مضامین ڈاٹ کام اب پلے اسٹور پر بھی دستیاب

مضامین ڈاٹ

اپنی نوعیت کی ہندوستان کی منفرد اور معروف ویب سائٹ اب  پلے اسٹور میں بھی دستیاب ہے۔ مضامین ڈاٹ کام نے اپنی دوسال کی تکمیل کر لی ہے۔  اس موقع سے پلازا ان ہوٹل دوحہ قطر میں اینڈرائڈ ایپ باضابطہ لانچ کیا گیا۔ اس تقریب میں قطر میں مقیم ہندوستان و پاکستان اور دیگر اردو کے شائقین نے شرکت کی۔ دوحہ قطر کی معروف و مشہور سماجی اور علمی شخصیات، سدرہ ہوسپیٹل کے شعبہ تحفظ اطفال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی، جناب حسن عبدالکریم چوگلے، سلیمان مجوھرات اینڈ واچز کے چیئرمین جناب عظیم عباس، اور ایم ایس بخاری  بھی شریک پروگرام رہے۔

مضامین ڈاٹ کام کے اس ایپلیکیشن کا رسم اجرا ہندوستان سے تشریف لائے مہمان ماہر قانون اور نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیضان مصطفی کے دست مبارک سے ہوا۔ انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں مضامین کی ترقی و کامیابی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جناب عظیم عباس نے کہا کہ اب مستقبل ٹیکنالوجی اور اونلائن کا ہے اور مضامین ڈاٹ کام کا یہ قدم خوش آئند ہے۔ دوحہ قطر کی معروف شخصیت جناب حسن عبد الکریم چوغلے نے بھی مضامین کی کوششوں کو سراہا۔   مضامین ڈاٹ کام کے بانی و ڈائریکٹر خالد سیف اللہ اثری نے اپنے تعارفی کلمات میں اپنے ساتھی اور مضامین ڈاٹ کام کے بانی و ڈائریکٹر عرفان وحید کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عرفان وحید کی ہی کوششوں سے آج مضامین ڈاٹ کام اپنی کامیابی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔ انھوں نے ایپ ڈیویلپر ٹیم اور بالخصوص ٹیم لیڈر طارق اعجاز اور مضامین ڈاٹ کام کے ایڈیٹر محمد اسعد فلاحی کا بھی شکریہ ادا کیا۔ دوحہ قطر میں موجود تمام ادبی اور ثقافتی تنظیموں کی خدمات اور ان کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے پلیٹ فارم سے تمام ادبی و ثقافتی تنظیموں کی نمائندگی پیش کریں گے اور ایک متحدہ  پلیٹ فارم کے تحت ہم یہاں فروغ اردو کے لیے کوشاں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایک بات واضح کر دینا چاہیں گے کہ مضامین ڈاٹ کام صرف ایک ویب پورٹل نہیں ہے بلکہ ایک ادارہ ہے جس مقصد روز اول سے ہی مختلف شعبہ جات میں تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ سرگرمیاں ہندوستان تک محدود تھیں۔ اب قطر میں اس پروگرام سے اس کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ یوں تو انڈین کمیونٹی کے بہت سی تقریبات قطر میں منعقد ہوتی ہیں جو ثقافتی بھی ہوتی ہیں اور ادبی بھی۔ یہاں پر متعدد خلائیں محسوس کی جا رہی تھیں۔ ایک تو تعلیم یافتہ اور سنجیدہ حلقوں کی علمی تشنگی بجھانے کا کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں تھا۔ دوسرا اردو کے فروغ کی ساری کوششیں مشاعرے اور شعراء تک محدود تھیں۔ ان ساری سرگرمیوں میں خواتین کی حصہ داری یاتو بالکل تھی ہی نہیں یا برائے نام تھی۔ انھیں خلاؤں کو پر کرنے کے لیے مضامین ڈاٹ کام نے مضامین قطر کے نام سے اپنی قطر یونٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ کے منصوبوں میں تعمیری موضوعات پر گفتگو کرنا تاکہ ہماری عملی سرگرمیوں کے لیے مہمیز کا کام کرے، بچوں کے درمیان کوئز کمپیٹیشن، ڈیبیٹ کمپیٹیشن، مضمون نویسی کا مقابلہ اور بیت بازی شامل ہیں۔ انہوں نے مضامین کے لائحۂ عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں اپنی سرگرمیاں یہاں کے  مختلف اسکولوں سے شروع کریں گے۔  اس کے ذریعہ دوحہ میں اردو کی ترویج کے لیے وسیع مجال پیدا کریں گے۔

اس پروگرام کے حوالے سے مضامین قطر کی روح رواں محترمہ رفعت جہاں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اردو کی ترویج کے لیے خواتین کی  حصہ داری پر بھی زور دیا۔ یہ بات واضح رہے کہ مضامین ڈاٹ کام نے اس تقریب میں مضامین قطر کے نام سے اپنی قطر کی یونٹ کا بھی باضابطہ اعلان کیا۔ مضامین قطر کی ورکنگ کمیٹی کے فی الحال اراکین خالد سیف اللہ اثری، جناب عبدالرحمن شمسی، محترمہ رفعت جہاں، محترمہ قمر جبیں عثمانی، محترمہ امۃ العلیم فاطمہ، جناب رمیض احمد تقی ہیں۔  اس موقع پر مضامین ڈاٹ کام کی طرف سے قطر میں برسوں سے موجود دسیوں فعال اردو ادبی و ثقافتی تنظیموں کی خدمت میں مومینٹو پیش کیاگیا۔  اس پروگرام کا آغاز عبدالرحمن شمسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

اس پروگرام میں بزم انٹرنیشنل صدف کے صدرجناب شہاب الدین احمد، انجمن محبان اردو ہند قطر کے بانی ابراہیم کمال اور صدر خالد داد خان صاحب، بزم اردو قطر کے صدر شاد آکولوی اور منصور اعظمی ، حلقہ ادب اسلامی کی طرف سے مظفر نایاب صاحب، بہار انجمن کی طرف سے حسن ارشد صاحب اور شفیق صاحب، کاروان اردو قطر کی طرف سے سید رفیع صاحب، جامعہ الومنائی کے صدر نجم الحسن صاحب اور اے ایم یو الومنائی کے صدر جاوید احمد صاحب اور بزم علیگ کی طرف سے خورشید صاحب ، ندیم ماہراور آئی اے بی جے کے صدر غفران صاحب اور اردو ریڈیو قطر کی طرف سے جناب عبید طاہر صاحب خصوصی طور سے اس پروگرام میں شریک رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔