اسلام کے تصورِ عبادت کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

زڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

قرآن مجید نے انسان کو اس کی تخلیق کے عظیم مقصد سے روشناس کرواتے ہوئے فرمایا کہ غنی بالذات رب کائنات نے جن و انس کو عبادت کے لیے خلق فرمایا۔ انبیاء و مرسلین کی دعوت کا ایک اہم اور خصوصی پیغام ہوا و ہوس، شہوت و ثروت، جال و جلال، مقام و منزلت کی چاہ و طلب میں توانائیاں صرف کرکے شیطان کی پرستش و اطاعت کرنے کے بجائے یکتا و یگانہ معبود حقیقی کی پرستش اور عبادت کرنا ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے رب کی عبادت چھوڑ کر شیطانی وساوس و خطوات کی پیروی کی کوشش کی ہے نحوستیں اور بدبختیاں اس کا مقدر بنی ہیں۔ عقل سلیم کا تقاضہ ہے کہ انسان کھلے دشمن شیطان کے مکر و فریب سے بچتے ہوئے رحمن و رحیم مولا کے دامن کرم میں پناہ لے اور ہمیشہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ عبدیت بہت اعلی و ارفع صفت و لقب ہے جو بغیر خالق حقیقی کی انتہائی تعظیم اور اطاعت بجالانے کے حاصل نہیں ہوتا۔ چونکہ عبادت کے معنی ہی اطاعت مع الخضوع یعنی انتائی تذلل و غایت درجہ فروتنی کے ساتھ فرمانبرداری کے ہیں۔ مذکورہ بالا قرآنی ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ صاحب افضال و انعام رب نے انسان کو اس لیے وجود بخشا تاکہ وہ بلاقید و شرط زندگی کے تمام مراحل میں رب اور اس کے نبی ﷺکی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔

یوں تو تمام موجوداتِ عالم رب کی اطاعت و فرمانبرداری کررہے ہیں یعنی آسمان و زمین کا ذرہ ذرہ مسلمان ہے لیکن صرف انسان کو رب قدیر عبادت بالاختیار کا مکلف بنایا ہے۔ یعنی زندگی کے ہر موڑ پر اس کے سامنے نیکی اور بدی کے درمیان انتخاب کرنے کا کٹھن مرحلہ ہوگا اور جو لوگ شیطانی وساوس، نفسانی خواہشات، غیر مناسب خرافات، جاہلانہ تعصبات، نسل پرستی اور نفس کی اشتعال انگیزی سے مغلوب ہوئے بغیر برضا و رغبت رب ذو الجلال اور اس کے حبیب ﷺ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں وہ اپنے غرضِ خلقت یعنی مقصد حیات میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالی کے پاس شرف و بزرگی، رفعت و منزلت کا معیار رب اور اس کے محبوب ﷺکی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ جو بندہ جس قدر زیادہ اطاعت و فرمانبرداری کرے گا وہ اسی قدر رب کے قریب ہوگا اور اسی میں انسان کے دنیوی ثمرات و برکات اور اخروی فلاح و نجات مضمر ہے۔ ایسے عظیم فضائل و برکات والی عبادت کا تقاضہ کیا محض چند اعمال و مراسم یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو رسماً ادا کرنے سے پورا ہوجائے گا؟ ارکان اسلام کی رسماً ادائیگی سے عبادت کا حق ادا نہیں ہوتاتاوقتیکہ انسان اسلامی عبادات کی ظاہری و باطنی برکات سے اپنے کردار اور تمام حرکات و سکنات کو سنوار نہ لے چونکہ عبادت کے معنی زندگی کے ہر لمحہ کو خدا لم یزل و لا یزال کے احکامات کا مطیع بنالینا اور اس کے آگے ہر آن سر تسلیم خم کردینے کے ہیں۔

انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے۔ جسم روحانی کمالات و سعادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جب تک جسم اعمال صالحہ کا خوگر نہیں ہوگا اس وقت تک روحانی ارتقا کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں عبادت سے مراد اللہ کے حکم کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت ہے جس پر تمام شرائع متفق ہیں۔ یعنی اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی عبادت میں شامل ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے تو عبودیت و بندگی کا حق ادا نہ ہوگا۔ رب ذو الجلال نے قرآن مجید میں متعدد دفعہ حقوق اللہ کے فوری بعد حقوق العباد کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے  ترجمہ: ’’ اور عبادت کرو اللہ تعالی کی اور نہ شریک بنائو اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پڑوسی جو رشتہ دار ہیں اور پڑوسی جو رشتہ دار نہیں اور ہم مجلس اور مسافر اور جو (لونڈی غلام) تمہارے قبضہ میں ہیں (ان سب سے حسن سلوک کرو)‘‘۔ (سورۃ النساء آیت 36)

یعنی جو رب کے حضور سر نیاز خم کرتا ہے اس سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی وہ مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کے ساتھ پیش نہ آئے۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اقامت صلوٰۃ کے ساتھ ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر بھی ملتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلام کے تصورِ عبادت میں جو اہمیت حقوق اللہ کو حاصل ہے وہی خصوصیت حقوق العباد کی بھی ہے۔ سورۃ التوبۃ آیت 11 میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ: ’’پس اگر یہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکوٰۃ تو تمہارے بھائی ہیں دین میں ‘‘۔ قرآن حکیم نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ اگرچہ مخالفین اسلام تمام زندگی اسلام اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں گذاردی ہو لیکن اس کے باوجود اگر وہ شرک سے تائب ہوکر نماز قائم کرکے تعظیم حق اور زکوٰۃ ادا کرکے مخلوق پر شفقت کرنے لگیں تو ان کا اسلام میں وہی مقام و مرتبہ ہے جو ایک مسلمان کا ہوتا ہے۔ معمار کعبہ حضرت سیدنا ابراہیمؑ کے فرزند دلبند حضرت سیدنا اسماعیلؑ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: ’’اور وہ حکم دیا کرتے تھے اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا‘‘ (سورۃ مریم آیت 55) یعنی فرمایا گیا کہ حضرت سیدنا اسمٰعیلؑ اپنے اہل خانہ کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمایا کرتے تھے چونکہ جس گھر کے مکینوں کا شیوہ خالق کی تعظیم اور مخلوق پر شفقت کرنا ہو وہ گھرانہ انتہائی مبارک اور انسانیت نواز ہوتا ہے جس پر ملک اور قوم کی اصلاح کا دار و مدار ہے۔ حضرت سیدنا عیسیٰؑ کے تعلق سے ارشاد ہوتا ہے ترجمہ: ’’اور اسی نے مجھے حکم دیا ہے نماز ادا کرنے کا اور زکوٰۃ دینے کا جب تک میں زندہ رہوں ‘‘ (سورۃ مریم آیت 31)

سراپا یمن و برکت حضرت سیدنا عیسیٰؑ شیرخوارگی کے عالم میں جھولے ہی میں سے اعلان کررہے ہیں کہ مجھ کو میرے رب نے تادم حیات نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا تاکیداً حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی و کوتاہی نہیں برتی جاتی وہ معاشرہ روحانی و اخلاقی اقدار میں گراوٹ اور معاشرتی بدحالی کا کبھی شکار نہیں ہوتا۔ لیکن صد حیف کہ ہم نے رسماًنماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کو ہی عبادت تصور کرلیا ہے جو قرآنی تعلیمات کے بالکل مغائر ہے۔ عبادت کے اثرات اگر ہمارے کردار پر واقعتاً مرتب ہوئے ہوتے تو پھر آج تعلیمی ادارے تجارتی مراکز میں تبدیل نہ ہوئے ہوتے، شفا خانوں میں انسانیت دم نہ توڑ رہی ہوتی، عدالتوں میں جھوٹی گواہیوں کا چلن عام نہ ہوا ہوتا۔

اگر ہم اسلام کے تصور ِ عبادت کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو مساویانہ درجہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ نماز اسی وقت قبولیت کا درجہ پائے گی جب مسلمان اعمال فحش و منکرات اور کج روی سے بچنے میں کامیاب ہو گا چونکہ اس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں۔ مسلم معاشرے پر نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہم ایک طرف نمازیں کثرت سے پڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ہم بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کا شکار بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں کوئی واضح تبدیلی واقع نہیں ہورہی ہے۔ قرآن مجید نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو نمازی لوگوں کو زندگی کے معمولی اشیاء و وسائل دینے سے گریز کرتے ہیں، مشکلات و حادثات میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہمسایوں، یتیموں، مسکینوں، محتاجوں، مسافروں، پڑوسیوں کی مدد نہیں کرتے ان کے لیے تباہی و ہلاکت ہے۔ جبکہ ہمارا عالم تو یہ ہے کہ ہم پنچوقتہ نمازیں پڑنے کے باوجود خوشحال گھرانوں کو مصیبت زدہ بنانے کے لیے مذموم سازیشیں رچتے ہیں۔ مسلمان رمضان المبارک میں روزوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں جس کا اہم مقصد نفسانی خواہشات کو قابومیں رکھنے کا سلیقہ و طریقہ سیکھنا ہے لیکن جب ہم میدان عمل میں جاتے ہیں تو ہمارے معاملات روزہ کی روح کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔

اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ روزہ کی قبولیت کا مدار انسانیت آشنائی پر ہے۔ رسول کونین ﷺنے فرمایا بعض روزہ دار ایسے ہیں جنہیں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یعنی جو روزہ دار منہیات جیسے بہتان تراشی، غیبت، جھوٹی گواہی دینے سے پرہیز نہ کرے اس کا روزہ رب کے حضور قابل قبول نہیں ہے۔ اگر ہم روزہ کی روح کو سمجھ گئے ہوتے تو شاید آج کریمنل کورٹ، سیول کورٹ، ہائی کوٹ اور سپریم کورٹ میں قسم کھاکر جھوٹی گواہیاں نہ دے رہے ہوتے جس کی وجہ سے ایک طرف امت مسلمہ کا قیمتی وقت اور خطیر رقم ضائع ہورہی ہے تو دوسری جانب ذہنی، فکری، قلبی، جسمانی اور روحانی سکون بھی غارت ہورہا ہے۔ زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ و نافلہ اور خیرات کی ادائیگی میں بھی ہمیں ادب و احترام اور انسانی خدمت کو کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی گئی اور واضح الفاظ میں کہا گیا کہ رب کائنات کے پاس ایسے انفاق کی کوئی قدر و قیمت نہیں جو انسان کے لیے اذیت، تکلیف و آزار کا باعث ہو بلکہ یہاں تک فرمادیا گیا کہ مالی اعانت کرنے کے بعد احسان جتلاکر، سخت کلامی کرکے ان غرباء، مساکین اور مفلوک الحال لوگوں کی شخصیت کو مجروح کرنے سے بہتر ہے کہ ان سے خندہ پیشانی سے بات کرلی جائے چونکہ اسلام میں کسی سے خوش اسلوبی سے بات کرنے کو بھی نیکی کا درجہ حاصل ہے۔ یہی حال مساوات اور برابری کی عملی تصویر حج کا بھی ہے مراسم و اعمال حج کی قبولیت کا مدار فحش وجھگڑا لو باتوں، تمام معاصی اور برائیوں سے مجتنب رہنے پر ہے چونکہ معاصی کے ارتکاب سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام چشم کشا حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نظام عبادت کا لباب لب اور ماحصل یہ ہے کہ رب کی اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ مخلوق پر شفقت ہے۔ اگر ہم اس میں ناکام ہوجائیں تو ہمارا عبادات بجالانا بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم نہ صرف اسلام کے تصورِ عبادت کو سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور تمام مسلمانوں کو بھی اس حقیقت سے روشناس کروانے کی کوشش و سعی کریں تب ہی معاشرے میں پاکیزہ اور پائیدار انقلاب آ سکتاہے۔ عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم اکثراپنی اولاد کو ارکان اسلام کی پاسداری کرنے کی تلقین کرتے ہیں جو یقینا قابل تحسین اقدام ہے لیکن اس کے فوائد اور منافع کی طرف رہنمائی نہیں کرتے اگر ہم ارکان اسلام کے ظاہری و باطنی فوائد اپنے بچوں کو بتانے میں کامیاب ہوگئے تو انسانیت نواز معاشرے کی تشکیل بہت آسان ہوجائیگی۔

 ہمیں چاہیے کہ ہم ارکان اسلام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کو حقوق العباد کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بھی تعلیم دیں تب ہی وہ اسلام کے تصور عبادت کے حقیقی مفہوم سے واقف ہوسکیں گے جو موجودہ حالات کے لیے از حد ضروری ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔