جرمِ لب کشائی: نذر جناب حامد انصاری صاحب

تاج الدین اشعرؔرامنگری

پھولوں پہ طعنہ زن ہوئے پھر خس وخار دیکھیے

اپنے چمن میں اب کے یہ رنگِ بہار د دیکھیے

        لالہ وگل کے درمیاں رقصِ شرارد دیکھیے

صدمے ہزار جھیل کر، رنج اٹھا کے جان پر

بھولے سے آگیا تھا کل،  کلمۂ حق زبان پر

        ایک ذراسی بات پر چیخ پکار دیکھیے

ظلم سہیں توہم بھلے، کچھ نہ کہیں توہم بھلے

چوٹ پہ چوٹ کھاکے بھی چپ ہی رہیں تو ہم بھلے

        ورنہ نظر اٹھا کے یہ تختۂ دار دیکھیے

خیر سگالیوں کی بس ہوچکیں آزمائشیں

ایک فریبِ محض تھیں پیار کی سب نمائشیں

        سب کے لبوں پہ آگیا دل کا غبار دیکھیے

زہرکے گھونٹ پیجئے ،ظلم کی داد دیجیے

آہ وفغاں نہ کیجئے ، اپنے لبوں کو سیجئے

        چھوٹ نہ جائے دامنِ صبر وقرار دیکھیے

آہوئے ظلم وجبر کی آج کلیل دیکھیے

دورِ سیکیولرزم میں جبر کے کھیل دیکھیے

        عدل کا تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے

مینہہ کی طرح برس گئے ہم پہ ملامتوں کے تیر

منصب وجاہ کے عوض چھین لیے گئے ضمیر

        ایک ہی تیر میں ہوئے کتنے شکار  دیکھیے

ہنس تو رہے ہیں زخمِ دل ، ہونٹوں پہ سسکیاں سہی

جشن میں ہم بھی ہیں شریک نغمہ نہیں فغاں سہی

        اپنا یہ ظرف دیکھئے ،صبروقرار دیکھیے

کیجئے خونِ آرزو ، کیوں مئے وجام بند ہیں

’’غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں ‘‘

        جشنِ طرب منائیے ، لطفِ بہار دیکھیے

ذہن لطیف میں حضور اہل جنوں کی فکر کیوں

انجمنِ نشاط میں خستہ دلوں کا ذکر کیوں

        آپ ہیں رہنمائے قوم، اپنا وقار دیکھیے

صحنِ حریمِ قدس میں شرک کا راج ہے تو ہو

سرپہ خدا پرست کے کانٹوں کا تاج ہے تو ہو

        اپنے گلے میں فخر سے پھولوں کے ہار دیکھیے

بوالہوسوں کو مل گئیں حُبّ ِ وطن کی خلعتیں

دین وضمیربیچ کرلوٹ رہے ہیں عزتیں

        اپنی ہی آستیں میں یہ عقرب ومار دیکھیے

لاشۂ کشتگانِ ناز دورتلک بکھرگئے

اپنے لہو میں ڈوب کر جو شہدا ء نکھر گئے

        وقت ملے توایک دن اُن کے مزار دیکھیے

تبصرے بند ہیں۔