جمعہ کی فضیلتوں کی حصولیابی سے محروم کرنے والے اعمال

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر

        اسلام میں جمعہ کے دن کو بہت ہی عظمت اورفضیلت والا دن قرار دیا گیا ہے۔ اس دن تمام دنوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، رحمتیں اور برکتیں بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے ہفتے کی عید ہے۔ اسی لئے اس دن ادائے شکر کے لئے ایک خاص نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جسے نماز جمعہ کہتے ہیں جس کی فرضیت قرآن مجید، احادیث متواترہ اور اجماع امت سب سے ثابت ہے۔ یہ اسلام کے شعائر اعظم میں سے ہے جس کے اہتمام کی نہ صرف تاکید کی گئی ہے بلکہ اس سے بہت سی فضیلتیں اور بشارتیں بھی وابستہ ہیں۔ سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَ تَطَھَّر بِمَا اسْتَطَاعَ  مِنْ طُھْرٍ، ثُمَّ ادَّھَنَ  أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ، ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ، فَصَلّٰی مَا کُتِبَ لَہُ، ثُمَّ إِِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ أَنْصَتَ، غُفِرَلَہُ مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی‘‘

’’جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اورجس قدر ممکن ہوا پاکی حاصل کی، پھر تیل یا خوشبواستعمال کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے روانہ ہوا اور (مسجد میں پہنچ کر) دو آدمیوں کے درمیان (گھس کر) تفریق نہ کی، پھر جتنی (نفل) نماز اس کی قسمت میں تھی اداکی، پھر جب امام (خطبہ کے لئے) باہر آیا تو خاموشی اختیار کی، تو اس کے اس جمعہ سے لے کر سابقہ جمعہ تک کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ لَا یُفَرَّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ)۔

        امام مسلمؒ نے اس سلسلے میں ابوہریرہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں دس دنوں کے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’مَنِ اغْتَسَلَ، ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَۃَ، فَصَلّٰی مَا قُدِّرَ لَہُ، ثُمَّ أَنْصَتَ حَتّٰی یَفْرُغَ  مِنْ خُطْبَتِہِ، ثُمَّ یُصَلِّي مَعَہُ، غُفِرَلَہُ مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی، وَفَضْلُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ‘‘

(مفہوم): ’’جس نے غسل کیا، پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا، پھر جتنا اس کے مقدر میں تھا (خطبہ سے پہلے نفل) نماز پڑھی، پھر خاموش رہا یہاں تک کہ خطیب اپنے خطبہ سے فارغ ہوگیا، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے گناہ اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک اور تین دن اور زائد کے بخش دئے جاتے ہیں ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَ أَنْصَتَ فِي الْخُطْبَۃِ)۔

        امام ابوداؤدؒ نے اپنی سنن میں اوس بن اوس ثقفیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (مفہوم): ’’جو شخص جمعہ کے دن اپنا سر دھوئے اور غسل کرے اور صبح سویرے (یعنی اول وقت میں مسجد) جائے (تاکہ) شروع سے خطبہ پالے اور سوار نہ ہو (یعنی پیدل چل کر جائے)، اور امام کے قریب بیٹھے پھر غورسے خطبہ سنے اور کوئی لغو بات زبان سے نہ نکالے تو اس کے لئے ہر قدم اٹھانے کے بدلے ایک سال کے روزوں اور رات کو قیام کی عبادت کا ثواب ہوگا‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب فِي الْغُسْلِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ)۔

        امام ابوداؤدؒ نے ہی ایک روایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے نقل کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا (مفہوم): ’’ جمعہ میں تین قسم کے لوگ حاضر ہوتے ہیں ؛ایک وہ شخص جو جمعہ میں حاضر ہوکرلغو گفتگو (یا لغو کام) کرتا ہے، اس میں سے (یعنی جمعہ سے) اس کا یہی حصہ ہے، دوسرا وہ شخص ہے جودعا کی غرض سے حاضر ہوتا ہے، سو وہ ایسا شخص ہے جس نے اللہ عزوجل سے دعا کی ہے اگر وہ چاہے تو اسے عطا کرے اور چاہے تو نہ دے، تیسرا وہ شخص جو خاموشی اور سکوت کے ساتھ (جمعہ میں ) حاضر ہوتا ہے (یعنی لغو بات نہیں کرتا اور خاموشی سے خطبہ سنتا ہے)، نہ کسی مسلمان کی گردن پھلانگتا ہے نہ کسی کو ایذا دیتا ہے تو یہ( جمعہ) اس کے لئے آیندہ جمعہ تک اور مزید تین دنوں تک (ہونے والے گناہوں ) کا کفارہ ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جو ایک نیکی لاتا ہے اس کے لئے اس کا دس گنا ( اجر) ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، بابُ الْکَلَامِ ِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ)۔

        مذکورہ روایتوں پر غور کرنے سے جہاں جمعہ کی فضیلتوں کا پتا چلتا ہے وہیں اس بات سے بھی آگہی ہوتی ہے کہ یہ فضیلتیں چندآداب و ضوابط کے ساتھ مشروط ہیں مثلاًغسل کرنا، نماز جمعہ کے لئے جلدی اور پیدل جانا، کسی کی گردن نہ پھلانگنا، کسی کو ایذا نہ دینا، دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسنا، خاموش رہنا اور کوئی لغو بات زبان سے نہ نکالنا، غور سے خطبہ سننا وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر جمعہ کی ان فضیلتوں کا طالب ہے تو اس پر ان ضوابط کا اہتمام لازم ہے بصورت دیگر اسے محرومی سے بھی سابقہ ہوسکتا ہے۔ ان دنوں مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ کچھ لوگ نماز جمعہ میں شرکت کے لئے دیر سے مسجد آتے ہیں اورلوگوں کی گردنیں پھلانگ کر اگلی صفوں میں جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں نیز دو آدمیوں کے درمیان جہاں جگہ نہ بھی ہو گھس کر ان کی ایذا کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح کچھ افراد خطبہ کے دوران بھی گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور کچھ نوجوان تو باضابطہ حلقہ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور مستقل باتوں میں مصروف رہتے ہیں حتی کہ خطبہ کے دوران بھی وہ خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ ایسے لوگ جمعہ کی فضیلتوں سے نہ صرف خود محروم ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی عبادت میں خلل اندازی کرنے اور تکلیف پہنچانے کا وبال بھی اپنے سر لے کر جاتے ہیں۔ اس حالت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی محسوس ہوئی کہ ان عوامل پر جو جمعہ کی فضیلتوں سے محرومی کا سبب بنتے ہیں تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔

نماز جمعہ کے لئے مسجد دیر سے آنا

        سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنا چاہیے کہ نماز جمعہ کے لئے مسجد دیر سے آنا خود ایک ایسا عمل ہے جو جمعہ کے ثواب کو بہت کم کردیتا ہے اور خطبہ شروع ہوجانے کے بعد آ نے والوں کا نام تو نماز جمعہ میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں لکھا بھی نہیں جاتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے نبی کریمﷺ کے اس ارشاد پر غور کرنا چاہیے (مفہوم): ’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پہلے پہل اور اس کے بعد آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح (لکھا جاتا) ہے، اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح، پھر مینڈھے کی قربانی کرنے والے کی طرح، اس کے بعد مرغی، اس کے بعد انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے والے کی طرح۔ پھر جب امام (خطبہ دینے کے لئے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور ذکر الٰہی (خطبہ) سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ الْاِسْتِمَاعِ اِلَی الْخُطْبَۃِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔

        ظاہر ہے جب فرشتے دفتر بند کرکے خطبہ سننے میں مشغول ہوجائیں تو اس کے بعد آنے والوں کا نام نماز جمعہ میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں کیسے لکھا جائے گا؟ نیز یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے اول وقت میں آنے والوں اور خطبہ کی ابتدا سے ٹھیک قبل آنے والوں کے ثواب کا فرق اونٹ اور انڈے کی قربانی یا صدقے کے ثواب کے فرق کے مانند ہے۔ اس لئے انڈا صدقہ کرنے کے ثواب پر اکتفا کرنے یا بالکل ہی ثواب سے محروم ہوجانے سے بہتر ہے کہ اول وقت میں نماز جمعہ کے لئے حاضری ہو اور امام کے قریب تر جگہ لینے کی کوشش کی جائے۔ یہی ہدایت بھی ہے نبی کریم ﷺ کی۔ حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا (ترجمہ): ’’خطبہ میں حاضر ہوجایا کرو اور امام سے قریب رہوکیوں کہ آدمی برابر دور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت( میں داخل ہونے) میں بھی پیچھے کردیا جاتا ہے اگرچہ وہ اس میں داخل بھی ہوجائے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب الدُّنُوِّ مِنَ الْاِمَامِ عِنْدَ الْمَوْعِظَۃِ)۔ امام حاکم بھی اس حدیث کو مستدرک میں کتاب الجمعہ میں لائے ہیں اور اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔(المستدرک علی الصحیحین، طبع دارالکتب العلمیۃ، بیروت، رقم ۱۰۶۸)۔

        اس حدیث میں یہ تنبیہ ہے کہ نماز جمعہ کے لئے دیر سے آنے کی عادت بنالینا جو کہ یقینا خطبہ اور نماز میں امام سے دوری کا سبب ہوگا، جنت کے دخول میں بھی تاخیر کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ اس نے مقربین کا اسوہ نہ اپنا کر متسفلین (یعنی نیچے طبقے والے لوگوں ) کے طریقے کو اپنایا اور اس پر مدوامت اختیار کی۔

 اگلی صفوں میں جانے کے لئے لوگوں کی گردنیں پھلانگنا

        نماز جمعہ کی ادائی کے لئے دیر سے آنا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اگلی صفوں میں جگہ لینے کی کوشش کرنابھی شارع کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے۔ عبداللہ بن بُسرؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا جب کہ نبی کریمﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو نبی کریمﷺ نے اس سے کہا: ’’اِجْلِسْ فَقَدْ آذَیْتَ‘‘ یعنی ’’بیٹھ جاؤتم نے اذیت دی ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب تَخَطِّيْ رِقَابِ النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ)۔یہ روایت مسند احمد میں بھی صحیح سند کے ساتھ موجود ہے جس کے الفاظ ہیں :  ’’اِجْلِسْ فَقَدْ آذَیْتَ وَ آنَیْتَ‘‘ یعنی ’’بیٹھ جاؤتم نے تکلیف پہنچائی اور تاخیر سے آیا ہے‘‘۔(مسند احمد، مطبوعہ دارالحدیث، قاہرہ، ۱۴۱۶ھ؁، رقم الحدیث ۱۷۶۰۵)۔

 لوگوں کی گردنیں پھلانگنا اس لئے ناپسندیدہ اور ممنوع ہے کہ ایک تو اس میں ان مسلمانوں کی بے اکرامی ہوتی ہے جن کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ مسلمان کا اکرام واجب ہے، دوسرے یہ ان کی اذیت کا سبب بھی ہے جبکہ کسی مسلمان کو ایذا دینا بھی حرام ہے۔ اگر کسی کو کوئی شرعی ضرورت پیش آجائے مثلاً وضو ٹوٹ جائے اور اسے باہر جانا ضروری ہوجائے تو اسے بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے ادب و اکرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجمعے سے گزرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے اس عمل کے سلسلے میں وعیدیں بھی منقول ہیں۔ آپؐنے فرمایا: ’’مَنْ تَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ اتَّخَذَ جِسْرًا إِلٰی جَہَنَّمٍ‘‘ (ترجمہ): ’’ جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا اس نے (اپنے لئے) جہنم کی طرف لے جانے والا ایک پل بنالیا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب الجمعۃ، بابُ مَاجَائَ فِي کَرَاھِیَۃِ التَخَطِّیْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، بروایت سہل بن معاذ بن انس جہنیؓ)۔

        مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ اس آدمی نے اپنے اس عمل سے اپنے لئے گویا جہنم کا راستہ کھول لیا۔اتَّخَذَ (معروف) کے بجائے اگراتُّخِذَ  (یعنی مجہول) پڑھا جائے تو یہاں دوسرے معنی کا بھی احتمال ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اسے ہی جہنم پر جانے کے لئے پل بنایا جائے گا یعنی جس طرح اس نے گردنوں کو پھلانگ کر لوگوں کو اپنی گزرگاہ بنایا ٹھیک اسی طرح اس کو جہنم کی طرف پل بناکر لوگوں کے لئے گزرگاہ بنایا جائے گا اور اس پر چڑھ کر وہ لوگ گزریں گے جو جہنم کی طرف یا تو کھینچے جائیں گے یا جہنم کو عبور کریں گے لیکن اسے روند ڈالیں گے۔

        اس موضوع سے متعلق دوسری روایت حضرت ارقم بن ابی ارقمؓسے ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا (مفہوم): ’’بے شک وہ شخص جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہے اور امام کے (خطبہ کے لئے) نکل آنے کے بعد دو آدمیوں کے درمیان (گھس کر) تفریق ڈالتا ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا ہو‘‘۔ (مسند احمد، رقم الحدیث ۱۵۳۸۶)۔ اس حدیث کوامام طبرانیؒ نے المعجم الکبیر میں عثمان بن ارزق سے روایت کیا ہے۔( المعجم الکبیر للطبرانیؒ، مطبوعہ مکتبہ ابن تیمیہؒ، القاہرہ، ۱۹۸۳ ؁ء، رقم ۸۳۹۹)۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم آپ تو ایسے شخص کو لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ اس فعل کے انجام کے عتبار سے اسے گو یا جہنم میں انتڑیاں گھسیٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

        گو محدثین نے لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی وعید میں مذکور دونوں احادیث پر کلام کیا ہے مثلاً امام ترمذیؒ نے سہل بن معاذ بن انس جہنیؓ کی روایت کو غریب کہا ہے اور امام ابوالحسن الھیثمیؒ اور امام ذہبیؒ نے ارقم بن ابی ارقمؓ مخزومی والی مسند احمد کی روایت کو ایک راوی ہشام بن زیاد کی وجہ سے ضعیف ٹھہرایا ہے لیکن اس مسئلہ سے متعلق باب میں کئی صحیح روایات موجود ہیں مثلاً عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ اور عبداللہ بن بسرؓ کی روایات سنن ابی داؤد میں جو اوپر گزریں، اس لئے اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ جمعہ کے دن گردنیں پھاند کر آگے جانے کو مکروہ سمجھتے ہیں اور اکثرعلماء نے اس مسئلہ میں شدت اختیار کی ہے اور اس فعل کو بہت ہی برا کہا ہے۔ امام نوویؒ نے زوائد الروضہ میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ کی بنا پر اس فعل کو حرام جاننا ہی مختار ہے۔ عراقی نے کعب احبار ؓسے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہاکہ گردنیں پھلانگنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ جمعہ ترک کردوں۔ سعید بن مسیبؒ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ گردنیں پھلانگنے کی نسبت مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ نماز جمعہ کو حرّہ میں جاکر ادا کروں (یعنی مسجد نبوی کی فضیلت بھی ترک کردوں لیکن اس مکروہ فعل کا مرتکب نہ ہوں )۔ (فضل المعبود شرح سنن ابی داؤد ازشیخ منظور احمد، المصباح، لاہور، جلد ۲، صفحہ ۲۲۹-۲۳۰)۔

        ان احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی کراہت جمعہ کے دن کے ساتھ مخصوص ہے لیکن قوی احتمال اس بات کا ہے کہ یہ حکم عام ہو اور جمعہ کی تخصیص صرف اس لئے کی گئی ہو کہ عموماً اس دن مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل لوگوں سے زیادہ سرزد ہوتا ہے ورنہ کراہت کی جو علت بیان کی گئی ہے وہ بھی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ یہ حکم عام ہو اور اس کا اطلاق ہر اس مجمع پر ہو جہاں کسی کو کسی کے گزرنے سے تکلیف ہو خواہ وہ عام نمازوں کا مجمع ہو یا پھر کوئی دعوتی یا علمی مجلس ہو۔ اس لئے ہر طرح کی مجلس میں اس حکم کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے خصوصاً جب خطبہ یا کوئی اور دعوتی یا علمی پروگرام شروع ہوجائے تو اس عمل سے اور بھی احتراز لازم ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کی توجہ بھی بٹتی ہے جس سے دینی کام میں رخنہ اندازی کرنے کا گناہ بھی لازم آتا ہے ا ور بعض مرتبہ آپس میں بگاڑ اور جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ اس قسم کی حرکت عموماً جہلا اور متکبر لوگ ہی کیا کرتے ہیں۔ مسجد یا علمی مجالس میں پہلے آنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اگلی صفوں میں ترتیب سے اس طرح جگہ لیں کہ درمیان میں خالی جگہ نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے لوگوں کے کندھوں کو پھلانگ کر آگے جانے کا جواز فراہم نہ ہو ورنہ وہ لوگ بھی ان کے گناہ میں شریک قرار دئے جائیں گے۔ بعض لوگوں نے ایسی صورت میں جب کہ پہلے آنے والوں کی کوتاہی کی وجہ سے آگے جگہ خالی ہو کندھا پھلانگ کر آگے جانے والوں کو معذور قرار دیا ہے لیکن احقر کا خیال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے شرعی اصول و آداب کا خیال نہیں رکھا اور غلطی کا مرتکب ہوا ہے تو دوسرا بھی کیوں ہو ؟ اسے تقوی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جو جگہ بھی پیچھے میسر آجائے اس پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔

        یہ تو ہوا لوگوں کے کندھوں کو پھلانگنے کی کراہت کا بیان اور اگر کسی مسلمان بھائی کو کوئی اس کی جگہ سے اٹھا کر بیٹھ جائے تو یہ اور بھی برا ہے کیوں کہ یہ اس کی حق تلفی ہے اور اسلامی مساوات کے اصول کے بھی خلاف ہے، ہاں اگر کوئی خود سے کسی کو اپنی جگہ پیش کرے تو اور بات ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے اس سلسلے میں صراحت سے ممانعت منقول ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو اٹھاکر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نافعؒ سے یہ پوچھا کہ کیا یہ ممانعت جمعہ کے لئے ہے؟ انہوں نے فرمایاکہ جمعہ کے لئے بھی ہے اور جمعہ کے علاوہ بھی ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ لَا یُقِیْمُ الرَّجُلُ أَخَاہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَ یَقْعُدُ فِي مَکَانِہِ)۔ اس لئے اس عمل سے بھی سختی سے احتراز کرنا چاہیے۔

خطبہ کے دوران گفتگو کرنا

        جمعہ کے ضروری آداب میں سے یہ ہے کہ جب امام خطبہ شروع کرے تو ہر شخص کو خاموش ہوکر توجہ کے ساتھ ان کی بات سننی چاہیے، خطبہ کے درمیان کسی قسم کی گفتگو ممنوع ہے جو نماز کے اجر کو ضائع کردیتی ہے۔ کتب احادیث میں اس سلسلے میں کئی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ امام بخاری ؒنے جمعہ کے دن خطبہ کے وقت چپ رہنے کے باب میں نبی کریمﷺ سے سلمان فارسیؓ کی روایت تعلیقًا نقل کیا ہے کہ امام جب خطبہ شروع کرے تو خاموش ہوجانا چاہیے۔ یہ خاموشی ہر شخص کے لئے واجب ہے خواہ اس تک خطبہ کی آواز پہنچ رہی ہو یا نہیں پہنچ رہی ہو۔ مالک بن عامرؒ سے روایت ہے کہ عثمانؓ بن عفان جب خطبہ کیلئے کھڑے ہوتے تو اکثر یہ فرمایا کرتے تھے (ترجمہ): ’’اے لوگو! جب امام جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑا ہو تو خطبہ کو سنو اور خاموش رہوکیونکہ جو شخص چپ رہے گا اور خطبہ اس کو نہ سنائی دے گا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنااس شخص کو ملے گا جو چپ رہے اور خطبہ اس کو سنائی دے‘‘۔(مؤطا امام مالکؒ، کِتَابُ الْجُمُعَۃِ، بابٌ مَاجَائَ فِي الْاِنْصَاتِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَ الْاِمَامُ یَخْطُبُ)۔

        خطبہ کے دوران خاموش رہنے کی تاکید اس درجہ کی گئی ہے کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اس وقت کسی بات کرتے ہوئے شخص کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت خاموش رہنے کے لئے کہنا بھی ایک لغو حرکت ہے یعنی اتنا بولنے کی بھی گنجائش نہیں کہ خاموش رہو۔ روایت اس طرح ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :

’’اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ: أَنْصِتْ، وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ‘‘

یعنی  ’’جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو، اگر تم نے اپنے ساتھی (پاس بیٹھے شخص) سے کہا کہ خاموش رہوتو تم نے (خود) ایک لغو حرکت کی‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ الْاِنْصَاتِ  یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ، بروایت ابوہریرہؓ)۔

        بعض روایتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کو چپ رہنے کے لئے کہنے سے بھی جمعہ کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے جیسے امام ابوداؤدؒ نے اپنی سنن میں حضرت علیؓ سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :

’’مَنْ قَالَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ  لِصَاحِبِہِ: صَہٍ، فَقَدْ لَغَا، وَ مَنْ لَغَا فَلَیْسَ لَہُ فِي جُمُعَتِہِ تِلْکَ شَيْئٌ‘‘

’’جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے (بغل کے) ساتھی سے کہا : چپ رہو، تو اس نے لغو حرکت کی اور جس شخص نے لغو حرکت کی اس کے لئے اس جمعہ سے کچھ بھی (ثواب) نہیں ہے‘‘۔(سنن ابی داؤدؒ، کتاب الصلوٰۃ، باب فَضْلِ الْجُمُعَۃِ)۔

        اسی طرح کی ایک روایت امام محمد بن اسحاق بن خزیمہؒ نے اپنی صحیح میں ابوہریرہؓ سے نقل کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :

’’إِذَا تَکَلَّمْتَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ (وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ) فَقَدْ لَغَوْتَ وَ أَلْغَیْتَ‘‘

’’ جب تم نے جمعہ کے دن گفتگو کی جبکہ امام خطبہ دے رہا تھا تو تم نے ایک لغو کام کیا اوراپنا اجر ضائع کرلیا‘‘۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ الزَّجْرِ عَنِ الکَلَامِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ  عِنْدَ خُطْبَۃِ الْاِمَامِ)۔

        اس سلسلے میں ایک واقعہ حضرت ابوذرؓ کا بہت ہی دلچسپ اورعبرت انگیز ہے جسے امام ابن خزیمہؓ نے ہی نقل کیا ہے۔ ابوذرؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا جب کہ نبی کریمﷺ خطبہ دے رہے تھے تو میں ابی بن کعبؓ کے قریب بیٹھ گیا۔ نبی کریمﷺ نے سورۂ براء ت (التوبہ) کی تلاوت کی تو میں نے حضرت ابیؓ سے پوچھا : یہ سورۃ کب نازل ہوئی؟ تو انہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور مجھ سے بات نہیں کی۔ پھر کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے ان سے دوبارہ پوچھا تو (پھر) سخت انداز میں انہوں نے مجھے خاموش کرادیا اور میرے ساتھ بات نہیں کی۔ پھر میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر (یعنی تیسری بار) میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے (پھر) مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور مجھ سے گفتگو نہیں کی۔ جب نبی کریمﷺ نے نمازمکمل کرلی تو میں نے حضرت ابیؓ سے کہا: میں نے آپ سے سوال پوچھا تھا تو آپ نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اور مجھ سے بات نہیں کی (یعنی کوئی جواب نہیں دیا)۔ تو حضرت ابیؓ نے فرمایا: ’’مَا لَکَ مِنْ صَلَاتِکَ اِلَّامَا لَغَوْتَ‘‘ یعنی ’’تم کو اپنی نماز سے لغو گوئی کے سوا کچھ نہ ملا‘‘۔ لہٰذا میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کے نبیؐ! میں حضرت ابیؓ کے پہلو میں بیٹھا تھاجبکہ آپ سورۂ براء ت کی تلاوت کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی؟ تو انہوں نے مجھے ترش روئی سے خاموش کرادیا اورکوئی جواب نہیں دیا۔پھر (نماز کے بعد) کہا کہ ’’تم کو اپنی نماز سے لغو گوئی کے سوا کچھ نہ ملا‘‘۔ تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’صَدَقَ أُبَیٌّ‘‘ یعنی ابیؓ نے سچ کہا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتابُ الْجُمُعَۃِ، بابُ الْنَّھْیِ عَنِ السُّؤَالِ عَنِ الْعِلْمِ غَیْرَ الْاِمَامِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ)۔

        اس روایت کو امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقیؒ نے بھی سنن الکبریٰ میں، کتابُ الْجُمُعَۃِ، باب الاِنْصَاتِ لِلْخُطْبَۃِ کے تحت ذکر کیا ہے (سنن الکبریٰ، طبع دارالکتب العمیہ، بیروت، ۲۰۰۳ ؁ء، رقم الحدیث ۵۸۳۲)۔ ساتھ ہی انہوں نے ابوذرؓ اور حضرت ابیؓ بن کعبؓ کے اس واقعہ کو اسی باب میں حضرت ابوہریرہؓ سے بھی روایت کیا ہے ( رقم الحدیث ۵۸۳۳)۔نیز حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت اسی طرح مسند ابی داؤد الطّیالسی میں بھی موجود ہے۔ (مسند ابی داؤد الطّیالسی، مطبوعہ ھجر، ۱۹۹۹ ؁ء، رقم الحدیث ۲۴۸۶)۔امام احمدؒ نے بھی مذکورہ واقعے کو اپنی مسند میں ابی بن کعبؓ سے روایت کیا ہے۔ ( مسند احمدؒ، رقم ۲۱۱۸۴)۔ محدثین نے ان تینوں روایات کو صحیح کہا ہے۔

        بعض روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے خطبہ کے دوران گفتگو کرنے والے کا جمعہ ہوتا ہی نہیں۔ مثلاً امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں سند حسن کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’من تکلم یوم الجمعۃ والامام یخطب فھو کمثل الحمار یحمل أسفارًا، والذي یقول لہ: أنصت، لیس لہ جمعۃ‘‘(ترجمہ) : ’’جو شخص جمعہ کے دن کلام کرے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ اس گدھے کی طرح ہے جس نے بہت ساری کتابیں اٹھا رکھی ہوں اور جو شخص اس کو کہے کہ خاموش ہوجاؤ اس کا بھی جمعہ نہیں ہوگا‘‘۔(مسند احمد، رقم الحدیث ۲۰۳۳)۔

        اس موضوع سے متعلق ایک روایت حضرت جابرؓ سے مصنف ابن ابی شیبہؒ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعدؓ نے ایک آدمی سے جمعہ کے دن کہا کہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔ اس آدمی نے اس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیااور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! سعدؓ نے مجھ سے کہا ہے کہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔ تونبی کریمؓ نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ انہوں نے عرض کیا کہ جب آپؐ خطبہ دے رہے تھے تو اس نے بات کی تھی۔ تونبی کریمؓ نے فرمایا کہ سعد نے سچ کہا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہؒ، کتاب الصلوٰۃ، باب فِی الْکَلَامِ اِذَا صَعَدِ الْاِمَامُ الْمِنْبَرَ وَ خَطَبَ )۔

        اسی طرح کا ایک واقعہ علقمہ بن عبداللہ کا عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ مصنف ابن ابی شیبہؒ میں ہی درج ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم جمعہ کے دن مدینہ آئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کوچ کرجائیں اور خود مسجد میں آکر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے قریب بیٹھ گیا۔ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے ایک آدمی آیا اور مجھ سے باتیں کرنے لگا کہ ہم نے ایسے ایسے کیاجبکہ امام خطبہ دے رہے تھے۔ جب اس نے زیادہ باتیں کی تو میں نے اس سے کہا کہ خاموش ہوجاؤ۔ جب ہم نے نماز پوری کرلی تو میں نے اس بات کا ذکر حضرت ابن عمرؓ سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ تمھارا جمعہ نہیں ہوا اور تمھارا وہ ساتھی گدھا ہے۔ (حوالہ سابق )۔

        مذکورہ احادیث و آثار کی وجہ سے فقہاء اور محدثین کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ خطبہ کے دوران خاموش رہنا واجب ہے۔ علامہ ابن رشد مالکیؒ کے مطابق اس امر پر جمہور جن میں امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ شامل ہیں، کا اتفاق ہے کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت چپ رہنا واجب ہے ‘‘۔ (بدایۃ المجتھد و نہایۃ المقتصد اردو ترجمہ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، دارالتذکیرلاہور،۲۰۰۹؁ء، صفحہ ۲۵۵)۔ علامہ ابن عبدالبرؒ نے بھی خطبے میں سکوت کے وجوب پر اجماع نقل کیا ہے۔ (فیض الباری اردو ترجمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری از ابن حجرالعسقلانیؒ، مکتبہ اصحاب الحدیث، لاہور، ۲۰۰۹ء؁، جلد۲، صفحہ ۱۳۹)۔ حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک یہ سکوت ہر حال میں واجب ہے خواہ مقتدی خطیب کے قریب ہو یا دور اور خواہ وہ خطبہ کی آواز سن رہا ہو یا نہیں۔ ان دونوں مسالک میں خطبہ کے وقت نوافل پڑھنا، ذکر کرنا، سلام کرنا یا اس کا جواب دینا حتیٰ کہ چھینک کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہنا بھی درست نہیں۔ مالکیہ کے نزدیک خطبہ کے وقت کلام کرنا حرام ہے اور حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ، علماء اکیڈمی، شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب، ۲۰۱۳ ؁ء، جلد ۱، صفحہ ۴۹۱-۴۹۲)۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے اس مسئلہ میں دو اقوال منقول ہیں ؛ ایک قول کے مطابق خطبہ کے وقت کلام کرنا حرام ہے اور دوسرے کے مطابق مکروہ ہے۔ (فیض الباری اردو ترجمہ فتح الباری، جلد۲، صفحہ ۱۳۹)۔ علامہ ابن ہمامؒ بھی دوران خطبہ کلام کرنے کو حرام کہتے ہیں اگرچہ امر بالمعروف ہی کیوں نہ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح ( اردو)، شرح مشکوٰۃ المصابیح از علامہ علی بن سلطان محمد ہروی القاریؒ عرف ملا علی قاریؒ، مکتبہ رحمانیہ، لاہور،، جلد ۳، صفحہ ۵۶۷)۔ علامہ حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں : ’’ جب خطبہ ہونے لگے تو خاموش رہنا اصح قول کے مطابق واجب ہے، اگر اس نے اس کی پرواہ نہ کی تو لغویت کا مرتکب ہوگا، اور جس نے لغویت کا مظاہرہ کیا، تو اس کا جمعہ رائیگاں گیا‘‘۔(زادالمعاد اردو، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۹۰ء؁، حصہ اول و دوم یکجا، صفحہ ۳۱۹)۔

        اب ایک آخری بات یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کا مزاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جس چیز کو بھی ممنوع قرار دیا ہے اس تک پہنچنے والے اسباب سے بھی روک دیا ہے۔ ٹھیک ویسا ہی حکم اس مسئلہ میں ہے۔ میری مراد بروز جمعہ نماز سے قبل حلقہ بنا کر بیٹھنے کے عمل سے ہے جیسا کہ ہمارے دیار میں کچھ نوجوانوں کی عادت بن گئی۔ اس سے بھی رسول اکرم ﷺ نے منع فرمادیا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے، اور اس بات سے بھی کہ گم شدہ چیز کا اس میں اعلان کیا جائے، اور اس سے بھی کہ اس میں شعر پڑھا جائے، اور بروز جمعہ نماز سے قبل حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب التَحَلُّقِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ قَبْلَ الصَّلوٰۃ)۔ جمعہ کی نماز سے قبل حلقہ بناکر بیٹھنا اس لئے منع ہے کہ جب لوگ اس طرح بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے اور اس کی وجہ سے صف بندی میں بھی خلل واقع ہوگا۔

        احادیث و آثار اور فقہاء کی مذکورہ آراء کا تقاضایہ ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران بالکل خاموشی برتی جائے اور ایسی کوئی حرکت بھی نہ کی جائے جو آداب جمعہ کے خلاف ہو جس کی وجہ سے جمعہ کی فضیلت و ثواب سے محرومی ہاتھ آئے۔ علماء و خطباء کو چاہیے کہ وہ ان موضوعات پر بھی جمعہ میں گفتگو کریں اور عوام الناس کو ان سے آگاہ کریں کیوں کہ اکثر افراد سے یہ غلطی لاعلمی کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے اور ان امور کی اصلاح کے سلسلے میں کی گئی راقم کی اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے۔آمین!

2 تبصرے
  1. نجم الحسن کہتے ہیں

    ڈاکٹر واسع ظفر کا یے مضمون تحقیقی اور مفصّل ہے جو جمعہ کی نماز میں اکثر
    ناسمجھی کی وجہ سے کوتاہی اور دیگر نازیبا حرکات کرتے ہیں اور جس کی وجہ کر نہ صرف جمعہ کی فضیلت سے محروم ہو تے ہیں بلکہ جمعہ کا مقصد بھی فوت ہوتا ہے۔ اس مضمون میں جمعہ کی فرضیت کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی جاتی تو بہتر ہوتا ۔ ڈاکٹر صاحب کے تمام مضمون تحقیقی اور فرقہ ورایت سے پاک عام لوگوں کے لیے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ انکی ان خدمات کو قبول فرمائے آمین

    1. محمد واسع ظفر کہتے ہیں

      جزاک اللہ خیرا، جمعہ کی فرضیت کے مقاصد کو شامل کرنے سے مضمون کے اور بھی طویل ہوجانے کا خدشہ تھا ، بہرحال آپ کی رائےبہتر ہے، اس پر چند جملوں میں ہی سہی کچھ لکھا جاسکتا تھا ۔ ان شاء اللہ آئندہ اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔