معلم کے اوصاف

قمر فلاحی

ذہن میں جب بھی معلم کاتصور آتا ہے تو فورا ہمارا ذہن معلم انسانیت سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جاکر رک جاتاہے جنہوں نے اپنی صفت معلم بتائ "بعثت معلما” [میں معلم بناکر بھیجا گیا] لہذا تعلیم اور تدریس میں سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نمونہ بناتے ہوئے چند اوصاف نقل کیے جاتے ہیں ۔

خلوص

معلم کا مخلص ہونا نہایت ضروری ہے کہ وہ بچوں کو کس مقصد سے تعلیم دے رہے ہیں آیا پیسہ کمانا مقصد ہے یا اس علم کا خوگر بنانا مقصود ہے[ ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی اللہ رب العالمین،میں اس پہ کوئ اجر کا مطالبہ نہیں کرتا میرا اجر تو اللہ تعالی کے ذمہ ہے جو رب العالمین ہے ] ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ خوبی بدرجئہ اتم پائ جاتی تھی جب بھی کوئ دین کا طالب آتا آپ انہیں دین بتانے کیلئے بیتاب ہوجایا کرتے تھےاور حجۃ الوداع کے موقع پہ آپ کی زبان مبارک پہ یہ کلمہ بار بار آتا تھا’ خذو عنی مناسککم’  لوگو مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔

موضوع سے دلچسپی

سیدنا حضرت محمد صلی اللہ قرآن مجید کے معلم تھے ،آپ قرآن مجید کے حافظ بھی تھے ،اور اسے باربار دہراتے رہتے تھے ،رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کو دور سناتے تھے اور عمر کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دو دفعہ قرآن سنایا۔ یہ مثالیں یہ بتانے کیلئے کافی ہیں ہیں معلم کو اپنے موضوع کو بار بار اعادہ کرتے رہنا چاہیے ، یہ سمجھ لینا کہ ہمیں سب آتا ہے ، میں تو اس سبجکٹ کو کئ سالوں سے پڑھا رہا ہوں لہذا اب مطالعہ کی کیا ضرورت ؟ اچھے استاد کی علامت میں سے نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائےگا کہ انہیں علم کا غرہ چڑھ گیا ہے ۔ہرسال نئے ذہن و دماغ والے بچے درجہ میں آتے ہیں لہذا اپنے کو نئے بچوں کی قابلیت کے مطابق اپ ڈیٹ رکھنا ہوگا جبھی کوئ اچھا معلم بن سکتاہے ۔

موضوع سے روحانی و جسمانی تعلق

جو استاد جس سبجکٹ کو پڑھاتا ہو انہیں چاہیے کہ وہ رات ودن اسی میں ڈوبا رہے ،اسے اپنے اندر اور اپنے ظاہری اعمال میں اتار چکا ہو ہر چیز سے ظاہر ہونے لگے کہ یہ فلاں سبجکٹ کا استاد ہے ۔سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ماں عائشہ رض نے بڑی پیاری بات کہی ‘کان خلقہ القرآن’ [ان کا نیچر قرآن تھا ] یعنی قرآن ان کی عادات و اطوار کا حصہ بن چکاتھا۔جب تک یہ صفت کسی معلم میں نہ ہو وہ اچھا معلم نہیں بن سکتا۔مثلا کوئ انگلش کا استاد ہو اور وہ انگلش نہ بولتا ہو، انگلش اخبار نہ پڑھتا ہو،اور اپنی تحریریں انگلش میں قلمبند نہ کرتا ہو تو وہ پھر انگلش کی نزاکتوں سے کس طرح واقف ہوسکتاہے اور اپنے بچوں میں انگلش کو کس طرح اتار سکتاہے ۔

یہاں ایک بات عرض کردوں کہ کوئ شخص بیک وقت صرف ایک سبجکٹ کا ہی استاد ہوسکتاہے کئ سبجکٹ کا نہیں ۔

آسانیاں پیدا کرنے والا

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خاصیت تھی کہ نہایت رک رک کر باتیں کیا کرتے تھے، اس طرح کہ کوئ گننے والا آپ کے بولے ہوئے الفاظ گن سکتا تھا اور صحابہ سے سوالات خوب کرواتے تھے اور تشفی بخش جوابات دیا کرتے تھے اور کبھی یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ اس کا جواب میں کل بتائوں گا [جبرئیل علیہ السلام سے پوچھ کر] یہ اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ کو خود اپنے موضوع پہ مکمل گرفتcommand   ہواگر مکمل گرفت نہیں ہوگی تو اساتذہ صرف نصاب خواندگی کریں گے تعلیم کبھی نہیں دے سکتے اور نصاب خواندگی کا کام تو بچوں کے گارجین بھی کر سکتے ہیں پھر اسکول اور اساتذہ کی کیا ضرورت ہے ؟

اساتذہ رات و دن یہ سوچنے میں وقت لگائیں کہ جس چیز کو بچے مشکل سمجھ رہے ہیں اسے کس طرح آسان بناکر پیش کیا جائے کہ بچوں کی دلچسپیاں برقرار رہے اور وہ اس سبجکٹ کوenjoy کر سکیں ، نہ کہ اس سبجکٹ سے اکتا جائیں اور بھاگ کھڑے ہوں ۔ یسروا ولا تعسروا، اور الدین یُسر میں ہمیں اسی بات کا اشارہ ملتاہے ۔

جو سبجکٹ طلبہ کیلئے رکھا گیا ہے وہ ان کے معیار کے مطابق رکھا گیا ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ بچوں کو وہ بات سمجھ میں نہ آئے؟

طلبہ سے لگائو

معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ سے گھلا ملا رہے ،تاکہ بچوں سے قریب جاکر ان کے مسائل کو سمجھ سکے کیوں کہ بعض دفعہ بچے ڈر کی وجہ سے سوال نہیں کر پاتے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے بہت زیادہ گھلے ملے رہتے تھے ہنسی اور مزاح کا بھی ماحول رہتا تھا اور بعض کوتاہیوں پہ ناراضگی کا بھی اظہار فرماتے تھے لہذا بچوں سے دوری بناکر طلبہ کو تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔