محفوظ زچگی کی پہل کے لیے مشترکہ کوشش ضروری 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ راحت پہنچانے والی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ خواتین کی معیاری طبی سہولیات تک پہنچ میں سدھار اور تعلیم نسواں پر زور دیئے جانے سے ماؤں کی شرح اموات میں کمی آئی ہے۔ بھارت میں دو کروڑ خواتین سالانہ حاملہ ہوتی ہیں۔ سہولیات کی کمی کی وجہ سے 1990 میں زچگی کے دوران ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 556 مائیں فوت ہو جاتی تھیں۔ 2016 میں ماؤں کی شرح اموات میں 77 فیصد کی ریکارڈ کمی درج کی گئی۔ نمونہ رجسٹریشن سسٹم (ایس آر ایس) کے اعداد بتاتے ہیں کہ2011 – 2013 میں زچگی کی اموات کی شرح 167 فی لاکھ تھی جو 2014 – 2016 میں 130 ہو گئی ہے۔ اس میں تین ریاستیں کیرالہ، مہاراشٹر اور تمل ناڈو ایسی ہیں جو پائیدار ترقی کے نشانہ کا ہدف حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی کامیابی میں عوامی شراکت اور ریاستوں کے امپاورڈ ایکشن گروپ کی کاوشیں شامل ہیں۔

ریاستوں کی بات کریں تو آسام میں زچگی اموات کی شرح ایک لاکھ زندہ پیدائش پر 237 ہے جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد اترپردیش اور اتراکھنڈ کا نمبر آتا ہے جہاں یہ شرح 201 ہے۔ راجستھان، اڈیسہ، مدھیہ پردیش اور بہار میں بالترتیب 199، 180، 273، 165 ہے۔ اعدادوشمار کی یہ تصویر بتاتی ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کو پائیدار ترقی ہدف کے تحت 2030 تک بھارت میں ایم ایم آ ر شرح 70 فی لاکھ سے نیچے لانے کیلئے ایسے صوبوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں ماؤں کی زچگی کے دوران اموات شرح زیادہ ہے۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کا ماننا ہے کہ بھارت 2030 سے پہلے ایم ایم آر کا ہدف حاصل کر لے گا۔ وزارت صحت کے مطابق پہلی مرتبہ زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد میں 32000 کی کمی درج کی گئی۔ اس کے مطابق 2013 کے مقابلہ ہر روز 30 حاملہ خواتین اب بھارت میں زیادہ محفوظ ہیں۔
سیمپل رجسٹریشن سسٹم کے بلیٹن کی مانیں تو 2013 کے مقابلے اب ہر ماہ ہونے والی اموات میں ایک ہزار تک کی کمی آئی ہے۔ یعنی 2016 میں بارہ ہزار معاملے کم درج ہوئے۔ صرف اتر پردیش میں 29.5 فیصد کی کمی آئی جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ وزیر اعظم محفوظ زچگی مہم کے تحت گزشتہ 23 ماہ میں 1.3 کروڑ حاملہ خواتین کا قبل از پیدائش مفت طبی معائنہ کرایا گیا۔ ان میں سے 25 لاکھ سے زائد خواتین ان اضلاع سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں وزارت نے خصوصی توجہ دینے کیلئے منتخب کیا ہے۔ اس دوران 6.5 لاکھ ہائی رسک کیفیات حمل والی خواتین کی پہچان کی گئی۔ ڈاکٹروں کی رائے میں زیادہ جوکھم والی کیفیات حمل کی پہچان پی ایم ایس ایم اے کا اہم فیکٹر ہے۔ ایسی خواتین کے کارڈ پر لال اسٹیکر چپکا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسے اور اس کے خاندان والوں کو آ گے کس طرح خیال رکھنا ہے، یہ سمجھا دیتے ہیں۔ ملک بھر میں 12900 سرکاری اسپتالوں میں ہر ماہ 9 تاریخ کو مفت جانچ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ 2016 میں من کی بات پروگرام میں ملک کے پرائیویٹ ڈاکٹروں، نرسوں سے وزیر اعظم نے اپیل کی تھی کہ وہ ملک کی غریب حاملہ خواتین کیلئے مہینہ میں ایک دن اپنی خدمات مفت دیں۔ اب تک پانچ ہزار سے زیادہ ڈاکٹر و نرسیں رضاکارانہ خدمت دینے کیلئے اس مہم سے جڑ چکے ہیں۔ اس باوجود بھارت میں اب بھی زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح ایم ڈی جی کے نیچے ہے۔ یہ واقعی فکر کی بات ہے جو ملک کو 2030 تک زچگی کے دوران شرح اموات کو 70 کے نیچے لانے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2005 میں ادارہ جاتی پیدائش کا تناسب 18 فیصد تھا جو 2016 میں باون فیصد ہوگیا۔ اگر نجی اسپتالوں و نرسنگ ہوم کو شامل کر لیں تو انسٹی ٹیوشنل ڈلیوری کا دائرہ 79 فیصد ہو جاتا ہے۔ یعنی 21 فیصد خواتین اب بھی گھروں پر ہی بچے جنتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ آف انڈیا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یوپی میں پچاس فیصد اور راجستھان میں 41 فیصد سے زیادہ عورتوں نے اپنے گھر پر ہی بچے کو جنم دیا۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ابھی بھی حمل کی پیچیدگی کی وجہ سے ولادت کے دوران پانچ لاکھ سے زیادہ خواتین دم توڑ دیتی ہیں۔ پچھلی دہائی میں بنیادی صحت کی سہولیات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جگہ جگہ اسپتال کھلے ہیں لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے محفوظ زچگی ابھی بھی چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے جن حصوں میں بھک مری، غریبی، ناخواندگی، کرپشن اور بیداری کی کمی ہے وہاں زچگی کے دوران اموات کے زیادہ معاملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عدم غذایت کی وجہ سے صرف حاملہ خواتین ہی موت کے منھ میں نہیں جاتیں بلکہ ان کے بچے بھی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ زچگی کے درمیان اموات کی وجوہات میں خون کا رسنا (بلیڈنگ)، خون کی کمی، انفیکشن، پیچیدہ و جوکھم والی ولادت (بچہ دانی کا پھٹنا) اور ہائی بلڈ پریشر اہم ہیں۔ بلیڈنگ سے 39 فیصد، خون کی کمی سے 19، انفیکشن سے 16، پیچیدہ وجوکھم والی ولادت میں 10اور ہائی بلڈ پریشر سے 8 فیصد زچاؤں کی موتیں ہوتی ہیں۔ عدم تغذیہ کی وجہ سے کبھی کبھار اسقاطِ حمل بھی کرانا پڑ سکتا ہے۔ اس میں بھی موت کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ کم عمر کی شادیاں بھی زچگی کے دوران اموات میں اضافہ کی بڑی وجہ ہے۔ کم عمری کی شادی سے کئی خطرناک بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ سرکاری سطح پر اس طرح کی شادیوں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں عام لوگوں کو آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہئے۔

دیہی علاقوں میں آشا، اے این ایم اور آنگن واڑی کارکنان کام کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف کی بھی پوری توجہ گاؤں پر ہے۔ اس کے باوجود ملک ایس ڈی جی کے ہدف 70 فی لاکھ سے دور ہے۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کیلئے اور زیادہ مین پاور و سرمایہ کاری کی درکار ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق پچاس ہزار ٹرینڈ سماجی کارکنوں اور پندرہ ہزار نرسوں کی کمی ہے۔ ڈاکٹروں و اسپتالوں کی کمی تو اس راہ میں رکاوٹ ہے ہی جو اسپتال موجود ہیں ان میں دوا، علاج کی سہولت اور طبی سازوسامان و آلات کی عدم موجودگی میں بیس سال سے کم عمر کی پچاس فیصد خواتین ولادت کے دوران دم توڑ دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی لا پرواہی سے بھی تقریباً دس پندرہ فیصد حاملہ خواتین موت کے منھ میں چلی جاتی ہیں۔ بھارت میں صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 1.3 فیصد ہی خرچ ہو رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک اس مد میں چھ فیصد خرچ کرتے ہیں۔ زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات کو نیچے لانے کے ہدف کا حصول تبھی ممکن ہوگا جب ریاستوں میں ہیلتھ سروسز تک سب کی رسائی آسان ہوگی۔ صحت کے متعدد اشاریوں میں پیش رفت کیلئے اور زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی صحت کے محکمہ سے جڑے کارکنان کو اس مشن، پروگرام کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری لینی ہوگی اور سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔