دنیا کا پہلا مکمل مترجم قرآن ہندی: راجہ مہروگ بن رائیگ

مہتاب عالم

(ترجمان بنگال اردو جرنلسٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن)

ترجمہ و تفسیری روایت کی تاریخ:

مفسر قر آن حکیم محمد زماں حسینی نے عجمی (ایرانیوں) کی قرآن فہمی کے متعلق خصوصی جذبے اورتحقیق و جستجو اور اس کی اشاعت و رغبت کو ظاہر کیا ہے۔  ’’تعلیمات قرآنی‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ ان کی زندگی، تاثرات اور مقالات پر مبنی ان کی دخترڈاکٹرخالدہ حسینی اور ان کے داماد ڈاکٹر محمد افتخار احمدنے’’ شیریں بیاں مفسر قرآں: مولانا حکیم محمد زماں حسینی‘‘کے نام سے ترتیب دیا ہے جس کے صفحہ نمبر363 پر مولانا نے دو مثالیں دی ہیں۔

 (اول) آنحضرت ﷺ باحیات ہیں کہ فارسیوں کی ایک درخواست حضرت سلمان فارسی کی خدمت میں پہنچتی ہے کہ آپ سورۃ فاتحہ کا فارسی ترجمہ لکھ بھیجئے، تاکہ اپنی نمازوں میں ہم اس کی تلاوت کر لیا کریں تاآنکہ قرآنی تلفظ آسان ہو جائے چنانچہ آپ نے فارسی زبان میں ترجمہ کر کے آنحضرت ﷺکی خدمت میں بغرض ملاحظہ پیش کر کے اہل فارس کو ارسال کر دیا،صاحب نہایہ نے شرح ہدایہ میں صفت صلوٰۃ کی بحث میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے‘‘۔

 (دوئم)270ہجری میں ’’الرا‘‘(واقع سندھ)کے راجہ مہروگ نے منصورہ(واقع سندھ)کے امیر عبد اللہ ابن عمر کو لکھ بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو ہمارے پاس بھیج دیجئے جو ہندی میں ہمیں قرآن مجید سمجھا سکے، انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو جس کی پرورش ہند میں ہوئی تھی،اور وہ مختلف ہندستانی زبانوں پر عبور رکھتا تھا،اس کو بھیج دیا،راجہ کی خواہش سے ہندی میں اس نے تین سال میں قرآن حکیم کا ترجمہ کیا، راجہ روزانہ ترجمہ سنتا تھا اور اس سے بے حد متاثر ہوتا تھا۔ ( عرب و ہند کے تعلقات صفحہ241،بحوالہ عجائب الہند صفحہ 4)

تراجم و تفسیر کی تاریخ:مولانا حاجی حافظ قاری فہیم الدین احمد صدیقی کا آسان ترجمہ’’ قرآن المبین ‘‘ کے آخرمیں تراجم قرآن کریم کا مختصر تاریخی جائزہ میں کاتب علی احمد کے مطابق مغربی ممالک میں سب سے پہلا ترجمہ فرانس کے ایک راہب پطرس (رابرٹ کیوٹن )نے تقریباً 1142-43ء میں لاطینی زبان میں کیا۔ لیکن ترجمہ کو کھلم کھلا چھاپنے کی جرأت کسی کو نہ ہو سکی۔ یہ ترجمہ تقریباً چارسو برس تک ایک خانقاہ میں پڑا رہا۔ 1543میں یہ ترجمہ تھیوڈور بیلی انڈر نے باصل سے شائع کیا۔ اس کے بعد قرآن کریم کے تراجم اطالوی،ڈچ،اور جرمنی تین زبانوں میں شائع ہوئے۔ انگریزی زبان کا سب سے پہلا ترجمہ الیکزنڈر رائوس نے 1648-49میں چھاپاجو 1688میں بالکل ناپید ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرا ترجمہ جارج سیل نے کیا جو 1724سے اب تک مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ فارسی زبان کا سب سے پہلا ترجمہ شیخ سعدی شیرازی نے 691ہجری میں کیا۔ روسی زبان کا سب سے پہلا ترجمہ 1776میں سینٹ پیٹرز برگ میں چھپا۔ ہندستان میں پہلا فارسی ترجمہ شاہ ولی اللہ نے فتح الرحمان کے نام سے 1150یا1151ہجری میں کیا۔

ہندی زبان(سندھی) میں سب سے پہلا ترجمہ 270ہجری بمطابق 882میں ہواجو کشمیر اور پنجاب کے ایک ہندو راجہ مہروگ نے والیٔ منصورہ (سندھ) عبد اللہ بن عمر کے ذریعہ مطالعہ قرآن کے بعد اپنی نگرانی میں کرایا۔ اور پھر اسلام بھی قبول کر لیا۔ ہندستان میں فارسی زبان میں پہلاترجمہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کیا۔ بشریٰ نوشین، سنٹرل پنجاب یونیورسٹی، لاہور نے اپنے مقالہ ’’اردو زبان میں ترجمہ قرآن کے ادوار‘‘ کے مطابق اردو زبان کاسب سے پہلا لفظی ترجمہ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ رفیع الدین محدث دہلوی نے 1788میں مکمل کیا۔ جس کی پہلی جلدپچاس سال بعد اور آج سے 185سال قبل 1254ہجری بمطابق 1838ء میں کلکتہ کے اسلام پریس سے شائع ہوئی جبکہ دوسری جلد1256 ہجری بمطابق 1840میں چھپی۔ بشریٰ نوشین اور رضا اللہ عبد الکریم کے مطابق اس کے بعدشاہ ولی اللہ کے دوسرے بیٹے شاہ عبد القادر محدث دہلوی نے 1790ء بمطابق 1205ہجری میں اردو زبان کا دوسرا بامحاورہ تر جمہ کیا۔ جو 1245ہجری بمطابق1829ء میں مطبع احمد میں طبع ہوا۔

’اردو صحافت اور مذہب ‘کے عنوان سے اپنے مضمون میں حیدر آباد کے ہفتہ واراخبار ’گواہ ‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزکے مطابق ’’مولانا سید احمد ومیض ندوی استاد دارلعلوم حیدر آباد نے ’کنز الایمان ایک تحقیقی جائزہ کے زیر عنوان اپنے تحقیقاتی مضمون میں لکھا ہے کہ اردو زبان مین تراجم و تفسیر کا آغازسولھویں صدی عیسوی کی آخری دہائی میں ہوا ہے۔ قرآن مجید کا پہلا ترجمہ چار سو برس پہلے ہندستانی زبان باکھا میں کیا گیا۔ بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں باقاعدہ تفسیر نگاری کی بنیاد پڑی۔ شاہ مراد اللہ انصاری کی پارہ عم کی’ تفسیر مرادی ‘منظر عام پر آئی۔ جس کے بیس سال بعد 1790 (228 سال قبل ) شاہ عبد القادر محدث دہلوی ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ترجمہ و حواشی موضح القرآن وجود میں آیا۔ (علمائے ہند کی اہم قرآنی خدمات صفحہ 280)۔

پہلا مترجم قرآن صحابی رسول سلمان فارسی:

حکیم مولانا زماں حسینی کی تحریر کردہ مضمون ’’تعلیمات قرآنی‘‘کے مطابق رسول اکرم کے زمانے میں اپنی قوم (ایرانیوں )کیلئے فارسی زبان میں سورۃ فاتحہ (الحمد) کا ترجمہ حضور اکرم کے ملاحظہ کے بعد ارسال کیا تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں وہ پہلے مترجم قرآن تھے۔ مگر رسول اکرم کے وصال کے بعد بھی تقریباً 20یا پچیس سال تک باحیات رہے اور 35یا36ہجری بمطابق 655-56 عیسوی میں انتقال کیا تو کیا اہل فارس کیلئے مزید ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑی تھی یا سلمان فارسی نے مزید ترجمہ کیا ہے جس کی تشنگی باقی رہتی ہے۔ کیونکہ بقول حکیم محمدزماں حسینی ؒ کتاب کے صفحہ نمبر365پر رقمطراز ہیں کہ ’’حق یہ ہے کہ علاقہ عجم نے بارگاہ خدا اور رسول میں اپنی آنکھوں اور دل کو بچھا دیا اور قرآن کریم کو ایسا سینوں سے لگایا کہ تصور و خیال سے بالا تر ہے۔ قرآکریم کی نشر و اشاعت، متن قرآنی کی حفاظت و صیانت کی خاطر درجنوں علوم کی ایجاد یں انھیں لوگوں نے کیں۔ ان میں ہزاروں اولیا ء کرام، محدثین عظام، مفسرین بے مثال،متکلمین اور مجددین پیدا ہوئے۔ صرف’’ کتاب الفہرست ‘‘لا بن ندیم اور ’’التقتان فی علوم القرآن ‘‘ اور بغیتہ الوعاۃ‘‘للسیوطی پر سر سری نظر ڈالنا شہادت کیلئے کافی ہے۔ علامہ ابن خلدون نے حیرت زدہ ہو کر نہایت والہانہ طریقہ پر اس کا اعلان و اعتراف کیا ہے‘‘۔

ایک متضاد تحریر کی وضاحت:

مولانا نے کتاب کے صفحہ 367کے آخری جملہ میں لکھتے ہیں کہ ’’فارس،افغانستان اور ہندستان میں قرآن عزیز کے معانی و مطالب سے واقفیت کا ذریعہ چوتھی صدی ہجری تک عموماً کتب تفسیر ہی رہی ہیں۔ مستقل پورے ترجمہ قرآن کا سراغ نہیں ملتا۔ لوگ ان ہی تفسیروں سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ عام طور پر ان صدیوں میں لوگ عربی سے واقفیت رکھتے تھے۔ اسلئے کوئی دقت بھی نہیں ہوتی تھی مگراس کے بعد مستقل طور پر فارسی زبان میں ترجموں کا پتہ چلتا ہے‘‘۔

مولانا کی تحریر سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ عربی میں تفسیریں موجود تھیں مگر چوتھی صدی ہجری تک کوئی ترجمہ کا سراغ نہیں ملتا ہے جبکہ مولانا نے خود اسی کتاب کے صفحہ 364پر لکھا ہے جس کے مطابق 270ہجری میں ’’الرا‘‘ (واقع سندھ)کے راجہ مہروگ نے تین سال کی مدت میں ایک عراقی مسلمان سے ہندی زبان میں ترجمہ کرایاجسے وہ روزانہ سنتا تھا۔ مولانا کی دونوں تحریریں تضاد پیداکرتی ہیں اور ذہنی کشمکش میں مبتلا کرتی ہیں۔ جبکہ آخر میں خود ہی لکھتے ہیں کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ روداد کس قدر دل چسپ ہے کہ حقائق قرآنی کی طلب و جستجو کی پیاس ایک غیر مسلم میں پیدا ہوتی ہے اور اس کی سیرابی کا انتظام پورے اہتمام سے امیر حکومت انجام دیتا ہے۔

(7)الرا اور منصورہ دونوں واقع سند ھ:مولانا موصوف نے الرا اور منصورہ دونوں کو واقع سندھ لکھا ہے جس سے بات گنجلک ہو گئی ہے۔ ’الرا ‘نام یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ نام عربی نما ہے۔ جسے مسلمانوں نے رکھا یا آباد کیا ہے جہاں ایک غیر مسلم حکمراں کا ہونا عقل سے بعید ہے۔ بصورت دیگر وہ ہندستانی زبان میں پہلے سے ’را‘ ہوگا جسے عربی ترجمہ کرتے وقت ’الرا‘ لکھا گیا ہو جہاں سے مولانا نے نقل کیا ہے۔ ویسے یہ مولانا کی چوک نہیں کہلائے گی کیونکہ مولانا ایک عالم دین،محدث و مفسر اور حکیم ہیں۔ ممکن ہے انہیں جغرافیہ اور تاریخ کی طرف شغف نہ رہا ہوگا۔ دوسری جانب مولانا حاجی حافظ قاری فہیم الدین احمد صدیقی کا ترجمہ ’’القرآن المبین ‘ ‘ کے خاتمہ پر یعنی بالکل آخری صفحہ پر بڑی باریک کتابت میں کاتب علی احمد نے بعنوان ’’تراجم قرآن کریم کا مختصر تاریخی جائزہ ‘‘میں لکھا ہے کہ ہندی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ 882ء میں ہواجو کشمیر اور پنجاب کے ایک ہندو راجہ ’’مہروگ ‘‘نے والی ٔ منصورہ (سندھ)عبد اللہ بن عمر کے ذریعہ مطالعہ قرآن کے بعد اپنی نگرانی میں کرایااور پھر اسلام قبول کر لیا‘‘۔ کاتب کی نشاندہی کے مطابق راجہ مہروگ پنجاب و کشمیر کا راجہ تھا اور منصورہ (سندھ) کا والی عبد اللہ بن عمر تھے۔ کیونکہ سندھ 712ء میں محمد بن قاسم کے ہاتھوں اموی حکومت میں فتح ہوا۔ جبکہ 882کا زمانہ عباسی خلافت کا ہے۔ لہٰذا اس کی بھی تحقیق لازمی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ 270ہجری بمطابق 882ء میں دنیا کا پہلا ترجمہ پنجاب و کشمیر کا ہندی راجہ مہروگ نے کروایاجو کہ پہلا ترجمہ قرآن ہو سکتا ہے۔ ہاں ! البتہ ایرانیوں کے پاس اگراس کے قبل فارسی میں ترجمہ موجودنہیں ہونے کا ذکر ملتا ہے تو یہ ہندستان کیلئے سند امتیاز ہے۔ کیونکہ مولانا کی تحریر کے مطابق ایرانیوں کے متعلق قرآنی تراجم کی تحقیق اہل تشیع کے بغیر نا مکمل ثابت ہو گی۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ اس سلسلے میں شعیہ عالم دین اور اسکالر و محققین سے رجوع کر کے اس کی سند حاصل کی جائے تاکہ تراجم کی تحقیق پایہ ثبوت کو پہنچے۔

منصورہ کی سند ھ میں ہونے کی تحقیقی وضاحت:

ہم شہری ویب سائٹ کے مطابق منصورہ سندھ میں قدیم عرب بادشاہت المنصورہ کا دار الحکومت اور اس کے گیارہ بنیادی شہروں میں سے ایک تھا۔ 734عیسوی میں محمد بن قاسم کے بیٹے امر نے اس کی بنیاد رکھی۔ یہ سرگرم تجارتی شہر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر تعمیر کیا گیا تھا اور دریا کے ایک دوسرے حصے سے ایسے گھِرا ہوا ہے کہ دیکھنے میں ایک جزیرہ معلوم ہوتا تھا۔ منصورہ کے چار دروازے تھے، باب البحر، بابِ توران،بابِ سندان اور بابِ ملتان، ان تجارتی راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے زریعے اس کے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت کی جاتی تھی۔ اس قدیم شہر کا موجودہ مقام ابھی بھی علماء کے مابین زیرِ بحث ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ حیدر آباد شہر سے 69 کیلو میٹر کے فاصلے پر ضلع سانگھر میں موجود مقام برہمن آباد ہی منصورہ تھا۔ ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ موجودہ مقام بھیرو یا بھیمبرہے جو ٹھل ہی دراصل شہرمنصورہ تھا۔

منصورہ کے حکمراں بنو حبار خاندان : بنو حبار 855ء سے 986ء تک المنصورہ کے بااثر حکمراں تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں المنصورہ ریاست نے امن اور خوشحالی دیکھی کیونکہ  وہ مخالف دھڑوں کو قابو کرنے کے قابل تھے۔ ان ہی کے وقت میں قرآن کا پہلی بار سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ 986ء میں محمود غزنوی نے اس شہر پر قبضہ کر کے اسے اپنے تسلط میں لے لیاتھا۔ (مآخذ:بکس اینڈ آرٹیکلس:پٹھان ممتا ز حسین،عرب کنگڈم آف المنصورہ اِن سندھ۔ حیدر آباد:انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی،سندھ یونیورسٹی 1974۔ )

برصغیر کا پہلا ترجمہ قرآن:شیعہ عالم دین و محقق ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین نقوی امرہوی نے لکھا ہے کہ ’’ ہر دور میں علماء و مفکرین نے اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق مختلف طریقوں سے آیات قرآنی کی تشریح اور مطالب کی تبین کی۔ برّ صغیر ہند و پاک میں اولین ترجمہ کا تعین نہایت دشوار ہے مگر کتاب عجائب الہند مولفہ 953ء میں راجہ بلہرا (ملک رایعنی ’را‘ملک یاالگ جگہ ہے) کے حالات میں درج ہے کہ: ’’ابو محمد حسن بن عمرو بن حمویہ نے بصرہ میں مجھ سے بیان کیا کہ جب میں منصورہ میں تھا تو وہاں کے شیخ نے مجھ سے بتایا کہ ’بلہرا‘ نے راجگان ہند میں جو سب سے بڑا راجہ ہے جس کی حکومت کشمیر بالا اور کشمیر زیریں کے درمیان واقع ہے جس کا نام مہروگ بن رائیگ ہے۔ 270ھ بمطابق883 ء میں منصورہ کے سلطان عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ مجھے ہندی زبان میں اسلام کے اصول اور آئین لکھ کر بھیج دے۔ سلطان نے منصورہ کے ایک شخص کو بلایا جس کا آبائی وطن تو عراق تھا لیکن ہندستان میں پرورش پایا تھا اور ہندستان کی مختلف زبانوں سے واقف تھا۔ راجہ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے راجہ کے پاس چند سال ٹھہر کر آئین اسلام سے راجہ کوواقف کرایا۔ راجہ نے اس سے خواہش ظاہر کی کہ ہندستانی زبان میں میرے لیے تفسیر قرآن لکھ دے۔ ‘‘ اِنَّہ سَالَہْ اَن یْفَسِّرَ لہ القرآن بالہندیہ ففسّرہ لہ قال فانتہیت من التفسیر الی سورۃ یاسین ‘‘چنانچہ اس نے تفسیر لکھنا شروع کی جب مفسر سورہ یاسین تک پہنچا اور تفسیر راجہ کو سنائی تو راجہ پر رقت طاری ہوگئی۔ وہ فوراً تخت سے اتر کر زمین پر سجدہ ریز ہوگیا اور زار وقطار رونے لگا اس کا چہرہ گرد آلود ہو گیا۔ ‘‘ (قرآن پاک کے اردو تراجم صفحہ 109) اس طرح برّ صغیر میں تفسیرقرآن کا سلسلہ شروع ہوا۔ (مآخذ:تذکرۂ مفسرین امامیہ:مولف ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین نقوی امروہوی)

(8)ہندی اور سندھی دو مختلف زبان اوردو رسم الخط:ہندی اور سندھی دو الگ الگ زبان اور دو مختلف رسم الخط ہیں۔ جس طرح ہند اور سندھ و مصر و حبشہ حام بن نوح آپس میں سگے بھائی تھے۔ ہندی دراصل سنسکرت رسم الخط ہے جبکہ سندھی فارسی رسم الخط کی طرح تھوڑے سے فرق کیساتھ ایک ہی حروف تہجی پر مبنی ہیں۔ ممکن ہے اس زمانے کا ہندی زبان کچھ اور ہو یا علاقائی زبان ہو جسے ملک ہند کی نسبت سے ہندی لکھا گیا ہے۔ یا غلطی سے اہل ہنود لکھتے ہیں کہ ہم لوگ سندھو قوم ہیں مگر مسلمانوں نے ہندو بنا دیا جس طرح سنسکرت میں سپتہ کو فارسی میں ہفتہ کہا جاتا ہے یہ دونوں توضیح غلط ہیں۔ بہر حال کمپوزنگ یا کتابت کی غلطی یا چوک کی وجہ سے ہوئی ہے اور ایک ہی زبان و ایک ہی علاقہ کوسندھ میں واقع ہوناقرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی تحقیق طلب ہے۔ تاکہ مطلع صاف ہو سکے۔

فارسی کا پہلا مسلم مترجم:

حکیم صاحب نے اسی کتاب کے صفحہ 368پر قرآن کے تراجم و تفاسیر کے متعلق نواب صدیق حسن خان کی الاکسیر فی اصول التفسیر کے حوالے سے پانچ کی سن تاریخ کے ساتھ اور دو کا ذکر بعد میں نیچے یعنی حاشیہ میں کیا ہے۔ ’’اس کے بعد (یعنی چوتھی صدی ہجری کے بعد) مستقل طور پر فارسی زبان میں ترجموں کا پتہ چلتا ہے :(اول)تاج التراجم فی القرآن للا عاجم تالیف شاہقور و امام ابو المظفرطاہر بن محمد اسفرائنی شافعی متوفی 471ہجری‘‘ بمطابق تقریباً1076 تا1080 عیسوی ہے۔

(دوئم)تراجم الاجم، فارسی مختصر است در تفسیر مفردات قرآن برقرآن بر ترتیب سور تالیف زین المشائخ محمد بن ابی القاسم البقالی الخوارزمی متوفی 562ہجری‘‘بمطابق تقریباً 1168 تا70عیسوی بنتا ہے۔ (سوئم)تفسیر زاہدی میں مندرج ترجمہ قرآن، از:نجم الدین ابو عمر محمود المتوفی 685ہجری منسوب یکے از اجداد خود است‘‘ بمطابق تقریباً 1285-87عیسوی ہوتا ہے۔ (چہارم)ترجمہ مفردات قرآنیہ بفارسی از میر سید شریف جرجانی المتوفی 816ہجری (بمطابق تقریباً 1410 تا 12عیسوی، نوشتہ ایں ترجمہ بخط مولوی جامی دیدشد المتوفی 898ہجری ‘‘بمطابق 1490-92ء ہوتا ہے۔ (پنجم)تفسیر حسینی میں ترجمہ از ملا حسین کاشفی المتوفی 910ہجری ‘‘ بمطابق 1500-03عیسوی ہے۔ (ششم)ترجمہ از شیخ سعدی المتوفی 690ہجری‘‘ مطابق تقریباً 1290عیسوی۔ (ہفتم)مولانا عبد الرحمان جامی المتوفی 898ہجری ‘‘ بمطابق تقریباً 1490-92ہوتا ہے۔

تبصرہ:

مذکورہ حوالے سے بالترتیب پہلا 471ہجری، دوسرا 562 ہجری،تیسرا685ہجری،چوتھا690  ہجری، پانچواں 816ہجری، چھٹا898ہجری اور ساتواں 910 ہجری فارسی تراجم کی تاریخ بنتی ہے۔ اکثر محققین اور مقالہ نگاروں نے عدم تحقیق کی بناء پرمسلمانوں کے درمیان 690ہجری میں شیخ سعدی شیرازی کے فارسی ترجمہ قرآن کو پہلامسلم ترجمہ نگار قرار دیا ہے جو کہ غلط ہے۔ دوسری جانب حیدر آباد ی ہفت روزہ اخبار ’’گواہ‘‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزنے اپنے مضمون بعنوان ’’اردو صحافت اور مذہب ‘‘میں استاد دارالعلوم حیدر آباد مولانا سید احمد ومیض ندوی نے کنزلایمان ایک تحقیقی جائزہ کے زیر عنوان اپنے تحقیقاتی مضمون میں لکھا ہے کہ اردو زبان میں تراجم و تفاسیر کا آغاز سولھویں صدی کی آخری دہائی میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا پہلا ترجمہ چار سو برس پہلے ہندستانی زبان ’’باکھا ‘‘میں کیا گیا۔ بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں باقاعدہ تفسیر نگاری کی بنیاد پڑی‘‘۔ انہوں نے چار سو سال قبل باکھا زبان لکھا ہے جو کہ کمپوزنگ کی غلطی یا دکنی زبان میں کہیں باکھا تو نہیں کہا جاتا ہے۔ لیکن تحقیق یہ بتاتی ہے کہ’’ بھاکھا‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے ملک محمد جائسی ؒ کی کتاب ’’پدماوت بھاکھا ‘‘یا عبد الرحیم خانخاناں کی تصنیف ہنس جواہر بھاکھا ہے۔ جو کہ برج بھاشا کی ایک شاخ ہے۔ مثال کیلئے یہ شعر دیکھیں جو رحیمن گرو کے نام سے اہل ہنود میں مشہور ہیں۔

رحیمن دیکھ بڑین کو لگھو نہ دیجیو ڈار

جہاں کام آوَت سوئی کہا کَری تلی وار

لہٰذا یہ بھی تحقیق طلب ہے۔ مگر مذکورہ تمام مواد کے مد نظر غیر مسلم راجہ مہروگ کا 270 ہجری بمطابق 882کا سندھی ترجمہ ہی اب تک کااولین ترجمہ قرار پاتا ہے۔ جسے ملک ہند کی نسبت سے ہندی زبان میں قرار دیا گیا ہے مگر در حقیقت وہ سندھی زبان میں ہے۔ البتہ اردو میں ترجمہ و تفسیرکے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ڈاکٹر حامد رضوی نے ایک مقالہ ’ادب اردو کے ارتقاء میں بھوپال کا حصہ‘  میں لکھتے ہیں کہ شمالی ہند میں سب سے پہلے قرآن کریم کا اردو ترجمہ قاضی معظم سنبھلی(مراد آباد)نے (1113ہجری بمطابق 1719عیسوی )میں کیا۔ اور اس کا ایک غیر مطبوعہ نسخہ بھوپال کے کتب خانے میں موجودہے۔ جسے ریاض فردوس نے اپنی تحقیقی تحریر بعنوان ’’مسلم سائنسداں اور ہندستان میں علوم اسلامیہ‘‘کے تحت سپرد قلم کیا ہے۔

ذہن نشیں رہے کہ عربی کلینڈر سو سال (ایک صدی) میں تین سال زائد بہ نسبت عیسوی کلینڈر کے ہوتا ہے۔ رسول کریم کی وفات 630ء میں ہوئی تھی۔ اس لحاظ  سے ہجری کلینڈر کا دس سال اور گھٹا دینے سے تقریباً عیسوی سال نکل جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔