حیا ایمان کا ساتھی ہے

مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری

    بے حیائی اور بے پردگی آج کل بہت عام ہے اس کے سد باب کے لیے ذیل میں بہت اختصار کے ساتھ حیااور پردے سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث ِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں تاکہ اہل ایمان مرد اور عورتیں انھیں پڑھیں عبرت حاصل کریں اورعمل پیرا ہوں۔

عورتوں کا بہترین زیور حیا ہے :

   اسلام میں مسلمان عورتوں کے لیے پردے کی بڑی اہمیت ہے اوربے پردگی بے حیائی کی دین ہے ،اللہ کے مقدس رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

   ’’الْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیْمَانِ‘‘حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہ حدیث صحاح ستہ کی ہے، حوالے ملاحظہ ہوں۔(صحیح بخاری کتاب الایمان، ۱ / ۱۲،حدیث۹، صحیح مسلم: ۱ / ۶۳، حدیث۳۵،سنن الترمذی: ۵ /۱۰، حدیث ۲۶۱۴،)

   یعنی جس کے اندر بے حیائی (بے شرمی،بے غیرتی) ہے یقینا ًاس کے ایمان میں کمزوری ہے چنانچہ دیکھا بھی جاتا ہے کہ وہی مرد بے حیائی کے کام کرتے ہیںاور وہی عورتیںبے پردگی اختیار کرتی ہیں جو بے حیا ہوتی ہیں اورجن کا ماحول غیر اسلامی اور مغربیت زدہ ہوتا ہے اور جو اسلام کے ضروری عقائد و مسائل سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں۔پھر انتہائی بے حیائی اور خدا و رسول سے بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اس غلط کام کے لیے غلط سلط دلائل ڈھونڈتے ہیں اللہ و رسول کے واضح احکام اور پاکیزہ تعلیمات پر بھی اعتراض کرکے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔

  ’’وَہُمْ یَحْسَبُونَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا‘‘(کہف ۱۸/ ۱۰۴)

پھرایمان و عمل کی بربادی کے بعد وہ گمان یہ کرتے ہیں کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔اور اس کو نئی تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔گویا

شرم نبی خوف خدا،یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

     کاش یہ گنا ہ کرتے اور خدا سے ڈرتے یا پھر نری بے حیائی میں ڈوب کر بھی اللہ ورسول کے احکام کا انکار تو نہ کرتے کہ گناہ ہی ہوتاایمان تو محفوظ رہتامگر اس طرح کے غلط استدلال اور احکام شرعیہ پر اعتراض نے تو ایمان ہی جیسی متاع عزیزکو نیلام کردیا۔خدا ہمیں ایمان و عمل کی سلامتی سے نوازے اور خاتمہ بالخیر کی سعادت عطا فرمائے ۔آمین

   یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربی تعلیم و تہذیب سے بھر پور وابستگی کا بھیانک نتیجہ ہے جسے آج ترقی کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ ترقی نہیں سراسرپستی اور تنزلی ہے۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

  ’’قدرت نے اپنی مخلوق کو علاحدہ علاحدہ کا موں کے لیے بنایاہے اور جس کو جس کام کے لیے بنایا ہے اسی کے مطابق اس کا مزاج بھی بنایا ہے لہٰذا ہر چیز سے ہمیں قدرتی کام لینا چاہیے جو خلاف فطرت کام لے گا وہ ضرور تباہی و بربادی میں پڑے گا (اس لیے کہ )کسی چیز کے بنانے اور اس کی مصلحتوں کا علم خدا ہی کو ہے اس کے خلاف کسی کو اپنی عقل کا استعمال ضرورتباہی میں ڈالے گا۔

                اس کی سینکڑوں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں مثلا ً:ٹوپی سر پر رکھنے اور جوتا پاوں میں پہننے کا ہے اب جو جوتا سر پر باندھ لے اور ٹوپی پاوں میں لگالے تو وہ یقینا دیوانہ ہی کہا جائے گا۔

ٍ             بیل کی جگہ گھوڑا ا ور گھوڑے کی جگہ بیل کام نہیں دے سکتا ،اسی طرح خدا نے انسان کے دو گروہ بنائے ایک عورت دوسرا مرد ،عورت کو گھر میں رہ کر اندرونی زندگی سنبھالنے کے لیے بنایا اور مرد کو باہر نکل کر کمانے اور باہر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پیدا کیا۔ مثل مشہور ہے کہ پچاس عورتوں کی کمائی میں وہ برکت نہیں جو ایک مرد کی کمائی میں ہے اور پچاس مردوں سے گھر میں وہ رونق نہیںجو ایک عورت سے ہے ،اسی لیے شوہر کے ذمے بیوی کا سارا خرچ رکھا ہے اوراسی لیے مرد کو توانااور عورت کو فطری طور پر کمزور بنایااور اسے شرم وحیا کا مادہ مردسے زیادہ دیا اور بھی ایسی چیزیں دیں جن کی وجہ سے ان کو مجبورا گھر میں بیٹھنا پڑے مثلاً: بچہ جننا ،حیض و نفاس آنا ،بچوں کو دودھ پلانا وغیرہ۔(غور کرو) اب جو عورتوں کو باہر نکالے اور مردوں کو گھر میں بیٹھنے کا مشورہ دے وہ ضرور دیوانہ ہے اور جو کوئی ان دونوں فریقوں کوایک ہی کام سپرد کرے اور ان کی ذمے داریوں کی جو تفریق ہے اس کو مٹا دے تو وہ گویا قدرت کا مقابلہ کرتا ہے ا س کو کبھی کامیابی نہیں مل سکتی۔(خلاصہ از اسلامی زندگی)

    آج مردوں عورتوں میں جو برائیاں نظر آرہی ہیںان کی اصل وجہ بے حیائی اور بے شرمی ہی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ’’إذا لم تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔‘‘( جب تجھ کو حیا نہیںتو جو چاہے کر)۔(بخاری شریف،مشکوٰۃ،ص۱۳۴)

  یعنی حیا جس سے روکے اس سے رک جا اور جب حیا نہ ہو تو کچھ بھی کرنے کو آدمی تیار ہو جاتا ہے۔

    اسی لیے اللہ کے رسول نے حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ،چنانچہ ایک مرتبہ آپ ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا  کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا (کہ زیادہ حیا نہ کر) تو سرکارنے فرمایااس کو اپنی حالت پر چھوڑ دو (یعنی جس قدر حیا کرتا ہے کرنے دو) اس لیے کہ ’’الحَیائُ مِنَ الاِیْمان‘‘حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری ج ۱ ،ص ۸  ومسلم،بحوالہ مشکوٰۃ ۴۳۱ ،باب الرفق والحیاء)

   ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حیا بہتری ہی لاتی ہے’’الحیائُ لا یأتی إلا بخیر‘‘

    اورصحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے :   قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’الْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہُ‘‘ قَالَ أَوْ قَالَ:’’الْحَیَائُ کُلُّہُ خَیْرٌ‘‘(أخرجہ مسلم، حدیث ۳۷، وأخرجہ البخاری فی ’’کتاب الأدب‘‘’’باب الحیاء‘‘، حدیث ۶۱۱۷)

   ’’حیا مجسم خیر(بھلائی) ہے یا حیاکی ہر بات میں خیر ہے۔‘‘

    اور ایک حدیث پاک میں حضور نے حیا کی تعریف اور بے حیائی کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما یا: ’’الحیائُ مِن الإیمان، والإیمانُ فی الجنَّۃِ، والبَذَائُ مِن الجَفَائِ، والجَفَائُ فی النَّار‘‘(مشکوٰۃ ص ۱۳۴بحوالہ احمد وترمذی)

  حیا ایمان کا ایک جز ہے اور ایمان دار جنت میں جائے گا اور بے حیائی جفا ہے اور جفاکار جہنم میں جائے گا۔

    ایک دوسری حدیث میں بھی بے حیائی کی مذمت فرمائی گئی ہے جیسا کہ حضرت ابو درداء ر ضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنے فرمایا :قیامت کے دن مومن کی میزان میں جو چیز سب سے زیادہ بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ بدکار بے حیا کو سخت ناپسندکرتا ہے۔(رواہ ابن ماجہ(۴۱۸۱)، والطبرانی فی ’’الأوسط ‘‘ (۱۷۵۸) ثم رواہ ابن ماجہ (۴۱۸۲) من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما ،ورواہ الامام مالک فی ’’الموطا‘‘ (۳۳۵۹) من حدیث یزید بن طلحۃ بن رکانۃ مرفوعا مرسلاً)

 ایک حدیث میں حضور نے اسلام کی سب سے اہم خصلت حیا کو فرمایا ہے ارشاد ہوتاہے:

    ’’عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ لِکُلِّ دِینٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَیَائُ‘‘(کنز العمال۵۷۵۶ ، الجامع لشعب الایمان ۷۳۲۱، مشکوۃ ص۴۳۲)

    بے شک ہر دین میں ایک خاص خصلت ہوتی تھی اسلام کی اہم خصلت حیا ہے۔

یعنی جس کے اندر حیا کا مادہ جس قدر زیادہ ہوگا اس کا اسلام اتنا ہی زیادہ کامل ہوگا اور جس کے اندر حیا کی جس قدر کمی ہوگی اس کا اسلام اتنا ہی کمزور ہوگا۔

   حیا اور ایمان کو ساتھی بھی قرار دیا گیا ہے چنانچہ ایک حدیث پاک میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں:

  ’’الْحَیَائُ وَالْاِیمَانُ قُرِنَا جَمِیعًا فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُہُمَا رُفِعَ الْآخَرُ‘‘(مشکوٰۃ:ص۴۳۱،ابو داود:حدیث ۴۷۹۹،ترمذی:ح ۲۰۰۲)

   بے شک حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کر دیے گئے ہیں تو جب ان میں ایک اٹھے گا دوسرا بھی رخصت ہو جائے گا۔

 یعنی ایمان و حیا لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیںکہ حیا ہے تو ایمان ہے اور ایمان ہے تو حیا لازم ہے۔لہٰذا جب حیا نہیں تو یہ ضرور ایمان کی کمزوری اور اسلام سے دوری کی علامت ہے اسی لیے صاحب ایمان حیا کا دامن ہرگز نہیں چھوڑتا اور بے حیائی کے کاموں سے ہمیشہ دور رہتا ہے۔

عورتوں کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے؟

                حضرت مولاے کائنات علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی مجلس میں دریافت فرمایا: اَیُّ شَیء خیرٌ لِلْمَرأۃِ؟  عورت کے لیے کون سی چیز بہتر ہے ؟کسی نے جواب نہ دیا سب کے سب خاموش رہے یہاں تک کہ میں بھی کوئی جواب نہیں دے سکا تو بی بی فاطمہ سے پوچھا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر کون سی چیز ہے حضرت فاطمہ نے فورا ًجواب دیا عورتوں کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ ان کو غیر مرد نہ دیکھیں ،حضرت علی اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جواب سنا دیا تو حضور بھی خوش ہوئے اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔(جمع الفوائد ج۱ ص ۳۱۷)

عورتوں کے لیے پردے کا ضابطہ کلیہ:

  آج عورتیں بے تکلف ضرورت ہو یا نہ ہو غیر محرم مردوں کے سامنے آجاتی ہیں اور اس میں کچھ گناہ نہیں سمجھتیں اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا ایک فتوی ملاحظہ ہو:

     آپ سے سوال کیا گیا کہ بہو اپنے خسر کا پردہ کرے یا نہ کرے؟ اسی طرح جیٹھ دیور کا کیا حکم ہے؟ تو اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں ’’جیٹھ اور دیور سے پردہ واجب ہے کہ وہ نامحرم ہے اور خسر سے پردہ واجب نہیں(کرے تو) جائز ہے۔

   اس کا ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقاً واجب۔

 محارم نسبی (جو خاندانی محرم ہیں ان)سے پردہ نہ کرنا واجب (جیسے باپ بھائی سے/)،اگر کرے گی گنہ گار ہوگی۔

 محارم غیر نسبی مثلِ علاقہ مصاہرت(سسرالی رشتہ)ورضاعت(دودھ کا رشتہ)ان سے پردہ کرنااورنہ کرنادونوں جائز۔مصلحت و حالت پر لحاظ ہوگا۔ اسی واسطے علما نے لکھا ہے جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔یہی حکم خسر اور بہو کا ہے۔اور جہاں معاذاللہ مظنہ فتنہ (فتنے کاگمان)ہو پردہ واجب ہو جائے گا۔’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‘‘(البقرہ۲، آیت۲۲۰)(فتاویٰ رضویہ،جلد۵۱، صفحہ۳۳۸)

بہنوئی سے بھی پردہ ہے:

                بہنوئی سے پردے کے بارے میں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں’’ بہنوئی کا حکم شرع میں بالکل مثل حکمِ اجنبی ہے بلکہ اس سے بھی زائدکہ وہ جس بے تکلفی سے آمد و رفت و نشست وبرخاست کر سکتا ہے، غیر شخص کی اتنی ہمت نہیں ہو سکتی،لہٰذا صحیح حدیث میں ہے:

 عن عقبۃ بن عامر:’’إیّاکُمْ والدُّخُولَ علی النِّسائِ فقالَ رَجُلٌ مِنَ الأنْصارِ: یا رَسولَ اللّٰہِ، أفَرَأَیْتَ الحَمْوَ؟ قالَ: الحَمْوُ المَوْتُ (صحیح البخاری،حدیث نمبر ۵۲۳۲)

  صحابہ کرام (میں کسی)نے عرض کہ یا رسول اللہ جیٹھ دیور اور ان کے مثل رشتہ دارانِ شوہر کا کیا حکم ہے، فرمایا یہ تو موت ہیں۔

   خصوصاً ہندوستان میں بہنوئی کہ باتباع رسوم کفارِ ہند سالی بہنوئی میں ہنسی ہوا کرتی ہے، یہ بہت جلد شیطان کا دروازہ کھولنے والی ہے۔والعیاذ باللہ تعالیٰ، واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ،جلد۱۵، صفحہ۳۳۵)

تبصرے بند ہیں۔