فارغین مدارس اور اردو صحافت

مسعود جاوید

آج صبح سے بعض ایسی تحریریں سامنے آرہی ہیں جو سنتا تو سمع خراشی کہتا لیکن پڑهنے کو ملیں اس لئے ، اگر اردو زبان و ادب کے ماہرین اجازت دیں، تو نظر خراشی کہ دوں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج  ان تحریروں نے ذہن کے آس پاس کی فضا مکدر کر دیا ہے.

اس حقیقت سے انکار کی قطعی گنجائش نہیں ہے کہ کہ دینی مدارس کے فارغین اردو زبان کی تلفظ کی حد تک آبرو رکهے ہوئے ہیں اس لئے کہ اردو کے بیشتر مخارج و مصادر مشتقات کا تعلق عربی اور فارسی سے ہے جس کی تعلیم مدرسوں میں دی جاتی ہے۔ اسی لئے مدارس کے فارغین کی گرفت اردو زبان- صحیح تلفظ تذکیر و تانیث اور اصطلاحات پر اچهی ہوتی ہے یہ اور بات ہے کہ اردو ادب سے عموماً نابلد ہوتے ہیں اس لئے کہ اردو ادب ان کے نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ  مراثی دبیر و انیس کلیات مرزا رفیع سودا  کلیات میر تقی میر کلیات انشاء  کلیات نذیر گلزار داغ  دیوان غالب مضامین سر سید  محمد حسین ازاد کی آب حیات پریم چند  اور سعادت حسن منٹو کے افسانے ان کے زیر مطالعہ نہیں رہتے۔

قاسمی، ندوی، اصلاحی، فلاحی ، اور سنابلی حضرات جو اردو میں لکهتے ہیں یا مصنف، مولف، ناقد، شاعر،  گزرے ہیں یا جو موجود ہیں، وہ ان کا ادبی ذوق اردو کتابوں سے شغف دیرینہ شوق کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ذاتی رغبت کی بناء پر وسیع مطالعہ کیا اور یہ کمال حاصل کیا۔ یا وہ فارغین ہیں جنہوں نے فراغت کے بعد عصری درسگاہوں کا رخ کیا اور اردو عربی یا فارسی زبان و ادب میں گریجویشن پوسٹ گریجویشن ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔

اردو لکهنے والوں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جو انگلش یا ہندی میڈیم کے تعلیم یافتہ ہیں۔ گهر اور آس پاس کا ماحول اور مادری زبان اردو ہونے کی وجہ سے اردو لکهنا پڑهنا سیکها۔ نصف صدی قبل تک مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کی بهی  ایک معتد بہ آبادی ، عربی فارسی مشتقات والے مفردات سے بخوبی واقف ہوا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ صورتحال بدلتی گئی اور اردو زبان و ادب میں بی اے بی ایڈ اور ایم  ایم فل پی ایچ ڈی کرنے والے چونکہ بنیادی عربی اور فارسی سے مکمل نابلد تهے اس لئے جب ایسے لوگوں نے اسکول میں ٹیچر اور کالج و یونیورسٹی میں لیکچرار اور پروفیسر کی ملازمت کی تو ظاہر ہے ان کے طلباء کی اردو دانی ان سے کم رہی اور گرامر خاص طور پر ہر مفرد کے روٹ مصدر پر توجہ گھٹتی جا رہی ہے۔

تیسری قسم ، جو ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہے، یہ ان مسلم اور غیر مسلم لڑکے اور لڑکیوں کا طبقہ ہے جنہیں اردو زبان کی شیرینی نزاکت  غنائیت صوتی سماعت حسن و عشق کے موضوعات نے اپبا گرویدہ بنایا ہے۔یہ  لوگ دیوناگری یا رومن میں اشعار لکهتے ہیں یا اپنے یا دیگر شعراء کے کلام پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ بات اردو داں حلقہ کے لئے واقعی باعثِ فخر و مسرت ہے۔ تاہم ان کی زبان خاص طور پر تلفظ تذکیر و تانیث اور جملوں کی ساخت میں سقم بہت نمایاں ہوتا ہے۔

مدارس کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ان دنوں اردو صحافت سے منسلک ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے صحافت کے میدان میں ان کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے فاش غلطیاں ان سے سرزد ہوتی رہتی ہیں۔  اخبارات میں تو غنیمت ہے کہ ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر ہوتے ہیں جو اصلاح کر دیتے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر ہر شخص کی طرح وہ بهی آزاد ہیں جو چاہیں لکهیں۔۔ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب اس طبقے کے کچھ صاحب قلم ہر موضوع پر مضمون یا طویل تبصرے لکهتے ہیں اور وہ  مضامین اور تبصرے کسی موضوع کا سیر حاصل مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے  قیاس لگا کر،  فوری ردعمل کے طور پر یا وهاٹس ایپ پروفیسروں کے بیانات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔  یہ ایک غلط روش ہے اور تمام لوگوں خاص طور پر فارغین مدارس کو احتراز کرنا چاہئے۔

صحافت کی صلاحیت صرف لکهنے کے شعور آنے سے نہیں آتی۔ یہ ایک بہت ہی ذمےداری کا کام ہے اور بہت حساس پیشہ ہے۔ ذرا سی بے توجہی سے اس پیشے سے منسلک انسان قانونی گرفت میں آسکتا ہے۔  اس پیشے کی حساسیت کا اندازہ ایک جملہ  "مبینہ طور پر”،  "ایسا کہا جاتا ہے”  it is alleged وغیرہ سے کیا جا سکتا ہے۔ امر واقع جاننے کے باوجود صحافی ایسا نہیں لکهتا جس سے اس واقعہ کے یقینی ہونے کا تاثر ملے۔ اسی لئے ایڈیٹر کی گہری نظر جملوں کی ساخت پر ہوتی ہے کہ کسی جملے سے کسی فریق کی عزت کو بٹہ نہ لگے، کسی کا وقار مجروح نہ ہو  یا کسی کی تجارت کو نقصان نہ پہنچے اور اگر ایسی کوئی تحریر شائع ہو گئی تو متاثر شخص اس اخبار کے خلاف مقدمہ درج کراتا ہے۔ لیکن افسوس ایسی ہی ایک خبر ایک اخبار میں شائع ہوئی کہ فلاں مسلم شخص کو زہر کا انجکشن دے کر ہلاک کر دیا گیا۔یہ خبر توقیر بدر صاحب کے مطابق عوامی نیوز اور انقلاب پٹنہ ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ اس کا تراشہ بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ میں نے شیئر کرنے والے فارغین مدارس کو اس خطرے سے آگاہ کیا اور اس طرح کی خبروں کے متوقع منفی اثرات سے آگاہ کیا اور کہا کہ لاکھوں مسلمانوں کا علاج غیر مسلم ڈاکٹر ہی کرتے ہیں۔ کسی ایک حادثہ کو ہندو مسلم رنگ دینا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ کس نے تحقیق کی کہ اسے زیر کا انجکشن دیا گیا۔ اور مصدق ہے تو کیا کسی نے اس ہسپتال یا ڈاکٹر کے خلاف ایف آئی آر کیا ہے؟

الحمدللہ انہوں نے مسئلے کی متوقع منفی اثرات کو سمجها اور پوسٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ بعض پر جوش لکهاری لکهتے ہیں’-  ہندی ہیں ہم ، وطن ہے سارا مسلم جہاں ہمارا۔- ۔ میں نے کہا کبهی بغیر ویزا کسی مسلم ملک میں گهس کر دیکها دو۔ سیاحت،  ملازمت یا تجارت کا ویزا ہوتے ہوئے بھی اگر آپ نے بطاقہ آئی ڈی نہیں دکهائی تو آپ سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے اور کسی متعلق کو خبر بهی نہیں کی جائے گی۔ رشتہ دار اور دوست  ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال چکر لگاتے رہیں گے اور ہفتوں سراغ نہیں ملے گا۔ یہ ہے حقیقی تصویر ” سارا مسلم جہاں ہمارا” کی۔ اور اتنی سختی کیوں نہ ہو  ہر حاکم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے پابند ہے۔ اس لئے پر جوش عالم دین ہوں یا غیر عالم دین یہ بات اچهی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آپ کا اپنا وطن ہی آپ کا اپنا ہے۔ اس لئے سنسنی خیز باتوں ، افواہوں یا فوٹو شوپ والی تصاویر کو بغیر تحقیق نہ خود لکهیں نہ ان پر تبصرہ  کریں اور نا ہی شیئر کریں۔  پان اسلام اور پان عرب pan Arab کهوکهلے نعرے ہیں اس کے ہیچهے نہ بهاگیں۔ اور نہ ہجرت اور جہاد کی باتیں کریں۔  عملی سوچ کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیں۔ حکومت کی یا کسی تنظیم کی تنقید کرنی ہو تو بولنے لکهنے پوسٹ کرنے لائک کرنے اور شیئر کرنے سے پہلے اچهی طرح پڑھ لیں سمجھ لیں اور دوسرے بهیجنے والے کی معتبریت کی جانچ کر لیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والی تحریر و تقریر سے گریز کریں اسے بڑهاوا دینے میں معاون نہ بنیں۔ فیک آئی ڈی اور فیک سائٹس پر اعتماد کرتے ہوئے ردعمل کرنے سے گریز کریں۔ مسلکی اختلافات پر بحث و مباحثہ اور تکرار سے بچیں۔ لکل حدث حدیث ۔۔ بعض مناقشات دوران تعلیم طلبہ کا ذہن کهولنے اور مسائل پر جرح و تمحیص کا طریقہ بتانے کے لیے سکهائے جاتے ہیں وہ درسگاہوں تک محدود رکھیں۔ عوامی پلیٹ فارم پر اسے موضوع بحث نہ بنائیں مسجد کے محراب و منبر سے فقہی موشگافیوں کے ذریعہ ملت میں انتشار کا سبب نہ بنیں۔   بعض معاملات سلطنت اور حکومت کے ذمے ہیں ان میں آپ اپنے  آپ کو ہولیس کا کردار بنا کر پیش نہ کریں۔ دین اصل ہے مسلک ثانوی ہے۔ اس لیے تکفیری لب و لہجہ نہ اپنائیں۔ کل قیامت کے روز آپ اپنے اچهے برے  اعمال کے لئے جوابدہ ہوں گے۔

دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص ہر موضوع کا ماہر ہو۔ اور جب ایسا ہے تو پهر لیرہ اور ڈالر ، ریال اور درهم کے بارے میں رائے زنی نہ کریں۔ کسی بهی ملک کی کرنسی کی قیمت کس طرح گهٹتی یا بڑهتی ہے ۔IMF انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ کا کیا کام ہے اس میں کرنسی باسکٹ کا کیا نظام ہے ورلڈ بینک WB کے اغراض و مقاصد کیا ہیں ان سب کے بارے میں پوری معلومات حاصل کیے بغیر اپنی بات رکهنا اور اس میں تشدد اختیار کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔