اساتذۂ کرام کی عظیم شخصیت: حقیقت کے آئینے میں

ڈاکٹر مظفر نازنین

استاد کی شخصیت ایک عظیم ، پاکیزہ اور معتبر شخصیت کہتے ہیں :

"Teacher build the shape of the nation.”

یہ وہ شخصیت ہے جس کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جس سے ایک صحت مند معاشرے اور صحت مند سوسائٹی کی تشکیل ہوتی ہے۔ لیکن اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ طلبا و طالبات کو بھی سچی لگن اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی انسانیت کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتی ہے۔ مشہور مفکر کا قول ہے :

"There is no alternative of hard labour, and there is no shortcut way to achieve success.”

اساتذہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 5 ؍ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس خاص دن کا تعین کرنا ضروری نہیں ، بلکہ ایک طالب علم اپنی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہی بات ہوتی ہے کہ یہ کامیابی اساتذہ کرام کی ہی دین ہے۔ ایک طالب علم کی کامیابی کا سہرا اس کے والدین اور اساتذہ کرام کے سر جاتا ہے۔ ہر لمحہ ان اساتذہ کرام کی یاد آتی ہے۔ جن کی ہدایتیں ، نصیحتیں زندگی کے ہر موڑ پر ان کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔

روشن ِ خیال والدین اپنے بچے کی اعلیٰ تعلیم اور کیرئیر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ سوسائٹی میں ان کا نام روشن کرے۔ جن کے لیے وہ دامے، درمے، سخنے، قدمے ، فہمے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ شاید تعلیم ہی وہ شئے ہے جو آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس تسلسل سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ ’’آدھی روٹی کھاؤ، بچوں کو پڑھاؤ‘‘، ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ بہت کار آمد ہے۔ تعلیم ہی وہ حربہ ہے جس سے ایک مہذب، سلیقہ مند انسا ن کی تشکیل ہوتی ہے۔ استاد جب اپنے شاگر کو پڑھاتے ہیں تو اس وقت ان کو اپنے زمانے یاد آتی ہے۔ وہ تمام مناظر جس طرح ایک استاد نے انہیں پڑھایا تھا وہ تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہونے لگتے ہیں۔ مشہور مفکر اور مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا :

"Learn from the cradle to the grave”

’’علم حاصل کرو، گودہ سے گور تک‘‘

حقیقت کی نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ بڑی بڑی عظیم شخصیتیں جیسے حسرت موہانی، خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ انہیں کیسے اساتذہ کرام کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا اور ان کی شخصیتوں کو جلا بخشنے میں ان کے اساتذہ کرام کا کیا رول رہا ہے۔ اسی طرح ادب ،سیاست، صحافت غرض کہ ہر شعبۂ ہائے جہان میں اساتذہ کر بڑا کردار ہوتا ہے۔اسی طرح شعراء کرام کے حالات زندگی کو سمجھنے اور ان کے اشعار کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کن سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ان کے نگراں کا ان پر کیسا اثر پڑتا ہے۔ دراصل کیرئیر کی تشکیل میں ٹیچر کا challenging role ہوتا ہے۔ آج بہت سے اساتذہ کرام ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ وہ اِس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے لیکن پس پشت یادوں کے خزانے چھوڑ گئے۔ تابناک ماضی میں استاد کی نصیحتیں ، ہدایتیں ہمیں درخشاں اور تابندہ مستقبل کی طرف گامزن کرتی ہیں۔

استاد چاہے نرسری ( درجہ اطفال) کے ہوں یا یونیورسٹی کے وائس چانسلر، Associate Professorہوں یا انسٹی ٹیوٹ کے Directorہر مقام پر ان کی عزت افزائی ہونی چاہیے۔ ان کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ کوئیIPS, IAS، ڈاکٹر ، انجینئر، MBA جو زندگی میں بہت کامیاب ہیں بلکہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان اساتذہ کرام کو جنہوں نے عالم طفلی میں ان کی ننھی انگلیوں کو پکڑ کر انہیں حروف تہجی لکھنا سکھایا۔ William Shakespeare اور William Wordsworth کو پڑھنے والے ، سمجھنے والے، ریسرچ اسکالر یا ماڈرن فزیکس میں Ph.D کرنے والے تھیسس لکھنے والے طلبا و بالبات یکلخت فراموش نہیں کر سکتے اسMontessori کے استاد کو جنہوں نے A for Apple اور B for Ball پڑھایا تھا۔ والدین کے بعد اگر کسی کی شخصیت بہت عظیم ہے تو وہ ہے استاد کی شخصیت۔ بیشتر استاد زندگی میں آتے ہیں اور بیشتر نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دارِ بقا کی طرف چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد ایک دور، ایک عہد اور ایک باب کا خاتمہ یقینا ہوگیا، لیکن اپنے پس پشت تابناک ماضی کی یادیں چھوڑ گئے۔ گنجینہ علم لٹا گئے۔ ایسا باب دے گئے جن میں نصیحت آمیز اقتباس ہوتے ہیں۔ سنہری یادوں کا انمول خزانہ چھوڑ گئے۔ تابندہ ماضی سے لیکر درخشاں مستقبل کی راہیں ہموار کر گئے۔ اپنی فردیت میں تقریباً دو نسلوں کو روشنی دے گئے۔ ان کی نگرانی میں ظلمت کے سائے چھٹ گئے اور علم و حکمت کی روشنی سے خوابیدہ سماج کو بیدار کرگئے۔ زندگی انسانیت کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتی ہے، جہادِ زندگانی میں استاد کی شخصیت شاعر کے اس شعر کی مانند ہے :

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کے چٹانوں پر

بیشتر استاد ایسے تھے جنہوں نے اپنی محبت اور جانفشانی سے اس چمنستان ادب کی آبیاری کی تھی، جہاں سے ننھا سا تخم تناور درخت بن جاتا ہے۔وہ جولان گاہ ادب میں نئی نئی راہیں نکالتے۔ انہوں نے گلستان میں ایسے پھول کھلائے جہاں سے ادب کے جواہر پاروں کی تشکیل ہوئی اور تشنگان علم و فن نے جنم لیا۔ ان کے نہیں رہنے پر کان ان کی سماعت کو ، چشم ان کی دیدار کو، ذہن ان کے مشورے کو، دماغ ان کے نظریات، افکار و خیالات کو ترستے رہیں گے۔

خدائے پاک رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ خدا ہمارے ان اساتذہ کرام کی مغفرت کرے جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت بخشے۔ ان کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ اشکبار آنکھوں سے ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔

مدتوں رویا کریں گے جام پیمانہ تجھے

آسماج تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

آج Advanced Technology نے زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر کر دی ہے۔ موبائیل اور انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔عہد ماضی اور عصر حاضر میں تعلیمی معیار کا تقابلی جائزہ لیں تو آج اعلیٰ تعلیم بغیر انٹرنیٹ کے ممکن نہیں ہے۔ آج سائنس کی ترقی نے ہمیں بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ چاند اور سیاروں کی تسخیر ترقی یافتہ معیار کی روشن مثال ہے۔ آج ہم سب ترقی کے منازل طے کر چکے ہیں اور معیار تعلیم کافی بلند ہے۔ آج کے نوجوان شعوری طورپر بیدار ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے علم و آگہی کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بقول شاعر مشرق :

عقّابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو Spiritual education کے ساتھ western education کی ترغیت دی۔ ساتھ ہی تعلیم نسواں کی پُر زور حمایت کی۔ تعلیم کے سلسلے میں ان کے کہنے کا مفہوم تھا :

Women and men should be given equal opportunity to flourish.

آج ایسے تعلیم کی ضرورت ہے جہاں ایک ہاتھ میں دینی علوم کا عَلَم ہو تو دوسرے ہاتھ میں دنیاوی تعلیم کا پرچم۔ جس کا خواب برسوں پہلے سر سید احمد خاں جیسے عظیم مصلح اور اکبر الہ آبادی جیسے عظیم شاعر نے دیکھا تھا :

سبق پھر پڑھ شجاعت کا عدالت کا صداقت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

تبصرے بند ہیں۔