انسان اور زمین کی حکومت (قسط 9)

رستم علی خان

چالیس دن اور چالیس رات تک بارش ہوتی رہی۔‏ پوری زمین پانی میں ڈوب گئی۔‏ سب بُرے لوگ مر گئے۔‏ بُرے فرشتوں نے اپنے انسانی جسم چھوڑ دئیے اور وہ آسمان پر واپس چلے گئے۔‏ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے- اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی 6 مہینوں تک پانی کے اوپر تیرتی رہی- کشتی میں تمام جانوروں پرندوں کا ایک جوڑا اور دو نبی حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت (یہ حضرت آدم کی وصیت پر ہوا تھا) اور حضرت آدم کے تین بیٹے اور ان کی بیویاں اوع چند مومنین تھے- یہ طوفان ایک رجب المرجب کو آیا اور دس محرم الحرام کو کشتی بلآخر جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔ جودی کی پہاڑی بحیرہ مردار (بحر لوط) کے مغرب میں اسرائیل میں واقع ہے۔ آج کل بحر مردار کے اس علاقے میں سالانہ بارش 2 سے 44 انچ ہوتی ہے۔ لیکن یہ علاقہ دوسرے سمندروں کی سطح سے 1412 فٹ نیچے ہے۔ اگر آج بھی اس علاقے میں شدید ترین بارش ہو جائے تو پانی کے نکل بہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور یہاں ایک عظیم الشان جھیل بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ طوفان نوح کو تمام ادیان میں بیان کیا گیا ہے اور خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ 4000 سے 5000 سال قبل آنے والا یہ طوفان کوہِ آرارات کے مقام پر ظہور پذیر ہوا۔ واضح رہے کہ کوہ ارارات اناضول کے شمال میں واقع ہے۔ یہ ایران کی سرحد سے 16 کلومیٹر اور آرمینیا کی سرحد سے 32 کلومیٹر دُوری پر ہے۔ مذکورہ پہاڑ کی چوٹی ترکی کی بلند ترین چوٹی شمار کی جاتی ہے جس کی بلندی 5137 میٹر ہے۔

اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کر لیا۔ اب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ اور تورات میں مذکور ہے کہ جب طوفان تھما تو حضرت نوح نے سب سے پہلے کوے کو بھیجا کہ دیکھے اگر ذمین پر کہیں خشکی ہے تو آ کے خبر کرے اور ذمین پر کہیں نہ بیٹھے کہ ابھی حکم نازل نہیں ہوا- کوا چلا گیا وہ بہت عرصہ اڑتا رہا پھر ذمین پر ایک جگہ خشکی نظر آئی تو وہ حکم بھول گیا اور وہیں بیٹھ گیا- اور واپس آ کے خبر نہیں دی- تب حضرت نوح نے خود نکل کر دیکھا اور کوے کو بیٹھا دیکھا اور تب فرمایا کہ تو ہمیشہ گندی جگہوں پر بیٹھے گا (واللہ اعلم الصواب)

چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہو گئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔
بزرگ مفسّرین کی ایک جماعت نے ’وَ جَعَلْنا ذُرِّیَّتَہُ ہُمُ الْباقینَ “ ہم نے نوح کی اولاد کو زمین میں باقی رہ جانے والا قرار دیا “ سے یہ

نتیجہ نکالا ہے کہ نوح کے بعد تمام نسلِ بشر انہی کی اولاد میں سے وجود میں آئی ہے اور اس وقت کے تمام انسان انہی کی اولاد ہیں –
اس بات کو بہت سے مورخین نے نقل کیا ہے کہ نوح کے تین بیٹے باقی رہ گئے تھے . سام، حام اور یافث . اور اس وقت کُرّہ زمین پر موجود تمام نسلیں انہی پر منتہی ہوتی ہیں . یہ حضرات عرب، فارس اور رُوم کے لوگوں کو سام کی نسل سمجھتے ہیں اور ترک کی نسل اور اسرائیل اور کچھ دوسرے گروہوں کو ”یافث“ کی اولاد سے اور سوڈان، سندھ، ہند، نوبہ، حبشہ، قبط اور بَربر کے لوگوں کو حام کی اولاد میں شمار کرتے ہیں۔ اور ان کی تقسیم یوں بھی کی جاتی ہے کہ

نوح علیہ السلام کی اولاد:

نوح علیہ السلام کے تین بیٹے طوفان میں بچ گئےتھے کیونکہ وہ مسلمان تھے: ”حام“ ”سام“ “یافث”۔ موٴرخین کا نظریہ ہے کہ کرہ زمین کی اس وقت کی تمام نسلِ انسانی کی بازگشت انہی تینوں فرزندوں کی طرف ہے۔ ایک گروہ ”حامی“ نسل ہے جو افریقہ کے علاقہ میں رہتےہیں۔ دوسرا گروہ ”سامی “نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قریب کے علاقوں میں رہتے ہیں اور ”یافث “ کی نسل کو چین میں آباد سمجھتے ہیں۔

اور اس طرح تمام زمین کافروں اور گمراہوں سے پاک ہو گئی اور جو صاحب ایمان تھے وہ زندہ بچے۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑی تفصیلات گزری ہوئی باتوں کے بارے میں ….

کوہِ جودی کہاں ہے ؟

یہ دیارِ بکر(جو دجلہ اور فرات کے درمیان ہے اوربغداد تک مسلسل چلاگیا ہے۔)کے نواح میں بلادِ الجزیرہ میں ہے۔یہ علاقہ جبالِ آرمینیا کے متصل ہے۔صاحب القاموس المحیط لکھتے ہیں :جودی، الجز یرہ کا ایک پہاڑ ہے جس پر سفینۂ نوح آکر ٹھہرا، تورات میں اس پہاڑ کانام’’اراراط‘‘ہے۔

کشتی نوح کا حجم 

قرآن کریم نے کشتی نوح کی لمبائی چوڑائی، اونچائی اور گہرا ئی کی بابت کوئی گفتگو نہیں کی بس اتنا بتلایا ہے کہ وہ بھری ہوئی تھی اورتختوں اور کیلوں والی تھی،البتہ تو رات میں اس کی قدرے تفصیل آتی ہے۔

عمر نوح ؑ

قرآن کریم بتلاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نوسو سال اپنی قوم میں دعوت الی اﷲ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے جبکہ تورات نے نو سوتیس سال کا عرصہ بتلایا ہے،تورات یہ بھی بتلاتی ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے حیاتِ مستعار کی چھ صدیاں بیتالیں تو ساتویں صدی کے پہلے سال میں قدم رکھتے ہی طوفان آگیا۔حضرت نوح علیہ السلام کے علاوہ بھی دیگر متعدد پیغمبروں کو بڑی لمبی لمبی عمریں ملیں۔

ایک زمانہ گزرگیا ہے کہ اب انسانوں کو اتنی لمبی طبعی عمریا اس سے نصف بھی نہیں ملتی بلکہ اس کی چوتھائی عمر ملنا بھی اب تعید ازقیاس اورخلافِ عقل لگتا ہے،فراعنۂ مصر کی ملنے والی ممیاں بتلاتی ہیں کہ ان کے جسم، ڈبل ڈول، قد کاٹھ، ہمارے ہی جیسے تھے اوران کی عمریں بھی ہمارے جتنی تھیں،  اور یہ فقط چار ہزار سال پرانی لاشیں ہیں یہ تاریخی شواہد بتلا تے ہیں کہ آج سے چند ہزار قبل تک اتنی طویل عمریں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر حضرت نوح علیہ السلا م کی اتنی طویل عمر کیو نکر ہوئی۔

ﷲ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مشرک قوم کی طرف مبعوث کیا مگر مسلسل کفر کی وجہہ سے اﷲ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا پھر ایک عظیم طوفان سے پوری دنیا کے کفار ہلاک کردے گئے۔ اور یہ کشتی کوہِ جودی پہاڑ پر آ کرٹک گئی یہ کشتی آج کہاں ہے۔اور اس کی اصل حقیقت کیا ہے آج سے کم وہ بیش 50سال قبل جب ترکی کے ایک پہاڑ پر مہم جوتوں نے اس کشتی کو دریافت کر کے اس کی تصاویر اخبار ات میں جاری کئے تو پوری دنیا میں یہودی، عیسائی اور نام نہاد روشن خیال بحریوں کے درمیان ایک بڑی بحث کا آغاز ہوا۔ کشتی کا انکار کرنے والو نے بہت ہی اہم اعتراض اُٹھا ئیں جس کا تسلی بخش جواب دینے میں یہوداور عیسائی نہ کام رہے لیکن قرآن میں ان اعتراضات کا تسلی بخش جواب موجود ہے۔انکار کرنے والے بحریوں نے پہلا اعتراض یہ اُٹھایا۔ کہ بغیر کسی ٹیکنالوجی(Technology)کے چھ ہزار سال قبل اتنی عظیم الشان کشتی بنانا نہ ممکن ہے جو مہینوں تباہ ہوئی بغیر سمندر میں اتنا وزن لیکر سفر کرسکیں۔ قرآن کی سورہ قمر میں اسکا تسلی بخش جواب اس طرح دیا ہے کہ
’’اور ہم نے نوح کو ایک کشتی میں سوار کیا تھا جو تختوں اور کیلو سے تیار کی گئی‘‘۔(سورۃ القمر آیت نمبر13)

حالیہ تحقیقات کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلو اور تختوں کے اثار ملے۔پھر انکار کرنے والوں نے دوسرا اعتراض یہ کیا کہ۔یہ کیسی ممکن ہے کہ چھ ہزار سال قبل اتنی بڑی کشتی بنائے جائے جس میں دنیا جہاں کے جانور وں کے جوڑے سوار ہو۔لیکن قرآن نے سورہ ھود میں یوں بیان کیا

’’اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو (سورۃ ہود آیت نمبر40)

اب حالیہ تحقیقات سے قرآن کے اس انکشاف کی بھی تصدیق ہوگئی کہ کشتی نوح کوئی معمولی کشتی نہ تھی وہ تین منزلہ تھی۔جن میں جانوار ترتیب وار سوا ر تھے۔اوراتنی بڑی تھے کہ اس میں 522ریل کے ڈبے سوار کئے جاسکتی ہیں۔ اس میں کم و بیش 25ہزار جانو روں کی جگہ موجود ہے۔ اوراُن بحریوں نے تیسرا اعتراض یہ اٹھایا کہ اتنے عظیم الشان طوفان میں اتنی عظیم الجسہ کشتی بغیر لنگروں کے مدد سے تیر ہی نہیں سکتی۔ لیکن اﷲ اس سے واقف تھا۔اسلئے اُس نے سورہ ھود میں فرمایا۔

(اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجاؤ)اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اُسی کے نام سے اس کا لنگرانداز ہونا ہے۔(سورہ ہود آیت نمبر41)

اور حیرت انگیز طورپر جس پہاڑ پر کشتی ٹہری ہوئی ہیں۔ اسی پہاڑ کے نیچیں وادی میں بڑی بری چٹانوں پر مشتمل لنگر دریافت ہوئے ہیں یہ کشتی نوح کے لنگر ہیں۔ اور سب سے بڑا اور اہم اعتراض یہ اٹھا یاجاتا ہے کسی لکڑی کی کشتی کا چھ ہزار سال تک کسی پہاڑ کی چوٹی پر باقی رہنا نہ ممکن ہے اس اعتراض کا جواب بھی سورہ قمر میں یہ کہہ کردیا ہے کہ

اورہم نے اس (کشتی کو آنے والوں کے لئے اپنی)نشانی بناکر چھوڑا ہے(سورہ القر آیت نمبر15)

اور حالیہ تحقیقات سے یہ حیرت انگیز بات سامنے آئیں ہے۔ اس پُرے پہاڑی سلسلے میں برف اسی چوٹی پر ہیں جہاں اسی برف کی وجہ سے محفوظ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔