٹ کے بعد شاہِ برطانیہ سے اُن قوانین کی تنسیخ کا مطالبہ کیا اور انھیں لکھا کہ :
’’ملکِ معظم کی وفادار رعایا عاجز انہ درخواست کرتی ہے کہ مذکورہ بالا قواعد ، آرڈ ینینس او رریگولیشن کا نفاذ روک دیا جائے اور اس ملک کے حاکموں کو حکم دیا جائے کہ آپ کی وفادار رعایا کوجو مراعات حاصل ہیں ،ان میں تخفیف کرنے اور ان کے حقوق پامال کرنے کے لیے قوانین نہ بنائیں او رحضور اپنی لاکھوں کی تعداد میں رعایا کو وحشیانہ طور پر پامال او ربرباد کرنے کی اجازت نہ دیں‘‘۔( ایضاً،ص:28)
مگر ان سب کے باوجود بھی جب حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور بہ ظاہر ان قوانین کے منسوخ ہونے کی تمام تر امیدوں پر پانی پھر گیا، تو موہن رائے نے 1823 ؁ء میں احتجاجاً اپنا اخبار بند کردیا۔
متذکرہ بالا دونوں اخبارات کے علاوہ اردو کا پہلا مکمل اخبار ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ دہلی تھا، اس کے ایڈیٹر اردو کے نامور ادیب مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولانا محمد باقر تھے، یہ اخبار جاری کب ہوا؟ اس سلسلے میں قدرے اختلاف ہے ، امداد صابری نے تو یہ لکھا ہے کہ :
’’ پرنسپل مسٹر اسپر نگر سے مولانا باقر نے یہ پریس خرید ا اور اس کا نام مطیع جعفریہ اور مطبع اثنا عشری رکھا، بعد میں ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ پریس ہوگیا ، جس میں 1836ء سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘چھپنے لگا‘‘۔(تاریخ صحافت اردو ، جلداول،ص:204، مطبوعہ جدید پرنٹنک پریس گلی کبا بیان جامع مسجد دہلی 1953)
اسی طرح مولانا محمد آزاد ’’آبِ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’1836ء میں اردو کا اخبار دہلی میں جاری ہوا اور یہ اس زبان میں پہلا اخبار تھا کہ میرے والد محترم کے قلم سے نکلا ‘‘۔ (آب حیات ، مولانا محمد حسین آزاد ، ص:123، مطبوعہ اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ 1993ء)
جب کہ پروفیسر اشتیاق قریشی نے اس اخبار کا سن اجرا 1837ء مانتے ہوئے استدلالاً لکھا ہے کہ :
’’3؍ جنوری 1841ء کے نمبر 202 کے حساب سے 1837ء کو یہ اخبار جاری ہوا‘‘۔(تاریخ صحافت اردو، جلد اول ص:123، مطبوعہ جدید پرنٹنگ پریس گلی کبا بیان جامع مسجد دہلی 1953)
اسی طرح اس کے نام میں بھی متعدد بار تبدیلیاں ہوئی چنانچہ شروع سے 10؍ مئی 1840ء تک یہ اخبار ’’دہلی اخبار‘‘ کے نام سے شائع ہوا ، اس کے بعد ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ ہوگیا ، پھر 12؍ جولائی 1857ء کو اس کانام ’’اخبار الظفر ‘‘ رکھ دیا گیا ۔
یہ اخبار اپنی علمی افادیت کے حوالے سے کافی معنیٰ یاب تھا،اس کے صفحات ملکی ، غیر ملکی ، مقامی ، سیاسی ، سماجی ، تہذیبی ، تمدنی، ادبی، الغرض ہر نوع کی خبروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے، خبروں کو من وعن شائع کرنے اور کسی بھی طرح کے تحفظ سے کم نہ لینے کے حوالے سے بھی یہ اخبار مقامِ ممتاز کا حامل تھا، حالانکہ مولانا محمد باقر سرکاری ملازم تھے اور تحصیل دار کے عہدے پر فائز تھے، اس کے باوجود قلعۂ معلی کی خبر ہو یا ایسٹ نڈیا کمپنی کی یا کسی ملازم او رعہد یدار کی ہر ایک کی خبر کو بعینہ شائع کرتے ؛ بلکہ لال قلعہ اور دہلی کے حکام او رہندوستانی ریاستوں کی بدانتظامیوں پر کھلے بند وں تنقید کرتے ، اس میں علمی،ادبی اور تفریحی موضوعات کو بھی جگہ دی جاتی تھی۔
اس اخبار نے 1857ء کے جہادِ آزادی میں بھی پوری سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، سب سے پہلے اسی اخبار نے 7؍ ستمبر 1857ء کو کمپنی کے خلاف علماے ہند کے فتوایجہاد کو شائع کیا ، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کے عزمِ خفتہ میں یکایک برق دوڑادی ،پورے ہندوستان میں ہنگامۂ رست خیز برپا ہوگیا او ر سارا ملک شرق سے تا غرب اور شمال سے تا جنوب دہل گیا، آزادی کے متوالوں نے گردو پیش سے لاپروا ہو کر حصولِ آزادی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، تختہ ہاے دار کو چوما اور طوق وسلاسل سے ہم آغوش ہوئے ،’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نے قوم ووطن کے ان شعلہ بجاں سپوتوں کا اپنے صفحات میں ذکر کرکے جہاں انھیں بقاے دوام بخشا ،وہیں تاریخِ تحریکِ آزادی میں خود اپنے لیے بھی مقامِ بلند اور ذکر جمیل حاصل کرلیا ۔
مولانا باقر نے پوری دلیری وجرأتمندی کے ساتھ 1857ء کی جنگ او راس دوران پیش آنے والے واقعات کو مفصلاً ذکر کیا ؛بلکہ اس زمانے میں وہ اپنے اخبار میں مجاہدین کی ہمت بڑھانے اور جنگ میں زیادہ سے زیادہ شریک ہونے کے لیے انتہائی اثر انگیز، مبرہن اور جذبات واحساسات کو اُبالنے والی اپیلیں او رنصیحتیں بھی شائع کرتے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی زبان کو کالعدم قرار دینے کے لیے جب فورٹ ولیم کا لج (دلی کالج)کی بنیاد ڈالی اور اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا، تو اسی پس منظر میں اردو صحافت کا اصل دور شروع ہوا، اس کے اولاً دو مراکز تھے: دہلی اور لاہور ، دہلی میں جن اخباروں کو شہرت وعروج حاصل ہوا ، ان میں مولانا محمد باقر کا ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ سر فہرست تھا، سر سید احمد خان کے بھائی سید محمد خان نے 1837ء میں’’سید الاخبار‘‘ جاری کیا، مگر یہ 1850ء میں بند ہوگیا، اسی طرح دہلی میں ’’صادق الاخبار ‘‘نامی چار اخبار جاری ہوئے اور بند ہوتے گئے ، پہلے ’’صادق الاخبار‘‘ کے مدیر کا نام شیخ امداد حسین تھا، ان کی ادارت میں یہ اخبار 24؍ اپریل 1847ء تک جاری رہا، دوسرے ایڈیٹر کانام مصطفی خان تھا، ، گارساں دتاسی کے مطابق ’’یہ اخبار 1853ء میں مطفیٰ خاں ، مصطفائی پریس سے نکالا کرتے تھے‘‘ ، تیسرے کے مدیرکا نام جمیل الدین خاں تھا، جمیل الدین خاں کی ادارت میں یہ اخبار 1854ء میں جاری ہوا اور یہ ہر دوشنبہ کو کبھی آٹھ اور کبھی چار صفحات کا نکلتا تھا،یہ اخبار 1857ء تک جاری رہا، چوتھے ’’صادق الاخبار کے ایڈیٹر کانام شیخ خدا بخش تھا، ان کی ادارت میں یہ اخبار 1856ء میں جاری ہوا اور 1857ء میں مرحوم ہوگیا۔(دہلی میں ادبی صحافت کی تاریخ ص:66-67)
اسی طرح مولوی کریم الدین نے جو دلی کالج میں استاذ تھے اور ایک ذی استعداد عالم وادیب ہونے کی حیثیت سے ان کی خاصی شہرت تھی، ایک اخبار 1845ء ’’کریم الاخبار‘‘ نامی جاری کیا ۔دہلی سے متعددغیر مسلم صحافیوں نے کئی معیاری اخبارات نکالے،دلی کالج ہی سے 1845ء کوایک اخبار’’قران السعدین‘‘جاری ہوا،جس کے پہلے مدیرپنڈت دھرم نرائن بھاسکرتھے،جو اعلیٰ علمی قابلیتوں کے ساتھ بلند سیاسی وصحافتی شعور کے مالک تھے،اسی سال ایک اخبار’’فوائدالناظرین‘‘نامی بھی نکلا،جس کے ایڈیٹرماسٹررام چندرتھے،وہ اپنی گوناگوں صلاحیتوں اورقابلیتوں کی بناپراُس وقت علمی،سیاسی و صحافتی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے،انھوں نے تدریس وصحافت کے علاوہ تصنیف و تالیف کی راہ سے بھی بیش بہا خدمات انجام دیں،1847ء میں ماسٹررام چندرنے ہی’’خیرخواہِ ہند‘‘کے نام سے ایک اخبارشروع کیاتھا،بعدمیں انھیں پتہ چلاکہ اسی نام سے ایک اور اخبارمرزاپورسے نکل رہاہے،توانھوں نے اپنے اخبار کانام بدل کر’’محبِ ہند‘‘کردیااور یہ ایک زمانے تک نکلتارہا۔
پھر 14؍ جنوری 1850ء کو لاہور سے ’’کوہِ نور ‘‘جاری ہوا، یہ واحد اخبار ہے ، جو پچپن سال تک جاری رہا اور اس دوران اس نے بے حساب صحافی پیدا کیے، اس کی دیکھا دیکھی کئی اخبار وں نے اپنے نام کے اخیرمیں ’’نور‘‘ کالاحقہ لگا یا، مثلاً :’’دریاے نور‘‘ اور ’’باغِ نور‘‘ وغیرہ، ’’کوہِ نور‘‘ کے بانی وایڈیٹرمنشیہر سکھ رائے تھے، اس سے پہلے وہ میرٹھ سے شائع ہونے والے’’جامِ جمشید‘‘کی ادارت کر چکے تھے۔’’کوہِ نور‘‘ کے بعد لاہور سے پہلا آزاد اخبار ’’دریائے نور‘‘ نکلا ، 1855ء میں لاہور گزٹ‘‘ نکلا ،مگر سال کے اندر اندر بند ہوگیا، ایک اور اخبار ’’پنجاب جنرل ‘‘جاری ہوا، 1856ء میں پنجابی اخبار ‘‘ جاری ہوا ،ایک نیم سرکاری اخبار’’مفادِہند‘‘ بھی تھا، جس کی سرپرستی ڈپٹی کمشنر لاہور کرتا تھا۔(اردو صحافت انیسویں صدی میں ، ڈاکٹر طاہر مسعود )
لاہور کے بعد پنجاب کا اخباری مرکز سیالکوٹ تھا اس کا پہلااخبار ’’ریاض الاخبار‘‘ تھا، اس کے علاوہ ’’چشمۂ فیض ‘‘ اور’’ خورشید علم‘‘ بھی دومقامی ہفت وار اخبار تھے، ایک آدھ پندرہ روزے او ردو تین ماہنامے بھی وہاں سے نکلتے تھے۔ادھر ملتان سے 1852ء میں ’’ریاض الاخبار‘‘ جاری ہوا، ڈیڑھ سال بعد’’ شعاع الشمس ‘‘نکلا ، دونوں میں چشمکیں تیز ہوئیں، تو مؤخر الذکر اخبار بند ہوگیا، ان کے علاوہ گوجرا نولہ ، راولپنڈی ، گجرات ، شملہ ، لدھیانہ ، بٹالہ اور امرتسر وغیرہ سے بھی کئی اخبارات نکلے اور ان سے اردو صحافت کو کافی فروغ حاصل ہوا۔
اُدھر لکھنؤ میں چھاپہ خانے تو مدت سے قائم تھے؛ لیکن پہلاجریدہ ’’لکھنؤ اخبار‘‘ 1847ء میں جاری ہوا،اس کے ایڈیٹرلال جی تھے، پھر ’’طلسمِ لکھنؤ ‘‘ اور ’’سحر سامری‘‘ نکالے گئے،میرٹھ سے’’جامِ جمشید‘‘بابوشیوچندرناتھ کی ادارت میں جاری ہوا،بنارس سے’’اخبار سدھاکر‘‘رتن ناتھ تیواری کی ادارت میں شائع ہوا،جوگورنمنٹ گزٹ کا اردوترجمہ ہوتا تھا،اسی سال بنارس سے شائع ہونے والے دورسالوں کابھی ذکر ملتاہے،ایک رسالہ’’مرآۃ العلوم‘‘جس کے ایڈیٹرہربنس لال اور مالک بابوبھیروں پرشاد تھے اور دوسرا’’باغ و بہار‘‘جس کے ایڈیٹربابوکیدارناتھ گھوش اور کالی پرشاد تھے۔
بہار کے شہر آرہ سے 1852ء کو نور الانوار ‘‘نامی اخبار جاری ہوا، اس کے مالک سید محمد ہاشم بلگرامی اور مینجیر سید خورشید احمد تھے، رخشاں ابدالی کے مطابق بہار کا یہ پہلا اخبار تھا، 2؍ اپریل 1855ء کو خواجہ کلاں پٹنہ سٹی سے ’’پٹنہ ہر کارہ‘‘ جاری ہوا، کمپنی کے زیر سرپرستی ایک اخبار ’’خیر خواہِ سرکار‘‘ نکلتا تھا، جو یکم مارچ 1856ء تک جاری رہا ، خورشید پرویز صدیقی نے اسی کو بہار کا پہلا اخبار قراردیا ہے ، یکم ستمبر 1856ء کو پٹنہ سے ’’اخبارِ بہار‘‘ نکلا ، اس کے مدیر لالہ بنداپرساد تھے، ایک اورماہانہ اخبار ’’ویکلی رپورٹ‘‘ صاحب گنج گیا سے یکم مئی 1856ء کو جاری ہوا، پٹنہ سے باہر جاری ہونے والا یہ دوسرا اخبار تھا۔ (بہار میں اردو صحافت کے 145، سال،مشمولہ افکار ملی، جولائی 2000ء )
مدراس کا پہلا اردو اخبار ’’اعظم الاخبار ‘‘ تھا، 1848ء میں ’’مظہر الاخبار‘‘ نکلا ، 1850ء میں ’’مدراس پنچ ‘‘آیا، اسی طرح ’’جامع الاخبار ‘‘ اس وقت مدراس کے اہم اخباروں میں تھا۔ان کے علاوہ 1849ء میں ایک اخبار’’آفتابِ عالم تاب‘‘جاری ہوا،جونہایت یہی معیاری تھا اور اس کی خبروں کے حوالے مختلف اخباروں میں دیے جاتے تھے۔
1857ء تک کی اردو صحافت: مجموعی تبصرہ
1857ء تک کی اردو صحافت کا خلاصہ یہ ہے کہ اردواخباروں کی ادارت و ملکیت مسلمانوں اورہندووں میں تقریباً مساویتھی اوران کی اشاعت تو محدود تھی؛ لیکن ان کے قارئین بلا شبہ بااثر طبقہ کے لوگ تھے، انقلاب سے کوئی دو تین مہینے پہلے بعض اخباروں نے جرأت دکھائی اور وہ اجنبی راج کے خلاف خبریں دینے لگے اور اس پر تبصرہ کرنے میں دلیری کا اظہار کیا، اس میں اردو وفارسی کے متعدد اخباروں کے ساتھ ساتھ دوسری دیسی زبانوں کے بھی اخبارات تھے؛ لیکن 1857ء کے حشر بہ داماں ہنگامہ میں ان میں سے کوئی اخبار بھی کمپنی کے زیرِ عتاب تو نہ آیا، البتہ اردو وفارسی کے تقریباً تمام اخبارات موردِ عتاب وعقا ب گردانے گئے ،ہاں لارڈ کیننگ او ران کے رفقاکو (جو اپنے انگریزی اخباروں میں حکومت پر نکتہ چینی کرتے تھے) معتوب ٹھہرایا گیا، 1857ء کے انقلاب میں دہلی کے اخبار مقدمۃ الجیش تھے ؛چنانچہ 1857ء کے جہادِ آزادی کی ناکامی او رخاتمے کے بعد ان کابھی خاتمہ ہوگیا، مسلمانوں کے ہاتھوں سے ان کی ادارت سلب کرلی گئی ،1853ء میں اردو کے کل 35؍ اخبارات تھے ،1858ء میں صرف 12؍ رہ گئے، جن میں سے صرف ایک کی ادارت کسی مسلمان کے ہاتھ میں تھی،باقی کے مدیرغیرمسلم تھے۔
1857ء کے بعد اردو صحافت کی نشأتِ ثانیہ اورغیرمسلم اہلِ صحافت
1857ء کے بعد مسلمان نہ صرف اجتماعی طور پر مفلوج ہو گئے ؛ بلکہ ان کی معنوی طاقت کو بھی اس ھرح کچل ڈالا گیا کہ وہ من حیث المجموع ایک خوف زدہ جماعت بن کر رہ گئے ؛چنانچہ نئے صحافتی دور کا آغاز اس طرح ہوا کہ 1858ء میں منشی نول کشور نے لکھنؤ سے ’’اودھ اخبار‘‘ جاری کیا، جو چند سالوں بعد روز نامہ ہوگیا، اور تقریباً نوے سال تک زندہ رہا، ،’’اودھ اخبار ‘‘ایک غیر فرقہ وارانہ اخبار تھا اور اس کا لسانی سراپا مسلمانوں ہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔نول کشورکانام ہندوستان کی صحافتی ،علمی و طباعتی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے،ان کے ذریعے سے نہ صرف بے شمار علمی خزانے پردۂ خفاسے عالمِ ظہورمیں آئے؛بلکہ انھوں نے 57ء کے انقلاب کے بعداردوصحافت کو نئی زندگی دی،ایک زمانے میں ان کا یہ اخبارچالیس سے اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھااورانگریزی اخباروں کوچھوڑکرکسی دوسری زبان کا یہ پہلا اخبار تھا،جس کے ہندوستان کے مختلف صوبوں میں باقاعدہ نمایندے عبدالحلیم شرر،پنڈت رتن ناتھ سرشار،یاس یگانہ چنگیزی اور شوکت تھانوی وغیرہ جیسے چوٹی کے لکھاریوں کی خدمات حاصل تھیں۔
اردوکی صحافتی تاریخ میں ڈاکٹرمکندلال،منشی ایودھیاپرسادو اور گنیش لال کے نام بھی اہم ہیں،ڈاکٹرمکند لال نے 1859ء میں’’تاریخِ بغاوتِ ہند‘‘کے نام سے ایک ماہ نامہ آگرہ سے اور منشی لال ایودھیاپرساد نے 1860ء میں ایک ہفت روزہ اخبار’’خیرخلق خدا‘‘کے نام سے اجمیر سے جاری کیا،جبکہ 1861ء میں رائے گنیش لال نے میرٹھ سے’’جلوۂ طور‘‘نکالا،اس کے ایڈیٹرسیدظہورالدین تھے،جومشہور شاعرشیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد بھی تھے۔
1879ء کے بعدپھرسے اردوصحافت نے ایک نئی کروٹ لی اور ہندوستانیوں کے دلوں میں حصولِ آزادی کی تڑپ کو تیز تر کرنے کا بیڑہ اٹھایا،اس حوالے سے جہاں’’مدینہ‘‘بجنوراور’’زمیندار‘‘لاہورنے نمایاں رول اداکیا،وہیں دہلی سے لالہ دیش بندھوگپتاکی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار ’’تیج‘‘اور لکھنؤسے جاری ہونے والے پنڈت بیج ناتھ کے’’سحرِ سامری‘‘کانام بھی قابلِ ذکر ہے۔لالہ لاجپت رائے کے’’وندے ماترم‘‘لالہ دیناناتھ کے’’ہندوستان‘‘اور ’’دیپک‘‘نے بھی اردوصحافت کوحصولیابیوں کی نئی منزلوں تک رسائی بخشی اورحق و صداقت اور بے باکی کی آوازبلندکرتے رہے۔ لاہورسے 1878ء میں پنڈت قلندررام نے’’اخبارِ عام‘‘جاری کیا،اسی سال منشی محبوب عالم نے پنجاب کے گوجرانوالہ سے’’پیسہ اخبار‘‘جاری کیاتھا،جس کا مقامِ اشاعت بعدمیں لاہورقرارپایااوراس اخبار نے بھی منشی نول کشورکے’’اودھ اخبار‘‘کی مانندغیر معمولی شہرت و زندگی پائی۔1877ء میں لکھنؤ سے ’’اودھ پنچ‘‘منظرِ عام پر آیا،یہ ایک فکاہی اخبار تھااور اس کا اردوزبان و ادب کے فروغ میں غیر معمولی رول رہاہے،اس کے مستقل لکھنے والوں میں پنڈت تربھون ناتھ ہجر،منشی جوالاپرشاد برق اور اکبرالہ آبادی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
انیسویں صدی میں اردوصحافت کے آسمان پر زیادہ تر غیر مسلم صحافیوں کے نام ہی چمکتے رہے، کیدار ناتھ (صدرالاخبار،آگرہ) پربھودیال (فوئدالشائقین) بابورگھوناتھ(بنارس اخبار)منشی ایودھیاپرساد(مفیدِ ہند)دھرم نرائن(مالوہ اخبار)ہرونش لال(زائرین ہند)،بابوگووندرگھوناتھ سنگھ(آفتاب ہند) پنڈت اوم چرن(گوالیارجگت)منشی دیوان چند(چشمِ فیض)وغیرہ وہ نام ہیں،جنھوں نے اردوصحافت کی ترقی و فروغ کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی اور اسے اپنے خونِ جگر سے پروان چڑھایا۔
بیسویں صدی- اردوصحافت اور غیرمسلم صحافی
بیسویں صدی آتے آتے حالات بہت بدل گئے،انگریزوں نے ہندوستانیوں کے جذبۂ حب الوطنی اور ان کی حصولِ آزادی کے لازوال جذبہ کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیاکہ ان کے مابین مذہبی انتشاراور فرقہ پرستی کا زہر گھول کران کے درمیان اختلاف کو ہوادی جائے،انگریزوں کی یہ شیطانی تحریک بہت کامیاب بھی ہوئی،اس کا اثر اردوصحافت اور ہندوومسلم صحافیوں پر بھی پڑا؛چنانچہ ایک زمانے میں’’تیج‘‘اور مہاشے خوشحال چندکا’’ملاپ‘‘اور ’’پرتاپ‘‘ اردو کے چوٹی اخباروں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ذریعے ہندومسلمانوں کے مابین آپسی بھائی چارہ اور اتحاد کا پیغا م دیاجاتاتھا،جس کی وجہ سے یہ اخبار دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں یکساں طورپرمقبول تھے،مگربعدمیں ان اخباروں کے ذریعے سے ہی انتشاروخلفشار کی بانگ بلند کی جانے لگی۔حتی کہ 47ء میں وطنِ عزیز کو آزادی بھی ملی اور بدقسمتی سے اسے تقسیم کا دل دوزسانحہ بھی جھیلنا پڑا،اس کے بعد جو حالات وواقعات رونما ہوئے،اُنھیں دیکھتے ہوئے ایسا اندیشہ ہونے لگاتھاکہ اب ہندوستان میں اردوزبان اور اردوصحافت کاکوئی وجودنہیں رہے گااورغیر مسلم صحافیوں کی بھی اس سے دل چسپی ختم ہوجائے گی؛ لیکن اگرچہ آزادی سے قبل کی طرح کثرت سے اردوصحافت کوغیرمسلم صحافی نہیں ملے،مگرپھربھی جمناداس اختر،ہری چنداختر،تلوک چندمحروم،موہن چراغی، چندربھان خیال،نندکشوروکرم،جی ڈی ٹنڈن جیسے بابصیرت اربابِ قلم نے آزادہندوستان میں اردوصحافت کوتوانائی بخشنے کانمایاں کارنامہ انجام دیا۔موجودہ وقت میں کلدیپ نیرقومی سطح پرصحافت کاایک قدآورنام ہے،نیرصاحب انگریزی و ہندی کے علاوہ اردومیں بھی ملک کے نمایاں اخباروں میں مسلسل لکھتے ہیں اوران کی تحریریں اعتبار و استناد کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
اخبارکی حد تک اگر دیکھاجائے، تو1945ء میں پنڈت جواہر لال نہروکی سرپرستی اورحیات اللہ انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’قومی آواز‘‘کانام نمایاں ہے،کئی عشروں تک پورے شمالی ہندمیں اس اخبار کا طوطی بولتاتھا۔اِس وقت قومی سطح پراردوکے دواخبارغیرمعمولی شہرت و مقبولیت کے حامل ہیں اور دونوں کے کئی کئی ایڈیشنز شائع ہورہے ہیں،ایک سہاراانڈیاپریوارکے زیرِاہتمام شائع ہونے والا روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ہے،جوتقریباً بیس سالوں سے لگاتارشائع ہورہاہے اوراس کے مالک معروف صنعت کارسہاراشری سبرت رائے ہیں،قابلِ ذکربات یہ ہے کہ سہارا نے پہلی بار اردومیں ملٹی ایڈیشن اخبارشائع کرنے کی طرح ڈالی ہے،اس سے پہلے اردواخبارات کے مختلف ایڈیشنزکا تصورنہیں تھا،دوسرا اردو کاقدیم ترین اخبار ’’انقلاب ‘‘ہے ،یہ 1938ء سے شائع ہورہاہے ،اس کے بانی عبدالحمید انصاری تھے اوراس کا صرف ایک ایڈیشن ممبئی سے شائع ہوتاتھا،2011ء میں اس اخبار کو جا گر ن گر وپ نے خر ید لیا ہے ،اوراب ممبئی کے ساتھ ساتھ اس اخبار کے دہلی ،لکھنؤ ، میر ٹھ،کانپور،مظفرپور،پٹنہ وغیرہ کے ایڈ یشنزبھی شائع ہورہے ہیں ،جالندھر سے شائع ہو نے والا ’’ہند سماچار ‘‘بھی جسے 1948ء میں لالہ جگت نارائن نے جاری کیا تھا ،گذشتہ چند سال پہلے تک اردو کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار تھا ،اور اپنی بے لو ث خدمات اور غیر جا نبدارانہ رویے کی بنا پر کافی مقبو ل بھی تھا اور اب تو ویسے اس کا ڈھانچہ ہی بدل گیا ہے ،مگر پھر بھی پنجاب ،ہر یانہ ،ہماچل پر دیش اور جمو ں کشمیر میں اسے کچھ نہ کچھ اعتبار حاصل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔