دورِ حاضر میں مذہبی جلسےاپنی اہمیت وافادیت کیوں کھوتے جارہے ہیں؟

میں نے اپنی پچھلی ایک دو پوسٹ جلسوں اور عرسوں کے حوالے سے لکھی تھی جس پر بہت سارے دوستوں نے اپنی رائے رکھی۔
میں جلسوں یا عرسوں کے خلاف با لکل بھی نہیں ہوں ۔ میں تو اپنی پوسٹ کے ذریعے سے بس یہ کہنا چاہ رہا تھا کی جلسوں ، جلوس اور عرس وغیرہ میں جتنے اخراجات ہوتے ہیں انہیں پیسوں سے مدرسے یا اسلامی ادارے کی فلاح و بہبودی کے لئے دوسرے اور بھی بہت سے تعمیراتی کام کیے جا سکتے ہیں۔ اس پر میرے کچھ دوستوں کی رائےیہ تھی کی جتنا بھی چندہ عوام جلسوں اور عرسوں کے نام پر دیتی ہے۔ شاید اتنا چندہ لوگ مدرسے کی فلاح و بہبودی کے نام پر نہ دیں۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں۔جتنی شدّت سے مدرسہ یا کوئی بھی ادارہ جلسہ یا عرس کے لئے چندہ وصولتا ہے اگر اتنی ہی شدّت سے مدرسے کی فلاح وبہبودی کے لئے چندہ کیا جائے تو ضرور کامیابی مل جاےگی۔بس لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔
اب آئے ایک نظر ڈالتے ہیں کی آج کل کے جلسوں میں ہوتا کیا ہے۔میرانام محمد خالد حسین ہے اور میرا تعلق بہارکےمظفر پور ضلع سے ہے تو میں نے جو بھی اپنے یہاں کے جلسوں جلوسوں اور عرسوں میں دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے ، وہی بات یہاں آپ سب کے سامنے رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ہمارے یہاں بہار میں اکثر جلسے شام میں عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتے ہیں اور لگ بھگ فجر کی نماز کے پہلے تک ہوتے رہتے ہیں۔جہاں کہیں بھی جلسہ یا عرس ہو رہا ہوتا ہے وہاں پر ایک میلہ سا لگا ہوا ہوتا ہے۔جس میں عورتیں ، مرد، بوڑھے، نوجوان اور بچے کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔جلسے میں انتظامیہ ایک دو نعتیہ شاعر حضرات کو مدعو کرتی ہے اور ایک دو برے مقرّرین حضرات تشریف لاتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کی نعت خواں حضرات جیسے ہی نعت پڑھنا شروع کرتے ہیں تمام نوجوان حضرات پوری توجہ سے نعت سنتے ہیں ۔ آج کل کے نوجوان نعت خواں کی اکثر نعتیں فلمی گانوں کے طرز پر ہوتی ہیں جو کی بالکل ہی غلط ہے اور ہر نعت میں چند اشعار ایسے ضرور ہوتے ہیں جن سے کی دو فرقوں کے بیچ میں تفرقہ پیدا ہو۔اور انہیں تفرقہ پیدا کرنے والے اشعاروں پر نوجوان خوب اچھل اچھل جاتے ہیں اور شاعرحضرات کو خوب داد و تحسین بھی ملتی ہے اور خوب چھوٹ بھی ملتی ہے۔نعت خواں ایک دو نعتیں سنانے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں اور مقررر حضرات تقریر کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ جیسے ہی بیان شروع ہوتا ہے۔ مجمع خالی ہونے لگتا ہے،سامعین تقریر سننے کی بجاے دیگر ضروریات سے فارغ ہونے چلے جاتے ہیں۔اور نوجوان حضرات بھی تقریر سے مستفیض ہونے کی بجاےعورتوں کے مجمع کی طرف ٹہلنے نکل لیتے ہیں۔جب علماء کرام الله اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو ہمارے نوجوان حضرات سیر سپاٹے میں اور سونے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس سے الله اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی بے ادبی ہوتی ہے۔وہی مقرر بھی سب سے زیادہ مقبول مانا جاتا ہے جو کے دوسرے فرقہ والوں کا زیادہ سے زیادہ رد کرسکے۔
عورتوں کا مزار یا قبروں پر جانا اسلام میں منع ہے مگر عرسوں اور جلسوں میں اسلام کے اسی حکم کی سب سے زیادہ دھججیاں اڑتی ہوئی دیکھی جاتی ہیں۔ جلسے ،عرسوں کی انتظامیہ ہزار کوششوں کے بعد بھی عورتوں کو مزار پر اور جلسوں میں آنے سے نہیں روک پاتی ہیں۔ کئی جگہ تو ہم نے دیکھا ہے کی جلسے کی اور عرس کی انتظامیہ عورتوں کے لئے خاص ٹینٹ یا پنڈال کا انتظام بھی کرتی ہے ۔ جلسے جلوس میں نوجوان آپکو عورتوں کے مجمع میں دھکّا مکّی ، چھیڑ چھاڑ کرتے نظر آ ہی جاتے ہیں۔ جلسے کی انتظامیہ چاہے جلسے کے سامعین سے زیادہ رضاکار مسلّط کر دے مگر چھیڑ چھاڑ کی حرکتوں کو روک پانے میں پوری طرح ناکام ہی رہتی ہے۔
اور اکثر جلسوں میں لوگ نماز کا اہتمام بھی نہیں کر پاتے ہیں۔ جہاں پر دین کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں پر نماز کے لئے غفلت بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں ۔ شاعر اور مقرّرین حضرات پیسوں کی فکر میں بارہا نماز کے اوقات بھی بھول جاتے ہیں.بلآخر ہوتا یہ ہے کی جلسوں اور عرسوں سے ہمیں جتنی فیوض و برکات حاصل کرنی چاہیے تھیں اتنی ہم کر نہیں پاتے اور اس سے زیادہ گناہ اٹھا کر اپنے گھر آ جاتے ہیں ۔ اور ان سے فائدہ صرف مزارات کے مجاوروں کا ہی ہوتا ہے عوام کا کوئ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔