علامہ اقبالؒ اور شاہ معین الدین احمد ندوی

تحریر: ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی … ترتیب: عبدالعزیز

                مولانا سید سلیمان ندوی کے بعد دارالمصنّفین کی نظامت مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کے ذمہ آئی۔ وہ ندوہ کے نامور فرزند اور مولانا سید سلیمان ندوی کے تربیت یافتہ تھے۔ 1924ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد دارالمصنّفین سے بطور رفیق وابستہ ہوئے۔ سید صاحب کی ہجرت پاکستان کے بعد دارالمصنّفین کے کاموں کو آخری سانس تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے اور مرکر ہی اس ادارہ سے جدا ہوئے۔ متعدد علمی و تحقیقی کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔ جس میں سیر الصحابہ [3 جلدیں]، تاریخ اسلام [4جلدیں]، عرب کی موجودہ حکومتیں، حیاتِ سلیمان، تابعین، خریطہ جواہر اور دین رحمت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کا ادبی مذاق بڑا پختہ اور اسلوب نگارش سستہ و شگفتہ تھا۔ ان کے ادبی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ادبی نقوش‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے علامہ اقبالؒ پر دو اہم اور طویل مقالات لکھے اور کئی مضامین میں اقبال کا ضمناً ذکر کیا۔ یہ مقالات اس لائق ہیں کہ ان کا تفصیل سے ذکر کیا جائے۔

                بعض ناعاقبت اندیشوں نے اقبال پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کیا تو شاہ صاحب نے ایک طویل تنقیدی مقالہ ’’کیا اقبال فرقہ پرست شاعر تھے؟‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’معارف‘ جنوری-فروری 1950ء میں لکھا اور اس بے حقیقت الزام کی پورے طور پر تردید کی۔ یہ مقالہ ان کی اقبال سے شیفتگی اور اقبالیات پر گہری نظر کا غماز ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

                ’’اقبال کی شاعری کا موضوع بہت پامال ہوچکا ہے اور اس پر اتنا لکھا جاچکا ہے کہ اس کا کوئی پہلو مشکل سے تشنہ باقی ہوگا اور اب اس پر لکھنے کی بہت کم گنجائش ہے لیکن جن لوگوں کی نظر ان کے پورے کلام اور اس کی غرض و غایت پر نہیں ہے، ان کی جانب سے ان پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ فرقہ پرست شاعر تھے۔ ان کا دل اپنی قوم اور اپنے وطن کی محبت سے خالی تھا۔ انھوں نے قومیت اور وطنیت کی مخالفت کی ہے۔ ان کی تعلیمات اور ان کے پیام میں عالمگیریت نہیں ہے۔ انھوںنے عالم انسانیت یا کم از کم ہندستانی قوم کو مخاطب بنانے کے بجائے صرف مسلمانوں سے خطاب کیا ہے اور اپنی شاعری میں صرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ہے۔ وہ اسلامی حکومت کے قیام کے داعی اور صرف مسلمانوں کا غلبہ و اقتدار چاہتے تھے۔ ان کی فرقہ پرستی کے ثبوت میں اور بھی اسی قبیل کے اعتراضات کئے جاتے ہیں‘‘۔

                شاہ صاحب کا خیال ہے کہ یہ اعتراضات معترضین کی اقبال اور افکارِ اقبال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لیکن یہ تمام اعتراضات اقبال کے افکار و تصورات، ان کے نصب العین، ان کے مقصد شاعری، یورپ کی سیاست، مذہب اسلام، مشرقی قوموں خصوصاً مسلمانوں کے زوال کی تاریخ سے ناواقفیت اور کلام اقبال پر قصور نظر کا نتیجہ ہیں۔ اگر ان امور کی روشنی میں اقبال کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سارے اعتراضات خود بخود رفع ہوجائیں‘‘۔

                پھر شاہ صاحب نے اس سلسلہ میں کلام اقبال سے دلائل پیش کرتے ہوئے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا ہے اور معترضین کے خیالات کو بے بنیاد ثابت کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اقبال کے دل میں قوم و وطن کی محبت بھی تھی لیکن ان کی قومیت و وطنیت کا تصور محدود نسلی اور جغرافی قومیت و وطنیت کے بجائے عالمگیر انسانی اخوت تھا اور وہ نسل و وطن کے محدود دائروں کو توڑ کر تمام انسانوں کو اخوت کے رشتہ میں منسلک کرنا چاہتے تھے اور اس کیلئے نسلی اور قومی و وطنی قومیت اور وطنیت کے موجودہ تصور کی اصلاح ضروری تھی، گو انھوں نے جا بجا مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا پیام عالمگیر تھا، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، انھوں نے جارحانہ جنگ و مقابلہ کی کہیں تعلیم نہیں دی ہے، وہ موجودہ اصلاح کے لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کا سیاسی غلبہ و اقتدار نہیں چاہتے تھے اور نہ ان معنوں میں اسلامی حکومت کے داعی تھے بلکہ اسلامی تعلیمات کی اشاعت سے ان کا مقصد انسانیت کی فلاح و سعادت تھی‘‘۔

                شاہ صاحب کا خیال ہے کہ قوم و وطن کی محبت ایک فطری جذبہ ہے جس سے انسان کیا حیوان بھی خالی نہیں۔ پھر انھوں نے واضح کیا ہے کہ اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ اس سلسلہ میں احادیث اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی انھوں نے شہادت بھی پیش کی ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ اگر اقبال کو اسلامی شاعر مان لیا جائے تو ان کا کلام اور بھی قوم و وطن کی محبت سے خالی نہیں ہوسکتا، ورنہ پھر اسلامی شاعر کہنا صحیح نہ ہوگا۔

                علامہ اقبالؒ کے ابتدائی دور کی شاعری اور اس میں انقلاب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابتدائی دور میں تو ان پر قومیت اور وطنیت کا اتنا غلبہ تھا کہ انھوں نے ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ جیسی حب قوم و وطن میں ڈوبی ہوئی نظمیں کہیں، لیکن پھر موجودہ زمانہ کی نیشنلزم کے نتائج بد دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آئندہ آئے گی، ان کے خیالات بدل گئے اور انھوں نے نسلی اور جغرافی قومیت و وطنیت کے بجائے افکار و تصورات کی وحدت اور انسانی اخوت کی بنا پر عالمگیر قومیت و وطنیت کی دعوت شروع کی‘‘۔

                یہ تفصیلات پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’لیکن اس کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ان کی نگاہ میں نسلی اور جغرافی قوم و وطن کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی اور ان کا دل اس کی محبت سے خالی ہوگیا، اور انھوں نے اس کے حقوق نظر انداز کردیئے بلکہ انھوں نے اس کے حدود مقرر کر دیئے اور اس حد کے اندر ان کے دل میں اپنے ملک و قوم کی عظمت و محبت تھی اور وہ ہندستان کی غلامی پر ویسا ہی درد مند اور اس کی آزادی کیلئے تڑپتا تھا جس قدر ایک بڑے سے بڑے قوم پرور کا دل تڑپ سکتا اور یہ محبت و عظمت ہر دور میں یکساں قائم رہی، نسلی اور جغرافی وطنیت کے بارہ میں ان کے خیالات 1908ء کے بعد بدل چکے تھے، جیسا کہ ان کی مشہور نظم ’’وطن‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے:

اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور … ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور … تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے … ’’جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے‘‘

                شاہ صاحب کا خیال ہے کہ قوم و وطن کی محبت اقبال کے دل میں پوری موجود تھی۔ ثبوت میں انھوں نے اقبال کے آخری دور کو پیش کیا ہے۔ ’جاوید نامہ‘ کا خاص طور پر نام لیا ہے جس میں ہندستان سے متعلق بکثرت نظمیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان نظموں کے لفظ لفظ سے وطن کی محبت ٹپکتی ہے۔ اپنے موقف کی تائید میں انھوں نے درج ذیل نظم پیش کی ہے:

باز گواز ہند و از ہندستان … آنکہ یا کاہش نیرز و آسمان

آنکہ اندر مسجدش ہنگامہ مرد … آنکہ اندر دیر اور آتش فسرد

آنکہ دل از بہر اور خون کردہ ایم … آنکہ یادش را بجان پر وردہ ایم

از غم ماکن غم اور اقیاس … آہ از معشوق عاشق نا شناس

                اس کے بعد انھوں نے ایک اور نظم کے چند اشعار نقل کئے ہیں جس میں اقبال نے غلامی پر آنسو بہائے ہیں، اسی نظم کا مشہور شعر ہے:

جعفر از بنگال صادق از دکن … ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن

                جاوید نامہ کے عالم بالا کے تمثیلی مناظر سے بھی شاہ صاحب نے استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ اقبال نے اس میں ہندستان کی روح اور مادروطن کی تصویر کھینچ دی۔ غلامی، وطن سے غداری اور غدارانِ وطن وغیرہ کے متعلق مادر ہند کی زبان سے اقبال نے جو اشعار کہے تھے اس کے متعدد اشعار نقل کرکے اقبال کے جذبہ حب الوطنی کی توضیح کی گئی ہے۔ شاہ صاحب کا خیال ہے کہ کلام اقبال میں ہندستان کی غلامی کے ماتم میں ان کی بہت سی نظمیں ہیں۔ ان کا نقل کرنا دشوار ہے۔

                اقبال نے ایک نظم میں ہندو مسلم اختلافات پر آنسو بہائے ہیں۔ وہ ہندو مسلم اختلاف کے شدید خلاف تھے۔ ان کی نظر میں ہندستان کی غلامی کا ایک سبب یہ اختلافات بھی تھے ۔ اپنے موقف کی تائید میں انھوں نے اقبال کی ایک فارسی نظم بھی نقل کی ہے۔

                اس کے بعد شاہ صاحب نے اقبال کے وہ اشعار نقل کئے ہیں جو انھوں نے کشمیر و دیگر خطوں کی مدح میں کہے ہیں۔ پھر اقبال ہندستان کے صلحا و اخیار سے جو عقیدت تھی اور ان سے متعلق انھوں نے جو اشعار یا نظمیں کہی ہیں ان سے استدلال کرتے ہوئے معترضین کے جوابات دیئے ہیں۔ ان میں رام چندر جی، گوتم بدھ اور گرو نانک کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اقبال کی یہ مشہور نظم بھی نقل کی ہے:

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

 سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند

یہ ہندیوں کی فکر فلک رس کا ہے اثر

 رفعت میں آسمان سے اونچا ہے بام ہند

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے نام سے دنیا میں نام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی

روشن تراز سحر ہے زمانہ میں شام ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں مرد تھا

پاکیزگی میں جوشِ شجاعت میں فرد تھا

                شاہ صاحب نے انہی مباحث پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک عنوان ’’اقبال اور مشرق‘‘ قائم کیا ہے اور اس کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ ’’اقبال کو نہ صرف ہندستان بلکہ پورے ایشیا سے محبت تھی اور اس کا دل اس کی زبوں حالی پر تڑپتا تھا، استدلال میں انھوں نے مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کو پیش کیا ہے۔ متعدد دلائل پیش کئے ہیں اور حق تھا کہ شاہ صاحب اس موضوع پر مقالہ لکھتے۔ اس بحث کے خاتمہ پر بطور استدلال یہ اشعار نقل کئے ہیں:

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب … ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

طہر ان ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا … شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

                شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ اقبال یورپ کے نیشنلزم کے مخالف تھے، اس کے اسباب کیا تھے۔ شاہ صاحب نے قدرے تفصیل سے اس کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

                ’’البتہ وہ یورپ کی پیدا کردہ نیشنلزم کے جس کی بنیاد نسلی اور جغرافی قومیت و وطنیت بلکہ قوم و وطن پرستی پر ہے ضرور خلاف تھے، اس لئے کہ یہ زبردست قومیت اور وطنیت عالم انسانیت کی دشمن ہے اور اس سے انسانی وحدت کے بجائے ان میں تفریق اور گروہ بندی پیدا ہوتی ہے۔ خواہ اس کی ظاہری شکل کتنی ہی دلفریب ہو لیکن اس کی بنیاد نسلی احساس برتری اور قومی خود غرضی ہے، جس کا لازمی نتیجہ کمزور قوموں کے حقوق کی پامالی، ان کی تباہی اور جنگ و خونریزی ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر طاقتور اور ترقی یافتہ قوم اپنے مقابلہ میں دوسری کمزور قوموں کو حقیر اور اس پر حکومت کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس نسلی قومیت کے جو خونیں تماشے صدیوں سے دنیا میں ہورہے ہیں، ان سے ہر شخص واقف ہے، گزشتہ ہولناک جنگ جس کی تباہیوں سے اب تک دنیا کو نجات نہیں ملی، ہٹلر کی نسلی برتری ہی کے نعرہ کا نتیجہ تھی۔ اس نسلی برتری کے جذبہ اور قوم پرستی نے نہ صرف مختلف ملکوں اور قوموں بلکہ ایک ہی قوم میں اشرف و اعلیٰ اور پست و بلند طبقات قائم کر دیئے ہیں۔ یورپ اپنے کو ایشیا سے افضل سمجھتا ہے، ایشیا والوں کو اہل افریقہ کے مقابلہ میں برتری کا احساس ہے۔ ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم میں مختلف پست و بلند طبقوں کی سب سے بڑی مثال ہندستان ہے۔

                دوسرا نتیجہ بین الاقوامی اقتصادی کشمکش ہے۔ آج ہر طاقتور قوم اپنی اقتصادی اور تمدنی برتری قائم رکھنے کیلئے کمزور قوموں کو غلام رکھنا چاہتی ہے۔ گزشتہ ساری لڑائیاں اسی کا نتیجہ تھیں، اسی کی بدولت ایشیا صدیوں تک یورپ کا غلام رہا اور آج بھی جبکہ یورپ کی سیاسی گرفت ڈھیلی پڑگئی ہے، اس کو یورپ کی اقتصادی غلامی سے نجات نہیں ملی ہے اور یہ کشمکش نہ صرف یورپ، ایشیا اور افریقہ کے درمیان بلکہ خود ان بر اعظموں کے مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان بھی اسی طرح جاری ہے۔ گزشتہ جنگ عظیم میں یورپ اور امریکہ کی حکومتیں جس طرح آپس میں ٹکرائیں اور جاپان نے اپنے پڑوسی چین اور برہما کے ساتھ جو کچھ کیا اور آج یورپین طاقتوں میں جو کشمکش برپا ہے جس نے دنیا کے امن و امان کو خطرہ میں ڈال رکھا ہے وہ سب کی نگاہ کے سامنے ہے، اقبال نے اسی دشمن انسانیت، قومیت اور وطنیت کی مخالفت کی ہے:

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے … تصخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے … کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے … قومی اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

موبائل: 9831439068           azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔