مسلمانوں کے دم قدم سے سے آباد ہندوستانی جیلیں

ہندوستانی مسلمان آبادی کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں مگر جیلوں میں ان کی اکثریت ہے۔ اسی طرح جہاں ملک کے اندر ان کے ساتھ بھید بھائو کی شکایات عام ہیں اسی طرح جیلوں کے اندر بھی ان کے ساتھ برابرتائو کیا جاتا ہے۔یہ بات ہم نہیں کہتے خود سرکار کہتی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق 2014 کے آخر تک ملک میں 82,192 مسلم قیدی ہیں۔ جن میں 59,550 قیدی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ راجیہ سبھا میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہری بھائی پراتھی بھائی چودھری نے ملک بھر میں مسلم قیدیوں کی جانکاری دیتے ہوئے قومی جرائم بورڈ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے آخر تک بیاسی ہزار ایک سو نوے مسلم قیدیوں میں سے 21,550 سزا یافتہ تھے جب کہ ، 59,550 زیر سماعت تھے۔ 658قیدی زیر حراست بھی تھے۔ این سی آر بی کے ڈاٹا کے مطابق مجموعی طور پر سزا یافتہ قیدیوں کے مقابلہ میں مسلم قیدیوں کا اوسط 16.38 ہے جبکہ زیر سماعت قیدیوں کے مقابلہ میں مسلم ملزمین کا تناسب 21.05 فیصد ہے۔ انہوں نے یہ جانکاری ایک سوال کے تحریری جواب میں دی۔ گزشتہ سال این سی آر بی نے انکشاف کیا تھا کہ ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 14فیصد ہے مگر زیر سماعت قیدیوں کے تناسب میں وہ 21فیصد ہیں۔ پارلیمنٹ میں سوال مالیگاؤں دھماکہ کیس میں نو مسلمانوں کی رہائی کے دو دن بعد پوچھا گیا، اس معاملہ میں خصوصی عدالت نے ثبوت کی عدم فراہمی کی وجہ سے تمام ملزمین کو باعزت رہا کردیا تھااس معاملے میں گرفتاری کے بعد ان لوگوں نے پانچ سال جیل کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ ان تمام لوگوں کو’’ سیمی‘‘ سے تعلقات ہونے کے شبہ میں اے ٹی ایس نے گرفتار کیا تھا مگر جب این آئی اے نے تفتیش کی تو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ گجرات ایسی ریاست ہے جہاں کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔یہاںمسلم آبادی 58.6 لاکھ ہے جو یہاں کی آبادی کا 9.7 فیصد ہے لیکن مسلم قیدیوں کی بات کریں تو یہ تمام قیدیوں کا 36.5 فیصد ہے۔ گجرات کے بعد دوسرا نمبر تمل ناڈو کا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ دہشت گردی سے لڑ رہے جموں کشمیر میں صرف 35 قیدی ہیں۔ ایک دوسری میڈیا رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کی جیلوں میں قید غیر ملکیوں میں سے بیشتر بنگالی اور روہنگیا کے مسلمان ہیں۔بھارتی اخبارٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان بھر میں قید 6000 غیر ملکی قیدیوں میں سے 47 فیصد قیدی مغربی بنگال کی مختلف جیلوں میں موجود ہیں۔اخبار نے لکھا تھا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی)کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق مغربی بنگال کی جیلوں میں قید بیشتر قیدی بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمان ہیں جن کو ہندوستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔این سی آر بی کے مطابق ملک بھر میں 6000 کے لگ بھگ غیر ملکی قیدی موجود ہیں جن میں سے صرف مغربی بنگال کی جیلوں میں 2935 قیدی قید ہیں۔ان میں سے 1113 قیدیوں کو سزاسنائی جاچکی ہے جبکہ دیگر کے خلاف مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
اونچی ذات والوں پر کیس کم
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ بہتوں کے لئے فکر کی بات ہے مگر جیلوں میں ان کی بڑھتی تعداد کسی کو بھی پریشان نہیں کرتی۔وہ سرکاری نوکریوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے کم ہوں مگر جیلوں میں سب سے زیادہ آبادی انھیں کی ہے ۔ یہ حال اکیلا مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ دلتوں کی بھی یہی حالت ہے۔ جہاں زیر سماعت قیدیوں میں مسلمان اور دلت زیادہ ہیں ، وہیں سزا پانے والوں میں بھی انھیں کی تعداد زیادہ ہے۔ جن قیدیوں کو موت کی سز اسنائی جاتی ہے ان میں بھی اسی طبقے کے لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ اونچی ذات کے لوگو ں کو سب سے کم سزائیں دی جاتی ہیں اور جیلوں میں بھی یہی لوگ کم جاتے ہیں۔ برہمن ،راجپوت اور لالہ بہت کم ماخوذ ہوتے ہیں اور اگر کسی طرح جیل تک پہنچ گئے تو جلد ہی رہا بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح امیروں کے مقابلے غریبوں کو زیادہ دن جیل میں بتانے پڑتے ہیں۔ ہندووں کے مقابلے مسلمانوں کو جیلوں میں زیادہ جانا پڑتا ہے اور وہی بھید بھائو کے شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ان حقائق کی موجودگی میں کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ بھارت میں تمام شہریوں کے ساتھ قانون اور انصاف کا سلوک برابر ہوتا ہے۔ جس ملک میں پھانسی پر سیاست ہوتی ہو اور ایک قیدی کو محض اس لئے پھانسی پر چڑھایا جاتا ہو کہ وہ مسلمان ہے اور دوسرے کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہو کہ وہ ہندو ہے،ایسی جگہ پر انصاف کی بات کرنا کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدموں میں پھنسانا عام بات ہے اور پھر ان کی ضمانت میں روڑے اٹکانا بھی عام بات ہے مگر دوسری طرف حکومت پارلیمنٹ میں اعلان کرتی ہے کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ، کرنل پروہت اور سوامی اسیمانند جیسے دہشت گردوں کی ضمانت عرضی کی مخالفت نہیں کرے گی۔ یہی نہیں ہندوستان میں فرضی انکائونٹر کا شکار ہونے والوں میں بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ جو اعداد وشمارحکومت کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں وہ تب کے ہیں جب مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی مگر مسلمانوں کے لئے جیسے حالات تب تھے ویسے ہی اب بھی ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی جیلوں میں آبادی کے تناسب سے ہندو قیدی سب سے کم ہیںتو سکھ ، عیسائی اور مسلمان قیدی سب سے زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ہندوستان میں 10 لاکھ کی آبادی پر اوسطا 346 قیدی ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس بارے میں اعداد و شمار گزشتہ دنوں جاری کئے۔مگر دس لاکھ کی آبادی پر ہندو قیدیوں کی تعداد305، سکھ قیدیوں کی تعداد840 عیسائی قیدیوں کی تعداد601 اورمسلمان قیدیوں کا تناسب477 ہے۔زیرالتواء قیدی فی 10 لاکھ آبادی پرہندو 204 یعنی 70فیصد، مسلمان فی 10 لاکھ پر 346 یعنی 21فیصد، عیسائی فی 10 لاکھ آبادی پر 397 یعنی 4فیصد ہیں جب کہ سزا یافتہ قیدیوں میں ہندو 92فیصد، مسلمان 16فیصد،عیسائی 4فیصد اور سکھ 6 فیصد ہیں۔
قلیتوں کو زیادہ سزا
بھارت میں غریب،دلت اور اقلیتوں کو امیر لوگوں کے مقابلے زیادہ سخت سزا ملتی ہے۔ ماضی میں سامنے آئے اعداد و شمار بھی
کچھ ایسی ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ایک ریسرچ میں گزشتہ 15 سالوں میں موت کی سزا پائے 373 لوگوں کے انٹرویو سے ملے اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ سزا پائے، تین چوتھائی لوگ پسماندہ ذاتوں اور مذہبی اقلیتی طبقوں سے تھے۔ ان میں سے 75 فیصد لوگ اقتصادی طور پر کمزور طبقے سے تھے۔ غریب، دلت اور پسماندہ ذاتوں کے لوگ پیسوں کی کمی کی وجہ سے اپنے کیس کی پیروی کے لئے اچھا وکیل نہیں کر پاتے ہیں جو انہیں عدالت کی سخت سزاؤں سے بچا سکے۔ دہشت گردی سے جڑے معاملات کی سزا پانے والوں میں بھی 93.5 فیصد لوگ مذہبی اقلیت اور دلت ہیں۔ لاء کمیشن کی مدد سے نیشنل لاء یونیورسٹی سے کچھ اسٹوڈنٹس نے یہ اسٹڈی کیاہے۔ لاء کمیشن کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ موت کی سزا کا قانون برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ لاء پینل کے چیئرمین جسٹس اے پی شاہ، موت کی سزا کو ختم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہاہے کہ یہ سچ ہے کہ کلاس کو لے کر تھوڑا تعصب ہے، ہماری جیلوں میں ایسے بہت سے لوگ بھرے پڑے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے ضمانت کے لئے وکیل نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف 1 فیصد لوگ ہی اچھے وکیل ڈھونڈ پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں افضل گرو کے لئے شاید ہی کسی نے پیروی کی ہو۔ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک کے فائونڈر اور سینئر ایڈووکیٹ کولن گانجا والا نے کہا، مجھے لگتا ہے کہ 75 فیصد موت کی سزائیں غریبوں کو ہوتی ہیں۔ امیر لوگ آسانی سے بچ جاتے ہیں مگر غریب، خاص طور پر دلت اور پسماندہ پھنسے رہ جاتے ہیں۔ نیشنل لاء یونیورسٹی کے طالب علموں نے تمام موت کی سزا پائے قیدیوں سے بات کی اور ان کی کہانی جانی۔پھانسی پر چڑھنے سے پہلے وہ کس طرح کا ذہنی دباؤ اور آپریشن جھیلتے ہیں اس بات کی بھی معلومات لی گئی۔ موت کی سزا پانے والے قیدی عموما کورٹ کی کارروائی میں موجود نہیں ہوتے۔ زیادہ تر قیدیوں نے بتایا کہ کورٹ میں ہونے کے باوجود انہیں سمجھ نہیں آیا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا۔ بہت سے قیدیوں نے یہ کہا کہ وہ جینا نہیں چاہتے اور انہیں فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا جانا چاہئے۔ کچھ ذہنی طور پر مضبوط قیدیوں نے بتایا کہ اگر انہیں اچھا وکیل ملتا تو انہیں شاید یہ سزا نہیں ملتی۔غور طلب ہے کہ 2000 سے لے کر 2015 تک ٹرائل کورٹ سے ،617 1لوگوں کو موت کی سزا ملی۔ ان میں 42فیصد اکیلے یوپی اور بہار سے ہیں۔

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔