ملک کی معیشت کی خستہ حالی اور سرمایہ داروں میں ترک وطن کا بڑھتا رجحان

عمیر کوٹی ندوی

ملک کےاہم اور حقیقی مسائل میں سے ایک روزگار اور بے روزگاری  کا مسئلہ ایک بار پھر ابھر کر سامنے آرہا ہے اور  ‘پکوڑا سیاست’ پر گفتگو تیزتر ہوتی جارہی ہے۔ حالانکہ برسراقتدار طبقہ کی طرف سے اسے  تہہ در تہہ فرقہ پرستی کے نیچے دفن کرنے کی پر زور کوشش میں خونی کھیل کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا لیکن معاملہ دبنے کے بجائے مزید ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ جہاں تک بات سیاست کی ہے تو وہ اس مسئلہ پر نفع اور نقصان کو مدنظر رکھ کر کچھ بولتی اور آواز بلند کرتی ہے۔ روزگار فراہمی کے حکومت کے دعوؤں اور وعدوں پر طنز کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈر پی چدمبرم نے راجیہ سبھا میں  کہا ہےکہ”اب حکومت کو پکوڑا روزگار کو بھی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے روزگار  معیارات میں شامل کرنے کی سفارش کرنی چاہئے”۔

اسی طرح  کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے بھی کانگریس پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ سے خطاب کے دوران مرکز ی حکومت پر تیزوتند حملے کرتے ہوئے کہا ہے کہ "گزشتہ چار سال کے دوران مودی حکومت نے خوف کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ ملک کے اقتصادی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے…… مودی حکومت نے ملک میں جمہوریت کی بنیاد پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور سماجی تانے بانے کو سوچی سمجھی سازش کے تحت برباد کیا ہے اور آئینی اداروں پر حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچایا ہے…… پچھلے چار سال میں یہ حکومت صرف کھوکھلے دعوے کررہی ہے”۔ یہ باتیں محض سیاست سے تعلق رکھتی ہیں۔

اس کا ثبوت کانگریس لیڈر کی اپنے خطاب کے دوران کہی گئی یہ بات ہے کہ "مودی حکومت کی پالیسیوں سے سماج کا ہر طبقہ پریشان ہے اور ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے۔ حکومت کے تئیں لوگوں کا یقین کمزور ہوگیا ہے۔ ایسے ماحول کا ‘فائدہ اٹھانے ‘کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے”۔ ان کی بات کا مذکورہ آخری جملہ کہ ” ماحول کا ‘فائدہ اٹھانے ‘کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے” اس بات کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی بھی ملک کو درپیش اہم اور حقیقی مسائل کے تعلق سے کیا سوچتی ہے اور انہیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔

ملک میں حکمراں طبقہ کی فکروعمل اور دیگر پارٹیوں کا کردار اور انداز فکر  ملک کی سیاست کے مجموعی کردار کو بیان کررہا ہے۔ یہ بھی بتا رہا ہے کہ ملک کی سیاست مسائل پر  سنجیدگی اختیار کرنےسے زیادہ مفادات کےپہلو کو سامنے رکھ کر اور ذاتی نفع اور نقصان کو دیکھ کر ہی اپنی زبان کھولتی اور بولتی ہے۔ یہ مسائل کیوں پیدا ہوئے اور انہوں نے ملک کے تمام شہریوں کو اپنے حصار میں کیوں کرلے لیا ہےاس کی بھی چغلی کھارہا ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال  کس حد تک زہر آلود ہوگئی ہے اور ماحول کتنا خراب ہوگیا ہے اس کا انداز ہ اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  گزشتہ تین برسوں میں ہندوستان کے 17000بڑے سرمایہ داروں نے کسی دوسرے ملک کو اپنا طن بنالیا ہے۔

 ساؤتھ افریقہ کی مارکیٹ ریسرچ ایجنسی "نیو ورلڈ ویلتھ” نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ  2017ء میں 7000، 2016ء میں 6000 اور 2015ء میں 4000سرمایہ دار لوگوں نے ہندوستان کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں سکونت اختیا رکر لی ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ترک وطن کرنے کے اسباب میں بہتری کے تعلق سے تھکا دینے والی امید اور انتظار، کام کی کمی، مایوسی، ناامیدی کے علاوہ سرمایہ کاری، ٹیکسز اور رہائش کی مشکلات  شامل ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ لیا۔ ان ممالک کا رخ کیا جہاں انہیں امید نظر آئی کہ اس طرح کے مسائل وہاں نہیں ہوں گے یا کم ہوں گے اور وہاں کی زندگی ان کے لئے آسان ہوگی۔ حالانکہ رپورٹ میں یہ بات نہیں بتائی گئی کہ ترک وطن کرنے والے عام ہندوستانیوں کی تعداد کتنی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہوگی۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس سال ہندوستانی سرمایہ کاروں نے بیرون ملک ریکارڈ انویسٹمنٹ کی ہے۔ یہ کسی کے لئے قابل فخر اور قابل ذکر بات ہوسکتی ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے ساٹھ ستر سالوں میں اور یہ کہ اتنے بڑے پیمانے پر پہلی بار ہندوستانی سرمایہ داروں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن تشویش کی یہ بات ہے کہ اتنی بڑی رقم موجود ہونے کے باوجود ہمارے میں استعمال نہیں ہوئی، کیوں سوچنے کی بات ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب بیرون ملک سے سرمایہ دار تلاش کئے جارہے ہیں ، ان سے کہا جارہا ہے کہ ‘میک ان انڈیا’، ‘دنیا ہمارے ملک کا گن گان کرتی ہے’ اس کا قصیدہ دن رات پڑھا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے ہندوستان عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لئے بہترین جگہ ہے۔ ہر سو قومیت اور حب وطن کی دھن بجائی جارہی ہے۔ اس کے لئے شدت، جذبات اور تشدد کے ہر ممکن وسائل وذرائع کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سمجھا جارہا ہے کہ سب اس رنگ میں رنگ جائیں گےاور ان کی بجائی ہوئی دھن میں جھومیں گے لیکن سرمایہ داروں اور ملک کے عوام کا عمل اور اقدام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔

’’دیش کی ارتھ ویوستھا اور میری زندگی پر ایک پتر” کے عنوان سےکالم نگار سچن جین نےاپنی ایک تحریرمیں جویکم دسمبر 2016ءمیں این ڈی ٹی وی انڈیا میں شائع ہوئی تھی، لکھا تھا کہ "ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر انسپکٹر راج میں داخل ہورہے ہیں . میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب گورننس بہت کم ہو گئی ہے اور گورمنٹ میری رگوں میں داخل ہو رہی ہے”۔ سرمایہ داروں کا مذکورہ  عمل اورملک کے موجودہ حالات کہیں اس کی تصدیق تونہیں کرر ہے ہیں ؟۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔