سیاسی و سماجی شعور اور قومی قیادت کا حال

سیدمنصورآغا

جدوجہد آزادی کے اہم قائد اورہمارے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہروایک کامیاب وکیل موتی لال نہروکے بیٹے تھے۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے 1910میں نیچرل سائنس میں گریجوئیشن کیا۔ مطالعہ کا شوق تھا۔ اس لئے سیاسیات، اقتصادیات ،تاریخ اورانگریزی ادب کا بھی اچھا خاصا مطالعہ کرڈالا۔ اہم مغربی مفکرین کو پڑھا۔ان کی کتاب’ڈسکوری آف انڈیا‘ گواہ ہے کہ ہندستانی فلسفہ وتاریخ اورثقافت کا مطالعہ بھی ان کا وسیع تھا۔ یہ نہایت دلچسپ اورمعلومات افزا کتاب تحریک آزادی کے دوران قلعہ احمدنگرمیں لکھی گئی جہاں وہ 1942سے 1946 تک قیدرہے۔ ایک تنقید نگارنے لکھا ہے،’ ’یہ کتاب ہندستان کی تاریخ پرجدیددورکی سب سے عمدہ تخلیق ہے۔‘‘

ایک جواہرلال ہی نہیں تحریک آزادی کے دوسرے تمام اہم لیڈر اعلا تعلیم یافتہ تھے۔گاندھی جی،حکیم اجمل خاں، محمدعلی جوہر، مولانا آزاد، سردار پٹیل، ڈاکٹرامبیدکر، ڈاکٹرایس پی مکھرجی، ڈاکٹر راجندر پرساد، پنڈت مدن موہن مالویہ، بال گنگادھرتلک ، جی بی پنت وغیرہ۔ان اہل علم وفضل کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے تحریک آزاد ی کی قیادت کی اورآزادی کے بعد ملک کی تعمیر نو کی بنیادیں ڈالیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب انحطاط کا دور ہے۔ایسے ایسے افراد سیاسی منصبوں پرچھاگئے ہیں جن کی ڈگریاں مشکوک ہیں، جو کثیر رخی سماجی حقائق اورقومی و تاریخی شعورسے بے پرواہہیں اورایک طرفہ سوچتے ہیں۔ ان کی تقریروں میں روز غلط بیانیاں عیاں ہوتی ہیں۔ پکڑبھی ہوتی ہے مگر’وہی ہے چال بے ڈھنگی ؍جوپہلے تھی سو اب بھی ہے۔‘ یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے انسان خودبے وزن ہوتا ہے اور منصب پر بھی داغ لگتا ہے۔گلی محلے کا سیاسی کارکن اگرکچھ الٹاسیدھا کہہ دیں توالگ بات ہے، لیکن بڑے منصب داروں کاتاریخ کو مسخ کرکے عوام کو گمراہ کرناسخت افسوسناک ہے۔
یہ سلسلہ حکمراں پارٹی سے شروع ہوا اور اب بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے نومنتخب صدر بھی اسی راہ پرچل پڑتے نظرآتے ہیں۔حالیہ دنوں میں یہ گمان ہوتا تھا کہ ان میں سیاسی پختگی آرہی ہے مگر لندن میں ان کے بیانات نے مایوس کیا ہے۔ لگتاہے ’ منزل میرے قدموں سے ابھی دوربہت ہے۔‘سیاسی دوراندیشی کا تقاضا ہوتا ہے کم بولنا، بولنے سے پہلے سوچ لینا اورغیرضروری سے بچنا ۔ گاندھی جی اسی لئے اکثرنازک موقعوں پر ’خاموشی کا روزہ‘ (مون برت) رکھ لیا کرتے تھے۔

1984اورراہل:

لندن میں راہل گاندھی نے کہا کہ 1984 کے سکھ قتل عام میں کانگریس کا ہاتھ نہیں تھا۔ان کا یہ بیان حقائق کے خلاف توہے ہی، آئندہ لوک سبھا اوراسمبلی انتخابات کے پیش نظر نہایت غیر دانشمندانہ بھی ہے۔ نجانے کس احمق نے ان کو مشورہ دیدیا کہ ان زخموں کے منھ کھولدیں جن پرمرہم لگانے کیلئے وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ اور کانکریس صدرسونیا گاندھی نے رقت آمیز معافی مانگی تھی۔ وزیراعظم نے 11اگست 2005 میں راجیہ سبھا میں کہا تھا، ’’مجھے اپنی طرف سے، اپنی حکومت کی طرف سے اوراس ملک کے عوام کی طرف سے سکھ قوم اورپورے ملک سے معافی مانگنے میں کوئی جھجک نہیں۔ میراسر شرم سے سرجھکاہواہے ۔‘‘اس سے قبل محترمہ سونیا گاندھی اس سانحہ پر اظہار تاسف کیلئے خود ہرمندرصاحب گئی تھیں۔ وزیراعظم نے راجیہ سبھا میں بجاطورپر کہا تھا،’’ محترمہ اندراگاندھی کا قتل ایک بڑاقومی سانحہ تھا، لیکن اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ بھی کم افسوسناک نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا تھا، ’’تاریخ تودوبارہ نہیں لکھی جاسکتی، لیکن ہمارے اندروہ قوت ارادی اوروہ صلاحیت ہے کہ ہم سب کے لئے بہترمستقبل تعمیرکرسکتے ہیں۔‘‘

راہل گاندھی 1984میں14سال کے تھے ۔اس عمرمیں تمام باتوں سے واقفیت اوران کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن 2005میں تو 35سال کے تھے جب یہ معافی مانگی گئی۔ اسے کیسے بھول گئے؟ 16 مارچ 1914کو جب وہ 44سال کے تھے اورپارٹی کے نائب صدرتھے، انہوں نے پی ٹی آئی سے کہا تھا: ’’یوپی اے کے وزیراعظم معافی مانگ چکے ہیں۔ کانگریس کی صدربھی اظہار افسوس کرچکی ہیں ۔میں پوری طرح ان دونوں کے احساسات میں شریک ہوں۔‘‘ (انڈین ایکسپریس)

اب یہ کیسے ہوگیا کہ 1984کے سانحہ میں کانگریس پاک صاف ہوگئی؟ اب کونسا نیا انکشاف ان پر ہوگیا، ایسی کیا مصلحت نظرآگئی کہ تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور مسخ کرنے لگے؟ان کے اس بیان سے ملک کی توجہ موجودہ سرکارکی ناکامیوں سے ہٹانے کا برسراقتدار پارٹی کوایک اورموضوع مل گیا ۔ چنانچہ پنجاب کے وزیراعلی کپٹن امرندرسنگھ کو اسمبلی میں کانگریس لیڈروں کانام لے کر کہنا پڑا کہ فساد میں شریک تھے۔ راہل گاندھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ نہ تو عوام ان کے اس بیان کو سچ مان لیں گے اورنہ تاریخ کے داغ دھبوں کو غلط بیانیوں سے دھویا جاسکتا ہے۔ کانگریس نے آپ کو اپنا صدربنایا ہے۔ کانکریس جانے اورآپ جانیں۔ ہم اتناجانتے ہیں کہ یہ بیان صریحا غلط اور پارٹی مفادات کے خلاف ہے۔ کانگریس کے صدرکو زبان کھولنے سے پہلے سمجھ لینا چاہئے کہ چھینٹے کہاں تک جائیں گے؟ آپ کے اس بیان کا مطلب ہے کہ ڈاکٹرمن موہن سنگھ اورمحترمہ سونیاگاندھی کی سیاسی سمجھ پر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے۔میں نے شروع میں جواہرلال نہرو کا حوالہ دیا ہے۔ راہل گاندھی ان سے سبق لیں۔ بہترہوگا کہ سیرسپاٹے اور پالتوکتوں سے دل بہلانے کے ساتھ سنجیدہ مطالعہ کا وقت نکالیں۔

یہاں ایک بات اورکہتاچلوں۔اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں وزیراعظم اندراگاندھی کا قتل ایک سنگین واقعہ ہے جس کو بجاطورپر قومی المیہ کہا گیا ۔ ہم اتنا اضافہ کریں گے کہدربارصاحب پرفوج کشی اور گولہ باری کم شدید سانحہ نہیں ۔ جب آپریشن بلواسٹارکا خیال آتا ہے توسرشرم سے جھک جاتا ہے۔ سکھ عقیدتمندوں کے دل ودماغ پراس سے جو کاری زخم لگا ہے، اس کو بھرنا اوربھلانا آسان نہیں۔ راہل نے زخموں کوکرید کراچھا نہیں کیا۔

کانگریس کی شکست:

راہل گاندھی نے لندن میں ہی 2014میں کانگریس کی شکست کا سبب ’’arrogance‘‘ تشخیص کیا ہے۔ اس لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں، غرور، نخوت، خودرائی، اکھڑپن، گستاخ روی وغیرہ۔ راہل گاندھی کا یہ احساس غلط نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان کو خود اپنا احتساب بھی کرلینا چاہئے۔ اگر کانگریس لیڈروں میں ایسارجحان تھا تو کیانائب صدرکواس وقت یہ احساس ہواتھا جب 28 ستمبر 2013کو اجے ماکن کی پریس کانفرنس میں اچانک آکراپنی سرکارکے جاری کرددہ آرڈیننس کو پھاڑ کر پھینکا تھااورمجوزہ قانون کو ’نان سنس‘ یعنی ’بکواس ‘ کہا تھا؟ غرور، تکبراورخودرائی کہاں تھی؟ اپنی ہی حکومت کی فضیحت کرنے میں وہ بھی عین اس وقت جب کچھ ہی دیر میں وزیراعظم امریکا میں صدربارک اوبامہ سے ملنے والے والے تھے، جو سرزد ہوا وہ کیا تھا؟

آرایس ایس اوراخوان:

راہل گاندھی نے اسی دورے میں ایک اوربے حقیقت بیان دیا۔ اخوان ا لمسلمین کوآرایس ایس کے مثل قراردیدیا جو حقائق سے ان کی بے خبری کا اظہار ہے۔ ہمارامشورہ ہے کہ آپ بس ہندستان کی سیاست کو سنبھال لیجئے۔ بین اقوامی معاملات کو جانے دیجئے۔ دوسرامشورہ یہ ہے کہ خبروں کی سرخیوں سے آگے بڑھ کرآرایس ایس کی تاریخ اورفکرکابھی مطالعہ کر لیں۔ گروگولوالکر کے بیانوں پرمشتمل ’بنچ آف تھاٹ‘، سے پتہ چل جائے گا کہ آرایس ایس کس لائن پر چل رہی ہے؟ ہم اتنا اشارہ کردیں کہ آرایس ایس ہندو بالادستی کیلئے ہندستانی قوم کو تقسیم کررہی ہے۔ اس کے پاس ’ہندوراشٹرا‘ کاکوئی منشورحکمرانی نہیں۔ اگرقدیم کلچرپراصرار ہے تواس میں چھوت ،چھات، ذات پات لازمی جزوہے۔جب کہ اخوان جس نظام کی داعی ہے وہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک کامیابی سے آزمایا ہوا ہے۔

یہ وہ نظام ہے جس کی گاندھی جی نے تعریف کی اورجس کی حفاظت کیلئے کانگریس نے ’تحریک خلافت‘ چلائی۔اس کے اصولوں میں جہاں غریبوں اورناداروں کی دست گیری کا پختہ نظام ہے، وہیں سرمایہ داروں کوبھی جینے اورپھلنے پھولنے کا حق ہے۔اس نظام میں ہرفرد برابر ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقیدے اورمذہب پر عمل کرنے کا تحفظ دیاگیاہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمارنہیں کیا جاتا۔ اقلیتوں کی لڑکیوں کو اغواکرنے اورعورتوں کو قبروں سے نکال کربدکاری کی تلقین نہیں ہے۔84فیصدآبادی کو 14فیصدسے ڈرایا نہیں جاتا۔ بلکہ بلاامتیاز مذہب خدمت خلق اور دوسروں پرخرچ کی تلقین وترویج ہے اوروہ بھی دنیادکھاوے کیلئے نہیں ،بلکہ ابدی سکون اوراپنے مالک حقیقی کی رضاحاصل کرنے کیلئے۔ مجرموں کو اس میں بخشانہیں جاتا اوربے گناہوں کو فساد برپاکرکے ہلاک اورتباہ نہیں کیا جاتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Hasnain Ashraf کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بہترین تجزیہ ہے۔ سو فیصد درست۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘

تبصرے بند ہیں۔