کیا کیا ستم غریب پہ ڈھاتی ہیں روٹیاں

مقصود عالم رفعت

کیا کیا ستم غریب پہ ڈھاتی ہیں روٹیاں

فاقوں میں خون آنسو رلاتی ہیں روٹیاں

بھٹّی میں رنج و غم کی جلاتی ہیں روٹیاں

مفلس کے ہاتھ تب کہیں آتی ہیں روٹیاں

گھر بار تک چھڑاتی ہیں فکرِ معاش میں

در در کی ٹھوکریں بھی کھلاتی ہیں روٹیاں

تن سے لباسِ شرم و حیا کو اتار کر

غیروں کے آگے ناچ نچاتی ہیں روٹیاں

کھاتا ہے روٹیوں کو بظاہر ہر آدمی

سچ یہ ہے آدمی  ہی کو کھاتی ہیں روٹیاں

پانی سے اور تیز بھڑک جاتی بھوک ہے

یہ آگ ہے کہ جس کو بجھاتی ہیں روٹیاں

بارش ہو چاہے آندھی ہو یا چلچلاتی دھوپ

رفعت چلو کہ تم کو بلاتی ہیں روٹیاں

تبصرے بند ہیں۔