شب براء ت کی حقیقت

شعبان کی 15 ویں رات کو شب براء ت کہا جاتا ہے۔کتاب و سنت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس ضمن میں جو بھی روایات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ اس رات کے متعلق تمام ہی احادیث یا تو ضعیف ہیں یا موضوع ۔ علامہ ابو بکر ابن العربیؒ لکھتے ہیں:’’ شعبان کی پندھویں رات اور اس سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل اعتماد نہیں ۔ اور نہ اس رات موت کے فیصلے کی منسوخی کے متعلق کوئی صحیح روایت ہے۔ لہٰذا آپ ان ناقابل اعتماد روایات کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہ کریں‘‘۔ (احکام القرآن:4؍112)
اسی طرح شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒ فرماتے ہیں :’’ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کے متعلق جو احادیث مروی ہیں ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔ (البداع الحولیۃ:295)
درج بالا باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات بھی عام راتوں جیسی ایک رات ہے۔ اس کی کوئی مخصوص فضیلت کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ لہٰذا اس میں عام راتوں کی طرح اپنے معمول کے مطابق ہی عبادت کرنی چاہیے۔
بعض ضعیف الاعتقاد حضرات نے اپنے دنیاوی مفادات کے پیش نظر اس رات سے متعلق بہت سے بدعات و خرافات ایجاد کر لی ہیں۔مثلاً، آتش بازی کرنا، پٹاخے پھوڑنا، فائرنگ کرنا اور چراغاں کرنا وغیرہ۔ یہ نہ صرف اخروی خسارے کا باعث ہیں، بلکہ دنیاوی تباہی و بربادی کی بھی ضامن ہیں۔لوگوں نے دین اسلام کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے۔ وہ شریعت اسلامیہ کو چھوڑ کر غیر مسلموں کے طور طریقہ اختیار کرنے لگے ہیں۔شب براء ت کی بڑی بدعات میں سے ایک بدعت حلوہ خوری بھی ہے۔ اس کا اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے جتنا فرائض و سنن کا بھی نہیں کیا جاتا۔ اس بدعت کی تاریخ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جنگ احد میں آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے تو آپ نے حلوہ تناول فرمایا۔ پہلی بات تو یہ کہ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ احد شوال 3 ھ میں ہوئی تھی نہ کہ شعبان میں۔ تو پھر 15 ؍شعبان کو اس کی یاد منانے کے کیا معنیٰ؟ اور دوسری بات یہ کہ اتباع سنت کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ حلوہ کھانے سے پہلے آپ اپنے دانتوں کو بھی شہید کر لیں ، شاید کہ اس کے عوض دوہرے ثواب کے مستحق قرار پائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام عبادات کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور رضا کا حصول ہے۔ ہمیں بالکل اختیار نہیں ہے کہ ہم خود سے دین میں کسی عبادت کو کسی خاص وقت یا طریقے سے متعین کر لیں، جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے نہیں دیا۔ اور اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو اللہ کے ہاں ہماری پکڑ ہوگی اور ہم اس کے حضور میں جواب دہ ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا ان لوگوں کے لیے ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کر دیا ہے جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی ہے‘‘۔ (شوریٰ:21) اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’دین میں ہر نئی بات بدت ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے اور ہر گم راہی جہنم میں جانے والی ہے‘‘۔ (سنن نسائی) لہٰذا ضروری ہے کہ جس وقت ،جس طریقہ ، تعداد اور جس انداز میں اللہ کے رسول ؐ نے عبادت کا حکم دیا ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (الحجرات:1)
اسلام کے تمام معاملات میں خاص طور پر عبادات کے معاملہ میں آپ ؐ کی من وعن پیروی ہی ہمارے دنیاوی و اخروی کام یابی کی ضامن ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اور رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے تمھیں روکے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر:7)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیق اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ! آمین

تبصرے بند ہیں۔