فتح قسطنطنیہ: تاریخ اسلام کا ایک سنہرا باب

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

29مئی کی تاریخ آئی اور گذر گئی ،ہمارے لئے بھلےیہ ایک عام سا دن ہو لیکن عثمانی خلیفہ محمد ثانی کے لئے یہ ایک ایسا خاص دن بن کر آیا کہ اس نے  اس اکیس سالہ نوجوان ترک سپہ سالار کو ہمیشہ کے لئے فاتح کے لقب سے نواز دیا اور اور طاقت ور بازنطینی سلطنت کا آخری حصار اس کے حوصلوں کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔

بے شک قسطنطنیہ کی فتح تاریخ اسلام کا ایک سنہرا باب ہے، اس عظیم فتح کو مؤرخین عالم نے محض وقت کا اتفاقی حادثہ یا ایک یاد گار تاریخی واقعہ کے طور سے ہی بیان نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ کے اوراق سے ہمیں یہ آگاہی ملتی ہے کہ  یہ فتح دنیا کی ان عظیم ترین فتوحات میں سے ہے جو مسلم سپہ سالاروں کی انوکھی حکمت و بصیرت، ان کی بے مثال جرات و ہمت اور حیرت انگیز بہادری و  اولوالعزمی کی شاہد ہے، تاریخ کے اس حصے کا مطالعہ ہر اس فرد پر لازم ہے جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ تاریخ عالم کی وہ کون سے بڑے بڑے جغرافیائی و فوجی انقلابات ہیں جس نے اس دنیا کے سیاسی ہی نہیں تہذیبی نقشے کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا اور ان کی وجہ سے صرف قوموں کا بھاگیہ(قسمت) ہی نہیں بھگول(جغرافیہ) بھی بدل گیا۔

یہ فتح  قسطنطنیہ ایک طرح سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کی تصدیق ہے جس کی وجہ سے قسطنطنیہ کی فتح ہر بڑے مسلم کمانڈر کی دیرینہ آرزو تھی، یہ بشارت یا پیشینگوئی یہ ہے ” تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کر کے رہوگے، وہ فاتح بھی کیا خوب ہوگا اور (فتح کرنے والی) وہ فوج بھی کیا خوب ہوگی”۔

(لتفتحن القسطنطينية على يد رجل، فلنعم الأمير أميرها و لنعم الجيش ذلك الجيش، مسند احمد 4/ 335)

قسطنطنیہ کی فتح کس کی قسمت میں لکھی ہے؟ برسوں سے چرخ کہن کو اس کا بے چینی سے انتظار تھا، بالآخر قرعہ فال جواں سال ترکی سپہ سالار سلطان محمد کے نام نکلا اور 29 مئی 1453 کو جمعةالمباركه کے دن کل 54 روزہ محاصرے کے بعد قسطنطنیہ کو سلطان محمد نے فتح کیا اور  تب سے فاتح کا لفظ اس کے نام کا جز بن گیا اور اس فتح کے بعد قسطنطنیہ ترکی کی  عظیم اسلامی خلافت کا حصہ  بن گیا۔

ذرا سو چیے  وہ بھی کتنی سعید و مبارک گھڑی رہی ہوگی جب لا الہ الا اللہ کے حامل جھنڈوں سے مزین محمد فاتح کا لشکر فاتحانہ شان کے ساتھ  قسطنطنیہ کی مضبوط فصیلوں کو زیرو زبر کرتے ہوئے اندر داخل ہوا ہوگا،  اور ذرا اس کا بھی تصور کیجئے اور محسوس کیجئے کہ وہ بھی کس قدر تاریخی لمحات رہے ہوں گے جب زمین و آسمان نے ایک ایسے شہر کو، جو کبھی پرشکوہ رومن شہنشاہیت کا تہذیبی مرکز   اور قدیم بازنطینی سلطنت  کی راجدھا نی رہا ہے،   کلمہ گو عثمانیوں کے قدموں کو چومتے دیکھا ہوگا۔ بلا شبہ  یہ یاد گار  گھڑی عظیم عثمانی خلافت کا نقطہ عروج تھی اور شاندار کامیابی کا یہ دن رسول کریم کی ایک معروف بشارت کی تکمیل کا دن تھا، پھر بھلا تاریخ اس دن کو کیسے فراموش کر سکتی ہے؟

کیا آپ کو معلوم ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح تاریخ کی مشکل ترین فتوحات میں شمار ہوتی ہے، اس شہر کے چارو طرف مضبوط ترین فصیلوں کے علاوہ سمندرکے اطراف ایسی حفاظتی  چین بنائی گئی تھی جسے عبور کرنا آسان نہیں تھا، عثمانی فوج کے کتنے ہی بہادر سپاہیوں کو اگلے مورچے کی طرف پیش قدمی  کرتے ہوئے اور حفاظتی سلسلوں کو توڑنے کی کوشش میں جام شہادت نوش کرنا پڑا ، ان کا یہ حال  تھا کہ وہ  ایک طرف  اپنے جاں بحق ہونے والے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے تو دوسری طرف اگلے موچے کی طرف پوری بہادری و بے خوفی کے ساتھ پیش قدمی بھی جاری رکھتے، دور تک پھیلے ہوئےوسیع  سمندر کی وجہ سے سمندر کی راہ سے شہرپناہ کو توڑ کر وہاں پہنچنا اتنا دشوار تھا کہ جب جب سلطان کی توپیں فصیلوں کو نقصان پہنچاتیں اس بیچ  بازنطینی فوج کو اتنا موقع مل جاتا کہ وہ تباہ شدہ جگہوں کی دوبارہ مرمت کر لیتی، دوران محاصرہ ایک بار صورت حال اتنی مشکل و مایوس کن ہو گئی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ سلطان محمد کے ایک بڑے جنرل نے سلطان کو محاصرہ ختم کرکے اس مہم سے دستبردار  ہونے کا مشورہ دے دیا۔ لیکن سلطان نے خود ہار نہیں مانی اور اس مشورہ کے دو روز بعد ہی شہر فتح ہو گیا۔

یہ ہے فتح قسطنطنیہ اور اس کے عظیم فاتح کی ایک جھلک۔ اس عظیم فتح سے جڑے واقعات کی جزوی تفصیلات میں جب آپ جائیں گے تو آپ کو کچھ یوں محسوس ہوگا کہ  عثمانی خلیفہ  محمد فاتح ایک عام انسان نہیں بلکہ  نا ممکنات کو ممکن بنا دینے والا  کوئی ایسا افسانوی کردار ہے جسے توحید کا امین اور عظمت  اسلام کا نقیب بنا کر بھیجا گیا ہو۔

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

قوموں کی تاریخ پڑھ ڈالئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اکثر اتنی بڑی فتوحات کے بعد فاتح فوج ظلم و جبر کی نئی داستانیں رقم کرتی رہی ہیں، فتح کے بعد خوبصورت شہروں میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ استبداد کے نشے میں مفتوح قوم کا سب کچھ  خاک میں ملا دیا جاتا ہے، کیا  بچے کیا  بوڑھے ‘  کیا عورتیں اور کیا مرد، کیا عام مکانات اور کیا معابد  ہر ایک شے کو  نفرت و انتقام کے شعلے میں جھونک دیا جاتا ہے اور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن یہاں تو منظر ہی دوسرا ہے، مسلم فاتحین نے فتح مکہ کی مثال اپنے سامنے رکھی اور سلطان محمد فاتح جیسے عظیم جنرل نے  ایک مسلمان کا سچا کردار پیش کرتے ہوئے فتح کے بعد خاموشی سے اپنی تلوار نیام میں ڈال لی اور قسطنطنیہ کے باشندوں کو امن وسلامتی  کا پیغام دے دیا۔۔۔۔ بعض غیر مستند یورپی مصادر فتح قسطنطنیہ کے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور گمراکن انداز سے قارئین پر یہ تاثر چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعد عیسائی باشندوں پر "بے ا نتہا ظلم کیا اور فتح کے بعد شھر کی گلیوں میں خون کی نالے بہنے لگے تھے”، لیکن مستند مغربی و عرب مآخذ کا مطالعہ کرنے سے بڑی آسانی سے آپ کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ ان مآخذ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد فاتح نے انتقامی جذبے کے ساتھ نہ تو فتح قسطنطنیہ کے بعد اپنی فوج کو عام شہریوں کے قتل عام کی اجازت دی، اور نہ ہی  عورتوں اور بچوں کا خون بہایا جیسا کہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ کے گمراہ کن مواد سے یہ ظاہر ہوتا ہے، بلکہ دوران جنگ بھی  خلیفہ کی طرف سے  عیسائیوں کے ساتھ  مذہبی یا سماجی سطح پر کوئی متعصبانہ سلوک روا نہیں رکھا گیا۔

بہر حال جب ایک طویل محاصرے کے بعد قسطنطنیہ فتح ہوگیا تو ان یونانیوں کو سلطان محمد نے قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دے دی جن کا اس وقت اس شہر پر کنٹرول تھا اور فتح کے بعد یہ طے کیا گیا کہ وہ جنگ کا ہرجانہ اداکریں گے جو انھوں نے حسب معاہدہ کیا، جب کہ  انھیں ایک خاص مدت کےلئے محاصل سے چھوٹ دے دی گئی۔ فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو اس کی شرارتوں کی وجہ سے گرفتار کرلیاگیا اور اس کی جگہ اس کے حریف زاگانوز کو وزیر بنا دیا گیا اور یہ تمام امور  سفارتی و انسانی اصولوں اور حقوق انسانی کے تمام تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے طے کئے گئے، جبر و ظلم کی کوئی ایک مثال ہمیں فتح قسطنطنیہ کے بعد کسی مرحلے میں نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا شہر میں سلطان کے داخل ہونے سے پہلے ترک فوجوں  نے جانے انجانے میں   مفتوحہ شہر کے باشندوں کے ساتھ کچھ زیادتی کی ہو لیکن اس تاریخی جیت کے وقت سلطان نے جس  انصاف پسندی اور انسانیت دوستی کا ثبوت دیا وہ تاریخ کی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس کا اعتراف عرب ہی نہیں مغربی مورخین بھی کھلے دل سے کرتے ہیں ، یہاں تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے لیکن ہم اس موقع پر بازنطینی  مورخ جارج اسفرانٹزیس۔ (George Sphrantzes) ، جو فتح قسطنطنیہ کا چشم دید گواہ ہے، کا ضرور حوالہ دینا چاہیں گے۔ اس مصنف نے یہ واضح طور سے  لکھا  ہے کہ سلطان محمد نے جنگ کے بعد ہر قسم کی لوٹ مار پر بندش لگادی تھی اور عثمانی فوج کو احتیاطا شہر کے باہر بھیج دیا تھا، اس نے خوف سے چھپے ہوئے عیسائی عوام اور فوجیوں کو امان دی، اور جان بچا کر بھاگ جانے والوں کو واپس اپنے گھروں میں آنے کی اجازت اور  محفوظ و مامون رہنے کی ضمانت دی، اس کے علاوہ سلطان نے دشمن قوم کی  جائیدادوں اور  ان کے مذہبی اداروں کو اپنی حالت میں دوبارہ بحال کرنے کا فرمان بھی جاری کردیا۔:۔وہ ایک جگہ لکھتا ہے:

"On the third day after the fall of our city, the Sultan celebrated his victory with a great, joyful triumph. He issued a proclamation: the citizens of all ages who had managed to escape detection were to leave their hiding places throughout the city and come out into the open, as they too were to remain free and no question would be asked. He further declared the restoration of houses and property to those who had abandoned our city before the siege, if they returned home, they would be treated according to their rank and religion, as if nothing had changed”.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سلطان محمد فاتح، جو  فتح قسطنطنیہ کے بعد  عالم اسلام کے ہیرو اور دنیا کے عظیم جنریل بن گئے تھے، نے خون خرابے سے پوری طرح پر ہیز کیا اور محاصرہ قسطنطنیہ کے وقت  ان کی تلوار صرف دشمن قوم کےانھیں لوگوں  پر اٹھی جو باغی تھے اور آمادہ جنگ تھے۔ تاریخ گواہ ہے اس موقع پر  عام شہریوں پر کوئی ظلم نہیں کیا گیا، محمد فاتح کی طرف سے شہر کے مرکزی کلیسا میں جمع ہو جانے والے پادریوں اور دوسرے  مقامی عیسائیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا گیا، عیسائیوں کو یونان ، اٹلی اور دیگر مقامات پر اپنی مرضی سے ہجرت کرنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا،بعد میں چرچ ایا صوفیہ کی جگہ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی گئی جسے آج ہم مسجد ابا صوفیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صلیبی تہذیب کے قدیم مرکز، قسطنطنیہ کی فضائیں اذان کی آواز سے آشنا ہوئیں اور توحید کے نغموں سے  گونج اٹھیں اور پھر قدیم بازنطینی سلطنت کا سیاسی تہذیبی مرکز ہمیشہ کے لئے  دار الاسلام   (یا اسلام بولا یعنی استنبول ) بن گیا۔یہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے نہ صرف جغرافیائی  طور سے دنیا کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے، بلکہ آبنائے باسفورس کی شہ رگ پر سوار نیلگوں سمندر کے کنارے واقع یہ شہر اپنی فطری  خوب صورتی میں بھی بے مثال ہے، آبنائے باسفورس جسے آبنائے استنبول بھی کہتے ہیں، ایک ایسی آبنائے ہے جو ترکی کے یورپی حصے اور ایشیائی حصے (اناطولیہ) کو جدا کرکے یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرتی ہے، اس طرح قسطنطنیہ ترکی کے لئے ایک ایسا بڑا قلعہ ہے جہاں سے وہ یورپ و ایشیا دونوں پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے کبھی  فرانسیسی حکمراں نپولین نے کہا تھا، کہ

"اگر پوری دنیا ایک ہی ریاست ہوتی تو بے شک اس کی راجدھانی استنبول ہی ہوتا”

"If the earth were a single state, Istanbul would be its capital.”

تاریخی مصادر کھنگالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ کے علاوہ بھی مراد دوم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد فاتح نے اپنے دور میں بڑی اہم فتوحاتی مہمات سر کی تھیں، ان کے فتح  کئے ہوئے مشہور علاقوں میں یونانی جزائر، بلغراد، بوسنیا،سرویا، کرمانیا، کریمیا، البانیا، ہرزیگووینا جیسے علاقے آج بھی اپنے انھیں ناموں سے مشہور ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے اپنی خلافت میں  تقریبا 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں  سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسی تاریخی مسجدیں بھی شامل ہیں۔

(میرے مفصل "مقالہ ترکی میں اسلام ، مراحل و معالم”  کے ایک چیپٹر کی تلخیص)

تبصرے بند ہیں۔