ڈاکٹر اکرم شروانی کے افسانے: معاصر عہد کی منھ بولتی تصاویر

محمد احمد دانش روانوی

  (ضلع بجنور، یوپی)

   ڈاکٹر اکرم شروانی کی شناخت نہ صرف ایک اُستاد اور شاعر تک محدود ہے بلکہ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار بھی ہیں۔ اُن کے افسانے ملک وبیرونِ ملک کے ادبی رسائل وجرائد میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین سے قبولیت عام کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ ان افسانوں کو موصوف نے یکجا کرکے اپنے افسانوی مجموعے ’’پرواز‘‘ میں زینت بخشی ہے۔ موصوف کے چند افسانوں کا اسلوب سنجیدہ ہونے کے ساتھ بیشتر افسانوں میں طنزومزاح کا اسلوب اپنایا گیا ہے۔

     مزاح میں موصوف جہاں قارئین کو گدگداتے ہیں وہیں طنز کے ذریعہ سماج و معاشرے میں جڑ پکڑ چکے فاسد و غلیظ مادّے کو طنزیہ نشتر سے کاٹ چھانٹ کر سماج نما جسم کی صاف و شفاف تجسیم کرنے کا رول بھی بخوبی نبھاتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا طنز ملیح سماج میں پنپ رہے ناسور کی بروقت جراحی کرکے اُسے صحت مند بنانے میں ممدوو معاون بننے کا عمل بخوبی انجام دیتا ہے۔ اُن کے افسانے سماج کے اتناقریب ہیں کہ اُن میں قاری کو اپنا عہد بازگشت کرتا سنائی دیتا ہے۔

 ان کے افسانوں میں عصری، آگہی، سماجی مسائل اور استحصال زدگی کا کرب صاف نظر آتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کسی مخصوص ادبی رویے و رجحان اورعزم کے پابند نہ ہوکر کھلی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتے ہیں تجربوں و مشاہدوں کی روشنی میں جو کچھ محسوس کرتے ہیں اُسی کا برملا اظہار کردیتے ہیں۔

اُن کے افسانوں میں زن وشوہر کی میٹھی چشمک اور نوک جھونک شگفتہ بیانی اور روانی کے ساتھ پڑھنے کو ملتی اور گدگداتی ہے تو وہیں دوسری طرف معاشرے کے المناک پہلوئوں سے بھی روبرو ہوکر قاری اشک سوئی پر مجبور ہو جاتا ہے۔

  موصوف کے افسانوں میں طوالت کے باوجود بوجھل پن بالکل نہیں ہوتا۔ تشبیہ و استعارہ اور علائم کے ابہام سے قطع نظر سہل اور سلیس انداز میں اُن کی تحریریں راست بیانی کے باوصف ترسیل وابلاغ کا مؤثر اپروچ رکھتی ہیں جو قاری کے ذہن وفکر پر سیدھے دستک دیتی ہیں۔ ان کہانیوں میں شگفتہ بیانی کے سبب قاری پڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی کوختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔

  ان کے افسانوں کے موضوعات و عنوانات عوام اور عوامی مسائل سے بہت قربت اور مطابقت رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں افسانوں کے عنوانات میں تجسّس اور سسپنس کہانی کے نفس مضمون کے حسن کو مزید دوبالا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر شریک حیات ’’تبرک‘‘، نقش ثانی‘‘، ’’شناخت کی ماری‘‘، ’’زخموں کی کاشت‘‘، ’’ڈاک گھر یا دال گھر‘‘ وغیرہ۔

   ان افسانوں کے پلاٹ میں جہاں ہم تحریر میں قانونی عمل کی اُس سست روی سے روبرو ہوتے ہیں جہاں مقدمات کے فیصل ہونے میں مدعی عمر عزیز میں اپنے مقدمے کی فیصلہ کی گھڑی نہیں دیکھ پاتے اور اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف ان مقدمات کو لڑنے اور قانونی چارہ جوئی میں جوزر کثیر صرف ہوتا ہے اُس کے متحمل صرف چند نفوس ہی ہوتے ہیں۔

 دوسری طرف ان افسانوں میں قانون کے ایسے رکھوالوں سے روبرو کرایا گیا ہے جو قانون شکنی کے ساتھ ایسے درندے اور بھیڑیے ثابت ہوتے ہیں جن کے سفّاکانہ عمل سے نہ جانے کتنے بے گناہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اُن کا رعونت بھرا مزاج اور رویّہ مظلومین کے وارثوں کی دادرسی، فریاد اور بے گناہی سننے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہوتا بلکہ ملزمین کو راحت دینے کے بدلے مطلوبہ زرِکثیر کی فراہمی میں تاخیر ہونے یا عدم فراہمی کے سبب نہ جانے کتنوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں باپ جواں سال بیٹوں کی لاش اور ارتھیاں اپنے نحیف ونزار اور ناتواں کاندھوں پر اُٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔

  قانون کے رکھوالوں کی قانون شکنی کی چند ایسی مثالیں بھی ان افسانوی کینوس پر اُکیری گئی ہیں جہاں غریب اور کمزور طبقے کے افراد قانونی مدد حاصل کرنے میں اس لئے خود کو ناکام پاتے ہیں کیونکہ مدمقابل سماج کے اونچے طبقے سے تعلق رکھنے کے سبب سیاسی اثر ورسوخ بھی رکھتا ہے اور نتیجے میں مجبور ولاچار شخص کے لئے قانونی چارہ جوئی کی گنجائش نہیں رہتی۔ ان افسانوں میں ہمیں ایسے سفید پوش کردار بھی ملتے ہیں جو اپنے حریفوں کو جرائم پیشہ افراد کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے اپنے راستے سے ہٹادیتے ہیں۔ ابتداء میں یہ کام سپاری دے کر کرایا جاتا ہے بعد میں مذکورہ جرائم پیشہ افراد کو بلیک میل کرکے یہی عمل اُن سے باربار دوہرانے کو مجبور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اُنہیں کے ہاتھوں یہ خودبھی ایک دن کیفرکردار کو پہنچ جاتے ہیں۔

   اُن کے کس کس افسانے کی تعریف کی جائے، کس کس پر داددی جائے موصوف نے خود ساختہ مذہبی توہم پرستی اور بدعقیدگی پر بھی بڑی فنّی چابک دستی سے چوٹ کی ہے اور یہ دکھانے میں کامیاب رہے ہیں کہ کس طرح بچیوں کی تربیت سے غفلت کے سبب جو مسائل سامنے آتے ہیں اُس پر والدین خصوصاً مائیں محض توہم پرستی اور بدعقیدگی کے طفیل تعویذ گنڈوں سے ان مسائل کے تدارک کے لئے تدبیر اختیار کرتی ہیں اور یہی عمل مدّمقابل (بیٹیاں ) بھی دوہراتی ہیں، مسائل حل ہونے کے بجائے دونوں فریق عیّار و مکّار تعویذ گنڈے کرنے والوں کی ہوس کاشکار ہوجاتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ افسانہ ’’قسمت کا لکھا ‘‘میں کیا جاسکتا ہے۔

  کہانی ’’شناخت کی ماری‘‘ میں دومختلف زبانوں ’’ارُدو‘‘ اور ’’عربی‘‘ کے یکساں حروف تہجی کی ادائیگی قرأت کے اُن متضاد لہجوں و اسالیب کی بڑی خوبصورت نشاندہی کی گئی ہے جس کے سبب ہر دو مختلف زبانوں کے اساتذہ اپنی جھوٹی انا کے زعم میں خود کے شاگردوں کے ساتھ نارواسلوک رکھنے کے سبب شاگرد اس درجہ بد دل ہوجاتے ہیں کہ پڑھنے سے ہی راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اورزبانوں کا کوئی بھلانہیں ہوتا۔

    موصوف کے افسانوں میں سماج کے ہرطبقہ کے نمائندہ کردار مل جاتے ہیں جن میں سے چند اپنی سادہ لوحی کے سبب عیّار وچالاک لوگوں کے ہتھے چڑھ کر گوں ناگوں مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہوجاتے ہیں تو چند کو غربت اور مجبوری کے سبب نانِ نوش بھی میسر نہیں ہوتی کا فائدہ اُٹھاکر انہیں سپردگی ٔ عصمت اور زندگی گنوادینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ افسانہ ’’خطوط نویس ‘‘ جو قارئین کو خطوط نویسی کے نت نئے اسالیب سے روشناس کراتا ہے وہیں اپنے اندر ایسے ناصحانہ پہلو بھی رکھتا ہے جو قارئین کی کردار سازی میں بڑا معاون ہے۔ افسانہ ’’ڈاک گھر یا دال گھر‘‘ میں راشننگ کے شعبہ میں ایسے ماہر وپختہ تجربہ کاروں سے ہمارا سامنا ہوتا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے بدلے صارفین کو غیر ضروری اشیاء کی خرید پر مجبور ہوکر اپنے بجٹ کو غیر متوازن صورت سے دوچار ہوتے دیکھنا پڑتا ہے اور نتیجے میں زن و شوہر کے یومیہ رشتوں اور رویّوں میں کڑواہٹ اور تلخیاں لبھائو میں آجاتی ہیں جن سے چھٹکارا پانے کے لئے بے چارے شوہر کو ہی راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ الغرض موصوف کے افسانے ہمیں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات سے روبرو کرانے میں کامیاب نظرآتے ہیں جن کے واقعات وپلاٹ میں واقعات کے درونِ بیان زندگی کی مختلف جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ اکرم شروانی صاحب نے اپنے افسانوں کے ذریعہ خود کی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔