دشمن كافر کی موت پر ردِّ عمل

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اپنی گزشتہ پوسٹ میں راقم نے مشہور منافق عبد اللہ بن ابی کی موت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسنِ سلوک کا تذکرہ کیا تھا۔ اس پر بعض احباب نے اشکال ظاہر کیا کہ ابن ابی کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اگرچہ جگ ظاہر تھی، لیکن بہ ہر حال اس کے ظاہری اسلام کی وجہ سے اس کا شمار مسلمانوں میں ہوتا تھا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی موت پر جس رویے کا اظہار کیا اسے کسی کافر و مشرک دشمنِ اسلام کی موت پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت ہے کہ صراحت سے کوئی ایسی مثال پیش کی جائے جس میں کسی کافر و مشرک کی موت پر آں حضرت کے رویّے کو بیان کیا گیا ہو۔

واقعہ یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام اور مسلمانوں کا کتنا ہی بڑا دشمن ہو، چاہے وہ نام نہاد مسلمان ہو یا کافر و مشرک، اس کی موت پر خوشی منانا، اس پر لعنت بھیجنا اور اسے بُرا بھلا کہنا اعلیٰ اسلامی اخلاقیات کے منافی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات اور معمولات سے ہمارے سامنے ایسا ہی نمونہ پیش کیا ہے۔

یہودِ مدینہ کی اسلامی دشمنی بالکل عیاں تھی۔ ان کے طاقت ور قبیلے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع حاصل سے جانے نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایک جگہ تشریف فرما تھے۔ آپ کے بعض اصحاب بھی وہاں موجود تھے۔ وہاں سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ آپ کھڑے ہوگئے۔ اصحاب نے کہا : یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ اس کے لیے کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے فرمایا :

ألَيْسَتْ نَفْساً (بخاری :1312، مسلم : 961)

"کیا وہ جان دار نہ تھا؟”

ابو لہب اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا چچا تھا، لیکن اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا۔ مکی عہد میں مسلمانوں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اس کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں۔ اپنی بیماری کے سبب وہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا اور غزوہ کے 7 روز کے بعد طاعون جیسی بیماری میں مبتلا ہوکر بدترین موت مرا، لیکن اس کی موت پر آپ نے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جس سے آپ کی خوشی کا اظہار ہوتا ہو۔

سب سے بڑی مثال غزوۂ بدر کی ہے۔ اس میں کفر کے سرغنہ، شرک کے عَلَم بردار، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مسلسل تکلیفیں پہنچانے والے اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والے ستّر (70) افراد مارے گئے تھے۔ ان میں ابو جہل بن ہشام، امیّہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن الولید جیسے سردار اور سرغنہ بھی تھے۔ ان کی لاشیں میدانِ جنگ میں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں۔ کافر فوج انھیں چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی لاشیں جمع کروائیں اور انہیں ٹھکانے لگوایا۔ اس موقع پر آپ وہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے نہ انھیں لعن طعن کیا، نہ بُرا بھلا کہا، نہ ان کی موت پر خوشی کا اظہار کیا۔ اگر کچھ کیا تو یہ کہ ان میں سے بعض سرداروں کا نام لے لے کر پکارا اور فرمایا :

” أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا۔”( مسلم:2874 )

"کیا تمھیں وہ سب نہیں ملا جس کا تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا۔ مجھے تو وہ مل گیا جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ "

موت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جس سے ہر ایک کو سابقہ پیش آنا ہے۔ کوئی مومن ہو یا کافر، مؤحّد ہو یا مشرک، دہریہ ہو یا لبرل، اسلام کا علم بردار ہو یا اس کا دشمن، صالح فطرت ہو یا بد خصلت، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس لیے اگر کسی کافر کی بھی موت ہو تو اس پر خوشی منانے یا مرنے والے کو لعن طعن کرنے کے بجائے ہر ایک کو اپنی موت کی فکر کرنی چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اس نے خود مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کیا توشہ جمع کر رکھا ہے؟! ہر ایک کو اپنی خیر مانی چاہیے نہ کہ دوسرے شخص کی عاقبت کا فیصلہ سنانے میں جلدی کرنی چاہیے، کیوں کہ یہ کام اللہ تعالٰی کا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا؟

تبصرے بند ہیں۔