اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ (قسط 2)

پروفیسر محمد رفعت

نیوٹن کا کارنامہ

یہ کتاب 1687ء میں شائع ہوئی اوردو صدیوں تک سائنسی دنیا پر چھائی رہی۔آج بھی اس کے اثرات جوں کے توں موجود ہیں۔ عصر حاضر کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو اس کا دو تہائی حصہ ایسا ہے جس کی کام یاب تفہیم نیوٹن کے تصوارت کی مددسے ہی کی جاتی ہے۔ ان تصوارات سے زیر مشاہدہ دنیا کی ایک خاص تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ نیوٹن کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ تثلیث کا قائل نہیں تھا۔ خاندانی پس منظرکے اعتبار سے وہ عیسائی تھا، لیکن تثلیث کے بجائے وہ توحید کا قائل تھا۔ ایک قادر مطلق خدا پر یقین رکھتا تھا۔ اس کی سائنسی تحقیقات ریاضی اور فزکس پر مرکوزتھیں، لیکن یہ اس کی دل چسپی کے اصل موضوعات نہیں تھے۔

مذکورہ بالاکتاب نیوٹن نے اس وقت لکھی جب اس کی عمر پینتالیس (45) سال کی ہو چکی تھی۔ اس میں جو تحقیقات بیان کی گئی ہیں وہ کتاب کی اشاعت سے کافی پہلے اس کی گرفت میں آ چکی تھیں، جب اس کی عمر پچیس (25) سال سے زیادہ نہیں تھی۔ بظاہر اس کا کوئی ارادہ کتاب شائع کرنے کانہیں تھا۔ اپنے دوستوں کے اصرارپر اس نے یہ کتاب تحریر کی۔ اس کی دل چسپی کا اصل موضوع تو کیمیائی تجربات تھے اور ان سے بھی زیادہ بائبل سے اسے دل چسپی تھی۔ بائبل کا وہ بڑا عالم تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا باقی حصہ بائبل کو سمجھنے میں اور اس کے رموز کو جاننے میں گزارا۔ اپنی زندگی میں وہ خدا پرست انسان نظر آتا ہے۔

تحقیق کے میدان میں اس نے جو کچھ پیش کیا ہے اسے خدا کے تصورسے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی غالب فلسفیانہ فضا سے کوئی بھی شخص آزاد نہیں رہ پاتا، چاہے نیوٹن جیسا عظیم ماہرہی کیوں نہ ہو۔ اپنے ذاتی تصورات کے لحاظ سے خدا پرست ہونے کے باوجود اس نے جو کچھ پیش کیا اس میں مغرب کی دنیا کے اثرات نظر آتے ہیں، جہاں الحاد کا رجحان غالب تھا۔مزید برآں مغربی دنیانے نیوٹن کے تصورات کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ الحاد کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے۔

الحا د کے رجحان کی تائید کی ایک مثال دی جا سکتی ہے۔ نیوٹن کے تصورات کی تشریح کرنے والے بہت سے محققین نے اپنی کاوشیں پیش کیں۔ نیوٹن کے ایک صدی بعد ان شارحین میں ہمیں ایک اہم نام ریاضی داں لیپ لاس (Laplace)کا نظر آتا ہے۔ اس کاطرز فکر یہ ہے کہ اس دنیا میں فطری قانون موجود ہے، جو مظاہر کائنات کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ خدا وند قدوس کا کام صرف اتنا ہے کہ اس نے کائنات کی ابتدا کر دی۔ اس کے بعد کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فطری قوانین کی کار فرمائی کی بنا پرخود بہ خود(Automatically) ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نیوٹن کے پیش کردہ تصورات بنیادی قوانینِ فطرت کو بیان کرتے ہیں۔ اس تعبیر کے مطابق اگر ہم اس وقت کی (کائنات کی)صورت حال کوجانتے ہوں ( مشاہدہ کے ذریعہ ) تو کائنات کا ماضی کیا تھا؟ یہ بھی بتا سکتے ہیں اور مستقبل کیا ہوگا؟ یہ بھی بتا سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہمیں قوانینِ فطرت کا درست فہم حاصل ہو۔

اس وقت سائنس کی دنیا میں یہ خوش فہمی عام تھی کہ نیوٹن کی تحقیقات کے بعد اب قوانین فطرت کا علم توہمیں تقریباً مکمل حاصل ہو چکا ہے۔ اب کچھ راز میں نہیں رہ گیا ہے۔ ہم قابل مشاہدہ مظاہر میں کار فرما قوانین کی تلاش کے آخری مراحل تک پہنچ گئے ہیں۔ کائنات کی کنجی ہم نے پا لی ہے۔ یہ وہ بات تھی جواٹھارویں صدی میں مقبول تھی، لیکن حقیقت حال ایسی نہ تھی۔جلد معلوم ہو گیا کہ نیوٹن نے جو کچھ پیش کیا تھاوہ  نت نئے مشاہدات کی تشریح و تفہیم کے لیے کافی نہ تھا، بلکہ انیسویں صدی کے وسط تک مظاہر کائنات سے متعلق فزکس کی دنیا میں وہ مشاہدات بھی سامنے آچکے تھے جن کی تشریح محض مشینی قوانین کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی تھی۔

مظاہر فطرت میں جو پہلی چیز انسان کی توجہ مبذول کرتی ہے وہ فلکیات کی دنیا ہے، جو ہم سے بہت دور ہے۔ انسان زمین کا مشاہدہ تو ذرا بعد میں کرتا ہے، لیکن چاند اور سورج کا پہلے کرتا ہے۔ مغرب میں سائنس کی نئی ابتدا سولہویں صدی میں ہوئی۔ اس مرحلے میں فلکیات سے نئے سائنسی تصورات کا آغاز ہوا۔پرانے مشاہدات، جو چاند، سورج اور سیاروں سے متعلق تھے، ان کو از سرِ نو ترتیب دیا گیا اور مربوط تشریح پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جو پہلے کی تشریح سے بہتر ثابت ہوسکے۔

علم فلکیات

نئی سائنس میں اجرامِ فلکی کی حرکت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ نیوٹن کے نقطۂ نظر کی ندرت یہ ہے کہ اس نے حرکت کی جامع تعبیر تلاش کی۔ اس نے توجہ دلائی کہ سورج اور چاند کی طرح زمین کی چیزیں بھی حرکت کر رہی ہیں۔ زمین پربہت سی اشیاء ہمیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں بطور مثال ذرّات ہیں اور ہوا کی گردش ہے۔ نیوٹن کے مطابق حرکت کی ماہیت ایک جیسی ہے اور جہاں بھی حرکت موجود ہو، اس کے قوانین یکساں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آسمان میں متحرک اجسام کے لیے کچھ قوانین ہوں اور زمین پر کچھ اور ہوں۔ سائنس کی دنیا میں یہ ایک نادر خیال تھا، جو پیش کیا گیا۔اس سے پہلے لوگ یہ کہتے تھے کہ فلکیات کی دنیا الگ ہے اور زمین کے معاملات الگ۔ دونوں کے سلسلے میں الگ الگ طرز پر سوچنا چاہیے۔

نیوٹن کے تجویز کردہ نظام تصوارات میں حرکت اور ذرّات کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اس رجحان کو تقویت ایک قدیم تصور سے حاصل ہوئی، جسے ماضی میں متعددلوگوں نے پیش کیا تھا، یعنی ایٹم کا تصور۔ کہا جاتا ہے کہ یونانیوں نے آج سے مدتوں پہلے ایٹم کے بارے میں سوچا۔ جدید مغرب نے نشأۃ ثانیہ میں اسے دوبارہ دریافت کیا اور ڈالٹن کا نظریۂ ایٹم سامنے آیا۔وہ یہ کہ مادی چیزیں ایٹموں پر مشتمل ہیں، جو ہمیں نظر نہیں آتے، مگر بہر حال ان کا وجود ہے۔ ان کے وجود کی تائید کرنے والے شواہددریافت کیے گئے ہیں۔

کائنات کے مشینی تصور کے نقائص

نیوٹن کے نظام تصورات میں ذرّات کی حرکت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں ذرّات کی موجودگی اور حرکت کا ظہور ایسی بنیادی حقیقتیں ہیں جو مظاہر کی تشریح میں مدد دیتی ہیں۔ انسان جاننا چاہتا ہے کہ ذرّات کی حقیقت کیا ہے؟ ان کی حرکت کس طرح ہوتی ہے ؟پھر یہ کہ روشنی کیا ہے ؟ نیوٹن کا کہنا یہ ہے کہ جو روشنی ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی ذرّات ہی پر مشتمل ہے۔ اس کے خواص کو اس تصور کے تناظر میں بیان کیا جا سکتا ہے، مثلاً سیدھی لائن میں روشنی کا چلنا۔ اس خصوصیت کی توجیہ کے لیے ہم ذرات کی خاصیتوں کو کافی سمجھتے ہیں۔ ذرات کے ذریعہ روشنی کی خصوصیات کی تشریح کی جاسکتی ہے۔

مندرجہ بالادعووں اورلیپ لاس جیسے راسخ العقیدہ سائنس دانوں کے خیالات کے باوجود (جو سائنس کے تصوارت پر گویا ایمان لے آئے تھے) انیسویں صدی کے وسط تک ایسے مشاہدات سامنے آچکے تھے (خاص طور پر روشنی اور بجلی کے سلسلے میں ) جن کی تشریح مشینی تصور کائنات سے نہیں ہو سکتی تھی، جو اس وقت رائج تھا، یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ کائنات میں ذرّات اور ان کی حرکتوں کے علاوہ کچھ اور موجود نہیں توہم نہ روشنی کی تشریح کر سکتے ہیں نہ بجلی کی۔ ہم ان خصوصیات کو نہیں سمجھ سکتے جو روشنی سے متعلق ہیں۔ انیسویں صدی کی سائنس پرمشینی تعبیرات چھائی ہوئی تھیں، لیکن اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے محققین نے یہ سمجھ لیا کہ نیوٹن کے تصورات کافی نہیں۔ ان کے ساتھ ہمیں کچھ اور نئی تعبیرات اور نئے تصوارات کی بھی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ذرّات موجود ہیں، ان کی حرکت بھی ایک حقیقت ہے، لیکن یہ کُل کائنات نہیں۔ بطور مثال اس دنیا میں لہروں  (Waves) کا وجود بھی ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔